الخميس، مايو 14، 2015

مسلمانوں کی تاریخ معجزوں سے بھری ہوئي ہے
ثناءاللہ صادق تیمی ، الرئاسۃ العامۃ لشؤون المسجد الحرام و المسجد النبوی
قوموں کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جب ایسا لگتا ہے کہ جیسے اب ان قوموں کا مٹ جانا طے ہے ۔ کتاب حیات سے ان کے صفحات ہمیشہ کے لیے کھرچ کر الگ کردیے جائیگے اور روئے زمین پر ان کا نام لیوا کوئی نہ رہ جائے گا ۔ بہت سی قوموں اور تہذیبوں کے نام و نشان مٹے بھی ہیں اوروہ صحیح معنوں میں نسیا منسیا کی مثال بھی بنے ہیں ۔ امت مسلمہ کی تاریخ پر نظر دوڑائیے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تاریخ میں کئی موڑ ایسے آئے جب لگنے لگا کہ اس امت کی بساط لپیٹ دی جائے گی ۔ لیکن ساڑھے چودہ سو سالہ تاریخ کا سب سے روشن تجربہ یہ ہے کہ سورج کی مانند یہ امت کبھی غروب نہ ہوسکی ۔ اقبال نے کہا ہے ۔
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے ، ادھر ڈوبے ادھر نکلے
ہماری شروعات ہی ایسی ہوئی کہ جیسے ایک چراغ مسلسل آندھی کی زد میں ہے ۔ لیکن مکہ کی پوری کافر برادری اپنے سارے سازو سامان ، آن و بان اور قوت وشہامت کے باوجود اس سراج منیر کا کچھ بھی بگاڑ پانے میں ناکام رہی ۔ اسے رسول الامۃ کا معجزہ نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے کہ جس دعوت کی شروعات ایک فرد نے کی تھی ، جسے ستایا گیا تھا ، جان لینے کی کوشش کی گئی تھی ، جس کے نادار ماننے والوں پر ظلم و عذاب کی ساری سنتیں تازہ کر دی گئی تھیں ، جسے خود اپنے شہر سے نکل جانے پر مجبور کردیا گیا تھا وہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ سال کی مختصر مدت میں بحیثيت فاتح لوٹتا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ اس کے سامنے اس کے سارے دشمن سرنیچا کیے عفوو درگذر کے سوالی بنے کھڑے ہیں ۔ غور سے دیکھیے تو مسلمانوں کی تاریخ ہی معجزوں کی تاریخ ہے ورنہ مضبوط پٹھوں والے نوجوانوں کے بیچ سے سورۃ یس کی ابتدائی آیتیں پڑھ کر نکل جانا آسان تھا کیا ۔ در اصل یہ اللہ کی خاص مہربانی تھی ۔ تین سو تیرہ کے نہتھے جتھے کا ایک ہزار کے مسلح لشکرکو چت کردینا اور غزوہ احزاب میں باد باد صر صر کے ذریعہ دشمنان اسلام کے خیمے میں ہلچل پیدا کرکے مسلمانوں کی حفاظت ہم سے کیا کہتی ہے ؟
    رسول کائنات کی وفات کے بعد ارتداد اور مانعین زکوۃ کے فتنے نے جس طرح سر اٹھایا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے بعد مسلمان جس طرح سے ٹوٹے ہوئے تھے لگ تو ایسا رہا تھا کہ بس اب اس قافلے کے بکھر کر مٹ جانے کا وقت آگیا ہے لیکن صرف ایک آدمی کی بصیرت اور ایمان نے ایسا سماں پیدا کردیا کہ چاروں طرف مسلمانوں کی قوت کی دھاک بیٹھ گئی ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جس طرح سے گھیر کر بلوائیوں نے ظلم و تعدی کے سارے حدود پار کرتے ہوئے شہید کردیا ، سوچا جا سکتا ہے کہ مظلومیت اور حق کی کسمپرسی کی کیا کیفیت رہی ہوگی کہ لمبی چوڑی اسلامی حکومت کے فرمانروا کو یوں قتل کردیا جائے ۔ جنگ جمل اور جنگ صفین کے وہ لمحات کیسے رہے ہونگے جب ایک مسلمان کے مد مقابل دوسرا مسلمان رہا ہوگا ۔ تاریخ کے تجربات نے تاریخ سے یہی کہا ہوگا کہ اب اس قوم کا آخری وقت آرہا ہے لیکن یہ دیکھیے کہ امت بنو امیہ کی خلافت میں کس قوت سے ابھر رہی ہے !!
 تاتاریوں نے قتل و خون کا جو ننگا ناچ ناچا ہے اور امت کے اوپر جس قسم کا عذاب مہین نازل ہوا ہے کس کے گمان میں تھا کہ اللہ تبارک وتعالی اسی خونریز قوم کو کہ ایمان والوں کو مٹانے کے لیے اٹھی ہے ، ایمان کی حفاظت کا ذریعہ بنا دے گا ۔ یہ اس امت کا کیسا معجزہ ہے !!
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
دور کیوں جائیے اپنے ہندوستان ہی کی تاریخ کو ذہن میں رکھ لیجیے ۔ اور اس میں بھی مغلوں کی شاندار سلطنت کی نہیں بلکہ آزادی کے بعد تقسیم کی کوکھ سے جنم لینے والی اس صورت حال کو ذہن میں رکھ لیجیے جب پوری قوم بحیثيت قوم خوف کی نفسیات میں جی رہی تھی ۔ جب آئے دن فسادات کے نہ جانے کتنے گولے داغے گئے ، باضابطہ پلاننگ کرکے ان شہروں کو فسادات کی آگ میں جھونکا گیا جہاں ہماری معیشت مضبوط تھی ۔ فسطائی ذہنیت نے وہ ہنگامہ کھڑا کیا کہ 1992 میں بابری مسجد ڈھائی گئی اور ملک کے چاروں طرف الٹے ہمیں ہی نشانہ بنایا گیا ۔ ہمارے خلاف تعصب کے سارے بچھو آزمائے گئے اور نفرت کے سانپ کو ہمارے پیچھے چھوڑ دیا گیا لیکن انجام کار کیا ہوا ؟ کیا ہم مٹ گئے ؟ کیا ہماری بساط الٹ دی گئی ؟ کیا ہمارا ایمان اور ہمارے اعمال صالحہ کی روشنی مدھم پڑ گئی ؟ کیا حق و صداقت کے حاملین نے صبروشکیبائي کے ساتھ آگے کا سفر جاری نہيں رکھا ؟
اللہ کی قسم ہمارے دشمن کی یہ ذلت ہی ہے کہ انہوں نے درندگی اور سبعیت کے ایک پر ایک ریکارڈ بنا ڈالے لیکن انہيں کامیابی نہ مل سکی ۔ ہم نے ایمان ، عمل صالح اورمضبوط قوت دفاع کے ذریعہ ہر طرح کی صورت حال کا مقابلہ کیا اور الحمد للہ سرخرو ہوئے ۔ ایسا نہیں کہ اس بیچ ہمارا نقصان نہيں ہوا ، جانیں ضائع نہ گئیں ، عصمتیں تارتار نہ ہوئيں ، ہمارے جگرگوشوں پر آرے نہ چلائے گئے اور ہماری نگاہوں میں سلائیاں نہ پھیری گئیں لیکن یہ سچ ضرور ہے کہ ہم ڈوبے نہیں ، ہم نے پسپائي اختیار نہ کی اوربحیثیت ایک قوم کے ہمارا سفربہر حال جاری رہا ۔
    قوموں کی زندگی میں برے وقت آتے ہیں ۔ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ آج ان کی حکومت ہے جن کے ہاتھ معصوموں کے خون سے رنگے ہوئے ہيں ، جن کی پہچان نفرت اور شعار تعصب ہے لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا ہے کہ یہ وقت سدا کے لیے باقی رہنے والا نہیں ہے ۔ دیکھ لیجیے کہ چہرے پر جو غازہ لیپا گیا تھا اب وہ پگھلنےلگا ہے ، نفرت کے سوداگروں کو عوام پھر سے دھتکاررہے ہیں اور کوئي بعید نہیں کہ مشرق سے ابھرنے والا سورج کوئي اور ہی پیغام لے کر نمودار ہو ۔ ہمارا علاج نہ تو ہمت شکن خوف میں ہے اور نہ ایمان فروش بزدلی میں اور نہ حماقت آمیز جوش میں ۔ ہمارے مسائل کا حل ایمان ، عمل صالح ، ٹھوس حکمت عملی ، بصیرت افروز پالیسی اورصبر وشکیبائی کے اس نور میں ہے جسے تقوی و پرہیزگاری قوت فراہم کرتی ہے ۔ اللہ کا ارشاد ہے ( وان تصبروا وتتقوا لا یضرکم کیدھم شیئا )
   یاد رہے کہ ہمارا مخالف چال چل رہا ہے کہ خوف کا ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ پوری قوم ترقی کے راستے سے ہٹ جائے لیکن یہ دشمن کو بھی پتہ ہے کہ اب یہ قوم بیدار ہے ، نگاہیں کھل چکیں ہیں ، عقلوں نے تقلید کی بندشیں توڑ دی ہیں ، ایمان میں قرار اور قوت ہے اور آگے بڑھنے کی امنگ اندھیروں سے پریشان ہونے والی نہیں ہے ۔ بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی سے مالامال یہ قوم شب دیجور کے شکم سے صبح تازہ نکال کر ہی دم لے گی ۔ بقول شاعر غلام ربانی تاباں ۔
یہ رات بہت تاریک سہی ، یہ رات بھیانک رات سہی
اس رات کے سینے سے پیدا اک صبح درخشاں کرنا ہے
اور علامہ اقبال کی زبانی
میں ظلمت شب میں لے کے نکلونگا اب درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہوگی آہ میری ، نفس میرا شعلہ بار ہوگا
  بعض افراد ایسے ہیں جن کے ایمان کی کمزوری اور تجربے کی کمی نے انہیں شاہراہ حق وصداقت سے منحرف کردیا ہے ، جنہوں نے دشمنوں کے خیمے میں جاکر پناہ ڈھونڈنا شروع کردیا ہے اور نفاق و تملق کی سیڑھی چڑھ کر نام نہاد ترقی کے راستے پر چلنے کی کوشش شروع کردی ہے، ہمیں ان کی طرف رشک بھری نگاہوں سے دیکھنے کی بجائے اس بھیانک نتیجے کا انتظار کرنا چاہیے جسے اللہ نے منافقوں اور ابن الوقتوں کے لیے مقرر کررکھا ہے ۔ اللہ کی سنت ان کے لیے بدلنے والی نہیں ہے اور یہ اپنے سیاہ اعمال کے منطقی نتیجے تک اب تب پہنچنے ہی والے ہیں ۔ بس ہمارا یہ یقین اور ایمان تازہ رہے کہ سچ کا مقدر شکست نہیں ہے اور تاریکی چاہے جتنی گہری ہو روشنی کی ہلکی سی کرن بھی اسے شکست فاش سے دوچار کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے ۔
اپنی صفوں میں علم ہے ،جرائت ہے، وقت ہے
ایسا نہیں کہ سچ کا مقدر شکست ہے
ایمان تازہ رہے ۔ دشمن مکر کررہا ہے اور ہماری جانب سے اللہ کا مکر جاری ہے ۔ (ویمکرون و یمکر اللہ و اللہ خیر الماکرین ) وہ بھی مکرکررہے ہیں اور اللہ بھی مکرکررہا ہے اور اللہ سب سے بہتر مکر رکرنے والا ہے ۔ پھر یہ خوف کی نفسیات کیوں ؟ آگے بڑھنےمیں پریشانی کیوں ؟ لوٹے جانے کا ڈر کیوں ؟ اسے نکال پھینکیے کہ یہ ایمان کی کمزوری ہے ! اوربرملا کہ دیجیے !
لو ہم پھر جلا رہے ہیں چراغ
اے ہوا حوصلہ نکال اپنا









ليست هناك تعليقات: