اسلام ایک آفاقی مذہب ہے،اس کی تعلیمات انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ اس ذات کا اتارا ہوا دین ہے جو خالقِ کائنات اورمالکِ ارض وسما ہے ۔ جس طرح ایک کمپنی کوئی سامان تیار کرتی ہے تواس کے استعمال کرنے کا طریقہ بھی بتاتی ہے بعینہ جب خالق کائنات نے اس کرہ ارضی کو نوع بنوع مخلوقات سے سجایا پھران میں انسان کو اشرف المخلوفات بنایا تو سب سے پہلے اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ انسان کو اس نئی جگہ پر بسنے اور زندگی گزارنے کا طریقہ بتایاجائے چنانچہ اسی ضرورت کی تکمیل کے لیے اللہ پاک نے ہردوراورہرعلاقے میں انبیاءورسل کو بھیجاجنہوں نے انسانوں کومقصد تخلیق سے آگاہ کیا اورزندگی گزارنے کا سلیقہ سکھایا البتہ ان کا پیغام ان کی قوم اوران کے زمانے تک محدود تھا۔ جب ساتویںصدی عیسوی میں دنیا اپنی پوری جوانی پرپہنچ گئی تواللہ پاک نے جہاں کے لیے وہ آخری پیغام بھیجا جوانسانیت کی رہبری کا ضامن اورمکمل نظام حیات پرمشتمل تھا، جس کا نعرہ تھا وحدتِ ا لہٰ اور وحدتِ آدم، یعنی ساری انسانیت کا خالق ومالک ایک ہے اور سارے انسان ایک ہی ماں باپ ’آدم وحوا‘ کی اولاد ہیں۔ یہ فطرت کی آواز تھی، اس لیے سعید روحوں نے اس پر لبیک کہا اور بلاتفریق رنگ ونسل ایک مقصد، ایک جذبہ اور ایک نصب العین پر اکٹھا ہوگئے اورہوتے ہی گئے، پھر دیکھتے ہی دیکھتے مشرق سے لے کر مغرب تک اور شمال سے لے کرجنوب تک اسلام کا پھریرا لہرانے لگا ۔اسلام اپنی فطری صداقت کی بنیاد پر ساری دنیا میں پھیلا ہے اورآج تک پھیلتا ہی جا رہا ہے ۔ موجودہ حالات میں بھی جبکہ مسلمانوں کی اکثریت اسلامی تعلیمات سے بیگانہ ہوچکی ہے اور دعوت کا جذبہ سرد پڑچکا ہے دنیا میں اسلام کا فروغ بڑی تیزی سے ہورہا ہے، اس وقت دنیا کے تمام مذاہب میں لوگوں کی تعداد گھٹ رہی ہے اوراسلام کے ماننے والوں کی تعداد رفتہ رفتہ بڑھ رہی ہے۔ جس کی وجہ سےعالمی میڈیا کی نیند حرام ہوچکی ہے، ان دنوںمغربی میڈیامیں عالمی سطح پرمسلمانوں کی شرحِ آبادی میں اضافہ باعث تشویش بنا ہوا ہے۔ فورم آن ریلیجن اینڈ پبلک لائف نامی ایک امریکی ادارہ نے عالمی سطح پر بین المذاہب شرح آبادی کاایک سروے کیا ہے ، پھر اس سروے کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ کے 20 سالوں میں بین المذاہب اضافہ کا تقابل کرتے ہوئے تخمینہ لگا یاہے، اس تخمینہ کے بعد وہ اس نتیجہ پرپہنچتے ہیں کہ 2030ءمیں جب دنیا کی آبادی تقریباً 8ارب 3کروڑ سے تجاوز کرجائے گی اس وقت دنیا میںمسلمانوں کی آبادی 2ارب20کروڑ ہوگی ۔ یعنی مسلمان اس وقت دنیا کی کل آبادی میں26.4 تک پہنچ جائیں گے جبکہ اِس وقت عالمی سطح پرمسلمانوں کا تناسب 23.4 فیصد ہے ۔ مغرب کی بے چینی کا اندازہ محض اس سروے سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اسلام کے فروغ سے کتنا خوف زدہ ہے، کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ اسلام آیا تو ان کی چودھراہٹ جاتی رہے گی، اسلام کوفروغ ملا توانہوں نے حکومت ،تجارت، سرمایہ داری اورنام نہادآزادی کی جو فلک بوس عمارتیں تعمیر کررکھی ہيں دھڑام سے گرجائيں گی۔
اس رپورٹ کے آنے کے بعد ہندوستان کی فرقہ پرست تنظیمیں جواسلام دشمنی میں رات دن ایک کرتی ہیں کب پیچھے رہتیں ، ہندوپاک کے مسلمانوں کے تئیں قیاس آرائیاں اور تخمینے کرنے لگیں ہیںاور بڑبڑانا شروع کردیا ہے کہ مسلمانوں کی اس بڑھتی ہوئی آبادی پربروقت روک لگانے کی ضرورت ہے ،اس کے لیے ہندوؤں کو جگایا جارہا ہے اوریہ واویلا مچایاجارہا ہے کہ عالمی سطح پر تمام مذاہب کو تحفظ فراہم کرنا ہے تو مسلمانوں کی اس مذہبی سیاست پر لگام لگانا ہوگا اور اس کے لیے جنگ کی نوبت بھی آئے تو پیچھے نہیں ہٹناہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ اس جماعت کے ایسے ہی جذباتی بیانات ہوتے ہیں محض اسلام دشمنی کی خاطر اور ہندوستان کو ہندو راشٹرقرار دینے کے لیے ۔ اسلام امن وشانتی کا دھرم ہے اور ہم مسلمان ہیں، اس لیے ہم جذباتی باتیں نہیں کرتے البتہ دعوت کی ذمہ داری یا د دلاتے ہوئے اس نکتے پر بحث کرنا چاہتے ہیں کہ آخر کیوں مسلمانوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں میں کمی آتی جارہی ہے ؟ اس سوال کا جواب ہندوستان کے معروف سِکھ صحافی، ادیب اور دانشور خشونت سنگھ نے ایک ماہ قبل اپنے ایک مضمون میں دے دیا ہے ، انہوں نے خود سوال کیا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ؟ پھر اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اسلام میں صداقت ہے ۔(روزنامہ ”منصف “ حیدرآباد)
جی ہاں! اسلام انسانی فطرت سے ہم آہنگ مذہب ہے ،توحید کا داعی ہے ،مساوات کا پیکر ہے ، عدل وانصاب کا خوگر ہے ، امن وعافیت کا سرچشمہ ہے ،اخلاقیات کا جامع ہے اور معاملات میں یکتا ہے غرضیکہ اسلام محاسن اور خوبیوں کاحسین گلدستہ ہے ۔ اسلام کی بدولت انسانیت نے علمی ،صنعتی،سائنسی ،تمدنی،سماجی اورمعاشرتی ترقی کی ہے ، یہی یورپ جو آج ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے اور کائنات کی تسخیر کا دعوی کررہا ہے کل تک عہد ظلمت میں ٹامک ٹوئیے مار رہا تھا اوراُس وقت مسلمان علم وحکمت کے تاجدارسمجھے جاتے تھے ۔
آج دنیا نے گوکہ بڑی ترقی کرلی ہے تاہم ترقی کے باوجود تنزلی کی طرف جارہی ہے ،ہرسطح پر زبوںحالی کی شکار ہے ، انسانوںکے حقوق پامال ہورہے ہیں ،عدل وانصاف کا خون ہورہا ہے ، دنیا فتنہ وفساد اور اضطراب سے بھری پڑی ہے ،مساوات کے نام پر انسانیت کا استحصال ہورہا ہے ،آزادی نسواں کے نام پرجنسی انارکی کو فروغ دیا جارہا ہے ،ان ساری خرابیوں کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دنیا اسلام سے منہ موڑ کرجی رہی ہے۔
پچھلے دنوں کناڈا سے ایک کتاب شائع ہوئی ہے A World Without Islam ”دنیااسلام کے بغیر“اس کے مصنف گراہم فلر ہیں جو سعودی عرب، ترکی، لبنان ، شمالی یمن،اور افغانستان میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے اعلی افسرکی حیثیت سے بیس سال سے زائد عرصہ خدمت انجام دے چکے ہیں اورمشرق وسطی کے حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ کتاب کے نام سے ظاہر ہے کہ وہ انسانیت کے لیے اسلام کو رحمت ثابت کرناچاہتے ہیں،چنانچہ لکھتے ہیں ”یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ موجودہ عالمی مسائل کا سبب اسلام ہے “۔
اسلام ہرطرح کی بے راہ روی پر قدغن لگاتاہے ،اور ایسا معاشرہ وجود میں لاتا ہے جو عدل وانصاف کا پیکر ہو،امن وشانتی کا گہوارہ ہوجس کے سایہ تلے انسان امن اورراحت محسوس کرے ، اس لیے مغرب یا ان کے ہمنوا ممالک یاتنظیموں کو مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی شرح آبادی سے قطعی گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
هناك تعليق واحد:
إخوتي الزوار!السلام عليكم بحمدالله قدعثرت علي هذاالمقال وأعجبت به إعجاباحملني علي كتابة التعليق عليه بأنه حافل لواقع العالم الراهن نحوالإسلام ووضع الإسلام الحاضروهذاثابت لاريب في ثبوته أن القرن القادم سيكون القرن الإسلامي أن شاء الله
جزاالله الكاتب أحسن الجزاء وزاده توفيقا للصالح
إرسال تعليق