آج مغرب سمیت
پوری دنیا اسلام دشمنی پر کمربستہ ہوچکی ہے ، کبھی وہ مسلمات دین پر کیچڑ اچھالتے ہیں
، توکبھی قرآن کریم کی بے حرمتی کرتے ہیں ،کبھی صدیقہ بنت صدیقؓ پر زبان طعن دراز کرتے
ہیں تو کبھی حرمین شریفین کو بم سے اڑانے کی دھمکیاں دیتے ہیں، کبھی مسلمانوںکو رجعت
پسند اورکٹرپنتھی کا نام دیتے ہیں تو کبھی ہمارے حبیب صلى الله عليه وسلم کے اہانت آمیز خاکے شائع کرتے ہیں ۔پچھلے دنوں یوٹیوب
پر14منٹ کی ایک فلم نشر ہوئی ہے ، یہ فلم سام باسلے نے بنائی ہے ، جس نے خودکو اسرائیلی
یہودی کے طورپر متعارف کرایا ہے ، اوردعوی کیاہے کہ اس فلم کی تیاری کے لیے اس نے100یہودیوں
سے5 ملین ڈالراکٹھا کئے ہیں ۔ اس توہین آمیزفلم میں اس نے اسلام اور نبی رحمتصلى الله عليه وسلمکودہشت
گردی کا علمبردار باور کرایاہے ، برصغیرپاک وہندسمیت پوری دنیامیں اس فلم کی مذمت کی
گئی ہے ،اوراس کے ردعمل میں لیبیا میں امریکی سفیر جے کرسٹوفرسمیت تین امریکی اہلکار
ہلاک کردئیے گئے ہیں ، مصر میں مشتعل عوام نے امریکی سفارخانے کو آگ لگادی ہے ۔
ظاہر ہے کیا
کوئی برداشت کرے گاکہ اس کی ماں کو کوئی گالی دے یا سخت سست کہے ، ایک غیرتمندانسان
قطعاً اسے برداشت نہیں کرسکتا ،اورممکنہ حدتک اپنی ماں کا بدلہ لینے کی کوشش کرے گا
،جب ماں کی اہانت پرہرانسان کے اندرغیرت جاگ اٹھتی ہے تو ہمارے حبیب صلى الله عليه وسلمہمیں اپنے
ماں باپ سے بھی عزیز ہیں بلکہ ہماری جان سے بھی زیادہ پیارے ہیں، ان کے ساتھ گستاخی
کو ہم کیوںکر برداشت کرسکتے ہیں ۔ لیکن ہرایک مسلمان اس بات کا مکلف ہے کہ وہ کوئی
بھی اقدام شریعت محمدی سے ہٹ کرنہ کرے، جذبات میں آکر بے گناہوں کو
قتل کرنا یا آبادجگہوںکو برباد کرنااسلامی تعلیم کے منافی عمل ہے ،خودہم اپنے نبی کی
زندگی میں جھانک کردیکھ سکتے ہیں کہ مخالفین کی مخالفت سے آپ کے اخلاق حمیدہ میں مزید
اضافہ ہی ہوتا رہا،اورجذباتی اقدام ہمیشہ مثبت اورہمہ گیر اثرات سے خالی ہوتا ہے پھر
ہمیں اس طرح کی کاروائیوں کے پیچھے اسلام دشمن عناصر کے اہداف کو بھی سامنے رکھنا چاہیے
کہ وہ اصل میں اسلام کی آفاقیت اوراسکے فروغ سے بوکھلاہٹ میں مبتلا ہیں،انہیں مسلمانوں کی
مذہبی اورسیاسسی ترقی اوران کی یکجہتی ویگانگت ایک آنکھ نہیں بھارہی ہے، اس لیے وہ
ایسی مجرمانہ کاروائی میں مشغول ہیں ۔ورنہ کتنے انصاف پسند مغربی مفکرین نے اعتراف
کیا ہے کہ انسانیت میں اگرکوئی عظمت کا مستحق ہوسکتا ہے تو وہ محمد
صلى الله عليه وسلم ہیں ،آپ وہ عظیم
انسان ہیں جن کے جیسے اس دھرتی پر نہ کوئی پیدا ہوا اورنہ قیامت کے دن تک پیدا ہوسکتا
ہے ،آخر اس سے بڑھ کر عظیم انسان کون ہوسکتا ہے جو ایک دن اور دو دن نہیں ۳۲ سال تک انسانیت کی خیرخواہی کے لیے تڑپتا
رہا ، پھروہ دن بھی آیا کہ جن لوگوں نے آپ کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کی بازی لگائی تھی
اپنے کئے پر پشیماں ہوئے اور آپ کے پیغام کو پوری دنیا میں لے کر پھیل گئے۔کیونکہ ان
کویقین ہوگیاتھا کہ آپ ساری انسانیت کے لیے رحمت بناکربھیجے گئے ہیں،کیااس انسان سے
بڑھ کر رحم وکرم کا پیکر کوئی ہوسکتا ہے کہ جن کی خیرخواہی کی تھی انہوں نے ہی ان پر
پتھر برسائے تھے ،یہاںتک کہ خون آلودہوکرزمین پر گرگئے تھے ،جب ہوش آیا اورفرشتے نے
ظالموں کو جرم کا انجام چکھانے کی اجازت چاہی
تویہ کہتے ہوئے منع کردیا کہ مجھے امیدہے کہ اللہ پاک ان میں سے ایسی نسل پیدا کرے
گا جو ایک اللہ کی عبادت کرے گی،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی ۔ اس یہودی عورت
کو دیکھیں جس نے رحمت عالم ا کے سامنے شدت عنادمیں اس ارادہ سے زہرآلود کھاناپیش کیاتھا
کہ اس نبی سے چھٹکارا حاصل کرلیں ،لیکن اسے بھی معاف کردیا ۔پھر جن لوگوں نے 21سال
تک آپ کا اورآپکے اصحاب کا جینا دوبھر کردیاتھافتح مکہ کے موقعپر سارے مجرمین آپ کے
قبضہ میں تھے ، ایک ایک سے بدلہ لے سکتے تھے لیکن قربان جائیے رحمت عالم کی رحمت وشفقت
پر کہ سب کی عام معافی کا اعلان کررہے ہیں ۔ آپ کی رحمت انسانوں توکجا حیوانوںتک کو
شامل تھی جس کی تفصیلات سیرت کی کتابوںمیں دیکھی جاسکتی ہیں ۔ آج ایسے نبی رحمت کو
دہشت گردباورکرایاجارہا ہے تو یہ دراصل اس کشمکش اورمعرکہ آرائی کا شاخسانہ ہے جو حق
وباطل کے بیچ روزاول سے جاری ہے اورتاقیامت جاری رہے گا ۔یہ مجرمانہ حرکت جناب رسالت
مآبصلى الله عليه وسلم کو کچھ نقصان نہیں پہنچاسکتی کہ اللہ پاک نے خودآپ کی شان بڑھائی ہے ، آپ کے ذکرکوبلندکیاہے،آپ
کے مخالفین کے لیے ذلت ورسوائی مقدرکی ہے ،تمسخراڑانے والوں کواللہ پاک نے اپنے انجام تک پہنچایاہے،اس
لیے جب کوئی گستاخ ہمارے نبیصلى الله عليه وسلم کی شان میں گستاخی کرے گا تواس سے ہمارے نبی کی تنقیص
نہیں ہوگی بلکہ ان کے مقام اورمرتبہ میں اضافہ ہوگا ۔ بلکہ آپ صلى الله عليه وسلمکی اہانت کرنے والوں کی
مثال ایسے لوگوں کی سی ہے جنہوں نے سورج پر تھوکنے کی جرأت
کی تو تھوک ان کے چہرے ہی پر آگرا،تجربات بھی شاہد ہیں کہ اس طرح کی نازیبا حرکتوں کا
انجام ہمیشہ بہتر ی کی شکل میں سامنے آیا ہے ،ہمیں اللہ پاک کے اس فرمان پر یقین رکھنا
ہے کہ : لا تحسبوہ شرا لکم بل ھو خیرلکم ”اسے اپنے لیے بُرا نہ سمجھو بلکہ یہ تمہارے
لیے بہتر ہے “۔ البتہ ہمیں اس مناسبت سے اپنے حبیب کے دفاع کے لیے کمرہمت باندھتے ہوئے
ذیل کے چندکام کرنے ہیں:
C اللہ کے دشمنوں سے براءت کا اظہار کریں ،دوستی اور دشمنی
کا معیاراللہ اوراس کے رسولصلى الله عليه وسلمکی ذات ہونی چاہیے کہ مومنوں کواللہ کے دشمنوں سے
محبت نہیں ہوتی ۔
Cدشمن کا اقتصادی بائیکاٹ کریں ،ان کی مصنوعات
کی ناکہ بندی کرکے ہم انہیں سخت خسارے سے دوچار کرسکتے ہیں کہ یہ دشمن کو نقصان پہنچانے
کا بہترین ذریعہ ہے ۔
Cاگر ہمارے اندر کسی طرح کی دینی کوتاہی
پائی جاتی ہے تو اپنامحاسبہ کریں ،دین سے اپنے تعلق کو مضبوط بنائیں ،اپنی سوچ میں
فکرآخرت کو جگہ دیں ،سیرت نبوی کاگہرائی سے مطالعہ کریں،سیرت پر مشتمل کتابیں اپنے
گھروںمیں لائیں اوربیوی بچوں کو
پڑھ کر سنائیں، اپنے معاشرے میں سنت نبوی کو عام کریں۔ اس طرح اپنے نبی کی سنت کو نمونہ
بناکر دنیا کوبتادیں کہ ہم اپنے نبی کے حقیقی محب ہیں ۔
Cہرشخص اپنے اپنے میدان میں اللہ کے رسول
صلى الله عليه وسلم کی طرف سے دفاع کرے ، اصحاب قلم اپنی نگارشات کے ذریعہ ،خطباءاورائمہ مساجدخطبات
جمعہ کے ذریعہ ، اصحاب ثروت سیرت پر مشتمل کتابیں شائع کرکے ،اور عام لوگ سیرت کا مطالعہ
کرکے اورسیرت کے پیغام کو غیرمسلموں تک پہنچاکر دین کی خدمت انجام دیں کہ یہ
وقت کا تقاضا ہے ۔
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق