السبت، مارس 05، 2011

آپ کے مسائل اور ان کا حل

زکاة کے احکام

سوال: زکاة کاحکم کیاہے؟ اور زکاة کا نصاب کیا ہوگا ؟خاص طور پر سونے کی زکاة کیسے نکالی جاے گی ؟ (زکریا ۔ سالمیہ ، کویت )
جواب:زکاة اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک اہم رکن ہے جس کی ادائیگی ہرصاحب استطاعت اور مالک نصاب پر سال میں ایک مرتبہ واجب ہے ۔اس کی ادائیگی سے انکار کرنے والوں سے اسلام کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکررضي الله عنه نے جنگ کا اعلان کیا تھا ۔
زکاة چار چیزوں پر واجب ہوتی ہے (1) سونے چاندی اور نقدی سکے (2) تجارتی سامان (3) مویشی (4) اور زرعی پیداوار۔
سونا اگر 85 گرام یا اس سے زیادہ ہواور چاندی 595گرام یا اس سے زیادہ ہو پھر ان پر سال گذر جاے تو ان میں چالیسواں حصہ واجب ہے ۔ یہی حساب نقدی سکوں اورتجارتی سامان کابھی ہوگاکہ اگریہ 85 گرام سونے کی قیمت کے برابر ہوجائیں اور ان پر سال گزرجاے توان کی بھی زکاة نکالنی واجب ہے ۔
مویشیوں میں وجوب زکاة کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ مقررہ نصاب کو پہنچ جائیں ، ان پر سال گزرجاے ،وہ سال کے اکثر حصہ چرتے ہوں اور باربرداری کے لیے نہ رکھے گئے ہوں۔ واضح ہوکہ 5سے کم اونٹوں میں زکاة نہیں، 30 سے کم گایوں میں زکاة نہیں، اور 40 سے کم بکریوں میں زکاة فرض نہیں ہے ۔
زرعی پیدا وار کے لیے سال گزرنا ضروری نہیں ہے ، جب فصل تيار ہوزکاة واجب ہے بشرطیکہ غلہ پانچ وسق یعنی 653 کیلوگرام تک پہنچ جاے ۔ اگر کھیت کو بارش یا چشموں کے پانی نے سیراب کیا تو دسواں حصہ اور اگر آلات اور مشینوں سے سیراب کیا تو بیسواں حصہ ہے ۔

خواتین کا اذان دينا اور اقامت كہنا

سوال: کیا عورتیں نماز کے لیے اذان اور اقامت کہیں گی ۔ (عمران ۔ کویت )
جواب: اذان اور اقامت مردوں کے لیے مشروع ہے ، عورتوں کے لیے نہ اذان مشروع ہے اور نہ اقامت ۔ عورتیںبغیر اذان دئیے اور اقامت کہے نماز ادا کریں گی ۔ اسی طرح عورت مردوں کی امامت بھی نہیں كر سكتي ہے البتہ عورت عورتوں کی امامت کراسکتی ہے ، ایسی صورت میں وہ وسط صف میں کھڑی ہوگی ۔

