ثناءاللہ صادق تیمی
sagartaimi@gmail.com
144, kaveri Hostel JNU, N-DELHI-67
9013588985
عجیب بات یہ ہے کہ ہمارا کالم ہی گفتگو ہے۔اور آج ارادہ گفتگو کا تو ضرور ہے لیکن قدرے مختلف انداز میں۔اب آپ سے کیا چھپانا،بھئ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم ہاںکنا ،چھوڑنا تو جانتے ہیں لپیٹنا اور کان لگا کر بکواس سننے کا ملکہ ہمیں حاصل نہیں۔ ہمارے دوست میاں کمال الدین فخر عالم خاں کا ماننا ہے کہ ہم اچھے مقرر تو ضرور ہیں اچھے سامع نہیں۔آپ ہی بتلائے اس میں بھلا ہمارا کیا قصور ہے۔ ہر آدمی ہر کام کا تو نہیں ہو سکتا۔ لیکن ایسا ہوتا کب ہے کہ آپ کو وہی کام ملے جس کے آپ اہل ہوں،اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بڑے بڑے مناصب نااہلوں کے سپرد ہو جاتے ہیں۔ اب آپ ہی دیکھیے نا، ہم بولنے والے ،اچھا ہاںکنے والے،گپ لڑانے والے،باتیں بنانے والے،بال کی کھال نکالنے والے،باتوں سے باتیں چھیلنے والے کو اگر سامع ہونے کا منصب عطا کر دیا جائے تو اس منصب کا کیا ہوگا؟؟؟
لیکن اللہ جھوٹ نہ بلوائے جناب عالی!یہ مرحلہ ہماری زندگی میں آتا ہی رہتا ہے۔گفتگو کے قارئین اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس وقت ہمارا حال کیا ہوتا ہوگا۔کبھی کبھی تو جناب والا ایسا ہوتا ہے کہ سانپ کے منہ میں چھچوندر نہ اگلتے بنے نہ نگلتے بنے۔کوئ صاحب اگر محترم ہوں اور ہم ان کے ظلم کلام طویل کے نشانہ جائیں تو آپ ہی بتلائیے ہم کیا کر سکتے ہیں-
عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتشّّغالب!
کہ لگائے نہ لگئےاوربجھائے نہ بنے
ایسے آپ چاہیں تو ڈھیلنے والوں کو کئ خانوں میں رکھ کر دیکھ سکتے ہیں۔ہانکنے والوں کا ایک گروہ وہ ہے جو دن بھر ہانکتا رہیگا اور آپ کچھ حاصل نہیں کر پائینگے۔بےمطلب آپ کا سر درد ہوگا،اب اس پر منحصر ہے کہ آپ کی مجبوری کا گراف کیا ہے،ظاہر ہے جتنے مجبور ہونگے اتنا سننا پڑیگا۔ایک گروہ وہ ہےجو ہانکتا ہے اور سلیقے سے ہانکتاہے۔ در اصل اس سلیقے کا مطلب یہ ہے کہ وہ آپ کو پھنسا لیتا ہے۔ ایسے الفاظ کا استعمال کرتا ہے جو بظاہر اس کے ذی علم اور صاحب معلومات ہونے پر دال ہوں،آپ کو یہ بات طویل کلام کے بالکل آخری اسٹیج میں معلوم ہوتی ہےکہ اس نے تو آپ کو کوئ معلومات دی ہی نہیں اور یہ تب ہوتا ہے جب آپ کا اپنا بھی کچھ اسٹینڈرڈ ہو ورنہ کئ کئ ملاقات گزر جائیگی اور آپ فریب زدہ ہی رہ جائینگے۔
چھوڑنے والوں کا ایک گروہ تعلیم یافتہ،صاحب اسناد اور بظاہر مہذب ہوتا ہے۔ان کو سمجھ پانا آسان نہیں ہوتا۔یہ بڑی چابکدستی اور ہوشیاری سے علم وحکمت کے غلاف تلے جہالت شیئر کرتے ہیں۔ان کی گفتگو میں روانی،بات کرنے،کہنے کا سلیقہ اور بظاہر گفتگو کے سارے آداب ہوتے ہیں۔آپ کو ان سے مل کر پہلےپہل خوشی ہوگی اور پھر آپ بھول جائینگے کہ حضرت کےپاس در اصل آپ اپنا وقت برباد کر رہے ہیں۔ان کے پاس انفارمیشن تو ضرور ہوگی لیکن انفارمیشن سے کہیں زیادہ اس کے ابعاد سے یہ آپ کو باخبر کرینگے۔مالہ اورماعلیہ سے آپ کو واقف کرائینگے اور دو چار گھنٹے کے اندر آپ کے اوپر ساتوں طبق روشن ہو جائینگے۔
ایک اور گروہ ہے،اسے بھی چھوڑنا مناسب نہیں۔یہ بھی پڑھا لکھا گروہ ہی ہوتا ہے،اچھا ایسا نہیں کہ یہ انفارمیشن شیئر نہیں کرتا،معلومات تو ضرور دیتا ہےلیکن ہمیشہ چونکانے والا،کچھ کو کچھ بتانے والا اور آپ کو اپنے چپیٹ میں لےلینے والا واقعہ سناتا ہے اورآپ اس کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔سب کے سب دہشت گرد ہوتے ہیں۔یقین جانیے کہ اگر ہمارے ہاتھ میں حکومت کی باگ دوڑ آجائے تو ہم سب سے پہلے انہیں حضرات کو دہشت گردی کے جرم میں پاپند سلاسل کرینگے،تبھی تو ہمارے لئے میدان خالی ہوگا!!!
قارئین !ہانکنے والوں کا ایک گروہ وہ بھی ہے جو شجاعت و بہادری،جود و سخا،حکمت ودانائی،شرافت ونجابت اور ایمانداری ودیانت کے نہایت اعلا اوربلند مقامات کی آپ کو سیر کراتا ہے لیکن بڑی ہوشیاری سے ان تمام محاسن کا مجموعہ خود کو ثابت کردیتا ہے۔ان میں بعض حضرات تو عشق و محبت کی ایسی ایسی داستانوں سے آپ کو محظوظ کرینگے کہ آپ اپنی محرومی کا ماتم کئے بنا نہیں رہ پائینگے۔ کیسے ان پر فلاں حسینہ فریفتہ ہوئ اور کس طرح فلاں موقع سے ایک قاتل ادا،حسن و جمال کی پیکر مہ جبیں نے بر سر محفل ان کو گلے لگا لیا تھا اور کس طرح دیکھتے دیکھتے تمام کے تمام لوگ اس کی قسمت پر ناز کرنے لگے تھے۔
مذکورہ بالا ان تمام قسم کے ہانکنےوالوں کو پھر بھی سہ لینا اتنا مشکل نہیں ہوتا۔در اصل امتحان حضور والا اس وقت شروع ہوتا ہے جب آپ کا سامنا ان پڑھے لکھے جاہلوں سے ہوتا ہے جو نہ صرف یہ کہ ہانکنے میں مہارت رکھتے ہیں بلکہ بحث و مباحثہ ،ڈسکشن کو اور بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ ڈینگنے والوں کا سب سے کھکھور گروہ ہوتا ہے۔بھائیوں اب آپ سے کیا چھپانا کہ ان دنوں خاکسار اسی کھکھور قسم کے چاٹ سے پڑت ہے۔اگر آپ ہمارے سامنے اس وقت ہوں جب ہم ان حضرت کے شکار ہوتے ہیں تو یقین جانیے آپ ہمیں پہچاننے سے انکار کر دینگے۔اڑا ہوا چہرہ،سوجی ہوئ آنکھیں،بکھرے ہوئے بال،حواس باختہ کیفیت،دیوانہ پن کا سا منظر اور سب کچھ بالکل لا ابالی پن کو درشانے والا اور ہماری مجبوری یہ کہ ہم انہیں روک بھی نہیں سکتے۔اس کی بھی کل دو صورتیں ہیں۔
وہ بولتے ہیں،شروع کرتے ہیں،چھیڑتے ہیں،چھیلتے ہیں،ڈھیلتے ہیں،دعوی کرتے ہیں،تفصیلات بیان کرتے ہیں،اسلاف کو بیوقوف بتلاتے ہیں،بگڑے ہوئے لوگوں کا حوالہ دیتے ہیں اور انہیں زیادہ باخبر اور ذی علم ثابت کرتے ہیں اور ساتھ ہی کسی چیز کو ماننے کے روادار نہیں ہوتے۔ایسی صورت میں ہمیں کرنا تو یہ چاہیے کہ ہم چپ رہیں اور خموشی کا بھر پور مظاہرہ کرکے ان پر ثابت کر دیں کہ وہ اس قابل ہی نہیں کہ ہم ان سے بات کریں۔اس طرح شاعری کی روح کو تسکین مل جائے جو کہتا ہے۔
اذا نطق الفیہ فلا تجبہ
فخیر من اجابتہ السکوت
لیکن جناب والا ہم بھی تو مقرر ہیں سامع نہیں۔برداشت نہیں ہوتا اور ہم بھی آخر کار ان کے دام فریب میں پھنس جاتے ہیں۔اس طرح گھنٹوں بحث کا سلسلہ دراز ہوتا ہےاور ہمیشہ حسب معمول بے نتیجہ ختم ہو جاتا ہے، وہ نہ ہماری مانتے ہیں اور نہ ہم ان کی تسلیم کرتے ہیں۔دوستوں سے ملاقات ہوتی ہے تو ہم اپنی برتری ثابت کرتے ہیں اور اپنا بکھان بگھارتے ہیں۔جو بات غالب نے اپنی حبیبہ کے بارے میں کہا تھا ہم اپنے دوست کے بارے میں کہتے ہیں۔
واں وہ غرور عزوناز ،یاں یہ حجاب پاس وضع
راہ میں ہم ملیں کہاں،بزم میں وہ بلائے کیوں
سچی بات تو یہ ہے کہ بحث الا ماشاءاللہ ورنہ اس لئے ہوتی ہی نہیں کہ کسی نتیجے تک پہنچاجا سکے ،در اصل یہ ایک قسم کی بیماری ہوتی ہے ۔عام طور سے اس طرح کے بحاث کو کئ روگ لگا ہوتا ہے ،احساس برتری،علمی عظمت کا غرور،استدلالی قوت کا غرہ اور ہمیشہ جیتنے کی طلب۔جناب عالی!یہ بحاث لوگ بڑے دل گردہ والے ہوتے ہیں۔ایسے نکتے ابھارتے ہیں کہ آپ تو دنگ ہی رہ جائیں۔مسلمات پہ شکوک و شبہات کا تیشہ چلانا،اسلاف کا استہزاء کرنا اور ہمیشہ تعقل اور سائنسی فکر ونظر کی دہائی دینا ان کے وہ ہتھیار ہوتے ہیں جن سے وہ میدان سر کرنے اترتے ہیں لیکن جب خاطر خواہ کامیابی نہیں ملتی تو بسا اوقات گالم گلوج سے بھی گریز نہیں کرتے،آواز ان کی بلند ہوتی ہے،زبان ادعائی ہوتی ہے،معلومات سطحی اور بے وقعت ہوتی ہے ،غرور کا نشہ شدید ہوتا ہے اور یہ اس فریب میں ضرور مبتلا ہوتے ہیں کہ جو معلومات جن وسایل کے توسط سے ان تک پہنچی ہے وہ کسی اور کے بس میں نہیں،اس لئے سچ اور حق وہی ہے جس کے طرفدار آںحضور ہیں۔
جو ہم نے کہا وہی سچ ہے
آپ کی بات میں دلیل کہاں؟
ہمارے دوست کو مدارس والوں سے شکایت ہے کہ وہ فقہ کیوں پڑھاتے ہیں،مدارس کے اندر سائنس و ٹکنالوجی کی تعلیم پر زور کیوں نہیں دیا جاتا،علماء رفاہی کاموں میں آگے کیوں نہیں آتے ،تاریخ بتلاتی ہے(ان کے مطابق)کہ ساری گمراہیوں کے مصدر علماء ہی رہے ہیں،عقل ہی اصل معیار ہے،عقل کے بغیر شریعت بھی نہیں سمجھی جا سکتی،اگر عقل سے نصوص ٹکراجائیں تو؟؟؟اس پر وہ توجہ نہیں کرتے۔ کمال تو یہ ہے کہ وہ عقل کو متعین بھی نہیں کر پاتے۔ عقل سے مراد کس کی عقل اور کون سی عقل ہے ۔ ان کے نزدیک اسلام کا صحیح وژن سر سید احمد خاں،محمد عبدہ،سید امیر علی اور امام غزالی کے یہاں پایا جاتا ہے ۔شاہ ولی اللہ وغیرہ کو در خور اعتناء نہیں سمجھتے اور اگر ان سے آپ کہ دیں کہ حضور والا سر سید،امیر علی اور امیر علی کے یہاں تو بڑی بڑی خرابیاں،فکری گمراہیاں اور عقیدے کی خامیاں پائ جاتی ہیں تو وہ بالکل ہی برافروختہ ہو جائینگے اور فرمائینگے کہ تب تو پھر اسلام ہی کے بارے میں سوچنا پڑیگا۔
ہم نے ایک مرتبہ از راہ مذاق ہی حضرت سے پوچھ دیا کہ پھر آپ یہ فرمانے کی زحمت کرینگے کہ علماء طبقہ نے صرف نقصان کیا ہے تو فائدہ کس طبقہ سے ہوا؟دانشوران نے امت کو کیا کیا دیا اور ہمارے محترم دوست جوش میں یہاں تک پہنچے کہ ابو الکلام آزاد،شبلی اور سر سید تک کو بھی مولانا کے زمرے سے خارج کر دیا۔اور تب جاکر مجھ پر یہ منکشف ہوا کہ ہمارے دوست کس درجہ کے محقق اور صاحب نظر ہیں۔
جب تک کہ نہ دیکھا تھا قد یار کا عالم
میں معتقد فتنئہ محشر نہ ہوا تھا
قارئین کرام!اگر آپ ہماری ان باتوں کو بھی گپ شپ اور ڈھلائی کے زمرے میں رکھ رہے ہوں تو یقین جانیے کہ ہمیں کوئ تکلیف نہیں ہوگی،کیوں کہ کم سے کم اتنا تو ہم پر بھی منکشف ہو ہی جائیگا کہ آپ مدعا سمجھ رہے ہیں۔غالب نے کہا تھا
گر خاموشی سے فائدہ اخفائے حال ہے
خوش ہوں کہ میری بات سمجھنی محال ہے
تو جناب!ہم خوش ہونگے کہ آپ نے یہ معلوم کر لیا کہ ڈھیلنا،ہانکنا اور باتیں بنانا کیا ہوتا ہے ۔ یقین مانیے کہ ہم آپ سے یہ درخواست تو ضرور کرینگے کہ بشمول میرے آپ کسی کی بھی بکواس سننے کو تیار نہ ہوں۔ لیکن ڈر یہی ہے کہ آپ ہماری یہ بات مانینگے نہیں۔
جل گیا دامن تو اظہار بیزاری نہ کر
ہم نہ کہتے تھے چراغوں کی طرفداری نہ کر
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جب باتیں طویل ہوتی ہیں تو شیطان کا اپنا حصہ نکل آتا ہے اذا طال الکلام کان للشیطان فیہ نصیب،اسی طرح آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ایک اچھا مسلمان لا یعنی باتوں میں نہیں پڑتا،من حسن اسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ، ان احادیث کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔
میرے بھائی! اس کا مطلب یہ قطعی نہیں کہ میں بحث کے سرے سے خلاف ہوں ،اگر یہی بات ہوتی تو آپ کو اتنی لمبی چوڑی بحث میں کیوں شریک کرتا،در اصل بحث کا اپنا مقصد ہونا چاہیے۔ اصول کی پاسداری ہونی چاہیے،آداب کا لحاظ ہونا چاہیے اور یہ نیت ہونی چاہیے کہ حق والے اور صحیح پہلو کو قبول کرنا ہے،چاہے وہ فریق مخالف ہی کی طرف سے کیوں نہ آئے۔ ورنہ وہ بحث جو بے نتیجہ ہو،جس کے اورچھوڑ کا پتہ نہ ہو اور بس بحث ہی ہو تو اس بحث سے توبہ بھلی۔
ہمارے ایک پڑھے لکھے دوست کے بیان کے مطابق کچھ لوگ کرایے کے بحاث بھی ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق ایسے لوگ آپ کی طرف سے لڑتے ہوئے آپ کو اتنا یقین تو دلاہی سکتے ہیں کہ آپ ہارینگے نہیں،نہ جیت پانا الگ بات ہے،در اصل یہ ان کا فیلڈ ہوتا ہے ،بحث شروع ہو چکی ہو ، ہو رہی ہو، یا ہونے والی ہو،صرف انہیں یہ اشارہ مل جانا چاہیے کہ انہیں کس فکر کی تائید کرنی ہے اور کس فکر کی تردید۔اس کے بعد آپ کا کام ختم۔ بحث جاری رہے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق