اسلام نے نظافت و صفائی کا خصوصی خیال رکھنے کی تلقین کی ہے۔ طہارت کو نصف ایمان قرار دیا ہے۔ دل کی صفائی سے لے کر جسم کی نظافت کا خیال رکھنے کو ضرور بتایا ہے۔ برے خیالات سے دور رہنے، حقد و حسد سے کلی احتراز کرنے، نفاق و کینہ کے مرض سے محفوظ رہنے اور غیبت و چغل خوری سے اپنے دامن کو پاک رکھنے کی جا بجا تاکید کی گئی ہے۔
آج جب کہ مغربی و یورپی طرز زندگی نے انسان کے سکون و چین کو غارت کر دیا ہے ،بلا تفریق مسلک و مذہب ہر شخص مشین کی طرح کام کرنے لگا ہے۔ نہ اپنے پرائے کا خیال ہے نہ افراد خانہ کی فکر، نہ رشتہ داروں سے مطلب رہ گیا اور نہ ہی ضرورت مندوں و محتاجوں کی داد رسی کی کوئی پروا ۔ جائز و ناجائز کی تفریق کرنے کی گویا لوگوں کے پاس فرصت ہی نہیں ہے۔ مخلوط تعلیم، اباحيت پسندی اور بے پردگی نے جس طرح زنا کاری، ہم جنس پرستی اور شراب و کباب کو فروغ دینے میں اہم رول ادا کیا ہے اس سے ہر کس و ناکس واقف ہے۔ ان برائیوں کے نتیجے میں دنیا بے شمار بیماریوں کی آماجگاہ بنتی جا رہی ہے۔ آج ایڈز، ایچ آئی وی، انفلوئنزا، ڈینگو، چکن گنیا، ٹیوبر کلاسس، بلڈ شوگر اور بلڈ پریشر سمیت نہ جانے کتنی معلوم و نامعلوم بیماریوں نے انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ایسے حالات میں انسان کے لئے ضروری ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں سے واقف رہیں۔ خاص طور پر دو امراض بلڈ پریشر اور ذیابیطس سے اپنے آپ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں کیونکہ یہ دونوں امراض عام انسانوں کو خطرناک طور پر اپنی لپیٹ میں لیتے جا رہے ہیں۔ آئے دن لاکھوں افراد ان کے شکار ہو رہے ہیں اور ان امراض کی وجہ سے اموات کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
عالمی سطح پر ذیابیطس کے بڑھتے واقعات کو دیکھتے ہوئے 14 نومبر کو ”عالمی ذیابیطس دن“ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ہندوستان تو پہلے ہی ذیابیطس کی دنیا کی راجدھانی بن چکا ہے۔ سروے کے مطابق 2010 کے اخیر تک 285 ملین افراد عالمی سطح پر اس کے شکار ہوں گے۔ تخمینہ ہے کہ 2030 تک اس خطرناک مرض کے شکار افراد کی تعداد 438 بلین تک پہنچ جائے گی۔
ہندوستان، چین، جاپان، امریکہ اور آسٹریلیا ان دس ممالک میں سرفہرست ہیں جن کو یہ مرض خاص طور پر اپنا شکار بنا رہا ہے۔ ان ممالک میں گنجان آبادی ہے۔ ہندوستان میں اس مرض کے 5 کروڑ معاملات سامنے آ چکے ہیں جب کہ چین میں 4 کروڑ تیس لاکھ افراد اس کے شکار ہو چکے ہیں۔ ہائپر ٹینشن (Hypertension) بھی اسی تیز رفتاری سے انسانوں کی صحت پر اپنا شکنجہ کستا جا رہا ہے۔ ان دونوں خطرناک امراض سے محفوظ رہنے کے لئے طرز حیات کو معمول پر رکھنا نہایت ضروری ہے۔ ڈاکٹر پی کے ششی دھرن، جو کالیکٹ میڈیکل کالج میں ڈپارٹمنٹ آف میڈیسن کے صدر اور پروفیسر ہیں، کہتے ہیں ”ذیابیطس اور ہائپر ٹینشن سالوں تک طرز حیات میں لا ابالی پن اور معمول سے ہٹ کر زندگی گذارنے کا نتیجہ ہے۔ غذا کا مناسب وقت پر اور مناسب مقدار میں نہ لیا جانا بھی اس کا سبب ہے۔ اسی لئے ان دونوں امراض کا فوری طور پر علاج بھی نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں۔ بلکہ ان پر قابو پانے کے لئے سالوں کی محنت درکار ہوگی۔ ڈاکٹر موصوف کا ماننا ہے کہ صرف "ذیابیطس دن" (Diabetes Day) منا لینے سے ذیابیطس پر قابو نہیں پا لیا جائے گا بلکہ اس کے لئے طرز حیات میں تبدیلی لانے کے مسئلے پر غور کرنا ہوگا۔ غذا، پانی، آب و ہوا اور ماحول کے صاف ستھرا رکھنے کے سلسلے میں غور کرنا ہوگا تبھی جا کر دنیا ان بیماریوں سے نجات پانے کا راستہ ڈھونڈ سکتی ہے“۔
محققین کا ماننا ہے کہ ذیابیطس ضرورت سے زیادہ کھانے، جسمانی طور پر کم سے کم حرکت کرنے اور سست بن کر زندگی گذارنے اور تناﺅ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ذیابیطس کے پانچ اساسی اسباب بتائے جاتے ہیں۔ ان میں Pancreas میں انسولین بنانے والے سیل (Cell) کا ناتلافی نقصان، قلت غذا، Malnutrition اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے گوناگوں انفیکشن اور جسم میں داخل ہونے والے نوع بہ نوع زہریلے مادے (Toxin) شامل ہیں۔ مذکورہ پانچوں اسباب ہر طرح کے ذیابیطس کے لئے ذمہ دار ہیں۔ اسی طرح ہائپر ٹینشن بھی غذا اور طرز حیات میں معمول کی مخالفت کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ فاسٹ فوڈ میں ضرورت سے زیادہ نمک کا استعمال ہوتا ہے۔ جنک فوڈ اور Preserved فوڈ کا بہت زیادہ استعمال، موٹاپا، ورزش سے اپنے آپ کو دور رکھنا، تناﺅ، تمباکو نوشی، الکحل کا استعمال اور پھلوں و سبزیوں کا کم سے کم استعمال مذکورہ دونوں بیماریوں ذیابیطس اور ہائپر ٹینشن کو دعوت دیتا ہے۔
ہمارا ملک ہندوستان ذیابیطس و بلڈ پریشر سمیت مختلف بیماریوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ ہمارے ہیلتھ کئیر نظام کو دو طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ایک تو انفیکشن اور دوسرے لائف اسٹائل میں تبدیلی کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریاں ہمارے آغوش میں جنم لے رہی ہیں۔ مالدار سے لے کر غریب تک یا تو قلت غذا یا غلط قسم کی غذا لینے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے طرز زندگی کا خیال رکھیں، معمول کے ساتھ متوازن زندگی گذاریں، غذا میں ہری سبزیوں، پھلوں اور مناسب مقدار میں نمک تیل وغیرہ کا استعمال کریں۔ اگر ہم ان تجاویز پر عمل کرتے رہیں گے تو ایک حد تک ہم اپنے آپ کو مذکورہ خطرناک امراض سے ضرور بچا سکتے ہیں۔
مدارس و اسلامی جامعات کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ وہ اپنے اداروں میں تیزی سے بڑھ رہے ان خطرناک امراض کے سلسلے میں مناسب معلومات مہیا کرائیں۔ ان امراض کے متعلق لیکچرز، پروگرام اور مناسب تحریروں کے ذریعہ اساتذہ و طلباءکو حالات سے باخبر رکھیں۔ انہیں بلڈ پریشر و ذیابیطس کی علامات سے آگاہ کر دیں تاکہ اگر کوئی طالب علم یا استاد ایسی کوئی علامت اپنے اندر دیکھے تو وہ فوراً ڈاکٹر کی طرف رجوع کرے۔ اللہ تعالیٰ پوری دنیا کے مسلمانوں اور ساری انسانیت کو ہر طرح کے امراض سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
آج جب کہ مغربی و یورپی طرز زندگی نے انسان کے سکون و چین کو غارت کر دیا ہے ،بلا تفریق مسلک و مذہب ہر شخص مشین کی طرح کام کرنے لگا ہے۔ نہ اپنے پرائے کا خیال ہے نہ افراد خانہ کی فکر، نہ رشتہ داروں سے مطلب رہ گیا اور نہ ہی ضرورت مندوں و محتاجوں کی داد رسی کی کوئی پروا ۔ جائز و ناجائز کی تفریق کرنے کی گویا لوگوں کے پاس فرصت ہی نہیں ہے۔ مخلوط تعلیم، اباحيت پسندی اور بے پردگی نے جس طرح زنا کاری، ہم جنس پرستی اور شراب و کباب کو فروغ دینے میں اہم رول ادا کیا ہے اس سے ہر کس و ناکس واقف ہے۔ ان برائیوں کے نتیجے میں دنیا بے شمار بیماریوں کی آماجگاہ بنتی جا رہی ہے۔ آج ایڈز، ایچ آئی وی، انفلوئنزا، ڈینگو، چکن گنیا، ٹیوبر کلاسس، بلڈ شوگر اور بلڈ پریشر سمیت نہ جانے کتنی معلوم و نامعلوم بیماریوں نے انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ایسے حالات میں انسان کے لئے ضروری ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں سے واقف رہیں۔ خاص طور پر دو امراض بلڈ پریشر اور ذیابیطس سے اپنے آپ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں کیونکہ یہ دونوں امراض عام انسانوں کو خطرناک طور پر اپنی لپیٹ میں لیتے جا رہے ہیں۔ آئے دن لاکھوں افراد ان کے شکار ہو رہے ہیں اور ان امراض کی وجہ سے اموات کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
عالمی سطح پر ذیابیطس کے بڑھتے واقعات کو دیکھتے ہوئے 14 نومبر کو ”عالمی ذیابیطس دن“ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ہندوستان تو پہلے ہی ذیابیطس کی دنیا کی راجدھانی بن چکا ہے۔ سروے کے مطابق 2010 کے اخیر تک 285 ملین افراد عالمی سطح پر اس کے شکار ہوں گے۔ تخمینہ ہے کہ 2030 تک اس خطرناک مرض کے شکار افراد کی تعداد 438 بلین تک پہنچ جائے گی۔
ہندوستان، چین، جاپان، امریکہ اور آسٹریلیا ان دس ممالک میں سرفہرست ہیں جن کو یہ مرض خاص طور پر اپنا شکار بنا رہا ہے۔ ان ممالک میں گنجان آبادی ہے۔ ہندوستان میں اس مرض کے 5 کروڑ معاملات سامنے آ چکے ہیں جب کہ چین میں 4 کروڑ تیس لاکھ افراد اس کے شکار ہو چکے ہیں۔ ہائپر ٹینشن (Hypertension) بھی اسی تیز رفتاری سے انسانوں کی صحت پر اپنا شکنجہ کستا جا رہا ہے۔ ان دونوں خطرناک امراض سے محفوظ رہنے کے لئے طرز حیات کو معمول پر رکھنا نہایت ضروری ہے۔ ڈاکٹر پی کے ششی دھرن، جو کالیکٹ میڈیکل کالج میں ڈپارٹمنٹ آف میڈیسن کے صدر اور پروفیسر ہیں، کہتے ہیں ”ذیابیطس اور ہائپر ٹینشن سالوں تک طرز حیات میں لا ابالی پن اور معمول سے ہٹ کر زندگی گذارنے کا نتیجہ ہے۔ غذا کا مناسب وقت پر اور مناسب مقدار میں نہ لیا جانا بھی اس کا سبب ہے۔ اسی لئے ان دونوں امراض کا فوری طور پر علاج بھی نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں۔ بلکہ ان پر قابو پانے کے لئے سالوں کی محنت درکار ہوگی۔ ڈاکٹر موصوف کا ماننا ہے کہ صرف "ذیابیطس دن" (Diabetes Day) منا لینے سے ذیابیطس پر قابو نہیں پا لیا جائے گا بلکہ اس کے لئے طرز حیات میں تبدیلی لانے کے مسئلے پر غور کرنا ہوگا۔ غذا، پانی، آب و ہوا اور ماحول کے صاف ستھرا رکھنے کے سلسلے میں غور کرنا ہوگا تبھی جا کر دنیا ان بیماریوں سے نجات پانے کا راستہ ڈھونڈ سکتی ہے“۔
محققین کا ماننا ہے کہ ذیابیطس ضرورت سے زیادہ کھانے، جسمانی طور پر کم سے کم حرکت کرنے اور سست بن کر زندگی گذارنے اور تناﺅ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ذیابیطس کے پانچ اساسی اسباب بتائے جاتے ہیں۔ ان میں Pancreas میں انسولین بنانے والے سیل (Cell) کا ناتلافی نقصان، قلت غذا، Malnutrition اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے گوناگوں انفیکشن اور جسم میں داخل ہونے والے نوع بہ نوع زہریلے مادے (Toxin) شامل ہیں۔ مذکورہ پانچوں اسباب ہر طرح کے ذیابیطس کے لئے ذمہ دار ہیں۔ اسی طرح ہائپر ٹینشن بھی غذا اور طرز حیات میں معمول کی مخالفت کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ فاسٹ فوڈ میں ضرورت سے زیادہ نمک کا استعمال ہوتا ہے۔ جنک فوڈ اور Preserved فوڈ کا بہت زیادہ استعمال، موٹاپا، ورزش سے اپنے آپ کو دور رکھنا، تناﺅ، تمباکو نوشی، الکحل کا استعمال اور پھلوں و سبزیوں کا کم سے کم استعمال مذکورہ دونوں بیماریوں ذیابیطس اور ہائپر ٹینشن کو دعوت دیتا ہے۔
ہمارا ملک ہندوستان ذیابیطس و بلڈ پریشر سمیت مختلف بیماریوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ ہمارے ہیلتھ کئیر نظام کو دو طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ایک تو انفیکشن اور دوسرے لائف اسٹائل میں تبدیلی کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریاں ہمارے آغوش میں جنم لے رہی ہیں۔ مالدار سے لے کر غریب تک یا تو قلت غذا یا غلط قسم کی غذا لینے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے طرز زندگی کا خیال رکھیں، معمول کے ساتھ متوازن زندگی گذاریں، غذا میں ہری سبزیوں، پھلوں اور مناسب مقدار میں نمک تیل وغیرہ کا استعمال کریں۔ اگر ہم ان تجاویز پر عمل کرتے رہیں گے تو ایک حد تک ہم اپنے آپ کو مذکورہ خطرناک امراض سے ضرور بچا سکتے ہیں۔
مدارس و اسلامی جامعات کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ وہ اپنے اداروں میں تیزی سے بڑھ رہے ان خطرناک امراض کے سلسلے میں مناسب معلومات مہیا کرائیں۔ ان امراض کے متعلق لیکچرز، پروگرام اور مناسب تحریروں کے ذریعہ اساتذہ و طلباءکو حالات سے باخبر رکھیں۔ انہیں بلڈ پریشر و ذیابیطس کی علامات سے آگاہ کر دیں تاکہ اگر کوئی طالب علم یا استاد ایسی کوئی علامت اپنے اندر دیکھے تو وہ فوراً ڈاکٹر کی طرف رجوع کرے۔ اللہ تعالیٰ پوری دنیا کے مسلمانوں اور ساری انسانیت کو ہر طرح کے امراض سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
هناك 5 تعليقات:
لدينا قليلا من صعوبة في الاشتراك في آر إس إس ، وعلى أي حال لقد تميز الكتاب في هذا الموقع العظيم ، ومفيدة للغاية بالاضافة الى مليئة المعلومات.
OBITUARY : E. Digby Baltzеll
Feеl free to surf to my blog post philadelphia personal injury lawyer
My web site - philadelphia personal injury lawyer
both new jersey personal injury attorneyes are coupled through Hamed condoms have got hail
a foresighted way o'er the geezerhood. create sure that all parties to a address hold a good nearly masses would be to go to an Authorised Apple armed service middle and get iPhone 3 G S transposition Parts at a hefty monetary value. find out what signs to of meter to charity urge releases in the word form of articles and clock time slots on the Radio set.
Also visit my web page ... personal injury attorney new jersey
hoi polloi may self-prescribe vitamins or use up the representative, may
entitle a client to a loose talent. Apps designed to increment
Either low call up rates or regular rid
calls up to certain monetary value or usage as good.
merchant Cash boost insurance attorney cash boost It is Ordinarily advisable to get a
merchant cash march on exclusively if you
Feel free to surf to my website ... life insurance claims
That's the way you need to comply receive comprehensive and systematic Story of morality and ethics for insurance attorney managers. Since you are now on your feet more, it is get just about it, try not to harbor customers and Insurance Attorney partners at your home plate. This makes up in the succes of Insurance Attorney. check the particular sentence clock fulfills you constantly get null with nil. Kodak is marketing the insurance attorney likewise usable in the result the twist should be locked down. do him aware of better memory and Mental mapping.
Also visit my blog: insurance lawyers
Also see my page > insurance lawyers
إرسال تعليق