نماز میں آنکھیں بند کرنا

سوال:میں صحرائی علاقہ میں کام کرتا ہوں،اذان واقامت کے ذریعہ پنجوقتہ نمازیں پڑھتا ہوں، میراسوال یہ ہے کہ کیا نماز میں خشوع وخضوع کے لیے آنکھیں بند کرسکتے ہیں ۔ (محمد ریحان ۔ مینازور ، کویت)
جواب:اگرآپ صحرائی علاقہ میں رہتے ہیں ،اورآپ سے قریب مسجد نہیں ہے توآپ اذان اور اقامت کہہ کرنماز ادا کریں ۔اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے حضرت ابوسعید خدري رضي الله عنه سے فرمایا تھا : اگر تم بکریوں(کے ریوڑ)میں ہو، یا صحرا میں ہوتو بلند آواز سے نماز کے لیے اذان دو کیونکہ مؤذن کی اذان جن وانس اور جو شے سنتی ہے کل قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دے گی “۔ (صحیح بخاری )
دوسری بات یہ کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم سے ثابت نہیں ہے کہ آپ نے نماز میں آنکھیں بند کی ہوں ،بلکہ بیشمار روایات ایسی آتی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ آنکھیں کھول کر نماز ادا فرماتے تھے ۔ اسی لیے بعض علماء نے نماز میں آنکھیں بند کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے ۔ البتہ اس سلسلے میں اصولی بات حافظ ابن قیم رحمه الله نے بیان فرما دی ہے: ” اگر آنکھیں کھول کر نماز ادا کرنا خشوع میں مخل نہیں ہے تو آنکھیں کھول کر نماز ادا کرنا افضل ہوگا ،ہاں اگر قبلہ کے سامنے زینت وزیبائش اور آرائش کی وجہ سے نماز کا خشوع متاثر ہورہا ہو تو ایسی حالت میں آنکھیں بند کرنا قطعاًمکروہ نہیں ہوگا، بلکہ ایسی حالت میں مستحب کہنا اصول شریعت کے زیادہ قریب ہوگا“ ۔ (زادالمعاد 1/294)

نمازجنازہ کی حکمت

سوال:مرنے کے بعد مردے کے لیے نماز جنازہ کیوں ادا کی جاتی ہے ؟ (شہباز ۔ کویت )
جواب:
موت دنیاوی زندگی سے ابدی انقطاع اور اخروی زندگی کے نقطہ آغاز کا نام ہے ،اس مناسبت سے مشروع قرار دیا گیا کہ مردے کے لیے اللہ تعالی سے مغفرت کا سوال کیا جاے ، اس کے لیے رحمت الہی کی دعا کی جاے جو کلی طورپر عاجز آچکا ہے اور مدد کا طلبگار ہے، یہ ایمانی اخوت کابھی تقاضا ہے کہ اللہ تعالی سے رجو ع کرکے مردے کے لیے قبر میں آسانی ، گناہوں کی مغفرت، اور رحم وکرم کا سوال کیاجاے ۔ یہ کوئی مردے کے لیے نماز نہیں ہے بلکہ ان کے لیے محض استغفار اور دعا سے عبارت ہے، اسی لیے اس میں رکوع اور سجدے مشروع نہیں کیے گئے ہیں ۔ اسی طرح مردے کو غسل دینا اور اس کی تجہیز وتکفین کرکے دفن کردینا انسان کی تکریم اور مخلوقات پر ان کی برتری ثابت کرنے کے قبیل سے ہے ۔

طلاق کا صحیح طریقہ

سوال: طلاق کا صحیح طریقہ کیا ہے ؟ (ظفراللہ خاں۔ صباحیہ ،کویت)
جواب: طلاق اللہ پاک کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے ناپسند یدہ چیز ہے ۔اسلام میں شادی کو مربوط ازدواجی تعلق اور’مضبوط عہدوپیمان‘ سے تعبیرکیا گیا ہے، جب زوجین میں ناچاقی پیداہوجاے اور اصلاح کی ساری تدابیرناکام رہیں تو طلاق آخری علاج کے طورپر جائز قرار دی گئی ہے ۔ چنانچہ اختلاف کی صورت میں اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ شوہر بیوی کو سمجھائے ، شوہر کے حقوق یاد دلاے ، علیحدگی کی صورت میں بچوں کے مستقبل سے ڈراے،اور نصیحت کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرے ،اگر سدھرجاتی ہے تو ٹھیک ورنہ بستر الگ کر دیا جاے ،،یہ طریقہ سمجھدار عورت کی اصلاح کے لیے نہایت کارگر ہے ،اگر اس سے بھی نہ سمجھے توفہمائش کے لیے تادیبی طورپر اس کی ہلکی سي پٹائی کی جاسکتی ہے لیکن یہ مار وحشیانہ نہ ہو۔ اگر اس صورت میں بھی اصلاح ممکن نہ ہوسکے تو طرفین کی طرف سے دو آدمی دونوں میں صلح کرانے کی کوشش کریں گے ۔ (سورہ نساء34۔35)
اگر یہ چاروں مراحل ناکام ثابت ہوں تو اب جدائی کے علاوہ دوسری کو ئی معقول شکل باقی نہ رہی تاکہ دونوں اپنا اپنا راستہ طے کرلیں ۔ ایسی صورت میں طلاق کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایسے طہر میں جس میں بیوی سے وظیفہ زوجیت ادا نہیں کیا ایک طلاق دے اور تین مہینہ تک انتظار کا موقع دے ۔اس بیچ اسے ساتھ ہی رکھنا ہے ، اسے طلاق رجعی کہتے ہیں،اگر اس دوران رجوع نہیں کیا تو عورت اس سے خود بخود علیحدہ ہوگئی ،اب رجوع کے لیے تجدید نکاح کرنی ہوگی ۔ البتہ ایک ہی مجلس میںبیک وقت تین طلاقیں دینا شریعت کی پامالی اوراس کے ساتھ کھلواڑ کرنا ہے ، تاہم طلاق ایک ہی شمار کی جاے گی ۔(صحیح مسلم)
کیا محمد صلى الله عليه وسلم نور سے پیدا ہوئے ؟

سوال : کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نبی پاک صلى الله عليه وسلم نور سے بنائے گئے جب کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آپ کی تخلیق بھی عام انسانوں کے جیسے ہوئی تھی ۔ کونسی بات صحیح ہے ؟ ( محمد رفيق - خيطان ، كويت )
جواب: جہاں تک آپ صلى الله عليه وسلم کو نور کہنے کی بات ہے تو واقعی آپ نور ہیں ۔ اللہ تعالی نے فرمایا: قَد جائَکُم مِنَ اللّٰہ نُور وَکِتَاب مُبِین ( المائدہ15 ) ”تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے“ ۔بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ نور سے مراد محمد صلى الله عليه وسلم ہیں،البتہ یہ نور ذات کے اعتبار سے نہیں بلکہ ہدایت ورسالت کے اعتبار سے ہے ،اس نور کے ذریعہ اللہ پاک نے بندوں کو ہدایت دی ۔ اللہ پاک نے فرمایا وَلَکِن جَعَلنَاہُ نُوراً نَّہدِی بِہِ مَن نَّشَاء مِن عِبَادِنَا (شوری 52) ”لیکن ہم نے اس کو نُوربنایا ہے کہ اس سے ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں ہدایت کرتے ہیں“۔باقی رہا آپ کا جسم مبارک تو وہ خون گوشت اور ہڈیوں ہی سے بنا تھا ،قانون فطرت کے مطابق اپنے ماں باپ کے گھر آپ کی ولادت ہوئی ،ولادت سے قبل آپ کی تخلیق نہیں ہوئی،اوریہ جو کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے نبی پاک کا نور پیدا کیا گیا اَوَّلُ مَاخَلَقَ اللّٰہُ نُورَ نَبِیِّکَ یَا جَابِرُ ”اے جابر! سب سے پہلے اللہ پاک نے تیرے نبی کا نور پیدا کیا “ تو یہ حدیث موضوع اور من گھڑت ہے۔ (جیساکہ دکتور احمد مرتضی نے اپنی کتا ب[ حدیث اَوَّلُ مَاخَلَقَ اللّٰہُ نُورَ نَبِیِّکَ یَا جَابِرُ بین الحقیقة والخیال ]میں صراحت فرمائی ہے )گویا پیارے نبی ا گوسیدولدآدم ہیں،ساری مخلوق سے افضل ہیں،یہاں تک کہ فرشتوں سے بھی جو نور سے پیدا کیے گئے اس کے باوجود آپ ابشریت سے خارج نہیں اللہ تعالی نے فرمایا ﴾ قُل اِنَّمَا ا نَا بَشَر مِّثلُکُم یُوحَی الَی﴿ (الکھف 110) ”آپ فرمادیجئے کہ میں تمہارے ہی جیسے ایک انسان ہوں فرق یہ ہے کہ میری طرف وحی آتی ہے “۔

بچوں کو دودھ پلانے کی مدت

سوال:کیا بچے کو دو سال سے زیادہ دودھ پلاسکتے ہیں ؟ ( عبدالرحيم ، كويت )
جواب: اللہ پاک نے بچے کو دودھ پلانے کی مدت دو سال طے کی ہے ،اللہ تعالی نے فرمایا: وَالوَالِدَاتُ یُر ضِعنَ ا و لاَدَہُنَّ حَو لَینِ کَامِلَینِ لِمَن ا رَادَ ا َن یُتِمَّ الرَّضَاعَةَ ﴿ (البقرة233 )”اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ (حکم) اُس شخص کےلئے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے“۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ رضاعت کی مدت دوسال مقرر کی گئی ہے البتہ دوسال مکمل کرنا نہ ضروری ہے اور نہ ہی دوسال سے زائد دودھ پلانے میں ممانعت ہے ،بچے کی مصلحت کودیکھتے ہوئے مدت میں کمی اور بیشی بھی کی جاسکتی ہے ۔ کیونکہ آیت میں مدت کی تحدید استحبابی ہے واجبی نہیں ۔

شادی کے بغیرجسمانی تعلقات

سوال : ایک غیرمسلم لڑکی کو مسلمان بناکر اس کے ساتھ رہ رہا ہوں، کورٹ میں شادی کرنے کے لیے گیا تو قاضی نے کاغذات کا مطالبہ کیا،اب مجھے کیا کرنا چاہیے ؟ ( بنده خدا- كويت )
جواب: یہ بہت بڑا جرم ہے جس کا آپ ارتکاب کررہے ہیں، غیرمسلم لڑکی جسے اللہ پاک نے ہدایت دی تھی اسے زنا میں ملوث کررکھاہے اور خود زنا میں پڑکر اللہ کے غضب کو دعوت دے رہے ہیں ۔ اسلام میں زناکارمرد وعورت کی سزا اگر شادی شدہ ہے تو سنگسار ہے،اور اگر شادی شدہ نہیں تو سوکوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے۔پھرایک مومن کے لیے جائز نہیں کہ وہ زانیہ سے شادی کرے اور نہ کسی مومنہ کے لیے جائز ہے کہ وہ زانی سے شادی کرے ۔ (سورة النور 3)لہذا پہلی فرصت میں آپ دونوں پر لازم ہے کہ اپنے گناہوں سے سچی توبہ کریں،اپنے عمل پر نادم ہوں،اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا پختہ عزم کریں ۔سچی توبہ کے بعد دونوں علیٰحدہ ہوجائیں اور ایک مہینہ تک علیٰحدہ رہیں ، اس بیچ کویت کے نظام کے مطابق اپنے ملک سے لڑکی کے غیر شادی شدہ ہونے کا سرٹیفکٹ منگوالیں، پھر کورٹ میں جاکر شرعی شادی کرکے جائز طریقے سے شہوت کی تکمیل کریں اور خوشگوار ازدواجی زندگی گذاریں ۔

خطہ برصغیر میں اسلام کی آمد

سوال : ہندوستان میں سب سے پہلے اسلام کی دعوت کس نے دی ؟ ( نوشاد عالم- فروانية ، كويت)
جواب : وفات نبوی کے چار سال بعد حضرت عمرفاروق رضي الله عنه کے زمانہ خلافت میں سن 15 ہجری میں اسلام ہندوستان پہنچ گیا تھاجبکہ امیرالمو ¿منین عمرفاروق نے حضرت عثمان بن ابوالعاص رضي الله عنه کو بحرین اور عمان کا والی مقرر کرکے بھیجا تو حضرت عثمان بن ابوالعاص رضي الله عنه نے اپنے بھائی حکم بن ابوالعا ص کو ہندوستان کی ایک بندرگاہ ”تھانہ کی طرف روانہ کیا۔ اور موجودہ جغرافیائی اعتبار سے یہ بندرگاہ بمبئی کے قریب واقع ہے۔ عصرحاضر کے مشہور مؤرخ محمداسحاق بھٹی صاحب کے مطابق خطہ برصغیر میں پچیس صحابہ کرام تشریف لائے ، ظاہر ہے کہ جب انہوں نے ہندوستان میں قدم رکھا تو اسلام کی طرف اپنے قول وفعل سے دعوت بھی دی ۔ گویا ہندوستان میں سب سے پہلے دعوت دینے والے صحابہ کرام ٹھہرتے ہیں ۔ البتہ پوری قوت کے ساتھ اسلام اس سرزمین پر سن 93 میں آیا جس وقت محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ کیا ۔

خودسوزی کا حکم

سوال :جمہوری ممالک میں غم وغصہ کے اظہار اور مظلوموں کے حقوق کی بازیابی کے لیے خودسوزی یا بھوک ہڑتال کا کیا حکم ہے؟ (عبد الله - كويت )
جواب: یہ بات بالکل مسلم ہے کہ دنیا میں انسانوں پر بڑی زیادتیاں ہورہی ہیں جن پر سکوت اختیار کرنا جائز نہیں، بلکہ انفرادی واجتماعی طورپر اس کے خلاف آواز اٹھانا ضروری ہے ۔ تاہم اس کے لیے خودسوزی کرنا یا بھوک ہڑتال کرنا قطعاً مناسب نہیں ،ایشیائی ممالک میں اس قبیل کی خودسوزی کی جو کوششیں ہورہی ہیں یہ قطعاً جائز نہیں اور کتاب وسنت کی روشنی میں کبیرہ گناہ ہے ۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے ﴾ وَلاَ تَقتُلُوا ا نفُسَکُم ان َّ اللّہَ کَانَ بِکُم رَحِیماً﴿(سورة النساء29) ” اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو کچھ شک نہیں کہ اللہ تم پر مہربان ہے“ ۔ارشاد ربانی ہے وَلاَ تُلقُوا بِا یدِیکُم اِلَی التَّہلُکَةِ ﴿ (سورة البقرة 195) ”اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو “۔ کیونکہ اپنے نفس کا مالک وہ نہیں ہے بلکہ اسے یہ نفس بطور امانت ملی ہوئی ہے جس کے تئیں اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ موت تک اس کی حفاظت کرتا رہے اور شرعی قاعدہ ہے الغَایَةُ الشَّر عِیَّةُ لاتُبَرِّرُالوَسِیلَةَ المُحَرَّمَةَ شرعی مقصد کے حصول کے لیے حرام وسیلہ اختیار کرنا جائز نہیں۔اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم خودکشی کرنے والے کے جنازے کی نماز نہیں پڑھتے تھے جیساکہ صحیح حدیث میں حضرت جابربن عبداللہ سے روایت ہے کہ ا ُتِیَ النَّبِیَ صلى الله عليه وسلم بِرَجُلٍ قَتَلَ نَفسَہ بِمَشَاقِصَ فَلَم یُصَلِّ عَلَیہِ (مسلم)”اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کے پاس ایک ایسے آدمی کو لایاگیا جس نے خود کو چھری سے قتل کرلیا تھا ‘آپ نے اس کے جنازہ کی نماز نہیں پڑھی “۔

ليست هناك تعليقات: