الثلاثاء، أغسطس 30، 2016


آرزو نفع بخش کی



از: فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق بن عبد المحسن البدر       ترجمہ :سیف الرحمن حفظ الرحمن تیمی

الحمد للہ رب العالمین،وأشھد أن لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ،وأشھد أن محمدا عبدہ ورسولہ صلی اللہ وسلم علیہ وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین۔
اللھم علمنا ما ینفعنا وانفعنا بما علمتنا وزدنا علما،واجعل مانتعلمہ حجۃ لنا لا علینا یا ذا الجلال والاکرام۔
اے اللہ ! ہمیں علم نافع عطا فرمااور جو علم تونے ہمیں دیا ہے اسے ہمارے لئے مفید بناکر ہمیں اور علم سے نواز،اے صاحب عزت وجلال ! ہم جو علم حاصل کرتے ہیں اسے ہمارے حق میں حجت بنادے نہ یہ کہ وہ ہمارے خلاف حجت ہوجائے ۔
ثم أما بعد:
میرے معزز بھائیو! آج ہماری گفتگو کا موضوع نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے کہ:جو چیز آپ کے لئے مفید ہو،اسی کا آرزو مند رہیں اور اللہ سے مدد کے خاستگار رہیں‘‘ یہ در اصل اس حدیث کا ایک جملہ ہے جسے امام مسلم نے اپنے صحیح میںحضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے،وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مضبوط اور طاقت ور مؤمن اللہ کے نزدیک کمزور اور ناتواں مؤمن سے زیادہ محبوب ہے،ہر چیز کے اندر خیر وبھلائی ہے،نفع بخش چیزوں کے حریص رہو ،اللہ سے مدد مانگتے رہو اوربے کار و عاجز مت بیٹھ رہو،اگر کوئی نا گوار چیز لاحق ہو جائے تو یہ نہ کہو کہ اگر میں ایسا کرتا تو ایساہوتا ،بلکہ یہ کہو کہ اللہ نے مقدر کیا اور اس کی جو مشیئت تھی ،وہ کیا،اس لئے کہ اگر مگر سے شیطانی عمل کا دروازہ کھلتا ہے۔  
اہل علم نے یہ وضاحت کی ہے کہ یہ حدیث نہایت جامع کلمات،بڑے بڑے اصول وقواعد اور بیش بہا فوائد پر مشتمل ہے۔لیکن ہماری گفتگو کا محور حدیث کا یہ ٹکڑا ہے: احرص علی ما ینفعک واستعن باللہ‘‘ جو کہ حد درجہ جامع ،مفید اور نفع بخش بات ہے،اس کے اندر بندے کے لئے دونوں جہان کی سعادت مخفی ہے،کیونکہ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ایسے عظیم اصول اور مضبوط بنیادوںکی رہنمائی فرمائی ہے کہ جن کے بغیر دنیا وآخرت کی کوئی بھی کامیابی نہیں مل سکتی :
پہلی بات: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث کہ:اپنے لئے نفع بخش چیزکا آرزو مند رہو"اس کے اندر اس بات کی ترغیب دلائی گئی ہے کہ انسان ہر اس عمل کے لئے جد وجہد کرے جو اس کے لئے دین ودنیا میں نفع کا باعث ہو۔ 
دوسری بات:آپ کا یہ فرمان:استعن باللہ‘‘ کہ اللہ سے مدد طلب کرتے رہو" اس کے اندر اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ صرف اسباب پرہی بھروسہ اوراعتما د نہ کیا جائے،بلکہ  پورابھروسہ اور توکل صرف اللہ کی ذات سے وابستہ ہو ،اور اسی سے مدد ،توفیق اور راست روی اور کایمابی کا سوال کیا جائے۔
آپ کا یہ ارشاد کہ : اپنے لئے مفید چیزوں کے حریص رہو‘‘ اس میں جن نفع بخش چیزوں کی  چاہت اورآرزو رکھنے کی رغبت دلائی گئی ہے،ان میں دینی امور کے ساتھ دنیاوی امور بھی شامل ہیں۔اس لئے کہ جس طرح ایک بندے کو دینی امور سے سابقہ رہتا ہے اسی طرح اسے دنیاوی امور کی بھی ضرورت پڑتی ہے، اسی لئے آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے دین اور دنیا ہردو سے متعلق مفید امور کی چاہت اورطلب رکھنے کی رہنمائی کی ہے،نیزاس کا بھی حکم دیا ہے کہ چاہت اور طلب کے ساتھ ساتھ اسے حاصل کرنے کے لئے اسباب بھی اپنائے جائیں اور بڑے بڑے مقاصد کے حصول کے لئے جو درست اور مناسب طریقے ہوا کرتے ہیں ،ان پر پوری تندہی کے ساتھ چلا جائے ،اور اس پورے سفر میں اللہ ہی سے لو لگایا جائے اور اسی سے مدد مانگی جائے،اس لئے کہ بندے کی اپنی کوئی بساط نہیں،ساری قوت اور تمکنت صرف اللہ کی ذات کے لئے زیبا ہے۔اللہ جو چاہتا ہے،وہی ہوتا ہےاور جو اللہ کی مشیئت میں نہ ہو،وہ وجود میں نہیں آسکتا۔
دین سے متعلق مفید امور کا دارومدر دو بڑی بنیادوں پرہے: ایک علم نافع اور دوسرا عمل صالح:ھو الذی أرسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون" توبہ:33
ہدایت سے مراد علم نا فع او ردین حق سے مراد عمل صالح ہے،علم نافع اللہ کی کتاب اور رسول اللہ کی سنت سے حاصل ہوتا ہے،وہ ایسا علم ہے جو دلوں کو پاک کرتا،نفس کی اصلاح کرتا،اور دنیا و آخرت کی سعادت عطا کرتا ہے۔علم نافع کے حصول کے لئے انسان جد وجہد کرتا ہے،اور ہر دن علم نافع کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور حاصل کرنا چاہتا ہے۔اسے یہ زیب نہیں دیتا کہ کوئی بھی دن ایسا گزرے کہ جس میں علم نافع سے اس کی ذات محروم رہی ہو،ہمارے بنی صلی اللہ علیہ وسلم ہر روز فجر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد یہ دعا کیا کرتے :اللھم انی أسألک علما نافعا،ورزقا طیبا،وعملا متقبلا" اے اللہ میں تجھ سے نفع بخش علم،حلال روزی اور قابل قبول عمل کا طلب گار ہوں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان کی زندگی کا ایک اہم مقصد علم نافع کی تحصیل ہے۔کسی بھی مسلمان کو یہ زیبا نہیں کہ خود کو کسی بھی دن اس علم سے محروم رکھے،اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انسان کو علم نافع کی طلب لئے ایک پروگرام مرتب کرنا چاہئے تاکہ ہر روز بلا ناغہ اسے کچھ نہ کچھ حاصل ہوتا رہے خواہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو، اور کوئی بھی دن بغیر اس کے نہ گزارے ۔
اس کے بعد عمل کے لئے کوششیں کرے،عمل ہی علم کا اصل مقصد ہے،اس بارے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقو ل ہے کہ:عمل سے ہی علم کا پتہ چلتا ہے،اگر علم پر عمل کیا گیا تو علم باقی رہتا ہے ورنہ رخصت ہو جاتا ہے۔اسی وجہ سے اس طرح کے بعض اعمال کی حرص ضرور رکھنی چاہئے جن سے اللہ کی قربت حاصل ہوتی ہے۔اس سلسلے میں سب سے اہم فرائض وواجبات کا اہتمام ہے،حدیث قدسی ہے کہ:بندہ جن عبادتوں کے ذریعہ میرا تقرب حاصل کرتا ہے،ان میں سب سے زیادہ محبوب فرائض ہیں" صاحب ایمان کے لئے یہ مناسب نہیں کہ اس کے شب وروز فرائض اورواجبات کی لاپرواہی کے ساتھ گزر رہے ہوں۔بلکہ اسے ہمیشہ دین کے فرائض اور اسلام کے واجبات کے سلسلے میں سنجیدہ اور فکر مند رہنا چاہئے ۔ساتھ ہی محرما ت سے احتراز کرنا اور گناہوں سے دور رہنا بھی ضروری ہے تاکہ اللہ کی اطاعت میں کوئی کسر باقی نہ رہے اور رب کی رضا وخوشنودی کی طلب اور اس کے عذاب وعقاب سے بچنے کا راستہ بھی ہموار ہو سکے۔
جہاں تک دنیوی منفعت کی بات ہے تو حدیث میں اس کی طلب کی بھی رغبت موجود ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ ارشاد کہ : اپنے لئے نفع بخش چیزکا آرزو مند رہو"اس کے اندر اللہ سے قریب کرنے والے اعمال اور دینی معاملات میں فائدہ پہنچانے والے امور کے ساتھ دنیوی امور کے وہ گوشے بھی شامل ہیں جو بندے کے لئے مفید ہیں۔بندہ کو ان دنیوی ضروریات سے کوئی مفر نہیں جو اس کے دینی مصالح اور مقاصد کی تکمیل کی لئے اسباب کا درجہ رکھتے ہیں۔چنانچہ اسے ان دنیوی امور کابھی خیال رکھنا چاہئے لیکن ایسا نہ ہو کہ دنیا سے اس کی وابستگی اس کے مقصد تخلیق پر فائق ہوجائے جو دراصل اللہ کی عبادت اور بندگی بجا لانا ہے،اللہ کا ارشاد ہے:وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون" الذاریات- میں نے انس وجن کو صرف اپنی عبادت کے لئے ہی پیدا کیا۔
خلاصہ یہ کہ مذکورہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے جوامع الکلم میں شمار ہوتی ہے،اس کے اندر بڑے بڑے فوائد اور عظیم رہنمائیاں موجود ہیں جن سے کوئی بھی مسلمان اپنے دینی اور دنیوی ہر دومعالمات میں بے نیاز نہیں رہ سکتا ۔
اللہ سے دعا گو ہوں کہ اللہ میرے اور آپ کے دین کو سنوار دے جو ہمارے معاملات کا محافظ ہے،ہماری دنیا کوسنوار دے جس میں ہماری معیشت اور رزق رکھی گئی ہے،ہماری آخرت سنوار دے جس کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے،اورہماری زندگی کو ہمارے لئے ہر طرح کی بھلائی اور موت کو ہر طرح کی برائی سے راحت کا سامان بنادے۔اللہ کی ذات بابرکات او ربلندوبالا ہے،وہ دعائوں کو سننے والاہے،اسی سے امیدیں رکھی جاتی ہیں ،وہ ہمارے لئے کافی ہے اوروہی بہتر پالنہار ہے۔

واللہ تعالی أعلم ،وصلی اللہ وسلم علی عبدہ ورسولہ نبینا محمد وآلہ وصحبہ أجمعین۔

ليست هناك تعليقات: