الاثنين، أبريل 05، 2021

شہادت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شروط اور نواقض

 

موضوع الخطبة: شروط شهادة أن محمدا رسول الله، ونواقضها

الخطيب : فضيلة الشيخ ماجد بن سليمان الرسي/حفظه الله

لغة الترجمة: الأردو

المترجم : شفاء الله إلياس التيمي (@Ghiras_4T)

 

موضوع:

شہادت محمد رسول اللہ ﷐ کے  شروط  اور نواقض

پہلا خطبہ:

إن الحمد الله، نحمده ونستعينه،ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا،من يهده الله فلا مضل له،ومن يضلل فلا هادي له،وأشهد أن لا إله الإ الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله

حمد وصلاة کے بعد:

سب سے بہترین کلام اللہ کا کلام ہے،اور سب سے بہترین طریقہ محمد ﷐ کا طریقہ ہے،سب سے بدترین چیز دین میں ایجاد کردہ بدعتیں ہیں،اور(دین میں)ہر ایجاد کردہ چیز بد عت ہے،اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔

اے مسلمانو!اللہ تعالی سے ڈرو اور اس سے خوف کھاؤ،اس کی اطاعت کرو اور اس کی نافرمانی سے بچو،اور یہ ذہن نشیں کرلو کہ محمد ﷐ کی رسالت کی گواہی دنیے والوں کے لئے یہ گواہی اسی وقت مفید ثابت ہوسکتی ہے جب اس کے ساتھ  آٹھ شرطیں[1] پائی جاتی  ہوں:

۱- اس کے معانی کو جاننا اور سمجھنا،  جس کا مطلب یہ ہے کہ اس بات پر ایمان رکھا جائے کہ وہ اللہ کی جانب سے(بھیجے ہوئے)حقیقی رسول ہیں۔

۲- دل سے اس پر  یقین کرنا،جس کی ضد شک وشبہ ہے۔اس کی دلیل اللہ کا یہ  فرمان ہے: (إنما المؤمنون الذين آمنوابالله ورسوله ثم لم يرتابوا) ترجمہ:مومن تو وہ ہیں جو اللہ پر(پکا)ایمان لائیں پھر شک وشبہ نہ کریں۔

٣-ظاہر و باطن میں اس کی پیروی کرنا،بایں طور کہ  رسول اللہ ﷐ کی اطاعت کی جائے ،اتباع وپیری کی دلیل اللہ  تعالی کا یہ فرمان ہے: (ومن يسلم وجهه إلى الله وهو محسن فقد استمسك بالعروة الوثقى)

ترجمہ: جو (شخص)اپنے آپ کو اللہ کے تابع کردے اور ہو بھی نیکوکار تو  یقینا اس نے مضبوط کڑا تھام لیا۔

۴- اس (کے مقتضیات کو) قبول کرنا،جس نے  شہادتِ محمد  رسول اللہ  کے لوازمات میں سے کسی بھی جزء کا انکار کیا ‘ اس نے ( اس شہادت  کا) انکار کیا ۔

۵-اخلاص کے ساتھ اس کی  گواہی دینا،بایں طور  کہ اس کے قائل کا مقصد صرف ایک  اللہ کا تقرب حاصل کرنا ہو،جس کی ضد اس میں شرک کرنا ہے،اس طور پر کہ شہادت محمد  رسول اللہ  سے  دنیا کی  کوئی غرض وغایت مقصود ہو جیسا کہ منافقین کا شیوہ ہے۔

۶-صداقت وسچائی کے ساتھ (اس پر قائم رہنا) جس کی ضد کذب بیانی ہے،اس کی دلیل اللہ کا یہ فرمان ہے: (ولقد فتنا الذين من قبلهم فليعلمن الله الذين صدقوا وليعلمن الكاذبين)ترجمہ:  ان لوگوں کو بھی ہم نے خوب جانچا یقینا اللہ تعالی انہیں بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انہیں بھی معلوم کرلے گا جو جھوٹے ہیں۔

نبی کریم ﷐نے فرمایا کہ" جو شخص سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد ﷐ اللہ کے سچے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ اس کو (دوزخ کی) آگ پر حرام کر دیتا ہے"[2]۔

۷-اس سے اور اس کے ماننے والوں سے محبت کرنا،اور اس سے بغض وعناد رکھنے والوں سے دشمنی کرنا۔

۸-ان باتوں کا انکار کرنا جو اس کی منافی ہیں،شہادت رسول کی منافی  باتیں بہت ہیں، سب سے بڑی منافی چیز  یہ ہے کہ غیر اللہ کی عبادت کی جائے، جس کا انکار کرنا  واجب ہے، اور تمام تر عبادتوں کو صرف ایک اللہ کے خالص کرنا واجب ہے،جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:(فمن يكفر بالطاغوت ويؤمن بالله فقد استمسك بالعروة الوثقى لا انفصام لها)

ترجمہ: جو شخص اللہ تعالی کے سوادوسرے معبودوں کا انکار کرکے اللہ تعالی پر ایمان لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا جو کبھی نہ ٹوٹے گا۔

·       اے مومنو!شہادت  محمد رسول اللہ  کے منافی  امور پانچ ہیں:

پہلی منافی  بات: مذکورہ بالا  آٹھ شرطوں میں سے کسی ایک  کی یا ایک   سے زائد کی مخالفت کرنا۔

دوسری منافی بات: دین کے  ایسے حصے کا انکار کرنا  جو لازمی طور پر مشہور ومعروف ہے،جیسے رسول اللہ ﷐ کی نبوت یا آپ کی بشریت کا انکار‘ یا امت محمدیہ پر آپ ﷐ کے جو  حقوق ہیں ان کا انکار،یا اس بات کا انکار کہ آپ ﷐خاتم الانبیاء  ہیں،یا یہ انکار کرنا کہ آپ کی رسالت سابقہ شریعتوں کو منسوخ کرنے والی ہے،یا اس بات کا  انکار کرنا کہ آپ نے  پورے دین کو (دنیا والوں تک) پہنچا دیا،یا اس چیز کا انکار کہ آپ کی رسالت انسان وجنات کے لئے عام ہے،یا اسلام کے کسی رکن کا ،یا شراب،یا چوری،یا زنااور اس طرح کے دیگر کبائر کی تحریم  کا انکار۔

شہادت  محمد رسول اللہ  کی تیسری منافی  بات: آپ کی شخصیت  پر طعن وتشنیع کرکے آپ کو تکلیف دینا ‘ خواہ  آپ ﷐ کی زندگی میں ہو یا آپ کی موت کے بعد،جیسے آپ کی صداقت،یا آپ کی فہم وفراست یا آپ کی عفت  پر  طعن وتشنیع کرنا،ان تمام سے رسول اللہ ﷐ کی رسالت کی گواہی کا انکار لازم آتا ہے، کیوں کہ  یہ  ایمان کے منافی ہے‘ اس کی دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید کے اندر  یہ ثابت ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو (نبوت کے لئے) منتخب فرمایا تھا۔

 آپ ﷐ کو ایذاء دینے والوں کے  کافر ہونے  کی دلیل اللہ کا یہ فرمان  ہے: (إن الذين يؤذون الله ورسوله لعنهم الله في الدنيا و الآخرة وأعد لهم عذابا مهينا)  ترجمہ: جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذاء دیتے ہیں ان پر  دنیا  وآخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لئے نہایت رسواکن عذاب ہے۔

طعن کہتے ہیں رحمت سے دور کرنے کو،جسے اللہ اپنی رحمت سے کردے وہ کافر ہی ہو سکتا ہے۔

آپ ﷐ کی ایذاء رسانی کی ایک شکل آپ کا مذاق اڑانا بھی ہے خواہ سنجیدگی کے ساتھ ہو  یا ہنسی مذاق میں۔

آپ کا استہزا ءکرنے والوں کے  کافر ہونے کی دلیل سورہ توبہ کے اندر اللہ کا یہ ارشاد ہے: (وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ)

ترجمہ: اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں بول رہے تھے۔کہہ دیجیے کہ اللہ اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں،تم بہانے نہ بناؤ یقینا تم اپنے ایمان کے بعد بے ایمان ہوگئے۔

شیخ عبدالرحمان بن سعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:اللہ اور اس کے رسول کا استہزاء ومذاق اڑانا  ایسا کفر ہے جو دین سے خارج کردیتا ہے، کیوں کہ دین کی  عمارت  اللہ،اس کے دین اور اس رسولوں کی تعظیم پر کھڑی ہے،ان میں سے کسی ایک کا مذاق اڑانا  اس اصل کے منافی اور اس کے حددرجہ مخالف عمل ہے۔انتہی

چوتھی منافی بات:نواقضِ اسلام میں سے کسی ایک میں واقع ہونا،جیسے اللہ کی عبادت میں شرک کرنا،یا یہ اعتقاد رکھنا کہ کوئی دوسرا طریقہ رسول اللہ ﷐ کے طریقے سے زیادہ کامل ہے،یا آپ کے فیصلے سے کوئی دوسرا فیصلہ زیادہ بہتر ہے،ان لوگوں کی طرح جو طاغوت کے فیصلے کو آپ کے فیصلے پر ترجیح دیتے ہیں،ان حضرات کی طرح جو کمیونزم  یا جمہوریت کو اسلامی نظامِ (حکومت) پر ترجیح دیتے ہیں،تو ایسا شخص کافر ہے،یا رسول اللہ ﷐ کی لائی ہوئی کسی تعلیم سے بغض کرنا‘  یا اللہ کے دین،یا اس کے ثواب وعقاب کا مذاق اڑانا بھی کفرہے،یا جادو جیسے عمل میں منہمک ہونا،یا اللہ کے دین سے اعراض کرنا   (بھی کفر ہے) بایں طور کہ نہ تو اسے سیکھے اور نہ اس پر عمل کرے[3]۔

شہادت رسول کی پانچویں اور آخری  منافی  بات:آپ علیہ الصلاة والسلام کی شان میں غلو کرنا،اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کی تعظیم میں حد سے تجاوز کیا جائے ‘آپ  ﷐نے اپنی زندگی میں اور حالت نزع میں بھی اپنے تعلق سے لوگوں کو غلو کرنے سے سختی کے ساتھ  منع فرمایا اور  روکا‘ تاکہ لوگ آپ کی شان میں غلو کرنے سے باز رہیں  ۔امت کے تئیں آپ کتنے عظیم ناصح وخیر خواہ تھے، دسیوں احادیث میں آپ ﷐ نے غلو سے منع فرمایا ہے،ان میں سے ایک عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث بھی  ہے،وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷐ سے یہ  فرماتے  ہوئے سنا: "تم لوگ مجھے حددرجہ مت بڑھاؤ جس طرح نصاری نے ابن مریم کو بڑھا دیا،میں بندہ ہوں،اس لئے تم لوگ مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہو"[4] ،اطراء کہتے ہیں:  تعریف میں حد  سےتجاوز کرنے کو[5]۔

اللہ  مجھے  اور آپ  کو  قرآن عظیم  کی برکت سے فیض یاب کرے،مجھے اور آپ کو  اس کی آیات اور حکمت پر مبنی نصیحت سے فائدہ پہنچائے‘ میں اپنی یہ بات کہتے ہوئے اللہ سے اپنے لئے اور آپ کے لئے بخشش کا طلب گار ہوں، آپ بھی اس سے بخشش طلب کریں،یقینا وہ توبہ واستغفار کرنے والے کو خوب بخشنے والا ہے۔


 

دوسرا خطبہ:

الحمد لله وكفى، وسلام على عباده الذين اصطفى.

حمد وصلاۃ کے بعد:

آپ جان رکھیں-اللہ آپ پر رحم فرمائے –کہ نبی ﷐ کی شان میں  غلو کرنے کی دو قسمیں ہیں‘ ایک قسم دین اسلام سے خارج کردیتی ہے اور دوسری قسم اس سے ادنی درجے کی ہے۔

·       دین سے خارج کرنے والے غلو کی مثال: آپ کے لئے کوئی عبادت انجام دینا‘ جیسے آپ کو پکارنا‘ یا ربوبیت کی کوئی خصلت آپ کی طرف منسوب کرنا جیسے بارش نازل کرنے ‘   رزق بہم پہنچانے اور علم غیب رکھنے کی نسبت آپ کی طرف کی جائے‘ یہ سب باطل ‘ کفریہ اعمال اور آپ  ﷐کی شان میں غلو آمیزی کے مظاہر ہیں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: (قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ )

ترجمہ: آپ فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لیے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا، مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا ہو اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سے منافع حاصل کر لیتا اور کوئی نقصان مجھ کو نہ پہنچتا۔

·       رہا  وہ غلو جو دین اسلام سے خارج نہیں کرتا ہے  اور اس کا شمار بدعت غیر مکفرہ میں ہوتا ہے ‘ توغلو کی یہ قسم بھی پہلی قسم کی طرف لے جاتی ہے‘ اس کی مثال : آپ ﷐ کے جاہ کی قسم کھانا‘ یا آپ کی ذات کا وسیلہ پکڑنا‘ یا آپ کی ولادت کا جشن منانا‘ یا یہ عقیدہ رکھنا کہ آپ ﷐ کو اللہ نے نور سے پیدا فرمایا ہے‘ یا یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالی نے دنیا کو محض آپ کی خاطر ہی وجود میں لایا‘ آپ کی قبر  (کی طرف) رخت سفر باندھنا‘  اس عمل میں بہت سے لوگ  ملوث  ہیں‘  اسے نیکی سمجھ کر انجام دیتے ہیں‘ جب کہ یہ بدعت ہے ‘ کیوں کہ یہ ایسے عمل کے ذریعے تقرب حاصل کرنا ہے جس کا شریعت نے حکم نہیں دیا ہے ‘ بلکہ اس سے منع فرمایا ہے‘ نبی ﷐ کا ارشاد گرامی ہے: "تین مساجد: مسجد الحرام، مسجد الاقصیٰ اور میری اس مسجد (یعنی مسجد نبوی)کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف (ثواب کی نیت سے) سفر نہ کیا جائے"[6]۔

اس حدیث میں آپ ﷐ نے رہنمائی فرمائی ہے کہ  دل میں مسجد نبوی کی طرف سفر  کرنے کا ارادہ ہونا چاہئے نہ کہ قبر نبوی کی طرف‘  جس نے اپنے دل  میں  قبر نبوی کی طرف رخت سفر باندھنے کی نیت رکھی تو اس نے ایسے عمل کے ذریعہ تقرب حاصل کی جس پر شریعت نے آمادہ نہیں کیا ہے‘ بلکہ یہ عمل اسی پر لوٹا دیا جائے گا‘ قبو ل نہ کیاجائے گا‘ نبی ﷐ کا ارشاد گرامی ہے:" جو شخص ایسا کام کرے جس کا حکم ہم نے نہیں دیا تو وہ مردود ہے"‘ نیز آپ نے فرمایا: "اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے"‘ یعنی: اعمال کی قبولیت کا دار ومدار نیتوں پر ہے‘ اگر بندہ مسلم مسجد نبوی میں داخل ہو اور نماز ادا کرے تو اس کا یہ ارادہ پورا ہوجائے گا‘ اس کے بعد یہ درست ہوگا کہ وہ قبر نبوی کی زیارت کرے ‘ نبی ﷐ اور آپ کے صحابہ (ابوبکر وعمر) پر سلام بھیجے‘ اس کے لئے یہ بھی درست ہوگا کہ وہ مسجد قبا جائے اور اس میں دو رکعت نفل ادا کرے‘ جیسا کہ نبی ﷐ کیا کرتے تھے‘ اسے یہ بھی اجازت ہوگی کہ وہ مقبرہ  بقیع کی زیارت  کرے اور اس میں مدفون لوگوں پر سلام بھیجے‘ اسی طرح شہدا ء احد  اور دیگر قبرستانوں کی  زیارت کرنے کا  بھی وہ مجاز ہوگا تاکہ عبرت ونصیحت حاصل کرے اور ان میں مدفون لوگوں پر سلام بھیجے۔

·       اے مسلمانو! نبی ﷐ کی تعظیم کے تعلق سے لوگوں کی تین قسمیں ہیں:

پہلی قسم:  وہ شدت پسند اور بے راہ لوگ جو آپ ﷐ کی حق تلفی کرتے ہیں اور آپ سے محبت ودوستی ‘ آپ کی اطاعت  او رتعظیم وتوقیر کا جو واجبی حق ہے‘ اسے نہیں ادا کرتے‘ ان کی دو قسمیں ہیں:

پہلی: وہ گناہ گار اور غافل لوگ جو  آپ کی اطاعت سے منہ پھیرے رہتے ہیں۔

دوسری: وہ غالی قسم کے بدعتی جو نبی ﷐ کی تعظیم  میں   غلط طریقوں پر چلتے ہیں‘ جیسے غلو پسند روافض جو  اپنے معصوم  اماموں- بزغم خویش – کو نبی ﷐ کو فضیلت دیتے ہیں‘ اسی طرح صوفیہ کا باطنی فرقہ  جو اولیاء اور اقطاب کو نبی ﷐ پر فوقیت دیتا ہے۔

دوسری قسم: غلو کرنے والے لوگ‘ یہ پہلی قسم کے بر عکس ہیں‘ یہ لوگ آپ کو اس مقام سے  بھی بڑھا دیتے  ہیں جس پر اللہ تعالی نے آپ کو فائز کیا ہے‘  چنانچہ آپ کے لئے ایسے افعال انجام دیتے ہیں جو خالص اللہ کا حق ہے جیسے دعا ومناجات‘ نذ ر ونیاز اور ذبح کرنا وغیرہ ‘ یا آپ کو ایسی صفات سے متصف کرتے ہیں جو خاص اللہ کی صفتیں ہیں‘ جیسے علم غیب وغیرہ‘ غلو کی یہ قسم قبر پرستوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔

تیسری قسم: حق پرستوں کی ہے‘ جو درمیانی رویے کے حامل ہوتے ہیں‘ یہ آپ ﷐ سے محبت وولایت کا رشتہ رکھتے ہیں‘ آپ کے شرعی حقوق کو ادا کرتے ہیں‘ آپ کی شان میں غلو آمیزی سے دور رہتے ہیں‘ اللہ ہمیں ان میں شامل فرمائے اور ان کے راستے پر ثابت قدم رکھے۔

·       نیز یہ بھی جان رکھیں-اللہ آ پ پر رحم فرمائے- کہ اللہ پاک وبرتر نے آپ کو ایک بڑی چیز کاحکم دیا ہے ‘ چنانچہ اللہ تعالی  فرماتا ہے: (إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا)

ترجمہ:اللہ تعالی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں،اے ایمان والو!تم(بھی)ان پر درود بھیجو اور خوب سلام(بھی)بھیجتے رہا کرو۔

اے اللہ!  تو اپنے بندے اور رسول محمد پر رحمت و سلامتی بھیج،تو  ان کے  خلفائے کرام ،تابعین عظام اور قیامت تک اخلاص کے ساتھ ان کی  اتباع کرنے والوں سے راضی ہوجا۔

اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت وسربلندی عطا فرما،شرک اور مشرکین کو ذلیل وخوار کر،تواپنے اور دین اسلام کے دشمنوں کو نیست ونابود کردے،اور اپنے موحد بندوں کی مدد فرما،اے اللہ! تو ہمیں اپنے ملکوں میں سلامتی عطا کر،ہمارے اماموں اور ہمارے حاکموں کی اصلاح فرما،انہیں ہدایت کی رہنمائی کرنےوالا اور ہدایت پر چلنے والا بنا، اے اللہ!  جو ہمارے تئیں‘اسلام اور مسلمانوں کے تئیں برائی  کا ارادہ رکھے تواسے اپنی ذات میں مشغول کردے،اور اس کے مکر وفریب کو اس کےلئے وبال جان بنا۔

اے اللہ !مہنگائی‘   وباء،سود،زنا،زلزلوں اور آزمائشوں کو ہم سے دور کردے اور ظاہری وباطنی فتنوں کی برائیوں کو ہمارے درمیان سے اٹھا لے،خصوصی طور پر ہمارے ملک سے اور عمومی طور تمام مسلمانوں کے ملکوں سے ،اے دونوں جہاں کے پالنہار! اے اللہ ہم سے بلا  کو دور فرما،یقینا ہم مسلمان ہیں۔

اے اللہ ! ہم سے وبا کو دور فرمادے‘ ہم مسلمان ہیں ‘اے ہمارے رب! ہمیں دنیا  میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما،اور عذاب جہنم سے نجات بخش۔

سبحان ربك رب العزة عما يصفون وسلام على المرسلين والحمد لله رب العالمين

از قلم:  ماجد بن سلیمان الرسی

۱۶ جمادی الآخر ۱۴۴۲ھ

شہر جبیل-مملکت سعودی عرب

00966505906761

ترجمہ: Ghiras4Translation@gmail.com

@Ghiras_4T



[1] دیکھیں: "أعلام السنۃ المنشورۃ لاعتقاد الطائفۃ الناجیۃ المنصورۃ"‘ تالیف: شیخ حافظ الحکمی‘ ص: ۳۹‘ ناشر: دار المؤید-ریاض

[2]  اسے بخاری (۱۲۸) نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

[3]  دیکھیں: شیخ محمد بن عبد الوھاب رحمہ اللہ کی کتاب: "نواقض الإسلام"

[4]  اسے بخاری(۳۴۴۵) نے روایت کیا ہے۔

[5]  دیکھیں: "النہایۃ فی غریب الحدیث"

[6] اسے بخاری (۱۹۹۵) اور مسلم (۸۲۷) نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

ليست هناك تعليقات: