الأحد، سبتمبر 04، 2016

بسم اللہ الرحمن الرحیم
            شوق دیں سے کام لیں-عمل کا دامان تھام لیں

از:عبد الرحمن بن علی العسکر                                  اردو قالب: شفاء اللہ الیاس تیمی                                                                                  


الحمد للہ رب العالمین، وصلی اللہ وسلم علی نبینا محمد ،وعلی آلہ وصحبہ أجمعین۔
أما بعد!
اس دنیا کے اندر انسان بہت سارے مسائل میں الجھا ہوا ہے،لاکھ کوششوں کے باوجود تما م مسائل سے تو دور ،چند سے بھی چھٹکارا مشکل ہے،انہی مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ  مال کی جمع اندوزی کی چاہت وتمنا ہے،اللہ تعالی کا ارشاد ہے : وتحبون المال حبا جما‘‘الفجر:20 - تم مال کے بہت زیادہ خواہاں ہو۔اور صحیح حدیث ہے کہ: یشب ابن آدم ویشب معہ خصلتان: حب الدنیا وطول الأمل‘‘  ابن آدم کی جوانی کے ساتھ ساتھ دو خصلتیں بھی جوان ہوتی ہیں: ایک دنیا کی محبت وچاہت اور دوسری کثرت امید۔
حقیقت میں مال کوئی ایسی چیز نہیں جو بہ ذات خود مطلوب ہو،بلکہ دوسرے مقاصد کے حصول کے لئے مال صرف ایک وسیلہ ہے،مال کے ذریعہ مفید چیزیں بھی حاصل کی جاتی ہیں اور نقصان اور خسارے کا سودا بھی اسی سے کیا جا تا ہے،مال وسیلہ ہے ،لیکن اس کے ممدوح ومذموم ہونے کا معیار یہ ہے کہ اسے کس ذریعہ سے حاصل کیا جارہا ہے اور کس مقصد کے لئے حاصل کیا جا رہا ہے۔
مال  ہتھیار کی طرح بھی ہے، اگر کسی سرکش کے ہاتھ رکھ دیا جائے تو اس سے کمزوروں کی لاشیں گڑینگی،اور معصوموں کا قتل عام ہوگا،لیکن اس کے بالمقابل اگرکسی مجاہد کے ہاتھ میں اس ہتھیار کو تھما دیا جائے تو وہ  اس سے اپنے دین،اپنی ذات ،اپنے اہل وعیال اور ملک وقوم کی حفاظت اور ان کا دفاع کرے گا۔آپ غور فرمائیں کہ  اللہ تعالی مال کے بارے میں کیا فرماتا ہے: فأما من أعطی واتقی وصدق بالحسنی فسنیسرہ للیسری وأما من بخل واستغنی وکذب بالحسنی فسنیسرہ للعسری وما یغنی عنہ مالہ اذا تردی" جس نے دیا اللہ کی راہ میں اور ڈرااپنے رب سے اور نیک بات کی تصدیق کرتا رہیگا تو ہم بھی اس کو آسان راستے کی سہولت دینگے،لیکن جس نے بخیلی کی اور بے پرواہی برتی  اور نیک بات کی تکذیب کی ،تو ہم بھی اس کی تنگی اور مشکل کے سامان میسر کردینگے۔اس کا مال اسے اوندھا گرتے وقت کچھ کام نہ آئے گا۔
مال اپنے آپ میں  اللہ کی بہت بڑی نعمت اور بہترین عطیہ ہے،یہ ایسی نعمت عظمی ہے جس کے ذریعہ االلہ کے بندوں کے ضرورتیں مکمل ہوتی ہیں ۔لیکن مال کے غلط استعمال کے نتیجے میں کبھی کبھی اس کی یہ افادیت نقصان میں بدل جاتی ہے ،گویا مال ایک بڑا فتنہ ہے جس کے ذریعہ بندے آزمائے جاتے ہیں: واعلموا أنما أموالکم وأولادکم فتنۃوأن اللہ عندہ أجر عظیم" ۔
اس کے باوجود بھی اسلام نے انسان کو  اپنے اہل خانہ کے لئے حلال مال میں سے رزق اختیار کرنے کی تلقین کی ہے،رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد د بن وقاص سے یہ فرمایا کہ غربت اور قلاشی کے بجائے تمہارے لئے بہتر یہی کہ تم اپنے وارثین کو مالداری کی حالت میں چھوڑو ، کیونکہ فقیری کی حالت میں وہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے لگیں گے،ایک دوسری حدیث میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کفی بالمرئ اثما أن یضیع من یقوت" کسی انسان کے گناہ گار ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے ماتحت لوگوں کی رزق کو برباداوربیکار کردے۔احمد ومسلم
اسلام نے اپنے متبعین کو یہ تعلیم دیا ہے کہ وہ مال کے حصول میں جائز اور مشروع راستہ اختیار کریں،چنانچہ اسلام نے مال کی حصولیابی میں عمل پیہم اور مسلسل کوشش پر ابھارا ہے،اور اس راہ میں تساہل اور سستی سے دور رہنے پر زور دیا ہے،رز ق حلا ل اور پاک مال کے لئے راستے بھی ہموار کیاہے ،قرآن اس سلسلے میں کہتا ہے :قل من حرم زینۃ اللہ التی أخرج لعبادہ الطیبات من الرزق قل ھی للذین آمنوا فی الحیاۃ الدنیا خالصۃ یوم القیامۃ"أعراف:32  یعنی کہ آپ فرمائیے کہ اللہ تعالی کے پیدا کیے ہوئے اسباب زینت کو، جن کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کوکس شخص نے حرام کیا ہے؟ آپ کہ دیجئے کہ یہ اشیاء اس طور پر کہ قیامت کے روز خالص ہونگی اہل ایمان کے لئے ،دنیوی زندگی میں مومنوں کے لئے بھی ہیں۔ نیز اللہ فرماتا ہے:ھو الذی جعل لکم الأرض ذلولا فامشوا فی مناکبھا وکلوا من رزقہ والیہ النشور" ملک:15  وہ ذات جس نے تمہارے لئے زمین کو پست ومطیع کردیا تاکہ تم اس کی راہوں میں چلتے پھرتے رہو اور اللہ کی روزیاں کھاؤاسی کی طرف تمہیں جی کر اٹھ کھڑا ہونا ہے۔ایک جگہ اللہ کا فرمان ہے: فاذا قضیت الصلاۃ فانتشروا فی الأرض وابتغوا من فضل اللہ واذکروا اللہ کثیرا لعلکم تفلحون"الجمعہ:10 یعنی جب نماز ہوچکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور بہ کثرت اللہ کا ذکر کیا کرو تاکہ تم فلاح پا لو۔گویا اللہ نے کامیابی کا دار ومدار رزق حلال ،اطاعت الہی کی بجا آوری اور ذکر الہی کی ادائیگی پر رکھا ہے۔
اسی طرح انسان کا صنعت وحرفت سے جڑنا اور پیشہ ور ہونا کوئی ایسی چیز نہیں جو دور حاضر کے لئے جدید ہو ، بلکہ انبیائ ورسل نے بھی اس راہ کو اختیار کیا،جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی بھی انسان کی سب سے بہتر روزی اس کے ہاتھ کی کمائی ہوتی ہے، اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام بھی اپنے ہاتھ کی کمائی ہوئی روزی کھاتے تھے۔ایک دوسری حدیث کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کان زکریا نجارا"(مسلم)  اور یہ کہ : وأن ادریس کان خیاطا یتصدق بفضل کسبہ‘‘ کہ حضرت زکریا ایک بڑھئی تھے،اورحضرت ادریس ایک درزی تھے اور اپنے ہاتھ کی کمائی  میں سے صدقہ کرتے تھے۔ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بیع وشرائ کیا کرتے اور لوگوں کے ساتھ تمام طرح کا مالی تعامل کرتے تھے۔ایک دن رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابئہ کرام سے یہ فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایک چھوٹی سی رسی لیکر پہاڑ پر چڑھ جائے اور وہاں سے لکڑی کی گٹھڑی باندہ کر لائے اور اسے فروخت کرے، اور ان پیسوں کے ذریعہ اپنی ضروریات پوری کرےاورلوگوں سے بے نیاز رہے تو اس کا ایسا کرنا دوسروں کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے بہتر ہے کیوں کہ دست سوال پھیلانے کے بعد لوگ اسے دے بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی۔بخاری
صحابئہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی مختلف پیشے اختیار کئے،، بیع وشراء اور تجارت میں حصہ لیا،اور رزق حلال کی طلب میں کوششیں کی،سعید ابن مسیب کے قول سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے کہ :کان أصحاب رسو ل اللہ یتجرون فی بحر الروم‘‘ کہ صحابئہ کرام روم کے سمندری راستوں سے تجارت کیا کرتے تھے۔حضرت عمر یہ کہا کرتے تھے کہ تم لوگ کاریگری کا کام سیکھا کروکیونکہ ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کسی کو اس کی ضرورت پیش آجائے۔
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ ہانڈی تنور پہ ڈال کر اسے آنچ دیتے یہاں تک کہ ان کی آنکھ میں آنسو آجاتے ،اما عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ امارت اور خلافت سنبھالنے سے پہلے تک قریش کے سب سے بڑے کاروباری اور تاجر تھے۔
قیس بن عاصم نے موت کے وقت اپنے بیٹوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا:مال ضرور حاصل کرو ،کیونکہ مال ودولت سخی لوگوں  کی شناخت ہے،اور اس کے ذریعہ بدبخت اور بدطینت لوگوں سے بے نیازی حاصل ہوتی ہے ۔ساتھ ہی تم مانگنے کی ذلت وخواری سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کروکیونکہ یہ کسی بھی انسان کے لئے آخری ذریعہ معاش ہے۔
سعید بن مسیب کا قول ہے کہ اس شخص کے اندر خیر کا کوئی پہلو ہے ہی نہیں جس کے اندر طلب مال کی کوئی چاہت ہی نہ ہو۔جس سے قرض کی ادائیگی کرے، اپنی عزت وآبرو کی حفاظت کرے،اور لوگوں کے حقوق بھی ادا کرے،نیز اگر س کی موت بھی ہو جائے تو اس کے وارثین کے لئے اس کا مال میراث بن جائے  ۔
ضحاک بن مزاحم کہتے ہیں کہ : شرف المؤمن صلاۃ فی جوف اللیل وعزہ استغناؤہ عن الناس"(اسے طبرانی نے حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے)نصف رات میں نماز کی ادائیگی مؤمن کے لئے شرف کی بات ہے اوور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بے نیاز رہنا اس کی عزت نفس کی دلیل ہے۔
معمولی کام میں مشغول رہنا ، سستی اور کاہلی اور اصحاب ثروت کی جانب سے نوازشوں کے لئے منتظر رہنے سے حد درجہ بہتر ہے۔اور اس طرح کے انتظار سے بھی بدتر یہ ہے کہ آدمی کسی مالدار انسان کے سامنے ہاتھ پھیلائے ۔کیوں کہ اس کی جانب سے اگر کچھ نوازش ہو بھی جائے تو اس احسان تلے انسان ہمیشہ دبا رہتا ہے،اور اگر اس نے دینے سے انکار کردیا توندامت اور ذلت  دونوں اس کے پیچھے لگ جاتی ہیں ۔
عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ:ذلت کے ساتھ کمانا اس سے بہتر ہے کہ آدمی غیروں کے سامنے ہاتھ پھیلائے ۔
لقمان حکیم کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا:میرے بیٹے! حلال مال کے ذریعہ بے نیازی اختیار کرو،اس لئے کہ جس کے آگن میں غریبی ڈیرا ڈالتی ہے اسے تین میں سے کوئی ایک خصلت ضرور لاحق ہوجاتی ہے:دین میں نرمی اور کمزری،عقل کا ضعف یا مروئت کی کمی،اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگ اسے حقارت کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہت سارے امور سے پناہ مانگتے تھے، تاکہ لوگوں کی نگاہ میں ان کے نقصانات واضح ہو سکیں،ساتھ ہی ان امور سے بچنے کے لئے رب سے مدد ونصرت کی دعا مانگتے تھے،اس سلسلے میں امام احمد بن حبنل نے ایک روایت نقل کیا ہے کہ :رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تعوذوا باللہ من الفقر والقلۃ والذلۃ‘‘  غربت،قلت مال ،اور ذلت ورسوائی سے اللہ کی پناہ مانگو۔امام نسائی اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ!میں بھوک اور پیاس سے تیری پناہ چاہتا ہوں کیونکہ یہ بہت برا ساتھی ہے۔
عقل مند انسان کے لئے یہ زیبا نہیں ہر طرح کی مشغولیت اور محنت سے کنارہ کش ہوکر خود کو سماج کے لئے بے سود اور بوجھ بنا ڈالے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:میں بعض دفعہ کسی ایسے آدمی سے ملتا ہوں جو اچھی بھلی شکل وصورت کا معلوم پڑتا ہے،لیکن جب میں اس کے بار ے میں معلوم کرتاہوں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ بے روزگار انسان ہے ،پھر وہ میری نظر سے گر جاتا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسجد میں بیٹھ کر اللہ پر توکل کی گردان لگانے والے لوگوں کے پاس جایا کرتے تھے اور انہیں ڈانٹ پھٹکار کر سمجھاتے کہ کوئی شخص رزق کی جستجو چھوڑ کر بیٹھ نہ جائے او رپھر اللہ سے رزق کی دعا کرے،جبکہ وہ خوب جانتا ہے کہ آسمان سے سونے چاندی نہیں برستے ۔بلکہ رزق کے لئے تگ ودو کرنی پڑتی ہے۔
محمد بن ثور کہتے ہیں کہ :مسجد حرام میں سفیان ثوری جب بھی ہماری مجلس سے گزرتے  تو آپ فرماتے:تم لوگ کیوں بیٹھے ہو؟  تو ہم کہتے : ہم کیا کریں؟ آپ فرماتے : رب کے فضل کی تلاش میںلگے رہواور مسلمانوں پر بوجھ نہ بنو۔
فقہاء کرام نے یہاں تک کہا ہے کہ انسان کے اوپر رزق حاصل کرنا واجب ہے خواہ اس کے لئے اسے اجرت پر ہی کیوں نہ کھٹنا پڑے،کیوں کہ قرض چکانے،نذر کو پورا کرنے ،اطاعت وبندگی بجا لانے ،کفارہ ادا کرنے اور ماتحت لوگوں کے اخراجات اٹھانے کے لئے مال کا حصول نہایت ناگزیر ہے۔
آج کے نوجوانوں کی زبان پر یہ شکایت ہمیشہ رہتی ہے کہ رزق  حاصل کرنے کےلئے ان کے پاس کوئی سبیل ہی نہیں جس کے ذریعہ وہ اپنے اخراجات پوری کریں۔وہ سرکاری نوکری کو ہی ذریعئہ معاش کا واحدحل سمجھتے ہیں جبکہ انکا ایسا سوچنا غلط ہے۔
انسان کوہر اچھے کام کے ذریعہ رزق حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے،حلال رزق کا سچا حریص وہی ہے جو خود رزق کے لئے  تگ ودو کرے،بہتر مال بھی وہی ہے جو صحیح راہ سے محنت کے بعد حاصل ہو،رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اچھی کمائی کے متعلق دریافت کی گیا تو آپ نے فرمایا: عمل الرجل بیدہ وکل بیع مبرور"(احمد اورطبرانی نے اسے روایت کیا ہے) انسان کے ہاتھ کی کمائی سب سے بہتر کمائی ہے اور ہر جائزوخالص تجارت۔
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ جو آدمی کام کرکے دیکر لوگوں سے بے نیاز رہتا ہے، ایسا شخص میری نگاہ میں بیٹھے رہنے والے اور لوگوں کی نوازش کا انتظار کرنے والے سے بہتر ہے۔
بلکہ  انسان، تجارت اور طلب رزق کے اندر محنت کرکے بھی رب کا تقرب حاصل کرتا ہے، ایسے تاجرکی فضیلت کے تعلق سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:التاجر الصدوق الأمین مع النبیین والصدیقین والشھدائ ‘‘  سچا،امانت دار تاجر نبیوں،صدیقین اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔
امام طبرانی نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ:ایک شخص کا گزر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ہوا ،صحابہ نے اس کی محنت اور جاں فشانی دیکھ کر آپ سے عرض کیا:اے اللہ کے رسول !کاش اس کا یہ عمل اللہ کی راہ میں ہوتا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس کی یہ کوشش اگر اس کے چھوٹے چھوٹے بچوں کے لئے ہوگی تو یہ اللہ کی راہ میں ہے،اگر بزرگ اور بوڑھے والدین کے لئے ہوگی تو یہ اللہ کی راہ میں ہے،اگر خود اس کی ذات کے لئے ہوگی تاکہ (ہاتھ پھیلانے کی ذلت سے اپنا دامن) محفوظ رکھے تو یہ اللہ کی راہ میں ہے اور اگر یہ ساری تگ ودو دکھلاوے اور فخرومباہات کے لئے کر رہا ہے تویہ شیطان کی راہ میں ہے۔
اے نوجوانو کی جماعت!کوئی بھی حکومت وسلطنت اور جماعت اس وقت خوشی اور فحر محسوس کرتی ہے جب اس کے نوجوان کے پاس پہاڑ جیسی ہمت ہو،خود سے ترقی کا زینہ طے کرتے ہوئے اعلی مقام پر اپنا مسکن بناتے ہوں،اور وسروں کی ماتحتی میں جینے پر راضی نہ ہوں،جب نوجوان ایسے ہوتے ہیں تو وہ  اپنے سے بڑوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔
حلال مال اور اچھی کمائی کے بہ دولت ہی  مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والے صحابئہ کرام اہل کتاب کے ساتھ اقتصادی میدان میں مقابلہ کر نے کے قابل ہوسکے،کیا آپ کولگتا ہے کہ وہ اگر نادار اور محتاج ہوتے تو ان کی تمنائیں پوری ہو پاتیں۔
کسی بھی حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج اس کی قوم کی سستی اور کاہلی ہی ہوتی ہے ،کیونکہ حکومتیں افراد سے ہی بنتی ہیں،تو بھلا جب  حکومت کے افراد ہی کاہلی اور ناکارہ پن کے شکار ہو جائیں تو وہ حکومت آسمان کی بلندی کو کیسے پہنچ سکتی ہے؟ بے روزگاری ایک خطرناک برائی اور ہلاکت خیز بیماری ہے جو پلک جھپکتے ہی انسانی زندگی کا سکون غارت اور زندگی کو پراگندہ کردیتی ہے۔بے روزگاری ، فقیری کا دروازہ ،چوری کی  راہ،اور دھوکہ ومکر کی سبیل ہے۔
 اسلام ،عزت وشرافت اور رفعت وبلندی  والا دین ہے۔جو اپنے پیروکاروں کو کار خیر اورنفع بخش عمل کی ترغیب دیتا ہے۔اور ناگہانی آفات ومصائب کے لئے پیشگی تیاری کی رہنمائی کرتا ہے ۔جب دین کے ساتھ ساتھ مال وزر کی فراوانی بھی ہو تو اس سے دین کو تقویت اور غلبہ حاصل ہوتا ہے اور دین کے ساتھ ساتھ اس سے حکومتوں کا بھی سر اونچا ہوتا ہے۔شاعر کہتا ہے:
ما أجمل الدین والدنیا اذا اجتمعا
 جب دین ودنیا کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا جائے توکیا ہی خوب ہو جاتا ہے۔
آپ  رزق کی تلاش میں اپنی پوری کوشش صرف کریں۔اس راہ میں سستی وکاہلی سے کوسوں دور رہیں۔ساتھ ہی مسائل زندگی کے سلسلے میں دوسروں پر بھروسہ کر کے نہ بیٹھ جائیں۔

بڑے بڑے تاجر حضرات دن ورات میں ہی بلند وبالا مقام کو نہیں پہنچ گئے ، بلکہ وہ بھی اپنی جوانی میں کسی نہ کسی کام کے تلاش ہی میں تھے،لیکن ان کی ہمتیں بلند اور نگاہیں آسمان پر تھیں جس نے انہیں آج اس مقام پر پہنچا دیا ۔کسی بھی چیز کی قدر وقیمت کا معیار اس سے طے ہوتا ہے کہ اس کے حصول کے پیچھے کتنی محنت صرف کی گئی ہے۔اسی وجہ سے محنت سے حاصل کی ہوئی چیزکے بارے لوگ کم ہی غفلت اور بے توجہی برت تے ہیں۔جبکہ وہ چیز جو کسی کو  بغیر محنت اور جاں فشانی کے مل جائے، اس کی نظر میں وہ کبھی قیمتی،نفیس اور اہم نہیں ہو سکتی ۔

ليست هناك تعليقات: