الاثنين، أبريل 05، 2021

مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتِ شان کی دس دلیلیں

 

موضوع الخطبة: الدلائل العشرۃ على عظم قدر المصطفى

الخطيب : فضيلة الشيخ ماجد بن سليمان الرسي/حفظه الله

لغة الترجمة: الأردو

المترجم: سيف الرحمن حفظ الرحمن التيمي (@Ghiras_4T)

 

موضوع:

مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتِ شان کی دس دلیلیں

پہلا خطبہ:

إن الحمد لله نحمده ، ونستعينه، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله.

(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ)

(يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا)

(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا)

 

حمد وثنا کے بعد!

سب سے بہترین کلام اللہ کا کلام ہے، اور سب سے بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، سب سے بدترین  چیز  دین میں  ایجاد کردہ بدعتیں ہیں، اور ہر ایجاد کردہ چیز بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔

اے مسلمانو! اللہ تعالی سے ڈرو‘ جان رکھو کہ اس امت کو اللہ تعالی نے یہ اعزاز بخشا کہ سب سے افضل مخلوق کو ان کانبی اور رسول بنایا‘ جوکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں‘ وہ حقیقت میں  اخلاق واطوار‘ علم اور عمل کے اعتبار سے تمام لوگوں   سے افضل تھے‘ یہی وجہ ہے کہ آپ نے پوری دنیا پر اپنا اثر قائم کیا‘ خواہ جنات ہوں یا انسان‘ یہاں تک کہ چوپایوں پر بھی آپ کے اثرات مرتب ہوئے‘  چناں چہ آپ حقیقی معنوں میں ایک عظیم انسان تھے‘  مطلق طور پر نہ آپ کے ہم مثل زمانے بھر میں کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی ہوسکتا ہے‘  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کچھ متعین  زاویوں میں محصور نہیں ‘  بلکہ   وہ ہر پہلو کو محیط ہے‘ آپ کی عظمتِ شان کی دلیلیں  سو سے زائد ہیں‘   ہر دلیل دوسری دلیل سے مختلف ہے‘ ان میں سے چند یہ ہیں:

۱-اللہ تعالی نے آپ کو تمام لوگوں میں سے  چنا اور منتخب کیا تاکہ آپ رسالت وپیغامبری کی ذمہ داری ادا کریں‘ اللہ تعالی نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم  سے فرمایا: (وأرسلناك للناس رسولا)

ترجمہ: ہم نے تجھے تمام لوگوں کو پیغام پہنچانے والا بناکر بھیجا ہے۔

۲-آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت شان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ  اللہ تعالی نے آپ کو نبوت اور رسالت دونوں سے نوازا ۔

۳-آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتِ شان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ آپ اولو العزم رسولوں میں سے ہیں‘ اولو العزم رسول پانچ ہیں: نوح ‘ ابراہیم‘ موسی ‘ عیسی اور محمد علیہم الصلاۃ والسلام۔

۴-آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت شان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو بہت سی ایسی نشانیوں سے سرفراز کیا جو آپ کی نبوت پر دلالت کرتی ہیں‘  ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "إغاثۃ اللہفان" [1]کے اخیر میں ذکر کیا ہے کہ یہ نشانیاں ایک ہزار سے زائد ہیں‘ یہ بندوں پر اللہ کی رحمت ہے ‘ تاکہ آپ کی نبوت پر ایمان لانے اور (آپ کی باتوں کو ) تسلیم کر نے  میں یہ نشانیاں معاون  اور مخالفین کی دلیل کے لئے شمشیرِ براں  ثابت ہوں۔

۵-آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت شان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ  اللہ تعالی نے آپ کو ایک ایسے جاوداں معجزے سے نوازا جو آپ کی بعثت سے لے کر قیامت تک جاری و ساری رہنے والا ہے‘ اور وہ  ہے  قرآن کریم‘ کیوں کہ تمام انبیائے کرام کی نشانیاں ان کی وفات کے ساتھ ہی ختم ہوگئیں‘ لیکن قرآن ایک ایسا معجزہ ہے  جو اس وقت تک باقی رہے گا جب تک زمین اور اس پر بسنے والے لوگ باقی رہیں گے‘ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "  انبیاء میں سے کوئی نبی ایسا نہیں جن کو کچھ نشانیاں (یعنی معجزات) نہ دئیے گئے ہوں جن کے مطابق ان پر ایمان لایا گیا اور مجھے جو بڑا معجزہ دیا گیا وہ قرآن مجید ہے جو اللہ نے میری طرف بھیجا، میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن شمار میں تمام انبیاء سے زیادہ پیروی کرنے والے میرے ہوں گے"[2]۔

۶-آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت شان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کے اوپر سب سے بہترین شریعت نازل فرمایا اور اسے ان تمام عمدہ احکام وتعلیما ت پرمشتمل بنایا جو  تمام تر  آسمانی کتابوں میں موجود تھیں اور مزید ان میں اضافہ بھی فرمایا۔

۷-آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتِ شان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ  اللہ تعالی نے آپ پر احادیث  بھی وحی فرمائی جو شریعت کی تفصیلات پر مشتمل  ہیں ۔

۸-آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت شان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو تمام  انس وجن کے لئے رسول بنایا ‘ جب کہ آپ کے دیگر انبیاء برادران کو بطور خاص ان کی قوموں کے لئے ہی  مبعوث کیا ‘  اللہ تعالی فرماتا ہے:

(وأرسلناك للناسِ كافةً)

ترجمہ: ہم نے تجھے تمام لوگوں کو پیغام پہنچانے والا بناکر بھیجا ہے۔

نیز فرمان باری تعالی ہے: (وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ)

ترجمہ: ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔

اللہ تعالی نے یہ ذکر فرمایا ہے کہ جنوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول فرمائی: (وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنْصِتُوا فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَى قَوْمِهِمْ مُنْذِرِينَ)

ترجمہ: جب ہم نے جنوں میں سے کئی شخص تمہاری طرف متوجہ کئے کہ قرآن سنیں۔ تو جب وہ اس کے پاس آئے تو (آپس میں) کہنے لگے کہ خاموش رہو۔ جب (پڑھنا) تمام ہوا تو اپنی برادری کے لوگوں میں واپس گئے کہ (ان کو) نصیحت کریں۔

اس فرمان تک (ملاحظہ کریں):

(يَا قَوْمَنَا أَجِيبُوا دَاعِيَ اللَّهِ وَآمِنُوا بِهِ يَغْفِرْ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُجِرْكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ)

ترجمہ: اے ہماری قوم ! اللہ کے بلانے والے کاکہا مانو‘ اس پر ایمان لاؤ ‘ تو اللہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں المناک عذا ب سے پناہ دے گا۔

آیت میں مذکور اللہ کے طرف بلانے والے (داعی) سے مراد نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں‘ آپ ہی سے جنوں نے قرآن کی تلاوت سنی۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: " ہر پیغمبر خاص اپنی قوم کی طرف بھیجا گیا اور میں سرخ اور سیاہ ہر شخص کی طرف بھیجا گیا ہوں"[3]۔

سرخ اور سیاہ سے مراد پوری دنیا ہے۔

۹-نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت شان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ  اللہ تعالی نے آپ کے ذریعہ نبوت ورسالت کاسلسلہ ختم کردیا‘ اسی لئے آپ خاتم النبیین سے موسوم کئے گئے‘ اللہ تعالی نے فرمایا:

(مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ)

ترجمہ: تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ محمد صلی اللہ علیہ  وسلم نہیں‘ لیکن آپ اللہ تعالی کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں ۔

جابر بن عبد الله انصاری رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " میری اور مجھ سے پہلے کے تمام انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک گھر بنایا اور اس میں ہر طرح کی زینت پیدا کی لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹ گئی۔ اب تمام لوگ آتے ہیں اور مکان کو چاروں طرف سے گھوم کر دیکھتے ہیں اور تعجب میں پڑ جاتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ یہاں پر ایک اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟ تو میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں"[4]۔

۱۰-آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت شان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کے ذکر کو بہت زیادہ بلند فرمایا ہے‘ جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے:

(وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ)

ترجمہ: ہم نے تیرا ذکر بلند کردیا۔

اللہ تعالی نے آپ کے اسم گرامی کو شہادتِ توحید کا جزء لا ینفک بنادیا: "میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور گواہی دیتاہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں"‘ اذان واقامت ‘ خطبہ اور نماز –تشہد اور تحیات – اور بہت سے اذکار  اور دعاؤں کے اندر جہاں اللہ تعالی کا ذکر آیا ہے وہیں نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ذکر آیا ہے‘ چناں چہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر سے روئے زمین کا ہر گوشہ گونج رہا ہے‘ دنیا میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں  جس کا ذکر اور تعریف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر اور تعریف کی طرح کی جاتی  ہو‘ جیسا کہ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

وضمَّ الإلهُ اسم النبِّي مع اسمه                  إذا قال في الخمس المؤذنُ أشهدُ

وشقَّ له من اسمه ليُجِلَّه                        فذو العرش محمود وهذا محمد

ترجمہ: اللہ نے اپنے نبی کے اسم گرامی کو اپنے نام کے  ساتھ ضم کردیا ہے‘  بایں طور کہ موذن پانچ وقت کی اذانوں میں جب کلمہ شہادت پڑھتا ہے (تو اللہ کے نام کے ساتھ محمد کا نام بھی لیتا ہے)۔اللہ نے  آپ کی تعظیم کے لئے آپ  کا اسم گرامی اپنے نام سے اخذ کرکے  بنایا ہے‘چناں چہ عرش والا محمود ہے اور آپ محمد ہیں۔

اے مسلمانو! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت شان کی یہ دس دلیلیں ہیں ‘ یہ  دلیلیں بہت زیادہ ہیں‘ جن کی تعداد سو تک پہنچتی ہے ‘ جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ۔

اللہ تعالی قرآن مجید کو میرے لئے اور آپ سب کے لئے با برکت بنائے ‘ مجھے اور آپ کو اس کی آیتوں اور حکمت پر مبنی نصیحت سے فائدہ پہنچائے ‘ میں اپنی یہ بات کہتے ہوئے اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں ‘ آپ بھی اس سے مغفرت کی دعا کریں‘ یقینا وہ بہت زیادہ معاف کرنے والا اور خوب رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

الحمد لله وكفى، وسلام على عباده الذين اصطفى، أما بعد:

یقینا سب سے  فحش اور قبیح ترین بات  یہ ہے کہ  مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت وناموس پر دست درازی کی جائے‘ آپ کے ساتھ سب وشتم کرکے ‘ یا آپ کی ہتک عزت کرکے ‘ ان لوگوں کی جانب سے جن کے بارے میں اسلام نے یہ واضح کیا ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں سے بعض ونفرت رکھتے ہیں‘  ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ کا یہ فرمان صادق آتا ہے: (إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ)

ترجمہ: یقینا تیرا دشمن ہی لاوارث اور بے نام ونشان ہے۔

یعنی: تجھ سے بغض ونفرت رکھنے والے اور تو جس ہدایت ونور کے ساتھ مبعوث ہوا ہے‘ اس سے نفرت کرنے والے  کے سارے نقوش مٹ جائیں گے ‘ اس کا کوئی نام لینے والا نہ ہوگا اور وہ ہر قسم کے خیر وبھلائی سے محروم کر دیا جائے گا۔

وہ لوگ جو اسلام کے خلاف سازشیں رچتے ہیں‘  ان کے خلاف اللہ یہ مکر کرتا ہے  کہ جب بھی وہ اسلام پر حملہ کرتے ہیں‘ ان کی قوموں کی توجہ اسلام کی طرف مزید بڑھ جاتی ہے‘ تاکہ وہ اسلامی  مراجع ومصادر کے ذریعہ اس کی حقیقت کو جان سکیں‘ نیز اسلامی دعوت کو عام کرنے کے لئے مسلمان بھی اپنے ملکوں میں دعوتی  سرگرمیاں  تیز کر دیتے ہیں‘ اللہ تعالی نے سچ فرمایا:

(وَمَكَرُوا مَكْرًا وَمَكَرْنَا مَكْرًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ)

 ترجمہ: انہوں نے مکر (خفیہ تدبیر) کیا اور ہم نے بھی اوروہ اسے سمجھتے ہی نہ تھے۔

اس کے ساتھ ہی  مسلمانوں کو یہ ذہن نشیں رکھنا چاہئے کہ   کافر مسلمانوں کو بھڑکانا  اور مشتعل کرنا چاہتے ہیں‘ تاکہ وہ تشدد ‘ طیش وغضب‘ جہالت وحماقت اور تخریب کاری کا مظاہرہ کریں‘ یہاں تک کہ جب وہ  ان چیزوں  کا مظاہرہ کرنے لگتے  ہیں تو وہ اپنی قوم کے لوگوں سے کہتے ہیں: " دیکھو اسلام اور مسلمانوں کو وہ کیا کر رہے ہیں"۔پھر  لوگوں کو دین اسلام سے روکنے کے لئے میڈیا میں ان کی  تخریب کاری کے مناظر نشر کرتے ہیں‘  اس لئے ہوشیار وخبر دار رہیں‘ یہ مناسب نہیں کہ کمزور عقل والے فتنوں میں پڑ جائیں‘ بلکہ صبر کا دامن تھامے رہنا ‘  نفس پر کنٹرول رکھنا‘اہل علم اور تجربہ کار لوگوں  کو  معاملہ سپرد کرنا‘    اس طرح کے واقعات کو اللہ کی طرف دعوت دینے اور جو شبہات اٹھائے جارہے ہوں ‘ ان کارد کرنے کے لئے استعمال کرنا واجب ہے‘  تاکہ دشمنوں کو مکاری وفریب کاری کا موقع ہاتھ نہ آسکے ‘ اور اذن الہی سے آزمائش‘  نوازش میں بدل جائے ‘ اللہ تعالی فرماتا ہے:

 (وَلَا يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِينَ لَا يُوقِنُونَ)

ترجمہ: آپ کو وہ لوگ ہلکا (بے صبرا) نہ کریں جو یقین نہیں رکھتے۔

نیز یہ بھی جان رکھیں –اللہ آپ پر اپنی رحمت نازل فرمائے - کہ اللہ  تعالی نے آپ کو ایک بڑی چیز کا حکم دیا ہے‘ فرمان باری تعالی ہے:

(إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا)

ترجمہ: اللہ تعالی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں ۔اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھی بھیجتے رہا کرو۔

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:" تمہارے سب سے بہتر دنوں میں سے جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم پیدا کئے گئے، اسی دن ان کی روح قبض کی گئی، اسی دن صور پھونکا جائے گا[5]۔اسی دن چیخ ہو گی[6] ۔ اس لیے تم لوگ اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، کیوں کہ  تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے"[7]۔اے اللہ تو اپنے بندے اور رسول محمد پر رحمت و سلامتی بھیج،تو  ان کے  خلفاء ،تابعین عظام اور قیامت تک اخلاص کے ساتھ ان کی  اتباع کرنے والوں سے راضی ہوجا۔

اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت وسربلندی عطا فرما،شرک اور مشرکین کو ذلیل وخوار کر،تواپنے اور دین اسلام کے دشمنوں کو نست ونابود کردے،اور اپنے موحد بندوں کی مدد فرما،اے اللہ! تو ہمیں اپنے ملکوں میں سلامتی عطا کر،ہمارے اماموں اور ہمارے حاکموں کی اصلاح فرما،انہیں ہدایت کی رہنمائی کرنےوالا اور ہدایت پر چلنے والا بنا۔

اے اللہ!  جو ہمارے  تئیں‘  اسلام اور مسلمانوں کے تئیں شر کا ارادہ رکھے تواسے اپنی ذات میں مشغول کردے،اور اس کے مکر وفریب کو اس کےلئے وبال جان بنا۔

اے اللہ  ! مہنگائی‘ وباء،سود،زنا،زلزلوں اور آزمائشوں کو ہم سے دور کردے اور ظاہری وباطنی فتنوں کی برائیوں کو ہمارے درمیان سے اٹھا لے،خصوصی طور پر ہمارے ملک سے اور عمومی طور پر  تمام مسلمانوں کے ملکوں سے ،اے دونوں جہاں کے پالنہار!

اے اللہ! تو تمام مسلمانوں کے حکمرانوں کو اپنی کتاب کو نافذ کرنےاور اپنے دین  کو سربلند کرنے کی توفیق سے نواز اور انہیں ان کے رعایوں کے لیے باعث رحمت بنا۔

اے ہمارے رب! ہمیں دنیا  میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما،اور عذاب جہنم سے نجات بخش۔

پاک ہے آپ کا رب جو بہت بڑی عزت وا ہے ہر اس چیز سے (جو مشرک) بیان کرتے ہیں۔ پیغمبروں پر سلام ہے اور تمام تعریفات اللہ رب العالمین کے لئے لائق وزیبا ہیں۔

 

از قلم: ماجد بن سلیمان الرسی‘ ۱۳ ربیع الاول‘ ۱۴۴۲ھ

شہر جبیل۔مملکت سعودی عرب

 



[1] ص: ۱۱۰۷

[2]  اسے بخاری (۴۹۸۱) اور مسلم (۱۵۲) نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے روایت کردہ ہیں۔

[3]  اسے مسلم ( ۵۲۱) نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

[4]  اسے بخاری (۳۵۳۵) اور مسلم (۲۲۸۶) نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

[5]  یعنی صور میں دوسری بار پھونک مارا جائے گا‘ اس سے مراد وہ صور ہے جس میں اسرافیل پھونک ماریں گے‘ یہ وہ فرشتہ ہیں جن کو صور میں پھونک مارنے پر مامور کیا گیا ہے‘ جس کے بعد تمام مخلوق اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔

[6]  یعنی جس سے دنیاوی زندگی کے اخیر میں لوگ بے ہوش ہوکر گر پڑیں گےاور سب کے سب مر جائیں گے‘ یہ بے ہوشی اس وقت پیدا ہوگی جب صور میں پہلی بار پھونک مارا جائے گا‘ دو پھونک کے درمیان چالیس سالوں کا فاصلہ ہوگا۔

[7]  اسے نسائی( ۱۳۷۳) ‘ ابو داود (۱۰۴۷) ‘ ابن ماجہ (۱۰۸۵)  اور احمد (۴/۸) نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح ابی داود میں اور مسند کے محققین نے (۱۶۱۶۲) کے تحت اسے صحیح کہا ہے۔

ليست هناك تعليقات: