الجمعة، يناير 14، 2011

فضيلة الشیخ صلاح الدین مقبول احمد حفظه الله کا کلام


كويت ميں ایک طويل عرصہ سے مقيم برصغیر کے عظیم اسکالر اورجیدعالم دین فضيلة الشیخ صلاح الدین مقبول احمد صاحب حفظہ اللہ (باحث كبير جمعيت إحياء التراث الإسلامي ، فرع جهراء ) کو ہم عربی زبان میں محقق ، مؤلف ، داعي اور اسکالرکی حیثیت سے توجانتے تھے تاہم یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ اردو زبان کے قادرالکلام شاعر بھی ہیں چند دنوں قبل راقم سطور برصغیرکے معروف مؤرخ مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب کی کتاب ”دبستانِ حدیث“ کا مطالعہ کر رہا تھا جس میں بھٹی صاحب نے موصوف کی زندگی کے بھی بعض گوشوں کو تقریبا12 صفحات میں اجاگر کیا ہے ۔ اس ضمن میں ایک جگہ انہیں کا قول نقل کرتے ہيں کہ وہ حصول تعلیم کے ابتدائی دور میں شعروشاعری کا اچھا ذوق رکھتے تھے بلکہ تحصیل علم کے ابتدائی ایام میں ایک مشاعرے میں اپنا کلام پیش کیا تھا تو ناظم مشاعرہ اور ان کے استاذ نے کہاتھا کہ” اگر یہ بچہ شعروشاعری سے دلچسپی رکھا تو اپنے زمانے کا اقبال ہوگا “ تاہم بعد میں اللہ سے دعا کی کہ یہ عادت چھوٹ جائے چنانچہ اللہ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور شوق شعرگوئی کا خاتمہ ہوگیا ۔ بھٹی صاحب نے موصوف کے اس قول پرتبصرہ کرتے ہوئے انہیں چند مشورے دیے ہیں اورعربی کے ساتھ ساتھ اردو نثر ونظم میں بھی خدمات انجام دینے کی گذارش کی ہے ۔ چنانچہ موصوف نے ان کے مشورے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ان دنوں اردو نثر ونظم کی طرف بھی دھیان دیا ہے ، پچھلے دنوں دوماہی تعطیل گزارکر ہندوستان سے کویت تشریف لائے تو برادرم علاءالدین عین الحق مکی صاحب ان سے ملنے گیے تھے ، جب لوٹے تو اپنے ساتھ ان کا کلام بھی مصباح میں اشاعت کے لیے لائے ، ذیل کے سطور میں ان کے کلام کا ایک نمونہ پیش خدمت ہے جو ان کی تازہ تخلیق ہے، اورماہنامہ مصباح جنوری 2011 کے شمارہ میں شائع ہوا ہے ۔ موصوف آئندہ اسلامیات پر اپنا دیوان تیار کرنے کا عزم رکھتے ہیں اور اس کے لیے ہمہ تن مشغول ہیں ، ہماری دعا ہے کہ اللہ پاک ان کی اس خوابیدہ صلاحیت سے قوم کو فائدہ پہنچائے ، تولیجیے اب موصوف کا کلام پڑھئے اور ہمیں مزید کا انتظار رہے گا ۔ واضح ہوکہ شعروشاعری کی دنیا میں شیخ صاحب اپنا تخلص مصلح رکھتے ہیں




داعی اسلام
(بے نقط شاعری کا نمونہ )

کارہائے احمد مرسل کا ہے محمودحال
کس طرح عمدہ مرصّع داعیِ اسلام ہے
مالکِ ملکِ ہر عالم، وہ الٰہ وحدہ
اُس کا مرسل، اُس کا اسوہ، اُس کا کرم عام ہے
سرورِ اولادِ آدم سرورِ رسلِ امم
حامیِ مسلم ہے، ملحد کو وہی صمصام ہے
اس کی آمد سے ہے ٹوٹا مصر و روما کا طلسم
در دلِ کسری اُدھر درد والم کہرام ہے
عمدہ وہ کہ اسوہ احمد کا دلدادہ رہے
ہر ادا اُس کی ہمارے واسطے اکرام ہے
ہو رہا ہے مردِمسلم رہروِ راہِ ارم
کس طرح محمود راہِ ھادی اسلام ہے
ھادی اسلام کا اُسوہ ہے، اس مصلح كا کام
اہل عالم کہہ دو کوئی اِس سے عمدہ کام ہے؟

فلسفہ نکاح
بتا دیا کسی دانا نے حکمتِ شادی
بقائے رنگِ جہاں نسل و خانہ آبادی
وہ خوش کہ پا گئے آدابِ شوہری سے نجات
ہوئے ہیں نفس کے بندے بنام آزادی

سمجھ سکے نہیں حکمت یہ خانماں بربادلکھی ہے ان کے مقدر میں کتنی بربادی٭٭٭
دلآور فگار:پنجہ مروڑ سکتا ہوںاگرچہ پورا مسلمان نہ سہی لیکنمیں اپنے دین سے رشتہ تو جوڑ سکتا ہوںنماز، روزہ، و حج و زکاة کچھ نہ سہیشبِ برات پٹاخہ تو پھوڑ سکتا ہوںمصلح:بس اس قدر ہی سہی ہے تو زورِایمانیاسی سے کفر کا پنجہ مروڑ سکتا ہوں

اسی لیے تو بلندی پہ ہے مقام اتنا
کہ آسمان سے تاروں کو توڑسکتا ہوں


عالم اسلام ،امریکہ اور صہیونیت


انہیں یہ نظر کرم ہم سے خوشنما وعدے


سمجھ سکے نہ یہ اندازِ دلبری کیا ہے


ہے ایک مسئلہ لیکن دوچند پیمانے


یہی ہے عدل تو آخر ستم گری کیا ہے


٭٭٭


آزاد شاعری

انہوں نے شعر و سخن پہ کرم یہ فرمایا

حساب دفتر شعراءسے کر لیا بیباق


سمجھ میں آگیا آزاد شاعری کیا ہے


کہ شاعروں نے اڑایا ہے شاعری کا مذاق


نام شعراءمیں گنائے فخر سے ہر دم جسے


شاعری آتی نہ ہو شعر و ادب کا شوق ہو



ليست هناك تعليقات: