غزل
ساگر تیمی
کدھر گیا وہ ملاقات میں نہیں آیا
عجیب خواب تھا کہ رات میں نہیں آيا
مجھے وہ کب سے نئی زندگی کا کہتا تھا
ہوا نکاح تو بارات میں نہيں آیا
اسے ایمان کی دولت ملی تھی کچھ اتنی
ستا بہت مگر حالات میں نہیں آيا
یہ کیسی مار پڑی موسموں کی قسمت پر
کہ پانی پھر سے کیوں برسات میں نہیں آیا
"فقیر " کھا گیا کتنے غریب لوگوں کو
عذاب کیوں اسی کی گھات میں نہیں آیا
زبان اس کی کہ قینچی سے تیز چلتی تھی
زہے نصیب کہ تو بات میں نہیں آیا
مجھے بھی عشق نے ساگر بہت بلایا مگر
میں بے وقوف خیالات میں نہیں آيا
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق