الاثنين، أبريل 05، 2021

کورونا-بیماری اور علاج

 

موضوع الخطبة: كورونا-الداء والدواء

الخطيب        : فضيلة الشيخ ماجد بن سليمان الرسي/ حفظه الله

لغة الترجمة     : الأردو

المترجم         : سيف الرحمن التيمي

خطبہ کا موضوع:

 کورونا-بیماری او رعلاج

پہلا خطبہ:

إن الحمد الله، نحمده ونستعينه،ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا،من يهده الله فلا مضلَّ له،ومن يُضلل فلا هادي له،وأشهد أن لا إله الإ الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله۔

حمد وصلاة کے بعد:

سب سے بہترین کلام اللہ کا کلام ہے،اور سب سے بہترین طریقہ محمد ﷐ کا طریقہ ہے،سب سے بدترین چیز دین میں ایجاد کردہ بدعتیں ہیں،اور(دین میں)ہر ایجاد کردہ چیز بدعت ہے،اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔

ا أيها الذين آمنوا اتقوا الله حق تقاته ولا تموتن إلا وأنتم  مسلمنون)

(يا أيها الناس اتقوا ربكم الذي خلقكم من نفس واحدة وخلق منها زوجها وبث منهما رجالا كثيرا ونساء واتقوا الله الذي تساءلون به والأرحام إن الله كان عليكم رقيبا)

(يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وقولوا قولا سديدا يصلح لكم أعمالكم ويغفر لكم ذنوبكم ومن يطع الله ورسوله فقد فاز فوزا عظيما)

·       اے مسلمانوں اللہ تعالى  کا تقوی اختیار کرو اور اس سے ڈرتے رہو۔ اس کی اطاعت کرو اور نافرمانی سے بچو اور جان لو کہ  اللہ تعالی اپنے بندوں پر جو بھی خیر وشر‘ خوش حالی وتنگ حالی طاری کرتا ہے‘  وہ حکمت پر مبنی ہوتی ہے ‘ ان حکمتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اطاعت  کو انجام دینے  اور نافرمانی سے گریز کرنے  میں وہ کس قدر صبر سے کام لیتے ہیں‘ اس کی آزمائش‘ نیز اللہ تعالی ان پر  جان ومال اور پھل (اور غذا )  کی  کمی  مقدر کرکے بھی ان کے صبر کو آزماتا ہے‘ اللہ تعالی فرماتا ہے:  (وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ)

ترجمہ: ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

یعنی: ہم مالداری وفقیری‘ عزت وذلت‘ زندگی وموت‘ تندرستی وبیماری  اور وبا وعافیت کے ذریعے تمہیں آزماتے ہیں‘ تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ تم میں کون اچھا عمل  اور  توبہ وانابت کرتا ہے‘ اور   کون گناہوں میں ملوث رہتا ہے  اور اس تقدیر سے اللہ کا کیا مقصد ہے ‘ اس سے غافل رہتا ہے۔

·       اے مومنو! یہ بات مخفی نہیں کہ  موجودہ وقت میں اللہ تعالی نے لوگوں  پر  جو مصیبتیں مقدر کی ہیں‘ ان میں ایک عظیم  مصیبت کورونا کا وبا ہے ‘ یہ ایسا وبا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کی معمولات زندگی معطل ہوگئیں‘ بہت وفاتیں ہوئیں‘ مادی اورانسانی جانوں کاخسارہ ہوا‘ اس لئے صاحب بصیرت مسلمان کو چاہئے کہ اس سے نصیحت و عبرت حاصل کرے‘  کیوں کہ یہ وبا یوں ہی  بے وجہ نہیں واقع ہوا ہے‘ اللہ اس سے بری ہے ‘ بلکہ اللہ نے عظیم حکمت کی وجہ سے اسے مقدر فرمایا ہے‘ جسے اللہ نے قرآن کریم میں بارہا ذکر فرمایا ہے ‘ اور وہ یہ ہے کہ لوگ گناہوں اور نافرمانیوں   میں غرق ہو چکے ہیں‘ اس لئے اللہ نے انہیں دنیا میں ہی نمونہ کے طور پر  ان کے اعمال کا بدلا دکھادیا ‘ تاکہ وہ ان اعمال سے باز آجائیں جن کے سبب ان کی زندگی میں  یہ  بگاڑ  رونما ہورہا ہے‘   تاکہ ان کے حالات درست ہوجائیں اور  وہ سیدھے ڈگر پر آجائیں ‘ اللہ تعالی فرماتا ہے: (ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ)

ترجمہ: خشکی اور تری میں لوگوں کی بداعمالیوں کے  باعث فساد پھیل گیا۔ اس لئے کہ انہیں ان کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ تعالیٰ چکھا دے (بہت) ممکن ہے کہ وه باز آجائیں۔

نیز اللہ تعالی نے فرمایا: (وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ)

ترجمہ: تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وه تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کابدلا ہے، اور وه تو بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے۔

·       معلوم ہوا کہ اس عمومی وبا کی وجہ یہی بے راہ روی اور نافرمانی ہے‘ جب کہ نافرمان انسان بغیر کسی خوف وخطر کے ان مناظر کا مشاہدہ کررہا ہے‘ میڈیا میں بگاڑ عام ہوچکا ہے‘ اس کے اندر  رقص وسرود     فحاشی ‘ دین اور دیندار لوگوں کا مزاق عام ہوگیا ہے ‘ یہاں تک کہ ماہِ رمضان میں بھی اس سے گریز نہیں کیا جاتا ‘   سودی معاملات ایک عام سی بات ہوچکی ہے جسے  برا ئی اور فساد  سے موسوم بھی نہیں کیا جاتا ‘    کاروباری مقامات اور بازاروں میں  بے پردگی و عریانیت اور مردو زن کا اختلاط  اپنے عروج پر ہے‘ خواتین حجاب کے معاملے میں لا پرواہی برتنے لگی ہیں‘ فتنہ انگیز نقابوں کی تو بات ہی نہ کریں‘ جو  زرق برق اور حدد رجہ تنگ ہوتے ہیں‘ نمازوں کے اوقات میں سوئے رہنا‘ مسجدوں سے لا تعلقی رکھنا‘ نماز کے و قت میں خرید وفروخت میں مشغول رہنا ایسے امور ہیں کہ جن پر جتنی بھی بات کی جائے کم ہے‘ تو کیا ان برائیوں کے بعد بھی  اس بلائے عام کا نازل ہونا کوئی تعجب خیز بات ہے؟

·       اللہ کے بندو! اللہ تعالی جن حکمتوں کے پیش نظر بیماریوں اور وباؤں کو مقدر کرتا ہے ‘ ان میں یہ بھی ہے کہ بندے کا دل اللہ سے وابستہ رہے‘ وہ یہ یاد رکھے کہ وہ جس نعمت و مالداری سے محظوظ ہورہا ہے وہ اللہ کی عطا کردہ روزی ہے‘ جسے اللہ تعالی کسی بھی لمحے تبدیل کرسکتا ہے‘ اس کو یاد کرکے بندہ حکم الہی کا پابند رہتا ہے‘ اس کی نافرمانی میں مبتلا ہونے سے گریز کرتا ہے‘ تاکہ اس کی نعمت زائل نہ ہوجائے ‘ کیوں کہ جب نعمتوں پر شکر ادا کیا جاتا ہے تو وہ باقی رہتی ہیں اور جب ان کی ناشکری کی جاتی ہے  تو وہ زائل ہوجاتی ہیں۔

·       بیماریوں اور وباؤں کو مسلط کرنے میں اللہ کی ایک حکمت یہ بھی ہوتی ہے کہ اس کے ذریعے  غافل اور نافرمان بندوں کو یاد دہانی کرائی جاتی ہے‘  تاکہ وہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹیں‘ اپنے خالق سے توبہ وانابت کریں اور یہ جان لیں کہ ان کا ایک پروردگار ہے جو ان کی نگرانی کررہا ہے‘ وہ گناہوں پر گرفت کرتا اور سزا  سے دوچار کرتا ہے‘ اللہ پاک کا فرمان ہے:  (وَبَلَوْنَاهُمْ بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ)

ترجمہ: ہم ان کو خوش حالیوں اور بدحالیوں سے آزماتے رہے کہ شاید باز آجائیں۔

نیز اللہ تعالی نے فرمایا:  (فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُمْ بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا)

ترجمہ: جب ان کو ہماری سزا پہنچی تھی تو انہوں نے عاجزی کیوں نہیں اختیار کی؟

·       اس وبا کے  پیچھے اللہ تعالی کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ  بعض  نافرمان بندوں کی سخت دلی ظاہر ہوگئی جو اس وبا کے زمانے میں بھی گناہوں میں ملوث رہے ‘ شیطان ان کے لئے نافرمانیوں کو مزین کرکے پیش کرتا رہا ‘ یہاں تک کہ وہ یہ گمان کرنے لگے کہ وہ اچھا  کا م کر رہے ہیں ‘  اور کائنات کے بگاڑ   اور مصیبتوں کے واقع ہونے میں ان کے ان اعمال کا کوئی دخل نہیں ہے‘     ان نافرمانیوں اور غفلت کے باوجود  اللہ تعالی بطور آزمائش انہیں  مہلت دیتا اور ان پر نعمتوں کے دروازے کھول دیتا ہے تاکہ وہ  اچانک گرفت میں  آجائیں‘  اللہ تعالی کا فرمان ہے: (سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ)

ترجمہ: ہم انہیں اس طرح آہستہ آہستہ کھینچیں گے کہ انہیں معلوم بھی نہ ہوگا ۔میں انہیں ڈھیل دوں گا،  بے شک میری تدبیر بڑی مضبوط ہے۔

نیز فرمان باری تعالی ہے: (فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُبْلِسُونَ)

ترجمہ: پھر جب انہوں نے اس نصیحت کو جو ان کو کی گئی تھی فراموش کردیا تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے۔ یہاں تک کہ جب ان چیزوں سے جو ان کو دی گئی تھیں خوب خوش ہوگئے تو ہم نے ان کو ناگہاں پکڑ لیا اور وہ اس وقت مایوس ہو کر رہ گئے۔

مزید اللہ تعالی کا ارشاد ہے: (وَلَقَدْ أَخَذْنَاهُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ حَتَّى إِذَا فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا ذَا عَذَابٍ شَدِيدٍ إِذَا هُمْ فِيهِ مُبْلِسُونَ)

ترجمہ: ہم نے انہیں عذاب میں بھی پکڑا تاہم یہ لوگ نہ تو اپنے پروردگار کے سامنے جھکے اور نہ ہی عاجزی اختیار کی یہاں تک کہ جب ہم نے ان پر سخت عذاب کا دروازه کھول دیا تو اسی وقت فوراً مایوس ہوگئے۔

یعنی : وہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہوگئے۔

·       بیماریوں او روباؤں کو مقدر کرنے میں اللہ کی ایک حکمت یہ بھی پوشیدہ ہے کہ ان پر صبر اور احتساب  اجر  کرنے والوں  اور (تقدیر الہی) پر اپنی رضا مندی ظاہرکرنے  او رجزع فزع سے دور رہنے والوں کے لئے ثواب مرتب ہوتے ہیں‘ نبی  ﷐ کی حدیث ہے: " مومن کا بھی عجب حال ہے ۔اس کا ثواب  کسی بھی صورت میں رائیگاں نہیں ہوتا۔ یہ بات مومن کے سوا  کسی کو حاصل نہیں ہے۔ اگر اس کو خوشی حاصل ہوتی ہے  تو وہ شکر کرتا ہے اس میں بھی ثواب ہے اور جب اس کو نقصان پہنچتا ہے  تو صبر کرتا ہے اس میں بھی ثواب ہے[1]

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷐ نے فرمایا: " مومن مرد اور مومن عورت کی جان، اولاد، اور مال میں آزمائشیں آتی رہتی ہیں یہاں تک کہ جب وہ مرنے کے بعد اللہ سے ملاقات کرتے ہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہوتا"[2]۔

·       اس وبا میں اللہ تعالی کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ  اس چھوٹے سے وبا کے  مقابلے میں انسان کی کمزوری وعاجزی  ظاہر ہوچکی ہے‘ چنانچہ یہ قومیں جو عروج وترقی‘ تہذیب وتمدن‘ ٹکنالوجی‘ ایجادات اور نت نئی تحقیقات میں ایک عظیم مقام پر فائز ہیں‘وہ اس چھوٹے سے وبا کےسامنے حیران وششدر اپنی عاجزی کا مظاہرہ کرتی رہیں‘ کتنے ایسے ممالک ہیں کہ جنہوں نے دعوی کیا کہ: (ہم سے زیادہ طاقتور او رزور آور کون ہے) لیکن اس وبا کے سامنے اس کا زور پسپا ہوتا نظر آیا‘ دوسروں  سے لا پرواہ ہوکر خود اپنے میں مشغول ہوکر رہ گئے‘   اللہ نے سچ فرمایا: (وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا تُصِيبُهُمْ بِمَا صَنَعُوا قَارِعَةٌ أَوْ تَحُلُّ قَرِيبًا مِنْ دَارِهِمْ حَتَّى يَأْتِيَ وَعْدُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ)

ترجمہ: کفار کو تو ان کے کفر کے بدلے ہمیشہ ہی کوئی نہ کوئی سخت سزا پہنچتی رہے گی یا ان کے مکانوں کے قریب نازل ہوتی رہے گی تاوقتیکہ وعدہٴ الٰہی آپہنچے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ وعده خلافی نہیں کرتا۔

نیز فرمان باری تعالی ہے: (فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنْبِهِ فَمِنْهُمْ مَنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَمِنْهُمْ مَنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُمْ مَنْ أَغْرَقْنَا وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ)

ترجمہ : پھر تو ہر ایک کو ہم نے اس کے گناه کے وبال میں گرفتار کر لیا، ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کا مینہ برسایا اور ان میں سے بعض کو زور دار سخت آواز نے دبوچ لیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے ڈبو دیا، اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بلکہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔

مزید اللہ تعالی فرماتاہے:  (وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ بَطِرَتْ مَعِيشَتَهَا)

ترجمہ: ہم نے بہت سی وه بستیاں تباه کر دیں جو اپنی عیش و عشرت میں اترانے لگی تھیں۔

·       اے مسلمانو! تعجب کی بات ہے کہ کچھ لوگ امت کو لاحق ہونے والے اس وبا کو محض مادی اسباب کی طرف منسوب کرتے ہیں‘  جیسے اینٹی بائیوٹکس لینے یا وبا کو اس کی جائے وقوع میں ہی محصور رکھنے  میں کوتاہی کرنا‘ اور اس طرح کے وہ اسباب جنہیں وہ لوگ دہراتے رہتے ہیں جو تقدیر پر ایمان نہیں رکھتے‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک ناقص مادیاتی نظریہ ہے اور علم اور ایمان کی کمی پر دلالت کرتا ہے‘ کیوں کہ اللہ تعالی نے ہی اس وبا کو  مقدر کیا اور صرف اسی کے ہاتھ میں اس کو دور کرنا بھی ہے‘ کیاانہوں نے اللہ تعالی کے اس فرمان کو نہیں سنا: (أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَى أَنْ يَأْتِيَهُمْ بَأْسُنَا بَيَاتًا وَهُمْ نَائِمُونَ َأَوَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَى أَنْ يَأْتِيَهُمْ بَأْسُنَا ضُحًى وَهُمْ يَلْعَبُونَ أَفَأَمِنُوا مَكْرَ اللَّهِ فَلَا يَأْمَنُ مَكْرَ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ)

ترجمہ: کیا پھر بھی ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہوگئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب شب کے وقت آپڑے جس وقت وه سوتے ہوں اور کیا ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بےفکر ہوگئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے آپڑے جس وقت کہ وه اپنے کھیلوں میں مشغول ہوں ۔کیا وه اللہ کی اس پکڑ سے بےفکر ہوگئے۔ اللہ کی پکڑ سے بجز ان کے جن کی شامت ہی آگئی ہو اور کوئی بےفکر نہیں ہوتا۔

نیز اللہ تعالی نے فرمایا: (قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ انْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ)

ترجمہ: آپ کہئے کہ اس پر بھی وہی قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے بھیج دے یا تمہارے پاؤں تلے سے یا کہ تم کو گروه گروه کرکے سب کو بھڑا دے اور تمہارے ایک کو دوسرے کی لڑائی چکھا دے۔ آپ دیکھیے تو سہی ہم کس طرح دئل مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں شاید وه سمجھ جائیں۔

·       اس وبا میں اللہ تعالی کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ جن  لوگوں کو اللہ تعالی نے مسلم حکمرانوں کی اطاعت کرنے ‘ یکجہتی برقرار رکھنے‘ صفیں متحد رکھنے اور  حاکم اور رعیہ کے درمیان محبت برقرار رکھنے کے سبب (اس وباسے) محفو ظ رکھا ‘جیسے گھروں کو لازم پکڑنا‘ گھومنے پھرنے سے با ز رہنا‘ احتیاطی اسباب اور حفاظتی تدابیر اور صحت سے متعلق رہنمائیوں پر عمل کرنا تاکہ اس وبا کے شکار نہ ہوں۔(ان اسباب کی وجہ سے  حاصل ہونے والی  ) عافیت وسلامتی میں  جو عظیم مصلحت تھی وہ ظاہر ہوئی۔

·       اللہ کے بندو! اللہ کو یاد رکھو  اور اس کا تقوی اختیار کرو‘ خلوت وجلوت میں اس کی نگرانی کو ذہن نشیں رکھو‘  کسی بھی صورت میں اس سے غافل مت ہو‘  ا س کی نافرمانی میں ملوث نہ رہو‘ اللہ تعالی فرماتا ہے: (وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ)

ترجمہ: جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے دلوں کی باتوں کا بھی علم ہے، تم اس سے خوف کھاتے رہا کرو ۔

جس ذات نے ہمارے ارد گرد کے لوگوں کے لئے اس وبا کا شکا رہونا مقدر کیا ‘ وہ اس بات پر قادر ہے کہ ہمیں بھی اس کی زد میں لے لے‘  لس لئے تمام گناہوں سے صدق دل کے ساتھ توبہ کریں‘ توبہ ہی اس وبائے عام سے نکلنے کی کنجی ہے‘ جیسا کہ عام الرمادۃ (سنہ ۱۸ھ) میں جب  لوگ قحط سالی کا شکار ہوئے  تو عمر رضی اللہ عنہ نے کیا ‘ وہ  لوگوں کے ساتھ نماز استسقاء کے لئے نکلے اور دعا کی : (اللهم ما نزل البلاء إلا بذنب، ولم يكشف إلا بتوبة، وهذه أيدينا إليك بالذنوب، ونواصينا إليك بالتوبة)

ترجمہ: اے اللہ ! گناہ کی وجہ سے ہی مصیبت نازل ہوتی ہے‘ توبہ سے ہی وہ دور ہوتی ہے ‘ ہم گناہوں کا  اعتراف کرتے ہوئے تیرے دربار میں اپنے ہاتھ اٹھائے ہوئے ہیں او رہماری پیشانیاں توبہ کےساتھ تیرے در پر جھکی ہوئی ہیں۔

·       اللہ تعالی  مجھے  اور آپ سب  کو  قرآن عظیم کی برکت سے مالا مال کرے ‘ مجھے اور آپ کو اس کی آیتوں اور حکمت پر مبنی نصیحت سے نفع پہنچائے ‘ میں اپنی یہ بات کہتے ہوئے اللہ تعالی سے اپنے لئے  اور آپ کے لئے ہر گناہ سے  مغفرت طلب کرتا ہوں‘ آپ بھی اس سے بخشش کی دعا کریں‘ یقینا وہ توبہ کرنے والوں کو خوب معاف کرتا ہے۔

دوسرا خطبہ:

الحمد لله وكفى، وسلام على عباده الذين اصطفى‘ أما بعد:

اے مسلمانو! کورونا وبا اور دیگر آفات وشرور سے بچنے کے سات اہم اسبا ب وذرائع ہیں:

پہلا: اللہ پر توکل‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ آفات وشرور سے بچنے کے جو حسی اسباب ہیں‘ ان کو اختیار کرنے کے ساتھ دل سے اللہ پر اعتماد وبھروسہ کیا جائے ‘ اللہ تعالی فرماتا ہے: (وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ)

ترجمہ: جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا۔

دوسرا: یہ معرفت اور یقین رکھنا کہ اس وبا  یا دیگر مصیبتوں کا واقع ہونا اور اس کا شکار ہونا اور اس  سے محفوظ رہنا  سب اللہ تعالی کی تقدیر سے ہوتا ہے‘  اگر انسان تمام حسی اور معنوی اسباب اختیار کرلے ‘او راللہ تعالی نے اس کے لئے یہ مقد رکر رکھا ہو کہ وہ اس کاشکار ہوکر رہے گا تو وہ ضرور اس کا شکار ہوگا‘ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ)

ترجمہ: اگر تم کو اللہ کوئی تکلیف پہنچائے تو بجز اس کے اور کوئی اس کو دور کرنے وا نہیں ہے ۔

تیسرا : کثرت سے عبادت کرنا‘ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ)

ترجمہ: کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں؟

اس آیت کے اندر اللہ نے بندے کے لئے تمام آفت وشر سے  اپنی کفایت کو  اس کی صفت عبودیت سے مربوط کیا ہے‘ چنانچہ جو شخص کثرت سے عبادت کرے گا اسے   آفت وشر سے اسی قدر اللہ کی کفایت حاصل ہوگی۔

چوتھا: آفت وشر سے اللہ کی کفایت حاصل کرنے کا ایک سبب یہ ہے کہ صدق دل سے اس پر توکل کیا جائے  اس کا مطلب یہ ہے کہ  آفت وشر سے بچنے کے لئے حسی اسباب اختیار کرنے کے ساتھ دل سے اللہ پر اعتماد اور بھروسہ کیاجائے ‘ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ)

ترجمہ: جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا۔

پانچواں: آفت وشر سے اللہ کی کفایت حاصل کرنے کا ایک سبب یہ ہے کہ کثرت سے نبی ﷐ پر درود بھیجا جائے ‘ اس کی دلیل یہ ہے کہ کعب رضی اللہ عنہ نے نبی ﷐ سے عرض کیا کہ وہ کثرت سے آپ پر درود بھیجیں گے یہاں تک کہ ان کی اکثر دعا درود سے ہی عبارت ہوگی تو آپ نے فرمایا: "اب یہ درود تمہارے سب غموں کے لیے کافی ہو گا اور اس سے تمہارے گناہ بخش دیئے جائیں گے"[3]۔

چھٹا: آفت وشر سے اللہ کی کفایت وحفاظت حاصل کرنے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ  چاشت کے وقت چار رکعت نماز ادا کی جائے ‘  ہر دو رکعت پر سلام پھیرا جائے‘ ا س کی دلیل حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے: " اے ابن آدم! تو دن کے شروع میں میری رضا کے لیے چار رکعتیں پڑھا کر، میں پورے دن تمہارے لیے کافی ہوں گا"([4]) ۔

(میں پورے دن تمہارے لیے کافی ہوں گا) کا مطلب یہ ہے کہ  پورے دن جو آفتیں اور نقصاندہ حوادث رونماہوتے ہیں‘ ان سے تمہیں محفوظ رکھوں گا۔

ساتواں: آفت وشر سے اللہ کی کفایت حاصل کرنے ایک سبب یہ بھی ہے کہ  صبح وشام کے اذکار  کی پابندی کی جائے‘ جن میں چند اذکار درج ذیل ہیں:

·       سورہ اخلاص اور معوذتین صبح اور شام تین تین دفعہ پڑھنا‘ اس کی دلیل نبی ﷐ کی یہ حدیث ہے جو آپ نے عبد اللہ بن خبیب بن عدی رضی اللہ عنہ سے عرض کیا  کہ : «قل هو الله أحد» اور «المعوذتين» ،(  «قل أعوذ برب الفلق»، «قل أعوذ برب الناس») صبح و شام تین مرتبہ پڑھ لیا کرو، یہ (سورتیں) تمہیں ہر شر سے بچائیں گی اور محفوظ رکھیں گی([5])۔

·       عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷐ صبح و شام ان دعاؤں کو نہیں چھوڑتے تھے: «اللهم إني أسألك العفو والعافية في الدنيا والآخرة اللهم إني أسألك العفو والعافية في ديني ودنياي وأهلي ومالي اللهم استر عوراتي وآمن روعاتي واحفظني من بين يدي ومن خلفي وعن يميني وعن شمالي ومن فوقي وأعوذ بك أن أغتال من تحتي» ”اے اللہ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں عفو اور عافیت کا طالب ہوں، اے اللہ! میں تجھ سے اپنے دین و دنیا اور اپنے اہل و مال میں معافی اور عافیت کا طالب ہوں، اے اللہ! میرے عیوب چھپا دے، میرے دل کو مامون کر دے، اور میرے آگے پیچھے، دائیں بائیں، اور اوپر سے میری حفاظت فرما، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں نیچے سے ہلاک کئے جانے سے“([6])۔

·       شام کے وقت پڑھی جانے والی دعاؤں میں یہ بھی ہے کہ  شام ڈھلتے ہی سورہ بقرۃ کی آخری دو آیتیں پڑھی جائیں‘ کیوں کہ آپ ﷐ کی حدیث ہے: "سورۃ البقرة کی آخر کی دو آیتیں جو رات میں پڑھے گا، تو وہ دونوں آیتیں اس کو کافی ہوں گی"([7])

·       جو دعائیں بندہ مسلم کو گھر سے نکلے کے بعد (باذن اللہ)  محفوظ رکھتی ہیں‘  ان میں گھر سے نکلنے کی دعا بھی ہے‘ انس رضی اللہ عنہ سے مروی کہ رسول اللہ            ﷐ نے فرمایا: " جب آدمی -اپنے گھر سے- نکلے پھر کہے «بسم الله توكلت على الله لا حول ولا قوة إلا بالله» ”اللہ کے نام سے نکل رہا ہوں، میرا پورا پورا توکل اللہ ہی پر ہے، تمام طاقت و قوت اللہ ہی کی طرف سے ہے“ تو آپ نے فرمایا: اس وقت کہا جاتا ہے (یعنی فرشتے کہتے ہیں): اب تجھے ہدایت دے دی گئی، تیری طرف سے کفایت کر دی گئی، اور تو بچا لیا گیا، (یہ سن کر) شیطان اس سے جدا ہو جاتا ہے، تو اس سے دوسرا شیطان کہتا ہے: تیرے ہاتھ سے آدمی کیسے نکل گیا کہ اسے ہدایت دے دی گئی، اس کی جانب سے کفایت کر دی گئی اور وہ (تیری گرفت اور تیرے چنگل سے) بچا لیا گیا؟"([8])۔

·       ان اذکار میں یہ بھی ہے کہ ہمیشہ اللہ سے عافیت وسلامتی طلب کی جائے‘ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷐ نے فرمایا: "اللہ سے (گناہوں سے) عفو و درگزر اور (مصیبتوں اور گمراہیوں سے)  عافیت طلب کرو کیونکہ ایمان و یقین کے بعد کسی بندے کو عافیت سے بہتر کوئی چیز نہیں دی گئی"([9])۔

نبی ﷐ دعائے قنوت میں یہ بھی پڑھا کرتے تھے: "وعافني فيمن عافيت"([10])  یعنی: عافیت دے ان لوگوں میں شامل کر کے جنہیں تو نے عافیت دی ہے۔

نیز آپ ﷐ یہ بھی دعا کیا کرتے تھے کہ: «اللهم إني أعوذ بك من زوال نعمتك، وتحول عافيتك، وفجاءة نقمتك، وجميع سخطك»([11])  یعنی: اے اللہ! میں تیری نعمت کے زوال سے، تیری دی ہوئی عافیت کے پلٹ جانے سے، تیرے ناگہانی عذاب سے اور تیرے ہر قسم کے غصے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔

·       بیماریوں سے پناہ مانگنے کے سلسلے میں جو اذکار وارد ہیں‘ ان میں انس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث بھی ہے کہ نبی ﷐ یہ دعا کیا کرتے تھے: «اللهم إني أعوذ بك من البرص، والجنون، والجذام، ومن سيئ الأسقام» ([12])یعنی: ”اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں برص، دیوانگی، کوڑھ اور تمام بری بیماریوں سے“۔

·       آفت وشر سے کفایت وحفاظت سے متعلق جو اذکار او راحادیث وارد ہوئی ہیں ‘ وہ بہت زیادہ ہیں‘ جو دعاکی کتابوں میں مذکور ہیں‘ مثلا ابن تیمیہ کی کتاب  "الکلم الطیب" ‘ نووی کی کتاب  "الأذکار" اور  قحطانی کی کتاب   "الحصن المسلم" وغیرہ۔

سبحان خالق كورونا ومرسِله                   على العباد يريهم كيف هم ضعفا

فيروس ليس يرى بالعين من صغر              لكن بأكثر سكان الدنا عصفا

كم اقتصاد هوى من بعد رفعته                وكم حراك على ذي الأرض قد وقفا

وعطل الناس عن سعي وعن سفر              رهن البيوت كفُص لازم الصدفا

(أن لا مساس) شعار الناس من قلق           كل يحاذر من لمس له تلفا

كم أمة أصبحت في عيشها شظفا             كانت تبختر في نعمائها ترفا

حتى الحبيبان عن بعد سلامهما                مثل الشحيح زوى الكفين والكتفا

سبحان خالق كورونا ومرسله                   مخوِّفا خلقه من بأسه أسفا

لعلهم أن يفيقوا بعد غفلتهم                   ويخلعوا الكبر والطغيان والأنفا

لعلهم أن يحسوا نعمة كفرت                   كم من نعيم نُسِي من طول ما ألفا

لعلنا أن نرى حلم الكريم بنا                   فلو يشاء بنا في لحظة خسفا

يا رب عجل بيسر بعد ما عسرت   وافرج علينا فشهر الصوم قد أزفا([13])

ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جس نے کورونا کو پیدا کیا اور بندوں کے پاس بھیجا تاکہ انہیں دکھا سکے کہ وہ کتنے کمزور ہیں۔ایک  ایسا  وائرس  جو اتنا چھوٹا ہے کہ  آنکھوں سے دیکھا بھی نہیں جا سکتا ‘ پھر بھی اس نے دنیا  کے اکثر وبیشتر  باشندوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔کتنے ہی ایسے اقتصاد ہیں جو بڑھنے کے بعد گھٹ گئے ‘ روئے زمین کی کتنی ہی ایسی سرگرمیاں  ہیں جو ٹھہر گئیں۔لوگوں کی دوڑ بھاگ او رسفر کو معطل کردیا ‘ وہ گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے جس طرح موتی اپنے سیپ میں محصور ہوتا ہے۔ خوف وہراس سے لوگوں کا شعار یہ بن گیا کہ (کوئی کسی کو نہ چھوئے)   ‘ ہر کسی کو یہ ڈر لگا ہوا ہے کہ چھونے سے کہیں اسے نقصان نہ لاحق ہوجائے۔کتنی ہی ایسی قومیں ہیں جن کی زندگی تنگ اور دشوار ہوگئی‘ جب کہ وہ ناز ونعم میں کبر وغرور اور عیش وطرب کی زندگی جی رہی تھیں۔یہاں تک دو محبوب بھی دور سے ہی ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں‘ اس  بخیل کی طرح جو  اپنی ہتھیلیوں اور بازوؤں کو  (خرچ کرنے کے ڈر سے ) سمیٹ کر رکھتا ہے۔پاک ہے وہ ذات جس نے کورونا کو پید اکیا اور اسے بندوں کے پاس بھیجا ‘ تاکہ وہ مخلوق کو اپنی پکڑ اور غصہ سے ڈرا سکے ۔شاید کہ وہ غفلت کے بعد ہوش کے ناخن لیں او رکبر وغرور‘ سرکشی اور انانیت کی چادر اتار پھینکیں۔شاید کہ وہ اس نعمت کو محسوس کر سکیں جس کی ناشکری کی جاتی رہی ہے‘ کتنی ہی ایسی نعمتیں ہیں جو لمبی مدت تک حاصل رہنے  کی وجہ سے فراموش کر دی گئیں۔امید کہ ہم اپنے تئیں کریم وداتا پروردگار کی بردباری کا مظہر دیکھیں‘  اگر وہ چاہے تو پلک جھپکتے ہی ہمیں زمیں دوز کردے۔اے پروردگار! تنگی کے بعد جلد ہمیں آسانی عطا فرما  اور ہماری پریشانی کو دور کردے کہ ماہ رمضان قریب آچکا ہے۔

·       اے اللہ کے بندو! یہ وبا ہماری جانوں کے لئے خطرناک ہے‘ وہ بہت تیزی سے پھیل رہا ہے‘ جو مومنوں سے یہ تقاضہ کرتا ہے کہ  وہ کثرت سے اللہ کے حضور  گریہ وزاری کے ساتھ  سلامتی کی دعا کریں‘  کیوں کہ زندگی ایک نعمت ہے‘ اللہ نے اپنے بندوں کو ان کی روحوں پر امین بنایا ہے‘ جیسا کہ نبی ﷐ کاارشاد ہے: "یقینا تمہاری جان کا تمہارے اوپر حق ہے"([14])۔

·       نیز یہ بھی جان رکھیں –اللہ آپ پر اپنی رحمت نازل فرمائے - کہ اللہ  تعالی نے آپ کو ایک بڑی چیز کا حکم دیا ہے، فرمان باری تعالی ہے:

(إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا)

ترجمہ: اللہ تعالی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں ۔اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھی بھیجتے رہا کرو۔

 نبی ﷐  کا ارشاد گرامی ہے:" تمہارے سب سے بہتر دنوں میں سے جمعہ کا دن بھی ہے، اسی دن آدم پیدا کئے گئے، اسی دن ان کی روح قبض کی گئی، اسی دن صور پھونکا جائے گا[15]۔اسی دن چیخ ہو گی[16] ۔ اس لیے تم لوگ اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، کیوں کہ  تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے"[17]۔اے اللہ !تو اپنے بندے اور رسول محمد پر رحمت و سلامتی بھیج،تو  ان کے  خلفاء ،تابعین عظام اور قیامت تک اخلاص کے ساتھ ان کی  اتباع کرنے والوں سے راضی ہوجا۔

اے اللہ!  ہر مصیبت گناہ کی وجہ سے نازل ہوتی ہے اور توبہ کے ذریعے ہی دور ہوتی ہے، ہم گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے تیرے دربار میں اپنے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہیں، ہماری پیشانیاں توبہ کے ساتھ تیرے در پر جھکی ہیں،اے اللہ ! ہم سے وبا کو دور فرمادے، ہم مسلمان ہیں ،اے ہمارے رب! ہم سے بلا  کو دور فرما،یقینا ہم مسلمان ہیں۔ اے ہمارے رب! ہم سے بلا  کو دور فرما،یقینا ہم مسلمان ہیں۔اے اللہ! جو مسلمان اس وبا کی وجہ سے فوت پاگئے ہیں‘ ان پر رحم فرما‘ جو بیمار ہیں‘ انہیں اجروثواب اور عافیت وتندرستی سے نواز‘ اے اللہ !ہمیں رمضان نصیب فرما۔اے اللہ ! ہمیں رمضان نصیب فرما۔اے اللہ ! ہمیں رمضان نصیب فرما۔ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا  میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما،اور عذاب جہنم سے نجات بخش۔

·       سبحان ربك رب العزة عما يصفون وسلام على المرسلين والحمد لله رب العالمين

از قلم:

ماجد بن سلیمان الرسی

۱۴ رجب  ۱۴۴۲

شہر جیبل-سعودی عرب

ترجمہ: سیف الرحمن حفظ الرحمن تیمی

binhifzurrahman@gmail.com



[1]  اسے مسلم (۲۹۹) نے روایت کیا ہے۔

[2]  اسے ترمذی(۲۳۹۹) نے روایت کیا ہے اورمذکورہ الفاظ اسی کے روایت کردہ ہیں‘ ترمذی نے کہا: یہ حدیث حسن صحیح ہے‘ نیز اسے احمد (۷۸۵۹) نے بھی روایت کیا ہے‘ دیکھیں: (السلسلۃ الصحیحۃ:۲۲۸۰)۔

[3] اسے ترمذی (۲۴۰۷) نے روایت کیا ہے اور البانی نے حسن کہا ہے۔

 ([4])  اسے ترمذی (۲۴۰۷) نے ابو الدرداء اور ابوذر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔

 ([5])  اسے ابوداود (۵۰۸۲) وغیرہ نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح کہا ہے۔

 ([6])  اسے ابوداود (۵۰۷۴) اور ابن ماجہ (۳۸۷۱) نے روایت کیا ہے اور اسے البانی نے صحیح کہا ہے۔

 ([7])  اسے بخاری (۴۰۰۸) اور مسلم (۸۰۷) نے ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

 ([8])  اسے ابوداود (۵۹۵) نے روایت کیا ہے اور شعیب ارناؤوط نے "التعلیق على سنن أبی داود" میں اسے حسن قرار دیا ہے۔

 ([9])  اسے ابوداود (۳۸۴۹) وغیرہ نے روایت کیا ہے اور شیخ شعیب ارناؤوط نے  "التعلیق على سنن أبی داود" میں اسے حسن قرار دیا ہے۔

 ([10])  اسے احمد (۱/۱۹۹) نے روایت کیا ہے اور المسند کے محققین نے حدیث نمبر (۱۷۱۸) کے تحت اسے صحیح قرار دیا ہے۔

 ([11])  اسے مسلم (۲۷۳۶) نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

 ([12])  اسے احمد (۳/۱۹۲) نے روایت کیا ہے اور المسند کے محققین نے کہا کہ: اس کی سند صحیح مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔

 ([13])  یہ اشعار ڈاکٹر علی بن یحیى الحدّادی کے ہیں‘ اللہ انہیں جزائے خیر سے نوازے۔

 ([14])  اسے احمد (۶/۲۶۸) وغیرہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے اور المسند کے محققین نے حدیث نمبر (۲۶۳۰۸) کے تحت اسے حسن قرار دیا ہے‘ اس کی اصل صحیحین میں ابو جحیفۃ رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کی روایت سے موجود ہے۔

[15]  یعنی صور میں دوسری بار پھونک مارا جائے گا‘ اس سے مراد وہ صور ہے جس میں اسرافیل پھونک ماریں گے‘ یہ وہ فرشتہ ہیں جن کو صور میں پھونک مارنے پر مامور کیا گیا ہے‘ جس کے بعد تمام مخلوق اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔

[16]  یعنی جس سے دنیاوی زندگی کے آخری مرحلے  میں لوگ بے ہوش ہوکر گر پڑیں گےاور سب کے سب مر جائیں گے‘ یہ بے ہوشی اس وقت پیدا ہوگی جب صور میں پہلی بار پھونک مارا جائے گا‘ دو پھونک کے درمیان چالیس سالوں کا فاصلہ ہوگا۔

[17]  اسے نسائی( ۱۳۷۳) ‘ ابو داود (۱۰۴۷) ‘ ابن ماجہ (۱۰۸۵)  اور احمد (۴/۸) نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح ابی داود میں اور المسند کے محققین نے حدیث نمبر: (۱۶۱۶۲) کے تحت اسے صحیح کہا ہے۔

ليست هناك تعليقات: