الخميس، مايو 14، 2015

مدارس نہيں ، کالج کی ضرورت ہے ؟؟؟
(آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے )
ثناءاللہ صادق تیمی ، اسسٹنٹ پروفیسر ، جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ ، ریاض ، سعودی عرب
برصغیر ہندو پاک کی حد تک یہ بات پوری طرح درست ہے کہ اسلام کی روح ، مسلم شناخت اور دین کا جو کچھ بھی تصور و مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے اس میں مداراس اسلامیہ کا سب سے اہم کردارہے ۔  ہمارے اسلاف واقعۃ بڑے سمجھدار اور بصیرتوں کے مالک تھے ۔ جب انہوں نے دیکھا کہ سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد امت مسلمہ کے دینی تشخص کی حفاظت مشکل ہو جائے گی تو انہوں نے مدارس اسلامیہ کا جال پھیلا دیا ۔ سادگی ، قناعت اور جفاکشی کی بنیاد پر دینی تعلیم کا بندو بست کیا گيا اور دیکھتے دیکھتے یہ جال ایک ایک بستی میں مکتب کی شکل میں پھیل گیا ۔ پوری دنیا میں یہ بات مانی جاتی ہے کہ برصغیر کے اندر مسلمانوں میں اپنے دین کا شعور بہت ہوتا ہے اور یہ بات ہمیں تسلیم کرنی ہی پڑےگی کہ بہرحال یہ کریڈٹ مدارس ومکاتب اور اس کے اندر اپنی جاں سوزی اور جگرکاوی سے روشنی بکھیرنے والے علماء کو ہی جاتا ہے ۔ مدارس کا بنیادی مقصد دین کی تعلیم ، اسلامی دعوت کا فروغ اور اسلامی تربیت سے لیس مسلم نوجوانوں کی کھیپ تیار کرنا ہے ۔ آج سے بیس پچیس سال قبل تک مدارس میں تعلیم کا مطلب اللہ کے دین کی خدمت اور دعوت اسلامی کی اشاعت کا جذبہ ہوا کرتا تھا ۔ بہت سے صاحب حیثيت لوگ بھی اپنے بچوں کو اسی جذبے کے تحت مدارس کے اندر داخل کرتے تھے اور مدارس سے فارغ ہونے والے علماء بھی دعوت و خدمت سے جڑے معاملات سے خود کووابستہ رکھا کرتے تھے ۔ لیکن جب مغربی افکار کے زیر اثر مادیت کا طوفان اٹھا تو اس کی زد میں مدارس بھی آئے ۔ طلبہ مدارس کو خود کفیل کرنے کے لیے سائنس و ٹکنالوجی ، انگریزی اور عصری علوم پڑھانے کی پرزور وکالت کی گئی اور دیکھتے دیکھتے جہاں بہت سے مدارس نے اپنے نصاب میں ترمیم و تبدیل سے کام لیا وہیں بہت سے مدارس نے یونیورسٹیز سے اپنے ادارے کا الحاق بھی کرایا ۔ پھر دیکھنے میں یہ آیا کہ زیادہ تر بالیاقت اور ذہین طلبہ نے عصری جامعات کا رخ کرلیا۔ ایسے فارغین مدارس دعوت و تعلیم کے سوا دوسرے میدانوں میں اپنی حیثيت منوارہے ہیں ۔ خاص طور سے کارپوریٹ میں تو خوب کھپ رہے ہیں ۔ اتنا ہی پر شاید یہ معاملہ رک جاتا تو چل بھی جاتا لیکن ہوا یہ کہ اسی بیچ جب خلیج کے اندر دولت ظاہر ہوئی اور وہاں کے مسلمانوں نے مسلمانان عالم کو اپنے عطیات سے نوازنا شروع کیا تو برصغیر کے ارباب مدارس اس میں آگے آگے رہے ۔ بلڈنگیں بنیں ، بڑے بڑے مدارس وجود میں آئے ، بہت سا کام ہوا ، سعودی عرب نے اساتذہ کو تنخواہیں دینی شروع کی ، بہت سے اداروں کے اندر مدنی علماء مبعوث ہوئے اور یوں مدارس سے جڑا ہوا مفلسی کا تصور آہستہ آہستہ محو ہوتا گیا ۔ عوامی سطح پر یہ بات عام ہوئی کہ اب مدارس کے اندرتعلیم پانا دنیاوی زندگی کی آشائش کی قربانی پر نہیں ہے بلکہ صورت حال دونوں ہاتھ میں لڈو کی ہے یعنی دینی تعلیم سے حاصل ہونے والی عزت و وقار بھی ہے اور عصری علوم سے بہرور ہونے کے امکانات بھی اورنہیں تو ابتعاث کی دولت سے مالا مال ہونے پر خوشحال اور الجھنوں سے دور زندگی گزارنے کی سعادت بھی ۔ ایک خاص دائرے تک اس میں کوئي بڑا مضایقہ بھی نہیں تھا لیکن ہوا یوں کہ ارباب مدارس ، اساتذہ مدارس اور مدارس سے جڑے ہوئے لوگوں کے ذہن سے دعوت و خدمت کا تصور آہستہ آہستہ اگر ختم نہیں ہوا تو مدھم ضرور پڑا اور قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند کرنے والے ادارے لاموجود الا البطن کی پکار لگانے لگے ۔ اس پر ایک دوسرا ظاہرہ یہ پیدا ہوا کہ پینٹ کو ٹ والے عصری علوم سے مالا مال حضرات اپنے طور پر دینی علوم حاصل کرکے دعوت کے میدان میں کود پڑے ۔ ان کے پاس دین کا علم تو کم تھا لیکن حالات پرنظر اچھی تھی ۔ ٹیکنالوجی کے استعمال سے واقف تھے ۔ میڈیا میں رہنے کا ہنر آتا تھا چنانچہ رہا سہا کسر اس ظاہرے سے ٹوٹ گیا اور مرعوبیت کا مہیب سایہ گہرا سے گہرا ہوتا گیا ۔  اور نتیجہ اب اس طرح نکل رہا ہے کہ ارباب مدارس اب اپنی توجہ مدارس پر مرکوز کرنے کی بجائے مختلف قسم کے ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ ، بی ایڈ کالج اور جونئیر اسکولز وغیرہ پرصرف کرنے لگے ہيں ۔ اس سلسلے میں چند باتیں پیش کرنی ہیں ۔
1 ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اتنے زیادہ مدارس ہونے کے باجود ابھی بھی سماج میں علماء کی کمی ہے ۔ ایسا نہیں کہ سماج کے اندر علماء اتنے زيادہ ہوگئے ہيں کہ اب ان کی ضرورت باقی نہیں رہ گئی ہے ۔
2 ۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کو صحیح مانیں تو مسلمانوں کا صرف چار فیصد طبقہ مدارس میں تعلیم حاصل کرتا ہے ۔ یعنی چھیانوے فیصد مدارس کے باہر ہے ۔
3 ۔ بڑے بڑے دینی مدارس اس بات کا رونا رورہے ہيں کہ انہیں بالیاقت اساتذہ نہیں مل رہے ہیں ۔ اس کا اندازہ اخبارات میں ارباب مدارس کی جانب سے دیے جانے والے اشتہارات سے لگایا جاسکتا ہے ۔
4 ۔ اگر ہم نگاہ اٹھا کر دیکھیں تو پتہ چلے کہ اب ہمارے اداروں سے ماہرین حدیث ، فقہ ، تفسیر ، تاریخ وغیرہ نہیں نکل رہے ہیں ۔ زیادہ تر ایسے افراد نکل کر آرہے ہيں جو تفقہ فی الدین کی صفت سے متصف نہیں ہیں ۔
5 ۔ بالعموم مدارس کے اندر وہ لوگ تعلیم حاصل کرتے ہیں جن کے پاس وسائل کی کمی ہوتی ہے اورجو دوسری دنیاوی علوم کے اخراجات برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہوتے ۔
        ان حقائق کو سامنے رکھیے ، مدارس کے اہداف ومقاصد کو ذہن میں رکھیے اور پھر ذرا اس رجحان کے بارے میں سوچیے ۔ وہ صاحبان مدارس جن کے پاس پیسے ہیں وہ تیزی سے بی ایڈ کالج ، اسکول اور ٹکنیکل انسٹیٹیوٹ کھولنے کی طرف توجہ دے رہے ہیں ۔ یہ رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ اہل خیر حضرات کے وہ پیسے جو کمزور اور غریب طلبہ کی کفالت کے لیے دیے جاتے ہیں ان سے ایسے ادارے کھولے جارہے ہیں جن کے اندر غریبوں کے لیے کوئي جگہ نہیں ۔ کمال تو یہ ہے کہ بعض ارباب مدارس نے تو اپنے مدرسوں کے اندر داخلہ پانے کی فیس بھی اتنی بڑھادی ہے کہ ایک غریب آدمی اپنے بچے کو دینی تعلیم دلانے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔ ہمارے حساب سے ایسے ذمہ داران مدارس کو اپنے مین گیٹ پر جلی حروف میں لکھ دینا چاہیے کہ ہمارا مدرسہ غریبوں کی تعلیم کے لیے نہیں ہے ۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ دینی تعلیم اس وقت مہنگی کی جارہی ہے جب لگ بھگ پوری دنیا میں بنیادی تعلیم کو بچے کا حق بتایا جارہا ہے اور حکومتیں مفت تعلیم کا نظم کررہی ہیں ۔ بعض احباب کے واسطے سے یہ بات بھی معلوم ہوئي کہ گلف وغیرہ میں لوگ مشروع کے نام پر ہی پیسے دیتے ہیں وہ دینی تعلیم کے نام پر پیسہ نہيں دیتے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ارباب حل وعقد جو خلیجی ممالک میں ما شاءاللہ اپنی اچھی خاصی پہچان رکھتے ہیں ۔ ان میں سے بعض کی امراء اور ملوک تک رسائی ہے کیا وہ انہیں یہ نہیں سمجھا سکتے کہ ہمارے یہاں کس چیز کی ضرورت ہے ؟
بہت سے ادارے کی صورت حال یہ ہے کہ مدرسہ بے چارا کسمپرسی میں مبتلا ہے ، اساتذہ لائق فائق نہیں ہیں ، طلبہ گھٹتے گھٹتے نہ کے برابر رہ گئے ہيں لیکن ہاں یونانی کالج اور اسکول کی دنیا پوری طرح آباد ہے ۔
   آپ کو یہ جان کر کیا معلوم کیسا لگے لیکن یہ سچ ہے کہ بہت سے روشن خیالان ارباب مدارس نے اپنے مدارس کو کالج میں بدل دیا ہے ۔ اب ان کے یہاں مدرسہ نہیں کہ اس سے تو آمدنی کی بھی توقع نہیں ہوتی اور چندے کی ذلت بھی اٹھانی پڑتی ہے اس لیے اسی چندے کے مال سے بنائے گئے مدرسے کو اسکول بنادیا ۔ ہماری ملاقات ایک طالب علم سے ہوئی ، عربی اور انگلش بچے کی اس کے اپنے مستوی کے حساب سے اچھی تھی ہم نے پوچھا کہاں پڑھتے ہو بابو؟ طالب علم کا جواب تھا : شیخ! ناظم صاحب نے تو مدرسہ کو اسکول میں بدل دیا ہے ۔ کسی اچھے مدرسے کی تلاش میں ہوں ۔۔۔۔۔ ۔
ایک صاحب کے اوپر سماجی خدمت اوررفاہ عام کا وہ بھوت سوار ہوا کہ انہوں نے اپنے تعلیمی ادارے کی ساری توجہ رفاہ عام پر لگادی ۔ حضرت تو اتنے چمکے کہ کیا سماج اور کیا سیاست ہر جگہ ان کی چاندی ہوگئی ۔ ہاں البتہ وہ بیچارا مرکز علم و آگہی کہیں کا نہ بچا ۔ جہاں سے باصلاحیت علماء اور دعاۃ نکلا کرتے تھے اب صورت حال یہ ہے کہ بس نام کی دینی تعلیم ہورہی ہے اور ساری توجہ کہیں اور ہے ۔
      ہم نے خود جے این یو میں اعلا تعلیم حاصل کی ہے ۔ ہم عصری علوم کے خلاف ہو بھی نہیں سکتے ۔ لیکن جس طرح سے ارباب مدارس عصری علوم کی خدمت کرنا چاہ رہے ہيں وہ بلا شبہ خطرنا ک ہے ۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ جب مدرسے کے ساتھ اسکول کھولا جاتا ہے تو مدرسہ کی بجائے ذمہ دارکی ساری توجہ اسکول پر ہوتی ہے ۔ مدرسہ کے طلبہ کے بالمقابل اسکول کے طلبہ کو اہمیت حاصل ہوتی ہے اور یوں مدرسہ کے طالب علم کے اندر ایک قسم کا احساس کمتری پیدا ہونے لگتا ہے ۔ مدرسے کے مؤسس کا اخلاص اپنی جگہ لیکن ان کے وارثین مدرسہ کو بس نام کے لیے چلاتے ہيں ۔ ان کی محنت و لگن کا سارا مرکز اسکول ، کالج یا انسٹیٹیوٹ ہوتا ہے ۔ عام طور سے کہا جاتا ہے کہ ہم عصری تعلیم دینی ماحول میں دینگے اورصورت حال کیا ہوتی ہے وہ اتنی بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔
    ذاتی طور پر جب جب میں عزیز وطن ہندوستان کے اندر مدارس کے بارے میں سوچتا ہوں نہ جانے کیوں ایک عجیب وغریب خوف چھاجاتا ہے ۔ میرے بعض احباب کو لگتا ہے کہ میں پیچھے کی طرف ڈھکیلنے کی کوشش کررہا ہوں جبکہ مجھے لگتا ہے کہ اگر وقت پر ہی دھیان نہيں دیا گیا توبساط الٹی بھی جاچکی ہوگی اور احساس بھی نہ ہوگا ۔
ایک طرف فرقہ پرست ذہن لوگ ہیں جن کی نظر میں یہ دینی ادارے کانٹوں کی مانند چبھ رہے ہیں اور وہ مختلف حربے اختیار کرکے ان پر روک لگانے کی کوشش میں ہیں اور دوسری طرف ہماری دینی قیادت ہے جو خود ہی اس سے دست برداری کی کیفیت میں ہے ۔ اس نکتے پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اسکول ، کالج اور انسٹیٹیوٹ اور لوگ بھی کھول سکتے ہيں اور چلا سکتے ہیں (بہت سے لوگ کامیابی سے چلا بھی رہے ہیں ) لیکن مدرسہ تو ہم علماء کی وراثت ہے ۔ مرعوبیت یا مادہ پرستی کا یہ کون سا اندھیرا ہے جس میں روشنی سے دست برداری کی کیفیت دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ لکھ لیجیے کہ اگر یہی صورت حال رہی تو آنے والی نسل کتابوں میں مدارس کا تذکرہ سنےگی اور دین کے نام پر چند رسوم و رواج کی پابند ہوگی اور شاید وقت گزرتے گزرتے وہ بھی ناپید ہوتے جائینگے ۔ اللہ نہ کرے ایسا ہو لیکن سچائی سے آنکھیں موندی بھی کیسے جائیں ؟
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
حالات اور وقت کا ساتھ دینے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا آدمی اپنی اساس ہی بدل دے ۔ مدارس پر جب زيادہ توجہ کی ضرورت ہے ارباب مدارس ان سے اعراض برت کر کسی اور طرف رخ کررہے ہیں ۔ انسان کو غلطیوں سے سیکھنا چاہیے ۔ تجربات بھی برے نہیں ہوتے لیکن ایسے تجربات جن سے بنیاد متاثر ہوتی ہو ان سے توبہ ہی بھلی ہوتی ہے ۔
 اللہ ہمیں نیک توفیق سے نوازے ۔ آمین





ليست هناك تعليقات: