السبت، ديسمبر 06، 2014

میں نہيں مانتا


ثناءاللہ صادق تیمی 
جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئي دہلی

  ہمارا تعلق اتفاق سے اردو ادب سے بھی رہا ہے ۔ اردو شاعری میں اقبال ، غالب اور مومن کے بعد ہم نے زیادہ تر فیض کو پڑھا ہے ۔ فیض احمد فیض کی نظم " مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ "  مزے لے لے کر پڑھتا رہا ہوں ۔ اور ان کی نظم (جو خاصی طویل بھی ہے ) " رقیب سے !" ایک زمانے میں میری زبان پر ہی رہتی تھی ۔ اس میں بھی خاص طور سے یہ بند
عاجزی سیکھی ، غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس وحرمان کے ، دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مسائل کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے ، رخ زرد کے معنی سیکھے
محبت اگر یہی سب کچھ سکھاتی ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہر آدمی کو محبت کرنی چاہیے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ فیض صاحب کو سکھانے کے بعد یہ محبت شاید سبق بھول گئی یا پھر لوگ ہی ایسے نہیں ملے ۔ خیر ان دنوں کی ایک قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ ہم ہر ترقی پسند آدمی یا ادیب کو فیض کی طرح ہی سمجھدار اور کامران سمجھتے تھے ۔ ہماری نظر میں ترقی پسندی اور فیض میں کوئی فرق نہيں تھا ۔ ہم یہ بھی سوچتے تھے کہ ہر ترقی پسند شاعر یا ادیب فیض کی طرح ہی کلاسیکل لہجے میں نئے خیالات کا اظہار کرتا ہوگا اور اس کی باتیں دلوں کو چھو جاتی ہونگیں  ۔ یہ راز تو بہت بعد میں ہم پر کھلا کہ فیض کے علاوہ ترقی پسند شعراء اور ادباء کی زيادہ تر تعداد  نعرہ باز اور جلالی واقع  ہوئی ہے ۔ علی سردار جعفری ، مخدوم محی الدین اور مجاز وغیرہ کے یہاں جو غصہ اور احتجاج تھا اس نے بتایا کہ ایک شاعری کا نمونہ یہ بھی ہے ۔ مجاز کے " اے  غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں "  کا بھی ہمارے اوپر ایک جادو  سا چڑھا رہا ۔ اور ظلم و ستم کے ہر ایک مظاہرے کو دیکھ کر طبیعت یہی چاہتی کہ بس یہ نوچ لوں اور وہ نوچ لوں ۔ انہيں دنوں ہم نے حبیب جالب کی نظم " میں نہيں مانتا "  پڑھی اور بس ایسی یاد کرلینی چاہی کہ کبھی بھلائی نہ جاسکے ۔ ان دنوں جب ہمارے دوست کوئی بات کہتے تو ہم ان سے بس یہی کہتے " میں نہيں    مانتا " اور وہ بس کھسیا کر رہ جاتے ۔ نظم تھی
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو، صبح بےنور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
پھول شاخوں پہ کھلنے لگے،تم کہو
جام رندوں کو ملنے لگے،تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے ،تم کہو
اِس کھلے جھوٹ کو، ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمھارا فسوں
چارہ گر میں تمہیں کس طرح سے کہوں
تم نہیں چارہ گر، کوئی مانے، مگر
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
     لیکن اپنا جائزہ لینے کے بعد پتہ چلاکہ بھائی ہم تو ہر اچھی بری بات کو بس میں نہيں مانتا  ، میں نہیں مانتا کہ خانے میں ڈالتے جارہے ہیں اور اس  سے کوئی مسئلہ حل ہوتا دکھ نہيں رہا ہے ۔ تب ہم نے سوچا کہ احتجاج کرنے سے بہتر ہے کہ کوئی ایسا کا م کیا جائے کہ ہماری جگہ کوئی اور کہے میں نہیں مانتا ۔  " میں نہیں مانتا " کی پوری ذہنیت اگر غلط کو رد کرنے سے عبارت ہو تو بہت اچھی بات ہے ورنہ کبھی کبھی یہ انسان کی نفسیات کا حصہ بن جاتی ہے ۔  ممتا بنرجی نے جب بنگال میں حکومت ملنے کے بعد بھی دھرنا کی سیاست نہيں چھوڑنا چاہا تو ہمیں یہ بات اور بھی سمجھ میں آئی اور جب کیجریوال نے احتجاج کی سیاست ستا میں آنے کے بعد بھی جاری رکھی بلکہ وہ احتجاج کیا کہ خود حکومت کو تياگ دیا تو ہمیں سمجھ میں آیا کہ یہ ذہنیت کچھ اتنی اچھی بھی نہيں ہے ۔ لیکن معاف کیجیے گا سب کچھ مان لینے کی سیاست بھی کچھ اتنی اچھی بات نہيں ہے ۔ ہم نے اپنے کمیونسٹ دوستوں سے باتیں کرتے ہوئے اکثر ان سے کہا کہ بھائی آپ لوگ ہنگامہ تو خوب کرتے ہیں ۔ لیکن آپ کا سارا زور میں نہيں مانتا پر ہوتا ہے ۔ بنگا ل اور کیرالہ میں آپ کی حکومت تھی آہستہ ہستہ وہاں سے بھی آپ کا پتہ کٹ گيا لیکن آپ اب بھی میں نہیں مانتا ، نہیں مانتا کی رٹ لگائے ہوئے ہيں ۔ غلط کوروکنے کا اچھا راستہ یہ ہے کہ اچھائی کو بڑھا وا دیا جائے ۔ روکنے سے بہتر یہ ہے کہ آپ چلیے اور ایک نیا اچھا راستہ لوگوں کو دیجیے ۔ بالعموم ہم لوگوں کو غلط کہتے ہیں لیکن خود ایسا کچھ نہيں کرتے جس سے بھلائی کی راہ آسان ہو اور خیر کا سوتہ پھوٹے ۔  ہم مسلمانوں کے یہاں" افضل الجھاد کلمۃ حق عند سلطان جائر " ظالم حکمراں کے سامنے حق بات کہنا سب سے بہتر جہاد ہے ، کا چرچا خوب ہوتا ہے اور زیادہ تر لوگ غلط طریقے سے اپنے ہر ایک غلط سلط احتجاج کو اسی حدیث رسول سے جوڑ کر دیکھتے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہےکہ کلمہ حق کہنے کا رواج بڑھ بھی رہا ہے اور ظالم حکمرانوں کا رویہ اور سخت سے سخت بھی ہورہا ہے ۔ بات یہ ہے کہ بس الٹا سیدھا بول لینے کو ہم کلمہ حق کا اظہار سمجھ رہے ہیں ۔ ہمارے ایک دوست نے عرب ملکوں خاص طور سے سعودی عرب پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ وہاں لوگوں کو اظہار رائے کی آزادی نہیں ہے ۔ انہوں نے دو کتوں کی مثال دی اور کہا کہ ایک کتا مسکینی اور فاقہ کشی کی زندگی  جی رہا تھا جبکہ دوسرا عیش و عشرت میں  بسر کررہا تھا ۔ جب دونو ں میں بات ہوئی تو فاقہ کش کتے نے عیش میں جی رہے کتے سے کہا کہ اصل مزہ تمہارے ہیں کہ یہ عیاشیاں ہیں ۔ اس پر عیش و عشرت میں پل رہے کتے نے کہا کہ میرے بھائی اصل مزے تمہارے ہیں ۔ ہم سارے عیش کے باوجود خوش نہيں ہیں کہ ہمیں بھونکنے کی اجازت نہيں ہے ۔ یہ  اجازت تمہيں حاصل ہے ۔ ہم نے اپنے دوست سے کہا : اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ عربوں سے چاہتے ہیں کہ وہ بھوکیں ۔  ہمارا مسئلہ " ميں نہيں مانتا " کا ہے اور وہ بھی غلط طریقے سے حالا نکہ حبیب جالب کی نظم تو بڑے سلیقے سے کہی گئی ہے ۔ زیادہ تر لوگ غلط منطق کے ذریعہ مفاہیم بدلتے ہیں ۔ خوارج نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں یہی کام کیا تھا ۔ ان الحکم الا للہ ( فیصلہ تو اللہ کا چلے گا ) کی رٹ لگا کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تحکیم کے مسئلے پر گھیرنے کی کوشش کی تھی  ۔ چوتھے خلیفہ حضرت علی رضي اللہ عنہ نے اس وقت بڑی اچھی بات کہی تھی ۔" کلمۃ حق ارید بھا الباطل " بات تو حق ہے لیکن اس سے باطل کو حاصل کرنے کا منشا ہے ۔ ہمارے عہد کے زیادہ تر لوگ خوارجی نظریے کے حامل ہیں ۔ بولتے ہیں کلمہ حق اور مراد حصول باطل ہوتا ہے ۔ اور ذاتی طور پر میں کلمہ حق کے باطل مراد کے بارے میں یہی موقف اپنا نا چاہتا ہوں کہ " ميں نہيں مانتا " ۔

ليست هناك تعليقات: