صفات عالم محمد زبیر تیمی
لَہُ مُعَقِّبَات مِّن بَینِ یَدَیہِ وَمِن خَلفِہِ یَحفَظُونَہُ مِن أ َمرِ اللّہِ﴿ (سورة الرعد 11)
تشریح : اللہ پاک کابے انتہا کرم اوراحسان ہے کہ اس نے قطرہ آب سے لے کر دنیامیں آنکھیں کھولنے تک اور دنیامیں آنکھیں کھولنے کے بعد سے لے کر آخرت سدھارنے تک ہماری حفاظت کا منظم بندوبست فرمایا۔وہ ہروقت ،ہرآن اورہرلمحہ ہماری حفاظت کررہا ہے ۔ ہم اس قدرعاجز ہیں کہ خود اپنے نفس کے مالک نہیں،اس کی تدبیر ہم خود نہیں کرسکتے بلکہ معمولی ایک عضو کو سنبھالنے کی ذمہ داری لینے سے بھی قاصر ہیں، ہماری یہ آنکھ جس سے ہم دیکھتے ہیں اگراس کے نظام کی ذمہ داری خودہم پر ڈال دی جاتی تواس کی تدبیرمیں لگ کردنیا کی ساری چیزوں کو فراموش کرجاتے پھربھی معمولی ایک عضو کے نظام کو ٹھیک ٹھاک نہیں چلاسکتے تھے۔ لیکن باری تعالی نے ہمارے جسموں کے سارے نظام کی حفاظت اپنے ذمہ لے لی، پھر ہرطرح کی آفات سے ہماری حفاظت بھی فرمارہا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ اپنی مخلوقات میں سے فرشتوں کوہماری حفاظت پرمامور فرمادیاہے۔ حافظ ابن کثیر رحمه الله فرماتے ہیں”
جس طرح اللہ پاک نے بندوں کے اچھے برے اعمال نوٹ کرنے کے لیے ان کے دائیں بائیں کندھوںپر دوفرشتے مقررکردئیے ہیں،اسی طرح ان کی حفاظت اور نگرانی کے لیے ان کے آگے اور پیچھے دوفرشتوں کو مقررکردیا ہے جو انہیں حوادث اور شروروفتن سے محفوظ رکھتے ہیں “۔ مجاہد رحمه الله کہتے ہیں :
”ہربندے پر فرشتے مقررہیں جو سوتے جاگتے ہروقت جنوں،انسانوں اور موذی جانوروں سے اس کی حفاظت کرتے ہیں ،جب کوئی شے اسے نقصان پہنچانے کے لیے آتی ہے تو فرشتہ کہتا ہے ”پیچھے ہٹ جا“ بجز اس کے کہ جس کافیصلہ اللہ پاک نے کردیا ہو تو وہ ہوکر رہتاہے“۔
اللہ پاک کی عمومی حفاظت تو ہرمتنفس کو حاصل ہے البتہ اس کی خصوصی حفاظت جس کی طرف آیت بالا میں اشارہ کیا گیا ہے اسی شخص کو حاصل ہوتی ہے جس کے حق میں اللہ پاک کا حکم ہو، ظاہر ہے اللہ کا حکم ایسے ہی لوگوں کے حق میں ہوگا جو ا س کے اوامر کی حفاظت کرتے ہوں گے ۔ اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم نے اپنے عم زادے حضرت ابن عباس رضى الله عنهما کویہی نصیحت کی تھی جبکہ وہ آپ کے پیچھے سواری پر سوار تھے: اِحفَظِ اللّٰہَ یَحفَظکَ….(سنن ترمذی ) ”اللہ کی حفاظت کر اللہ تیری حفاظت کرے گا “ ۔
جس قدرہم اسلامی احکام کی پابندی کریں گے اسی قدر ہماری سیکوریٹی اور حفاظت سخت کردی جاے گی ۔ جب ایک آدمی نمازِ فجر کی باجماعت ادائیگی کرلیتا ہے تو وہ اللہ کی حفاظت میں آجاتا ہے(صحیح مسلم) جب ایک بندہ اپنے گھر سے نکلتے وقت یہ دعاپڑھتا ہے بِسمِ اللّٰہِ تَوَکَّلتُ عَلٰی اللّٰہِ وَلَاحَولَ وَلَاقُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰہِ تو اس سے کہا جاتا ہے: ”تمہارے لیے اللہ کافی ہے، تجھے ہدایت دی گئی اورتم بچالیے گئے “تب شیطان کفِ افسوس ملتے ہوے کہتا ہے : ”اس شخص کا تم کیا کرسکتے ہو جس کے لیے اللہ کافی ہوگیا ہو ، جسے ہدایت مل گئی ہو اور جو حفاظت میں آگیا ہو“ ۔ (سنن ابی داؤد) جو شخص سوتے وقت آیت الکرسی کی تلاوت کرلیتاہے اس پر اللہ کی طرف سے سیکوریٹی مقرر کردی جاتی ہے اور صبح تک شیطان اس کے قریب نہیںآتا ۔ (صحیح بخاری )
لیکن جب انسان نے اللہ پاک اور فرشتوں کی سیکوریٹی کو نظر انداز کیا تو درگاہوں کی خاک چھاننے پر مجبور ہوا ۔ کاہنوں ، نجومیوں اور جیوتشیوں کے دامِ تزویرمیںپھنسا۔خرقے ‘دھاگے ‘ اور تعویز گنڈوں کا سہارا لیا۔ اس طرح ان غیرشرعی ذرائع حفظ وامان میں پھنس کرذہنی الجھن اورپریشانی مول لینے کے ساتھ ساتھ اپنے ایمان کوبھی داغدار کر بیٹھا۔
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق