غزل
ساگر تیمی
ہوا کی سمت ضرورت کا اعتبار کرو
بہت ہے فائدہ اس میں تو بار بار کرو
تمہاری عادت ہے کھانے کی کوئی بات نہیں
مگر ہماری بھی دعوت کبھی کبھار کرو
اگر ہے ظلم کی تقدیر ہی فنا ہونا
تو مٹ ہی جائے گا کچھ دن توانتظار کرو
خزاں کی اپنی سیاست ہے ، تم کرو اپنی
جفا کا زور گھٹاؤ ، وفا بہار کرو
کروگے عشق تو مٹنے کا غم نہیں ہوگا
ہماری مانو ، محبت کا کارو بار کرو
امیر ہونے سے سودا ضمیر کا ہوگا
تو یوں کرو کہ فقیری کو تاجدار کرو
وہ خود تو ظلم کے جویا ہیں ، بے مروت ہیں
مجھے یہ کہتے ہیں ساگر وفا شعار کرو
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق