الاثنين، يناير 31، 2011

موبائل فون کے آداب


صفات عالم محمد زبیرتیمی (کویت)

موبائل فون عصرحاضر کی ایجادات واختراعات میں سے ایک گرانقدر اور بیش قیمت نعمت ہے جس کے دستیاب ہونے سے لوگوں کے اندر بہت ساری سہولتیں پيدا ہو گئی ہيں ، اِس سے وقت اور مال کی بچت ہوتی ہے ، انسان سفر کی مشقتوں سے بچ جاتاہے ، آج سارے آلات جدیدہ میں سب سے زیادہ اسی کا استعمال ہورہا ہے ، ہم جہاں کہیں بھی ہوں موبائل فون ہمارے ساتھ ہوتا ہے ، بلکہ حقیقت تویہ ہے کہ اس کے بغیر ہمارا اٹھنا بیٹھنا مشکل سا ہوگیا ہے۔
لیکن یہ بھی المیہ ہے کہ موبائل فون ہمارا اچھا خاصا وقت ضائع کر رہا ہے اور برائیوں کے فروغ کا بھی ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔ آج موبائل کمپنیوں نے اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لیے موبائل فون میں مختلف سہولتیں دے رکھی ہیں ، کیمرے کی سہولت ہے ، ویڈیوکی سہولت ہے، انٹرنیٹ کی سہولت ہے ، بلوتوتھ کی سہولت ہے ، جس سے ہماری نوجوان نسل کی خاص طور پربری حالت ہوتی جاری ہے ، فحش گانے ان کی میموری کا لازمی حصہ ہوتے ہیں ، ان کا اچھا خاصا وقت موبائل کی سہولتوں سے فائدہ اٹھانے میں ضائع ہوتا ہے ، والدین اپنی محنت سے کمائی ہوئی رقم ان کی تعلیم پرخرچ کرتے ہیں لیکن وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرپاتے ، موبائل کمپنیاں سستے ترین کال ریٹس اور کبھی ”فلاں وقت سے فلاں وقت تک مفت کال “کی سہولت کراہم کرتی ہیں ۔ جس کا نتیجہ ہے کہ لوگ راتوں رات جگتے ہیں ، وقت کی قیمت کا کوئی پاس ولحاظ نہیں کرتے ، اور گھنٹوں بات کرکے محنت کی کمائی ہوئی دولت کو داؤ پر لگاتے ہیں ۔ اسی طرح اس سے صحت کا بھی نقصان ہوتاہے کیونکہ جدید سائنس کا کہنا ہے کہ موبائل فون کا حد سے زیادہ استعمال دل اور دماغ کی بہت خطرناک بیماریوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
حالانکہ یہ اور اس جیسی دوسری نعمتوں کے استعمال کے وقت ایک مسلمان کو اللہ کا شکر بجا لانا چاہیے اور ایک حد میں رکھتے ہوے اسکا جائز استعمال کرنا چاہیے اور ناجائز استعمال سے بچنا چاہیے ۔کیونکہ کل قیامت کے دن ہم سے ايک ايک نعمت کے بارے ميں پوچھا جانے والا ہے ثُمَّ لَتسأَلُنَّ یَومَئِذٍ عَنِ النَّعِیم (سورة التکاثر 8) ” پھرتم سے قيامت کے دن نعمتوں کے بارے ميں ضرور سوال کيا جائے گا “۔ اس لیے ایک انسان کو چاہیے کہ وہ بحیثیت مسلمان اپنی زندگی کے سارے معاملات ميں اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم اور آپ کے اصحاب کو اپنا اسوہ اور نمونہ بنائے ۔ سفيان ثوری رضي الله عنه نے بہت پتے کی بات کہی ہے اِنِ استَطَعتَ ان لا تُحِکَّ رَاسَکَ اِلا بِاثَرِ فَافعَل ( الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع ص 142) ”اگر تمہارے ليے ممکن ہو سکے کہ کسی اثر کی بنياد پر ہی اپناسرکھجلاؤ تو ايسا کر گذرو “۔ مفہوم يہ ہے کہ ايک مسلمان کا ہر عمل چاہے اس کا تعلق دنياوی امور سے ہی کيوں نہ ہوسنت نبوی کا آئينہ دار ہونا چاہیے - تو موبائل فون کے تعلق سے بھی ضرورت پڑتی ہے کہ اُس کے استعمال کے آداب کو ہم جانيں ۔ تو لیجئے ذیل میں موبائل فون سے متعلقہ چند آداب پیش خدمت ہیں :

فون کرنے سے پہلے نمبر کی تحقیق کرلینی چاہیے:
فون کرنے سے پہلے نمبرجانچ کر ليناچاہیے کہ واقعی يہ فلاں شخص کا نمبر ہے ، تاکہ ايسا نہ ہو کہ کسی دوسرے کا نمبر ڈائل ہوجائے اور آپ اُس کے ليےناگواری کا باعث بن جائيں، اگر کبھی غير شعوری طور پر ايسا ہوجاتا ہے تو نرم لہجے ميں ان سے معذرت کرلی جائے کہ ”معاف کيجئے گا ، غلطی سے آپ کا نمبر ڈائل ہو گيا “۔
فون کرتے وقت شرعی الفاظ کا استعمال کيا جائے:
مثلاً جب بات کرنا شروع کريں تو کہيں السلام عليکم ، اسی طرح فون اٹھانے والا بھی السلام عليکم کے ذریعہ گفتگو کی ابتداء کرے کيونکہ سلام ميں پہل کرنا بہتر ہے ۔
بالعموم لوگ فون کرتے يا اٹھاتے ہوئے ”ہلو “ ”ہلو“کہتے ہيں‘يہ اسلامی آداب کے خلاف ہے ۔ اسلام نے ہميں يہ تعليم دی ہے کہ جب ہم کسی سے مليں تو السلام عليکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کہيں، اس کا اطلاق بالمشافہ ملاقات پر بھی ہوگا ، خط وکتابت پربھی ہوگا اور فون پر بھی ہوگا ۔
پھر” ہلو“ کہنے کی وجہ سے جہاں ايک طرف غيروں کی مشابہت لاز م آتی ہے وہيں ايک آدمی بے پناہ اجروثواب سے محروم بھی ہو جاتا ہے ،
امام بخاری نے الادب المفرد ميں حضرت ابوہريرہ رضي الله عنه سے بيان کيا ہے کہ اک آدمی اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کے پا س سے گذرا تو اس نے کہا السلا م عليکم آپ نے فرمايا : اِسے دس نيکياں مليں ، دوسرا آدمی گذرا تو کہا : السلام عليکم ورحمة اللہ آپ نے فرمايا : اِسے بيس نيکياں مليں، تيسرا آدمی گذرا تو اس نے کہا : السلام عليکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ، آپ نے فرمايا : اِسے تيس نيکياں مليں ۔( حسنہ الالبانی فی تخریج مشکاة المصابیح 4566)
اس حديث کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر ہم فون پر اسلامی طريقہ کو اپنائيں اور السلام علےيم ورحمة اللہ وبرکاتہ کہيں توہم صرف فون کرنے پرتيس نيکيوں کے حقدار ٹھہرتے ہيں ۔
سلام کرنے کے بعد اپنا تعارف کراياجائے
مثلاً یوں کہے کہ” ميں فلاں بول رہا ہوں“ الا يہ کہ جس سے اس قدر شناسائی ہو کہ آواز فوراً پہچان ميں آجاتی ہو ،ايسی جگہ تعارف کرانے کی ضرورت نہيں ۔ کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ بات کرتے وقت پوچھنے لگتے ہيں کہ” آپ نے مجھے پہچانا ؟“ اِس سے آدمی حرج ميں پڑجاتا ہے اگر کوئی صراحة کہہ ديا کہ ” نہيں“ تو ليجئے! اب خيريت نہيں رہی اُسے کوسنا شروع کرديں گے کہ” آپ تو بڑے آدمی ہيں مجھے کیوں کر پہچانيں گے“ حالانکہ وہ بندہ دل کا صاف ہوتا ہے اور ایسی بات سن کر اسے تکليف ہوجاتی ہے ۔
يہ کہنا بھی غلط ہے کہ انہوں نے ميرا نمبر محفوظ نہيں رکھا ۔ ميں کہتا ہوں حسن ظن سے کام ليں، ممکن ہے اسکے سيٹ ميں جگہ خالی نہ ہو، پھراِس انداز ميں پوچھنا بھی تو اسلامی اد ب کے خلاف ہے ، نام بتانے ميں آخر کيا جاتا ہے ۔
بخاری ومسلم کی روايت ہے حضرت جابربن عبداللہ رضي الله عنهما کہتے ہيں أتیتُ النبیَّ صلی اللہ علیہ وسلم فی دَینٍ کان علٰی أبی فدققتُ البابَ فقال: من ذا ؟ فقلتُ: أنا ، فقال : أنا أنا کأنہ کرھہا ”ميں اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کے پاس ایک قرض کے سلسلے میں مدد کے لیے آیا جسے میرے باپ نے لی تھی اور آپ کو آواز دی تو آپ نے فرمايا : کون؟ ميں نے کہا: ”انا “ يعنی ميں ہو ں ۔ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نکلے تو يہ کہہ رہے تھے [ أنا ، أنا ] ”ميں، ميں“ گويا کہ آپ نے اس طرح کے جواب پرنا پسندیدگی کا اظہار فرمايا “۔ کيونکہ ”ميں “ کہنے سے کوئی بات سمجھ ميں نہيں آتی ۔
آج بھی کتنے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب دروازے پر دستک ديں گے اور آپ اُن سے پوچھيں کہ”کون“ ؟ تو کہيں گے ”ميں“۔بھئی ! ”ميں“ کہنے سے کيا سمجھ ميں آئے گا ، نام بتاؤ....لہذا فون کرنے والے کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنا نام بتائے تاکہ جس سے بات کررہا ہے وہ حرج ميں نہ پڑے اور فوراً پہچان لے۔
جسے فون کر رہے ہوں اس کے احوال کی رعايت کريں:
ممکن ہے وہ آدمی اپنے ذاتی کام ميں مشغول ہويا ايسی جگہ پر ہو جہاں فون اٹھانا اُس کے ليے مناسب نہ ہو۔ ايسی صورت ميں اگر جواب نہ ملا ، يا جواب ميں جلد بازی پائی گئی يا گرم جوشی سے جواب نہ مل سکا توفون کرنے والے کو چاہیے کہ اس کے تئيں حسن ظن رکھے اور اس کے ليےعذر تلاش کرے۔ اُسی طرح جسے فون کيا گيا ہے اُس کے ليے بھی مناسب ہے کہ اگر وہ ايسی جگہ موجود ہے جہاں فون کا جواب نہيں دے سکتا تو وہ موبائل کو سائلنٹ کر دے پھر بعد ميں عذر پيش کرتے ہوئے ری کال کرے يا جلدی سے بتا دے کہ وہ ايسی جگہ پرہے جہاں فون کا جواب نہيں دے سکتا ،يہ دل کی صفائی کا اچھا طريقہ ہے ۔
پھرRing دينے ميںشرعی آداب کو ملحوظ رکھناچاہیے، تین بار فون کی گھنٹی بجنے کے باوجود اگر فون نہیں اٹھایا گیا تو سمجھ لینا چاہیے کہ اجازت نہیں ہے اور کال کو کسی دوسرے وقت کے لیے مؤخر کردینا چاہیے ، کتنے لوگ جواب نہ ملنے پر بار بارRing ديتے ہيں بلکہ کچھ لوگ توجواب نہ ملنے پر غصہ ہوجاتے ہيں اور جلدبازی ميں اوٹ پٹانگ بول ديتے ہيں-
اس مناسبت سے مجھے ايک واقعہ ياد آرہا ہے ، ميرے ايک قريب ترين ساتھی نے مجھے ايک مرتبہ انٹرنیشنل کال کيا ۔ ميں اُس وقت نماز ميں تھا اور ميرا موبائل سائلنٹ ميں تھا ، جب ميں نے نماز سے فارغ ہوکر موبائل ديکھا تو اُس ميں 10 مس کال تھے اور ايکsms تھا جس ميں لکھا تھا ” اگر آپ کو ميرا فون کرنا گراں گزرتا ہے تو اشارہ کرديں ۔ رب کعبہ کی قسم ! ميں آپ کو کبھی فون نہ کروں گا “ ۔
ديکھا ! يہ جلد بازی کا نتيجہ ہے ، انہوں نے فوراً نتیجہ اخذ کرلیا کہ ميں دانستہ جواب نہيں دے رہا ہوں حالانکہ حقيقت کچھ اور تھی، ميں نماز ميں تھا ۔ لہذا جلدبازی ميں کوئی بات نہ کہنی چاہیے جس سے بعد ميں سبکی ہو ....اُسی طرح جسے فون کر رہے ہوں اُس کی طرف سے جواب نہ ملنے پر ہميشہ حسن ظن رکھنا چاہیے۔
فون کرنے کے ليے مناسب وقت کا انتخاب کياجائے :
ہروقت ايک شخص فون کا جواب دينے کے ليے تيار نہيں رہتا ، کبھی گھريلو مشغوليات ہوتی ہيں ، کبھی کام کے تقاضے ہوتے ہیں۔ بالخصوص ايسے اشخاص سے بات کرتے وقت مناسب وقت کا خيال رکھنا بہت ضروری ہے جن کے اوقات بہت قيمتی ہوتے ہيں۔ کتنے لوگ دير رات ميں فون کرتے ہيں جس وقت ايک آدمی سويا ہو تا ہے، ظاہر ہے اِس سے نيند خراب ہوتی ہے اور کچھ لوگوں کو ايسا عمل سخت ناگوار گذرتا ہے لہذا فون کرنے کے ليے مناسب وقت کی رعايت بہت ضروری ہے ۔
فون کرنے کی مدت کا بھی تعين رکھنا چاہيے
کتنے ايسے لوگ ہيں جو فون کرنے بيٹھتے ہيں تو گھنٹوں باتيں کرتے رہتے ہيں ، ايک مسلمان زندگی کے کسی بھی شعبے ميں افراط وتفريط سے کام نہيں ليتا ۔ فون پر ہمارے جتنے پيسے برباد ہو رہے ہيں اگر اس ميں سے ہلکی سی کٹوتی کرليں تو ميں سمجھتا ہوں‘ کتنے غريبو ں کا بھلا ہو سکتا ہے۔
بہرکيف عرض مدعا يہ ہے کہ فون پر ہذيان گوئی، بيکار گفتگو اور ضياع وقت سے پرہيز کرنا چاہیے۔ فون ضرورت کے تحت استعمال کيا جائے اُسے طفلِ تسلی نہ بنايا جائے ۔
جب مسجد ميں داخل ہوں تو موبائل فون بند کرديں يا سائلنٹ ميں کرديں:
اگرآپ کوکسی وزیر یا بادشاہ سے ملنے کا موقع مل جاے توپہلی فرصت میں آپ اس کے پاس جانے سے پہلے اپنے موبائل فون کو بند کردیں گے یا سائلنٹ میں کردیں گے مبادا کہ دوران ملاقات اس کے بجنے سے ناگواری محسوس ہو ۔جب انسان سے ملنے سے پہلے اتنا اہتمام کیا جاسکتا ہے تو مسجد‘ جوکہ اللہ کا گھرہے اوراس کے نزدیک سب سے پیاری جگہ، جہاں لوگ اپنے رب سے سرگوشی کرنے آتے ہیں، ظاہر ہے مسجد میں داخل ہونے سے پہلے موبائل فون کو سب سے پہلے سائلنٹ میں کردینا چاہیے ، تاکہ خشوع وخصوع سے نماز ادا کی جاسکے ، اور فون کے رِنگ سے دوسرے نمازيوں کی نمازیں بھی متاثر نہ ہوں ۔ لیکن بھول چوک انسانی فطرت ہے ، اس لیے اگر لاعلمی ميں موبائل فون کھلا رہ گيا اور بحالت نماز کال آگئی تو فوراً موبائل فون بند کر دينا چاہیے بلکہ بند کرنا ضروری ہے کيونکہ اس سے لوگوں کی نمازيں متاثر ہوتی ہيں۔ کتنے لوگ فون آنے پر موبائل بند نہيں کرتے اور مسجد ميں دوسروں کی نمازيں خراب کرتے رہتے ہيں جوقطعاً مناسب نہیں۔
اسی طرح جو آدمی غیرشعوری طور پر موبائل فون بند کرنا بھول گيا اُسے معذور سمجھنا چاہیے اور خواہ مخواہ اس کے ساتھ سخت کلامی سے پيش نہيں آناچاہیے ۔ کيا ہم ديکھتے نہيں سرکارِ دوعالم صلى الله عليه وسلم کا اسوہ کيا تھا؟ ايک ديہاتی مسجد نبوی کے ايک کونہ ميں پيشاب کرنے بيٹھ جاتا ہے ۔ صحابہ کرام اُسے ڈانٹتے ہيں تو اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم انہيں منع کر ديتے ہيں، پھر جب وہ پيشاب سے فارغ ہوجاتا ہے تو آپ ايک بالٹی پانی منگواتے ہيں اورحکم ديتے ہيں کہ اُس گندگی کی جگہ پر بہا ديا جائے ۔ اُس کے بعد فر ماتے ہيں فانما بعثتم ميسرين ولم تبعثوا معسرين (رواہ البخاری) ” تم آسانی کرنے کے ليےبھيجے گئے ہو سختی کر نے کے ليے بھيجے نہيں گيے “۔
مجلس میں بیٹھ کر بات نہ کریں:
اگر آپ معززشخصيات کی مجلس ميں بيٹھے ہوں اور اُسی بيچ کال آجائے تو مناسب ہے کہ ايسی جگہ پر موبائل کو آہستہ سے سائلنٹ کر دیں اور اگرکوئی ضروری کال ہوتو اجازت لے کر باہر نکل جائيں۔ بڑوں کی مجلس ميں بيٹھے ہوئے فون کا جواب دينے لگنا مناسب نہيں ۔ ہاں! اگر دوست واحباب کی مجلس ہو‘ تو مجلس کے اندر ہی بات کرنے کی گنجائش ہے بشرطيکہ اجازت لے لی جائے ۔
موبائل فون عام جگہوں پر نہ رکھے جائيں :
کيونکہ ہوسکتا ہے کہ کوئی دوسرا اُسے اٹھاکر استعمال کرنے لگے يا بچے کسی ايسے شخص کو فون لگا ديں جنہيں فون نہيں کرنا چاہیے تھا ۔ يا ہوسکتا ہے کہ اُس ميں کوئی راز کی بات ہو جسے دوسروں کا جاننا پسند نہ کرتے ہوں، يا ايسے ايس ايم ايس يا فوٹوز ہو ں جو آپ کے اہل خانہ کے ہوں اور دوسرا غلط نظريہ سے اُسے ديکھنے اور سوچنے لگے ۔ اِن سارے شبہات سے بچنے کا واحد طريقہ يہی ہے کہ موبائل فون ہر جگہ نہ رکھا جائے ۔ اُسی طرح ايک شخص کو چاہیے کہ دوسرے کا موبائل فون اُس کی اجازت کے بغير استعمال نہ کرے اور اگر اجازت ملنے پر استعمال کرتا بھی ہے تو اُسی حد تک جس حد تک اُسے اجازت ملی ہے ۔
گھر ميں گارجين کے رہتے ہوئے نوجوان بچيوں کو فون اٹھانے نہ ديا جائے:
اِس سے بچيوں ميں بے راہ روی کے امکانات زيادہ ہوتے ہيں بلکہ آئے دن اس طرح کے واقعات پیش آرہے ہیں اورہماری عزت وآبرو کا خون ہو رہا ہے ۔ بلکہ مردوں کی موجودگی ميں عورتيں فون نہ اٹھائيں ۔ ہاں! ضرورت کے تحت فون اٹھايا جا سکتا ہے ليکن عورتيں فون اٹھاتے وقت نرم لہجہ ميں بات نہ کريں ايسا نہ ہو کہ بيمار دل انسان دل ميں کسی طرح کا غلط خيال بٹھالے ۔ ذرا غور کيجئے کہ اللہ تعالی نے نبی پاک صلى الله عليه وسلم کی بيويوں کو حکم ديا کہ جب وہ دوسروں سے بات کريںتو دبی زبان ميں بات نہ کريں:
يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا ( سورة أحزاب 32 )
” اے نبی کی بيويو! اگر تم پرہيزگاری اختيار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل ميں روگ ہو ‘ وہ کوئی خيال کرے اور ہاں! قاعدے کے مطابق کلام کرو“
ذرا غورکیجیے کہ وہ عہد نبوت ميں تھيں، لوگوں کی ماؤں کی حيثيت رکھتی تھيں ، اُنکے تئيں کسی کے دل ميں غلط خيال بيٹھ نہيں سکتا تھا اُس کے باوجود يہ حکم ديا جا رہا ہے،اِسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری بہنيں اور بيٹياں اِس حکم کی کس قدر مخاطب ہو ں گی ۔ ہميں يہ باور کرنا چاہیے کہ شريعت دراصل فطرت کی آواز ہے، فطری طور پر عورت کی آواز ميں دلکشی، نرمی اور نزاکت پائی جاتی ہے۔ اِسی ليے عورتوں کو يہ حکم ديا گيا کہ مردوں سے گفتگو کرتے وقت ايسا لب ولہجہ اختيار کيا جائے جس ميں نزاکت اور لطافت کی بجائے سختی اور روکھا پن ہو‘ تاکہ کسی بدباطن کے دل ميں بُرا خيال پيدا نہ ہو۔
سن شعور کو پہنچنے سے پہلے بچوں کوبھی فون اٹھانے نہ ديا جائے
اگر بچے ہوشيار ہوں تب بھی انہيں فون اٹھانے کا طريقہ سکھانے کے بعد ہی فون اٹھانے کی اجازت ديں ۔ بسا اوقات ايسا ہوتا ہے کہ آپ کسی اہم ضرورت سے کسی کے ہاں فون کريں فون اٹھانے والا گھر کا بچہ ہوگا جو اپنے انداز ميں بات کرتا ہوتا ہے ۔ منٹوں کے بعد بات سمجھ پاتا ہے اور کبھی وہ بھی نہيں سمجھ پاتا کچھ خبيث طبيعت کے لوگ تو بچوں سے راز کی باتيں بھی معلوم کرنے لگتے ہيں ۔ ظاہر ہے اِس کا واحد علاج يہ ہے کہ بالکل چھوٹے بچوں کو فون اٹھانے نہ ديا جائے ۔
فون کی آواز آن کرنا یا آواز رکارڈ کرنا منع ہے:
گفتگو کرنے والے کی بات کو ريکارڈ کرنا ياموبائل کی آواز سب کے سامنے آن کردينا تاکہ اسے دوسرے بھی سنيں‘ غلط ہے بلکہ ايک طرح کی خيانت ہے ۔ کتنے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب انہيں کوئی فون کرتاہے تو اس کی آواز کو ریکارڈ کرنے لگتے ہيں يا آواز کھول ديتے ہيں تاکہ حاضرين اس کی گفتگو سنيں ۔ايسا کرنا سراسر غلط ہے ۔ کوئی دانا ايسا نہيں کرسکتا ۔ ہاں اگر بات کرنے والے سے اجازت لے لی جائے ، اور گفتگو سب کے ليے مفيد ہو تو ايسی صورت ميں آواز کھولنے ميں کوئی حرج نہيں ۔
علامہ ڈاکٹر بکر ابوزيد رحمه الله تعالى اپنی کتا ب ”ادب الھاتف “ ميں لکھتے ہيں لايجوز لمسلم يرعی الأمانة ويبغض الخيانة أن يسجل کلام المتکلم دون اذنہ وعلمہ مھما يکن نوع الکلام دينيا أو دنيويا ”ايسا مسلمان جوامانت کی رعايت کرتا ہو اور خيانت کو ناپسند کرتا ہو‘ اس کے ليے قطعاً جائز نہيں کہ گفتگو کرنے والے کی بات کو اس کی اجازت اوراسکے علم کے بغير ريکارڈ کرلے چاہے گفتگو جس نوعيت کی ہو‘ دنيوی ہو يا دينی جيسے فتوی اور علمی مباحث وغيرہ “
رنگ ٹونز کے طور پر عادی گھنٹی کا استعمال کریں
موبائل فون میںعادی ٹونز کا استعمال ہوناچاہیے ،بالعموم لوگ موسیقی یا نغمے یاوالی ٹونز رکھنا پسند کرتے ہیںحالانکہ سب سے پہلے تو یہ حرام ہے ،پھردینی مزاج رکھنے والے اور سنجیدہ طبیعت کے لوگ اسے اچھا نہیں سمجھتے ،ایسے لوگوں کواس سے اذیت اور تکلیف ہوتی ہے ، بالخصوص جب مساجد یا لوگوں کے اجتماعات میں ایسے نغمے سنے جائیں تو اس کی قباحت مزید بڑھ جاتی ہے ۔
اس کے برعکس پچھلے چند سالوں سے دینی مزاج رکھنے والے افراد نے قرآنی آیات کو رنگ ٹون کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا ہے ، حالانکہ ایسا کرنا بھی صحیح نہیں ہے ،عصر حاضر کی متعدد فتوی کمیٹیوں نے اس کی حرمت کا فتوی دیا ہے جن میں مفتی مصر ،سعودی عرب کے کبار علماء، اور رابطہ عالم اسلامی کی اسلامی فقہ اکیڈمی قابل ذکر ہے ، کیونکہ اس میں قرآن کی بے حرمتی کا پہلو پایا جاتا ہے جیسے بیت الخلا ء میں فون آجائے یا لہوولعب کے اڈے پر رِنگ دینے لگے ،اسی طرح اگر رنگ دیتے وقت فون اٹھالیاجاے تو بسااوقات آیت منقطع ہوکر رہ جاتی ہے ، یا الفاظ ادھورے رہ جاتے ہیں جس سے معنی کچھ کا کچھ ہوجاتا یا مبہم رہ جاتا ہے ، اگر ایک آدمی سنجیدگی سے غور کرے تو اسے خود سمجھ میں آجاے گا کہ واقعی اس سے قرآنی آیات کی بے حرمتی ہوتی ہے ، کوئی عقل مند آدمی یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اس میں قرآنی آیات کی تعظیم وتکریم ہے جبکہ ہمیں حکم ہے کہ قرآنی آیا ت کی تعظیم وتکریم کریں، کیونکہ یہ ہمارے خالق ومالک کا کلام ہے جو ہماری ہدایت کے لیے اترا ہے ۔

هناك تعليقان (2):

غير معرف يقول...

Jahan tak Helloki bat hai to abhi chand mahine qablhi Womayekeramki eak Tahqeeq Jarayedo akhbarme parhne awr wunneko mili ke hello ka Mana Jahnni hota hai ya ai jahnnami , mumkin hai ke isse sare wolma ittefaq na rakhte hon likin phir bhi Aaise alfazke bajaye Islami alfazko apnana jaisaka aapne likha hai Assalamo alaikum ... kafi behtar hoga.

غير معرف يقول...

Jahan tak Helloki bat hai to abhi chand mahine qablhi Wolamayekeramki eak Tahqeeq Jarayedo akhbarme parhne awr sunneko mili ke hello ka Mana Jahnni hota hai ya ai jahnnami , mumkin hai ke isse sare wolma ittefaq na rakhte hon likin phir bhi Aaise alfazke bajaye Islami alfazko apnana jaisaka aapne likha hai Assalamo alaikum ... kafi behtar hoga.