الثلاثاء، أغسطس 30، 2016

بسم اللہ ارحمن الرحیم

                   اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت


از قلم:ڈاکٹر عبد المحسن بن محمد القاسم/امام وخطیب مسجد نبوی،مدینہ منورہ
ترجمہ:سیف الرحمن حفظ الرحمن تیمی/طالب جامعہ اسلامیہ،مدینہ منورہ

الحمد للہ رب العالمین ،والصلاۃ والسلام علی نبینا محمد، وعلی آلہ وصحبہ أجمعین.
أما بعد:
روئے زمین پر خیر وبھلائی پائے جانے کے اسباب:
اللہ تعالی جن وانس کو اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا،انہیں اپنی فرمانبرداری کا حکم دیا،اور اپنے اطاعت گزار بندوں کے لئے سعادت اور خوش بختی مقرر کردی،اللہ کی طاعت  وبندگی وہ قلعہ ہے کہ جو اس میں داخل ہو گیا وہ مامون ہوگیا، اور جس نے اسے ادا کی اسے نجات مل گئی،عبادت ایک ایسا کار خیر ہے جس میں ذرہ برابر بھی نقصان نہیں،اللہ بلندوبرتر کا فرمان ہے:ماذا علیھم لو آمنوا باللہ والیوم الآخر وأنفقوا مما رزقھم اللہ ‘‘  بھلا ان کا کیا نقصان تھا اگر یہ اللہ تعالی اور قیامت کے دن پر ایمان لاتے  اور اللہ تعالی نے جو انہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے ،اللہ تعالی انہیں خوب جاننے والا ہے۔
زمین میں جتنی بھی بھلائی موجود ہے ،وہ سب اللہ اور رسول اللہ کی فرمانبرداری کا ثمرہ ہے،امام ابن القیم ؒ فرماتے ہیں: جو دنیا کے اندر پائے جانے والے شرور وفتن کے بارے میں غور کرے گا اسے معلوم ہو جائے گا کہ دنیا کی تمام برائیاں اللہ کے رسول کی مخالفت اور آپ کی فرمابرداری سے روگردانی کا نتیجہ ہیں،اور دنیا میں جتنی بھی اچھائیاں ہیں ،وہ سب اللہ کے رسول کی اطاعت  کے طفیل ہیں،اسی طرح انسان کو ذاتی طور پر جو غم،الم اور تکلیف لاحق ہوتی ہے ،اس کی وجہ بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری سے منہ موڑنا ہی ہے۔

سعادت وخوش بختی کے اسباب:
اللہ اپنے بندوں پر رحیم ہے کہ انہیں اپنی بندگی اور طاعت گزاری کا حکم دیا ہے تاکہ انہیں خیر وبھلائی نصیب ہوسکے،اللہ فرماتا ہے:استجیبوا لربکم من قبل أن یأتی یوم لا مرد لہ من اللہ ‘‘کہ اپنے رب کا حکم مان لو اس سے پہلے کہ اللہ کی جانب سے ایسا دن آجائے جس کا ہٹنا نا ممکن ہے ۔ چناچہ مومنوں نے اللہ کی پکار پر لبیک کہا اور کامیاب ہو گئےنما کان قول المؤمنین اٍذا دعوا الی اللہ ورسولہ لیحکم بینھم أن یقولوا سمعنا وأطعنا وأولئک ھم المفلحون"  ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں اس لئے بلا یا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان میں فیصلہ کردے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا،یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔اسی سے ان کے دل زندہ ہیں اور ان کی عظمت بلند ہے، اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے: یا أیھا الذین آمنو استجیبوا للہ وللرسول اذا دعاکم لما یحییکم" اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول کے کہنے کو بجالاؤ،جب کہ رسول تم کو تمہاری زندگی بخش چیزکی طرف بلاتے ہوں۔
اطاعت اور فرمانبرداری کے فوائد:
جس نے اللہ کی تابعداری اور بندگی کی طرف پہل کی ، اللہ اس کی ہدایت اور راست روی میں اور اضافہ کر دیتا ہے: والذین اھتدوا زادھم ہدی وآتاھم تقواھم" جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں اللہ نے انہیں ہدایت میں اور بڑھا دیا ہے اور انہیں ان کی پرہیزگاری عطا فرمائی ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رقم طراز ہیں: آدمی جتنا ہی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانبردار ہوگا،وہ اللہ کا اتنا ہی بڑا موحد اور دین میں اسی قدر مخلص ہوگا ،اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری سے منحرف ہو جائیگا تو اسی کے بہ قدر اس کا دین بھی ناقص وناتما م ہوتا چلا جائیگا۔
جو اللہ اللہ کی سنتے ہیں ، اللہ بھی انکی سنتا ہے،اللہ کا فرمان ہے: ویستجیب الذین آمنوا وعملوا الصالحات ویزیدھم من فضلہ " اللہ تعالی  ایمان والوں اورنیکو کاروں کی سنتا ہے اور انہیں اپنے فضل سے اور بڑھا کر دیتاہے ۔ بلکہ اللہ اپنے  ایسے بندوں سے محبت رکھتا، ان پر رحم فرماتا اور انہیں جنت کا مکیں بناتا ہے، اللہ عز وجل فرماتا ہے:للذین استجابوا لربھم الحسنی " جنہوں نے اللہ کی سنی ،اللہ نے ان کے لئے جنت تیار کر رکھا ہے۔
انبیاء ورسل علیہم السلام اور اللہ کی اطاعت وبندگی :
انبیاء ورسل علیہم السلام نے اللہ کی اطاعت میں سب سے پہلے پہل کی ،اللہ نے اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام سے کہا:أسلم قال أسلمت لرب العالمین" فرمانبردار ہوجا،انہوں نے کہا:میں نے رب العالمین کی فرمانبرداری کی۔ انہیں اپنے لخت جگر کو قربان کردینے کا حکم ہوا تو انہوں نے اپنے فرزند ارجمند کو ذبح کرنے کے لئے پیشانی کے بل لٹا دیا۔بیٹا بھی اسماعیل جیسا کہ جس نے یہ حکم سن کر کہا: یا أبت افعل ما تؤمر ستجدنی ان شاء اللہ من الصابرین اباجو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔
موسی علیہ السلام اپنے رب کو خوش کرنے کے لئے دوڑ پڑے اور کہا : وعجلت الیک رب لترضی" اور میں نے اے رب !تیری طرف جلدی اس لئے کی کہ تو خوش ہوجائے  ۔اللہ نے نبیوں سے یہ عہد وپیمان لیا کہ اگر ان کے درمیان محمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو وہ ان پر ایمان لائیں اور ان کی مدد کریں،تو ان سب نے بیک زبان کہا:أقررنا"  ہمیں اقرار ہے ۔اللہ نے ہمارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ حکم دیا : قم فأنذر” کھڑا ہوجا اور آگاہ کردے ! توآپ نکل پڑے اور لوگوں کو توحید کی دعوت دینی شروع کردی،اللہ نے جب آپ سے کہا: قم اللیل الا قلیلا" رات کے وقت نماز میں کھڑے ہوجائو مگر کم۔ توآپ تہجد کا اس قدر اہتمام کرنے لگے کہ آپ کے پاؤں سوج جاتے تھے۔
رسولوں کے علاوہ دیگر لوگوں کی اطاعت الہی میں سبقت:
عیسی علیہ السلام کے حواریوں  اور مددگاروں نے ان کی دعوت کوسنی اور آپ کی آواز پر لبیک کہا،انہیں عیسی علیہ السلام نے کہا:من أنصاری الی اللہ قال الحواریون نحن أنصار اللہ آمنا باللہ " اللہ تعای کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون کون ہے؟حواریوں نے جواب دیا کہ ہم اللہ تعالی کی راہ میں مددگار ہیں ، ہم اللہ تعالی پر ایمان لائے اور آپ گواہ رہئے کہ ہم تابعدار ہیں۔
جنوں نے آپس میں ایک دوسرے کو اللہ کی پکار سننے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دی اور انہیں اس پر ابھارا: یا قومنا أجیبوا داعی اللہ وآمنوا بہ یغفر لکم من ذنوبکم ویجرکم من عذاب ألیم" ہماری قوم ! اللہ کے بلانے والے کا کہا مانو،اس پر ایمان لاؤ تو اللہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں المناک عذاب سے پناہ دے گا۔
اطاعت الہی کی راہ میں صحابئہ کرام کا جذبئہ مسابقت:
صحابئہ کرام کو جوفضیلت حاصل ہوئی ووہ اس لئے کہ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی،ان میں اخلاص تھااور وہ اللہ ورسول کی تابعداری میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا جذبہ رکھتے تھے ،جس کے سبب وہ اللہ کی نظر میں برتر اور بہتر قرار پائے۔ جب استقبال کعبہ کا حکم نازل ہوا تو ان صحابئہ کرام نے نماز کی حالت میں ہی اپنا رخ بیت المقدس سے کعبہ کی طرف کرلیا،حکم کا سننا تھا کہ اس پر عمل پیرا ہوگئے، اتنی بھی تاخیر انہیں گوارا نہیں ہوئی کہ اگلی نماز تک اسے مؤخر کر دیتے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کی ترغیب دلائی اور وہ اپنے قیمتی سے قیمتی اموال خرچ کرنے لگے؛حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اپنی ملکیت کا نصف حصہ نبی کی خدمت میں لاکر پیش کیا اور حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے اپنا سارا مال آپ کے قدموں میں لاکر ڈال دیا۔جب آپ نے کہا: من جھز لنا جیش العسرۃ،فلہ الجنۃ" کون ہے جو ہمارے لئے جنگ  تبوک کی تیاری کا صرفہ برداشت کرے گا،اللہ اس کو جنت کی سکونت عطا کرے گا۔تو حضرت عثمان نے اس کی تیاری مکمل کرانے کی ذمہ داری قبول کرلی۔بخاری۔
جب قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی کہ :لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون" جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز سے اللہ تعالی کی راہ میں خرچ نہ کروگے ہرگز بھلائی نہ پاؤگے۔ تو حضرت ابوطلحہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:اے اللہ کے رسول! میرا سب سے محبوب مال بیرحاء نامی باغ ہے ، اسے میں اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں‘‘ ۔بخاری
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کم سن صحابہ کرام کو قیام اللیل کی فضیلت کی رہنمائی کی تو وہ سب اللہ کے عبادت گزار بندے بن گئے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہا جبکہ وہ ابھی چھوٹے ہی  تھے کہ : وہ اللہ کے نزدیک بڑا پیارا بندہ ہے،کاش کہ وہ تہجد کا بھی اہتمام کرتا!" آپ کی یہ حدیث سننے کے بعد راتوں کو وہ بہت کم ہی سویا کرتے تھے۔متفق علیہ 
اللہ کے لئے صحابئہ کرام نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا:
طاعتِ الہی میں انہوں نے اپنی جانیں ہتھیلی میں ڈال کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوگئے،غزوئہ بدر میں مقداد ابن الأسود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے جبکہ آپ مشرکین پر بددعا فر ما رہے تھے، اور کہا: ہم وہ نہیں کہتے جو موسی کی قوم نے ان سے کہا تھاکہ : جاؤ اور اپنے رب کے ساتھ مل کرقتال کرو،بلکہ ہم آپ کے دائیں،بائیں،آگے،پیچھے ہرطرف سے قتال کرینگے،ابن مسعود کہتے ہیں کہ : میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھا کہ یہ سن کر خوشی سے آپ کا چہرہ دمک اٹھا۔بخاری
حکم سنتے ہی غیر اللہ کی قسم سے توبہ کرلیا:
صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری میں اس قدر پہل اور سبقت کرتے کہ جوں ہی انہیں خبر لگتی کہ آپ نے فلاں بات یا اس طرح کے کام سے منع فرمایا ہے،توبنا کسی تامل کے فوارا اس سے باز آجاتے،زمانئہ جاہلیت میں آباء واجداد کی قسمیں کھانا ان کی عادت تھی ، لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہوا:اللہ تمہیں باپ دادوں کی قسم کھانے سے منع فرماتا ہے توانہوں نے غیر اللہ کی قسمیں کھانا یکسر ترک کردیا،یہاں تک کہ عمر رضی اللہ نے کہا: اللہ کی قسم میں نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی تب سے کبھی بھی غیر اللہ کی قسم نہیں کھایا ،نہ خود اپنی زبان سے اور نہ کسی کی بات نقل کرتے ہوئے۔مسلم
بھوک کی شدت کے باوجود کھانے سے باز رہے:
ایک موقع سے صحابہ کو بہت بھوک لگی تھی،انہوں نے کھانا بنا یااور بھوک کی شدت کے باوجود صرف اس لئے کھانے سے باز رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا،یہ خیبر کاواقعہ ہے جب گھریلو گدہے مباح تھے ،اسی وجہ سے صحابہ نے اس کا گوشت پکایا،لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے یہ ندا لگائی کہ :اللہ اور رسول تمہیں گدھوں کے گوشت سے منع فرماتا ہے کیونکہ یہ ناپاک ہیں اور اسے کھانا شیطانی عمل ہے‘‘ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :یہ سننا تھا کہ ہانڈیاں گوشت سمیت انڈیل دی گئیں،جبکہ وہ گوشت سے بھری پُری تھیں۔متفق علیہ
شراب کی حرمت نازل ہوتے ہی اسے ترک کردیا:
اسلام کے شروع زمانے تک شراب مباح تھی،لیکن جیسے ہی کسی راہ گزرتے شخص سے انہوں نے اس کی حرمت کی خبر سنی تو اسے بہا ڈالا،حضرت ابوالنعمان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:میں ابو طلحہ کے گھر میں شراب پلا رہا تھا کہ اس کی حرمت نازل ہوئی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک منادی کو ندا لگانے کا حکم دیا،آواز سن کر ابو طلحہ نے کہا: باہر دیکھو کون ہے،یہ آواز کیسی ہے،کہتے ہیں کہ : میں نکلا تو دیکھا کہ منادی ندا لگا رہا ہے: خبرادار ! شراب حرام ہوچکی ہے،اور کہا:جاکر شراب بہا ڈالو،راوی کا بیان ہے کہ :پھر تو مدینے کی گلیوں میں شراب بہنے لگی"۔متفق علیہ ،ایک دوسری روایت میں ہے کہ :جب واپس لوٹ کر آئے تو  اس آدمی کے بعد کسی اور سے اس کی بابت دریافت نہیں کیا اور بلا کسی تامل کے شراب انڈیل دیا
بلا کسی سوال کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور اتباع:
لباس وپوشاک میں بغیر کسی استفسار کے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کیا کرتے تھے ،حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی جسے آپ پہنا کرتے اور اس کے نگینے کو ہتھیلی کی طرف کر لیتے تھے،لوگوں نے جب یہ دیکھاتو انہوں نے بھی انگوٹھیاں بنوالی ،پھر ایک دن ایسا ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر بیٹھے ہوئے اپنی انگوٹھی اتا رڈالی اور یہ کہتے ہوئے اسی پھینک ڈالا کہ :میں یہ انگوٹھی پہنا کرتا تھا،اور اس کے نگینے کو ہتھیلی کی طرف رکھا کرتا  تھا،اللہ کی قسم میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا۔یہ سن کر صحابہ نے بھی اپنی انگوٹھیاں اتارپھینکی۔متفق علیہ
صغار صحابہ بھی اتباع نبوی میں پیش پیش رہتے تھے:
حضر ت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سنی اسی وقت اپنی و صیت لکھ ڈالی کہ :کوئی بھی مرد مسلم جس کے پاس کوئی ایسی چیز ہوجس کے با رے وہ وصیت کرنا چاہتا ہو،اسے یہ حق نہیں کہ وہ وصیت کی تفصیل لکھے بنا دو رات گزارے۔متفق علیہ ، حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ : جب میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سنی تو اس کے بعد ایک رات بھی نہیں گزری اور یہ وصیت میرے پاس مکتوب شکل میں موجودتھی۔
صحابہ نے اللہ کے لئے اپنی زبانوں کی حفاظت کی:
اللہ کے رسول کی وصیت کے بہ موجب انہوں نے ہرغیر مناسب چیز سے اپنی زبان کی حفاظت کی ،جابر بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:اے اللہ کے رسول!میں دیہات کا رہنے والا ہوں ،اسی وجہ سے میرے اندر دیہاتیوں کی سی سخت مزاجی  ہے، آپ مجھے کچھ وصیت فرمائیں، آپ نے فرمایا: کسی کو گالی نہ دو،صحابی کہتے ہیں کہ:اس کے بعد میں نے کسی کو گالی نہ دی ،حتی کے کسی بکری اور اونٹ کو بھی نہیں"۔
احکام کی بجا آوری :
صحابہ کرام اپنے تمام حرکت وعمل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے احکام کے پابند تھے،خیبر کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں جنگ کا پرچم تھماتے ہوئے فرمایا:آگے بڑھو اور اس وقت تک پیچھے نہ مڑنا جب تک کہ اللہ تیرے ہاتھ پہ مسلمانون کوفتح یاب نہ کردے۔حضرت علی کچھ دور چل کر ٹھہر گئے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت کے بہ موجب آپ سے دور ہوتے ہوئے بھی التفات کرنا گوارہ نہ کیا اور بہ آواز بلند دریافت کیا:یا رسول اللہ !علی ماذا أقاتل الناس؟ کہ اے اللہ کے رسول ! کس چیز پر لوگوں سے قتال کروں؟۔مسلم
منہیات سے اجتناب:
انہوں نے آپ کی منع کردہ ہر چیز کو ترک کردیا اگرچہ اس کے کرنے میں مسلمانوں کی فتح ونصرت کے لئے بہ ظاہر مصلحت ہی کیوں نہ نظر آرہی ہو۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے أحزاب کے دن حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا:جاؤ اس قوم کی خبر لیکر آؤ،لیکن ہاں  انہیں میرے خلاف ورغلا مت دینا ۔یعنی کہ :انہیں اپنے کسی عمل سے خائف نہ کردینا کہ وہ تجھے جان لیں اور ہمارے اوپر چڑھائی کردیں۔جب وہ اس قوم کے پاس آئے تو ان کی نظر ابو سفیان پر پڑی جو مشرکین کا قائد تھا،وہ اپنی پشت سیک رہا تھا،صحابی کہتے ہیں کہ میں نے تیر کمان میں ڈال کر نشانہ سادھ لیا ، لیکن اتنے میں مجھے آپ کی بات یاد آگئی کہ :انہیں بھڑکانا نہیں۔حالانکہ اگر میں تیر آزماتا تو نشانہ نہیں چوکتا۔مسلم
اللہ کی اطاعت گزار صحابیات:
مؤمن عورتوں نے بھی اللہ کی اطاعت میں سبقت کی ،ہاجر علیہا السلام نے اللہ پر بھروسہ کیااور اپنے خاوند کی فرمانبرداری کی،اور بے آب وگیاہ سرزمین پر بھی سکونت اختیار کرنے میں ذرا تامل نہ کیا ،جبکہ اس وقت مکہ میں کسی فرد بشر کا وجود تک نہیں تھا،بہ ظاہر ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو ہلاکت وتباہی کے سپرد کردیا،لیکن انکی یہ بات توکل علی اللہ کی خوبی اجاگر کرتی ہے جوانہوں نے اپنے شوہر نامدار حضرت ابراہیم علیہ السلام سے عرض کرتے ہوئے کہاکہ :کیا اللہ نے آپ کو  اس کا حکم دیا ہے؟ انہوں نے کہا:ہاں،اس پر وہ بول پڑی :تب تو وہ ہمیں ہر گز ضائع نہیں کرے گا۔بخاری
صحابیات کا حجاب اور پردہ سے محبت:
جس وقت پردے کی فرضیت نازل ہوئی اس وقت صحابیات کے پاس حجاب کے لئے کپڑے نہیں تھے،انہوں نے حکم الہی کی بجا آوری میں اپنے کپڑے پھاڑ کر چہرے ڈھک لئے ،اماں عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:اللہ پہلی پہلی ہجرت کرنے والی عورتوں پر رحم کرے کہ جب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ:اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں"تو انہوں نے اپنے ازار کے زائد حصے پھاڑ کر اوڑھنیاں بنا لیں۔بخاری
سب سے کا مل انسان:
اللہ ورسول کی اطاعت در اصل شہادتین کی بجا آوری اور بندگی کی تکمیل کا اشاریہ ہے،اگر اللہ کا کوئی حکم آپ کے گوش گزار ہوتا ہے توآپ خوشی خوشی اسے بجالائیں،اگر کسی چیزسے آپ کو روکا جاتا ہے تو آپ اس یقین کے ساتھ اس سے باز رہیں کہ اس میں کوئی نہ کوئی نقصان ہے،اور اپنے اس عمل سے خالق کائنات کی خوشنودی کے طلب گار رہیں۔
لوگوں میں سب سے مکمل زندگی والا انسان وہی ہے جس کے اندر تابعداری اور فرمانبرداری کا جذبہ سب سے زیادہ ہو،جس کے اندر تابعداری کی تھوڑی کمی آئی ،اس کے اندر اسی کے بہ قدر زندگی سے محرومی بھی آتی ہے،جس نے اللہ کی اطاعت سے انحراف برتا ،وہ غیر اللہ کی بندگی میں پڑگیااور ذلیل ہوگیا۔
اللہ کی معصیت کے آثار:
اللہ نے اپنی نافرمانی سے ڈرایا ہے اور کہا ہے کہ :وہ لوگ جو اللہ کے حکم سے منہ موڑتے ہیں ،انہیں اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ کہیں انہیں کوئی فتنہ آگھیرے یا وہ دردناک عذاب میں مبتلا کردئے جائیں۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ :میں کوئی بھی ایسا عمل ترک کرنے والا نہیں جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کیا کرتے تھے ،مجھے اندیشہ ہے کہ اگر میں نے کوئی بھی ایسا عمل ترک کردیا تومیں گمراہ ہوجاؤں گا۔متفق علیہ
اطاعت میں سستی:
اطاعت وفرمانبرداری اور عبادت گزاری میں سستی کمال  تابعداری کے منافی ہے،جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول پر کسی اور کی بات کو مقدم کیا وہ آپ کا پیروکار نہیں ہو سکتا،آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری امت دخول جنت سے سرفراز ہوگی سوائے ان کے جنہوں نے انکار اور اعراض کیا،صحابہ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! یہ اعراض کرنے والے کون ہیں؟ آپ نے فرمایا:جس نے میری مانی اور میری اطاعت کی وہ جنت میں جائے گا،اور جس نے میری نہیں سنی اور میری نافرمانی کی اس نے اعراض برتا۔بخاری
اعراض برتنے والاکل قیامت کے دن یہ تمنا کرے گا کہ کاش اسے دنیا میں واپس بھیج دیا جاتا کہ اللہ ورسول کی اطاعت کرسکے،اور یہ آرزو کرے گا کہ زمین کی ساری ملکیت اور اس کے ہم مثل اور بھی خزانے دیکر عذاب وعقاب سے نجات پالے :والذین لم یستجیبوا لہ لوأن لھم مافی الأرض جمیعا ومثلہ معہ لافتدوا بہ " جن لوگوں نے اپنے  رب کی حکم برداری نہیں کی اگر ان کے لئے زمین میں جو کچھ ہے سب کچھ ہو اور اسی کے ساتھ ویسا ہی اور بھی ہو تو وہ سب کچھ اپنے بدلے میں دے دیں۔
اللہ سے دعا ہے کہ الہی ہمیں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانبردار،متبع اور پیروکار بنادے ۔آمین
وصلی اللہ وسلم علی نبینا محمد،وعلی آلہ وصحبہ أجمعین۔


ليست هناك تعليقات: