خالق کائنات نے اس عالم رنگ وبو کو نہایت مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر پیدا کیا ہے، یہاں کی ہرچیز بامقصد، باہدف اورانسانی ضرورت کے عین مطابق ہے ، کوئی بھی چیزبیکار،عبث اور نکمی نہیں، پھرپروردگارنے ان نعمتوں کو انسان کے تابع اور مسخر کردیا کہ وہ جیسے چاہے اور جس انداز میں چاہے انہیں اپنے کام میں لائے ، اس کے لیے انسان کو عقل کی لازوال نعمت سے مالا مال کیا گیا۔ اسی نعمت عقل کی بنیاد پرآج کے اس ترقی یافتہ دورمیں انسان نت نئی چیزیں ایجاد کر رہا ہے ، ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے ، زہرہ ومریخ اور شمس وقمر کے فاصلوں کو سمیٹ رہا ہے۔
یہ ساری تسخیری صلاحیتیں اپنی جگہ‘ لیکن انسان کو قطعاً اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ تسخیر کائنات کے زعم میں مبتلا ہوکرنظام کائنات سے چھیڑخانی کرنے لگے،اگر ایسا کرتا ہے تواس کا منفی رد عمل سامنے آئے گا، نظام کائنات بگڑے گا،جس کے نتیجہ میں زندگی اجیرن ہوگی، جان ومال کی تباہی ہوگی، اور بحروبر میں اضطراب پیدا ہوگا ۔
کرہ ارضی کی موجودہ صورتحال کودیکھ کرآج کل یہی کچھ اندازہ لگ رہا ہے۔ جنگلات کی صفائی، درختوں کی کٹائی،اور توانائی کے بے جا استعمال سے ماحولیاتی بگاڑپیدا ہوا ہے، زمین کادرجہ حرارت بڑھاہے،اور موسمی تبدیلی آئی ہے ۔اگراس پرقابونہ پایا گیا توآئندہ سالوںمیں اس کے بھیانک نتائج سامنے آئیں گے۔
سائنس داں کہتے ہیں کہ فضائی کرہ قائمہ کے بالائی حصے میں 33کیلو میٹر کے فاصلے پر اوزون کی ایک پرت ہے جو غلاف کی طرح ہے ، یہ پرت گویا سورج کی روشنی کے لیے ایک فلٹراورچھلنی کی مانند ہے جو سورج سے آنے والی ہلاکت خیز اور خطرناک حد تک گرم شعاوں کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہے ۔اگر ایسا نہ ہو تو یہ نیچے زمین پر پہنچ کر جانداروں میں کینسر اور نباتات کی تباہی کا باعث بنیں گی۔ آج یہی کچھ ہوا ہے....کارخانوں، فیکٹریوں،اور فضامیں گردش کرتے جہازوں سے جو دھواں نکل رہا ہے اور گیس خارج ہو رہا ہے وہ گولوں کی شکل میں تبدیل ہوکر اوزون کی اس پرت سے ٹکراتے ہیں، جس کے باعث اس پرت میں جگہ جگہ شگاف پڑچکے ہیں ،ہوسکتا ہے کہ کسی وقت یہ پرت بالکل ختم ہی ہوجائے، اس کے نتیجہ میں آبی ذخیرے بالکل خشک ہو سکتے ہیں ، اس درجہ حرارت کی بنیاد پر سمند رمیں موجود بڑے بڑے گلیشیر پگھلنے لگے ہیں اور ان کا پانی سمندر کے پانی میں مل کر سطح آب میں اضافہ کر رہا ہے ۔ سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ اگر یہی صورتحال رہی تو چند سالوں میں دنیا کے ساحلی شہر غرق آب ہوجائیں گے ، اور 2050 ء تک زمین بھی ختم ہوجائے گی ۔
سروں پر منڈلارہے ان سنگین خطرات نے عالمی رہنماؤں اور سائنس دانوں کی نیند خراب کررکھی ہے، اس کے ازالہ کے لیے پچھلے کئی سالوں سے عالمی سطح پر مذاکرات ہورہے ہیں ، سیمینار اور سمپوزیم ہورہے ہیں، بین الاقوامی کانفرنسیں ہورہی ہیں، ابھی ڈنمارک کےدارالحکومت کوپن ہینگ میں اس قبیل کا بین الاقوامی اجلاس اختتام پذیرہوا ہے، اس کانفرنس کوبھی مبصرین نتائج کے اعتبار سے غیراطمینان بخش قرار دے رہے ہیں، واقعہ یہ ہے کہ نقصاندہ گیس کا اخراج ترقی یافتہ ممالک زیادہ کرتے ہیں،جبکہ خسارہ زیادہ تر ترقی پذیرممالک کا ہورہاہے۔ ایسی صورتحال میںجب تک ترقی پذیرممالک کوخاص مراعات نہیں ملتی وہ سمجھوتے کو کیسے تسلیم کرلیں گے ؟
بہرکیف اس سے قطع نظر کہ کس حد تک اس خطرے پرکنٹرول پانے کا اتفاق ہوتا ہے ہمیں سردست اس سوال پر غور کرنا ہے کہ آخر اس موسمی تبدیلی کا ذمہ دار کون ہے ؟اور اس سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے ؟کیونکہ اس کا تعلق براہ راست ہم سے ہے ۔
قرآن کریم نے بحر وبر میں فساد واقع ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے ، تاہم اس کا ذمہ دار حضرت انسان ہی کو ٹھہرایا ہے (الاعراف 56) ۔ پھر اس نے ہرچیز کے استعمال میں اعتدال وتوازن کی تاکید کی ہے اوراسراف وفضول خرچی کو شیطانی عمل قرار دیا ہے ۔ قرآن کہتا ہے ”اسراف مت کرو ‘ بیشک وہ (اللہ تعالی) اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا“ (الانعام 141 ) دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے ” جب وہ لوٹ کر جاتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے کی اور کھیتی ونسل کی بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہے “ (البقرة 205) یہ آیت گوکہ ایک خاص پس منظر میں اُتری ہے تاہم اس حکم میں وہ سارے لوگ داخل ہوںگے جو ان مذموم صفات کے حامل ٹھہریں گے۔ ذرا آیت پر باریکی سے غور کیجئے کہ کس طرح اللہ تعالی نے زمین میں فساد مچانے اور حرث ونسل کو تباہ کرنے کے بیچ ربط قائم کیا ہے ۔ کیا جنگلات کا صفایا، توانائی کے استعمال میں تجاوزجس کے باعث جانوں کی ہلاکت ہورہی ہے حرث ونسل کی تباہی نہیں ؟ اگرقرآنی تعلیمات کے مطابق فطری اشیاءکواپنی جگہ رہنے دیا جاتا،اور گیس کے اخراج میں اعتدال و توازن برتا گیا ہوتا توانسانیت کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ ایک مسلمان یہاں پر یہ سبق حاصل کرتا ہے کہ انسان کے لیے امن وسکون فطری نظام کی تابعداری میں ہے ۔اس لیے اُسے چاہیے کہ انسانی مصلحتوں کی خاطر نظام کائنات کو اپنی قدرتی رفتار پر برقرار رہنے دے اور ارضی وسماوی آفات کے وقوع سے پہلے کتاب الہی میں اس کا حل ڈھونڈے ، یہ اللہ تعالی کی طرف سے ایک طرح کا الٹی میٹم ہے کہ انسان فطرت کی طرف لوٹ آئے۔
یہ ساری تسخیری صلاحیتیں اپنی جگہ‘ لیکن انسان کو قطعاً اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ تسخیر کائنات کے زعم میں مبتلا ہوکرنظام کائنات سے چھیڑخانی کرنے لگے،اگر ایسا کرتا ہے تواس کا منفی رد عمل سامنے آئے گا، نظام کائنات بگڑے گا،جس کے نتیجہ میں زندگی اجیرن ہوگی، جان ومال کی تباہی ہوگی، اور بحروبر میں اضطراب پیدا ہوگا ۔
کرہ ارضی کی موجودہ صورتحال کودیکھ کرآج کل یہی کچھ اندازہ لگ رہا ہے۔ جنگلات کی صفائی، درختوں کی کٹائی،اور توانائی کے بے جا استعمال سے ماحولیاتی بگاڑپیدا ہوا ہے، زمین کادرجہ حرارت بڑھاہے،اور موسمی تبدیلی آئی ہے ۔اگراس پرقابونہ پایا گیا توآئندہ سالوںمیں اس کے بھیانک نتائج سامنے آئیں گے۔
سائنس داں کہتے ہیں کہ فضائی کرہ قائمہ کے بالائی حصے میں 33کیلو میٹر کے فاصلے پر اوزون کی ایک پرت ہے جو غلاف کی طرح ہے ، یہ پرت گویا سورج کی روشنی کے لیے ایک فلٹراورچھلنی کی مانند ہے جو سورج سے آنے والی ہلاکت خیز اور خطرناک حد تک گرم شعاوں کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہے ۔اگر ایسا نہ ہو تو یہ نیچے زمین پر پہنچ کر جانداروں میں کینسر اور نباتات کی تباہی کا باعث بنیں گی۔ آج یہی کچھ ہوا ہے....کارخانوں، فیکٹریوں،اور فضامیں گردش کرتے جہازوں سے جو دھواں نکل رہا ہے اور گیس خارج ہو رہا ہے وہ گولوں کی شکل میں تبدیل ہوکر اوزون کی اس پرت سے ٹکراتے ہیں، جس کے باعث اس پرت میں جگہ جگہ شگاف پڑچکے ہیں ،ہوسکتا ہے کہ کسی وقت یہ پرت بالکل ختم ہی ہوجائے، اس کے نتیجہ میں آبی ذخیرے بالکل خشک ہو سکتے ہیں ، اس درجہ حرارت کی بنیاد پر سمند رمیں موجود بڑے بڑے گلیشیر پگھلنے لگے ہیں اور ان کا پانی سمندر کے پانی میں مل کر سطح آب میں اضافہ کر رہا ہے ۔ سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ اگر یہی صورتحال رہی تو چند سالوں میں دنیا کے ساحلی شہر غرق آب ہوجائیں گے ، اور 2050 ء تک زمین بھی ختم ہوجائے گی ۔
سروں پر منڈلارہے ان سنگین خطرات نے عالمی رہنماؤں اور سائنس دانوں کی نیند خراب کررکھی ہے، اس کے ازالہ کے لیے پچھلے کئی سالوں سے عالمی سطح پر مذاکرات ہورہے ہیں ، سیمینار اور سمپوزیم ہورہے ہیں، بین الاقوامی کانفرنسیں ہورہی ہیں، ابھی ڈنمارک کےدارالحکومت کوپن ہینگ میں اس قبیل کا بین الاقوامی اجلاس اختتام پذیرہوا ہے، اس کانفرنس کوبھی مبصرین نتائج کے اعتبار سے غیراطمینان بخش قرار دے رہے ہیں، واقعہ یہ ہے کہ نقصاندہ گیس کا اخراج ترقی یافتہ ممالک زیادہ کرتے ہیں،جبکہ خسارہ زیادہ تر ترقی پذیرممالک کا ہورہاہے۔ ایسی صورتحال میںجب تک ترقی پذیرممالک کوخاص مراعات نہیں ملتی وہ سمجھوتے کو کیسے تسلیم کرلیں گے ؟
بہرکیف اس سے قطع نظر کہ کس حد تک اس خطرے پرکنٹرول پانے کا اتفاق ہوتا ہے ہمیں سردست اس سوال پر غور کرنا ہے کہ آخر اس موسمی تبدیلی کا ذمہ دار کون ہے ؟اور اس سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے ؟کیونکہ اس کا تعلق براہ راست ہم سے ہے ۔
قرآن کریم نے بحر وبر میں فساد واقع ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے ، تاہم اس کا ذمہ دار حضرت انسان ہی کو ٹھہرایا ہے (الاعراف 56) ۔ پھر اس نے ہرچیز کے استعمال میں اعتدال وتوازن کی تاکید کی ہے اوراسراف وفضول خرچی کو شیطانی عمل قرار دیا ہے ۔ قرآن کہتا ہے ”اسراف مت کرو ‘ بیشک وہ (اللہ تعالی) اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا“ (الانعام 141 ) دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے ” جب وہ لوٹ کر جاتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے کی اور کھیتی ونسل کی بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہے “ (البقرة 205) یہ آیت گوکہ ایک خاص پس منظر میں اُتری ہے تاہم اس حکم میں وہ سارے لوگ داخل ہوںگے جو ان مذموم صفات کے حامل ٹھہریں گے۔ ذرا آیت پر باریکی سے غور کیجئے کہ کس طرح اللہ تعالی نے زمین میں فساد مچانے اور حرث ونسل کو تباہ کرنے کے بیچ ربط قائم کیا ہے ۔ کیا جنگلات کا صفایا، توانائی کے استعمال میں تجاوزجس کے باعث جانوں کی ہلاکت ہورہی ہے حرث ونسل کی تباہی نہیں ؟ اگرقرآنی تعلیمات کے مطابق فطری اشیاءکواپنی جگہ رہنے دیا جاتا،اور گیس کے اخراج میں اعتدال و توازن برتا گیا ہوتا توانسانیت کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ ایک مسلمان یہاں پر یہ سبق حاصل کرتا ہے کہ انسان کے لیے امن وسکون فطری نظام کی تابعداری میں ہے ۔اس لیے اُسے چاہیے کہ انسانی مصلحتوں کی خاطر نظام کائنات کو اپنی قدرتی رفتار پر برقرار رہنے دے اور ارضی وسماوی آفات کے وقوع سے پہلے کتاب الہی میں اس کا حل ڈھونڈے ، یہ اللہ تعالی کی طرف سے ایک طرح کا الٹی میٹم ہے کہ انسان فطرت کی طرف لوٹ آئے۔
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق