الأربعاء، يوليو 11، 2012

برماکے مسلمانوں کی حالت زاراور ہماری ذمہ داریاں

صفات عالم محمدزبیرتیمی


ملک شام اورفلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ درندگی کے مظاہر ے ہوہی رہے ہیں کہ اسی بیچ ایک دوسرا زخم ہرا ہوگیا یعنی اراکان کے مسلمان بودھسٹوں کے ظلم وستم کی چکی میں بُری طرح پسنے لگے ، اوربرماحکومت اوربدھ مت کی دہشت گردانہ کاروائی میں3جون سے 12جون تک پچاس ہزارسے زائد مسلمان جان بحق ہوگئے ۔ 
اراکان وہ سرزمین ہے جہاں خلیفہ ہارون رشید کے عہد خلافت میں مسلم تاجروں کے ذریعہ اسلام پہنچا ، اس ملک میں مسلمان بغرض تجارت آئے تھے اور اسلام کی تبلیغ شروع کردی تھی،اسلام کی فطری تعلیمات سے متاثرہوکر وہاں کی کثیر آبادی نے اسلام قبول کرلیا اورایسی قوت کے مالک بن بیٹھے کہ 1430ءمیں سلیمان شاہ کے ہاتھو ں اسلامی حکومت کی تشکیل کرلی، اس ملک پر ساڑھے تین صدیوں تک مسلمانوں کی حکومت رہی ، مسجدیں بنائی گئیں ،قرآنی حلقے قائم کئے گئے ، مدارس وجامعات کھولے گئے ، ان کی کرنسی پر لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کندہ ہوتا تھا اور اس کے نیچے ابوبکر عمرعثمان اور علی نام درج ہوتا تھا ۔ اس ملک کے پڑوس میں برما تھا جہاں بدھسٹوں کی حکومت تھی ، مسلم حکمرانی بودھسٹوں کو ایک آنکھ نہ بھائی اور انہوں نے 1784ء میں اراکان پر حملہ کردیا بالاخر اراکان کی اینٹ سے اینٹ بجادی ، اسے برما میں ضم کرلیا اوراس کا نام بدل کر میانمار رکھ دیا۔
1824ءمیں برما برطانیہ کی غلامی میں چلا گیا، سوسال سے زائدعرصہ غلامی کی زندگی گذارنے کے بعد1938ءمیں انگریزوں سے خودمختاری حاصل کرلی، آزادی کے بعد انہوں نے پہلی فرصت میں مسلم مٹاو پالیسی کے تحت اسلامی شناخت کو مٹانے کی بھرپور کوشش کی ، دعاة پر حملے کئے ، مسلمانوں کو نقل مکانی پر مجبورکیا ،چنانچہ پانچ لاکھ مسلمان برما چھوڑنے پر مجبورہوئے، کتنے لوگ پڑوسی ملک بنگلادیش ہجرت کرگئے ، مسلمانوں کی حالت زاردیکھ کر ملک فہد نے ان کے لیے ہجرت کا دروازہ کھول دیا اس طرح ان کی اچھی خاصی تعداد نے مکہ میں بودوباش اختیارکرلی ،آج مکہ کے باشندگان میں 25 فیصد اراکان کے مسلمان ہیں ۔ اس طرح مختلف اوقات میں مسلمانوں کو نقل مکانی پر مجبورکیا گیا،جولوگ ہجرت نہ کرسکے ان کی ناکہ بندی شروع کردی گئی،دعوت پر پابندی ڈال دی گئی ،دعاة کی سرگرمیوں پرروک لگادی گئی،مسلمانوں کے اوقاف چراگاہوں میں بدل دئیے گئے ، برماکی فوج نے بڑی ڈھٹائی سے ان کی مسجدوں کی بے حرمتی کی ، مساجد ومدارس کی تعمیر پر قدغن لگادیا ،لاؤڈسپیکر سے اذان ممنوع قرار دی گئی ، مسلم بچے سرکاری تعلیم سے محروم کیے گیے، ان پرملازمت کے دروازے بندکردئیے گئے ،1982 میں اراکان کے مسلمانوں کو حق شہریت سے بھی محروم کردیاگیا، اس طرح ان کی نسبت کسی ملک سے نہ رہی ، ان کی لڑکیوں کی شادی کے لیے 25 سال اورلڑکوں کی شادی کے لیے30 سال عمر کی تحدید کی گئی ، شادی کی کاروائی کے لیے بھی سرحدی سیکوریٹی فورسیز سے اجازت نامہ کا حصول ناگزیر قراردیاگیا ، خانگی زندگی سے متعلقہ سخت سے سخت قانون بنائے گئے۔ساٹھ سالوں سے اراکان کے مسلمان ظلم وستم کی چکی میں پس رہے ہیں،ان کے بچے ننگے بدن ، ننگے پیر، بوسیدہ کپڑے زیب تن کئے قابل رحم حالت میں دکھائی دیتے ہیں، ان کی عورتیں مردوں کے ہمراہ کھیتوں میں رزاعت کا کام کرکے گذربسر کرتی ہیں۔ لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ ایسے سنگین اورروح فرسا حالات میں بھی مسلمان اپنے دینی شعائر سے جڑے ہیں اور کسی ایک کے تعلق سے بھی یہ رپورٹ نہ ملی کہ دنیا کی لالچ میں اپنے ایمان کا سودا کیاہو۔
جون کے اوائل میں10دعاة مسلم بستیوں میں دعوت کے لیے گھوم رہے تھے اور مسلمانوں میں تبلیغ کررہے تھے کہ بودھسٹوں کا ایک دہشت گردگروپ ان کے پاس آیا اور ان کے ساتھ زیادتی شروع کردی ،انہیں ماراپیٹا ، درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے جسموں پر چھری مارنے لگے ،ان کی زبانوں کو رسیوں سے باندھ کر ان کی زبانیں کھینچ لیں یہاں تک کہ دسیوں تڑپ تڑپ کر مرگئے ، مسلمانوں نے اپنے دعاة کی ایسی بے حرمتی دیکھی تومظاہرہ کیا، پھر کیاتھا، انسانیت سوز درندگی کا مظاہرہ شروع ہوگیا، انسان نما درندوں نے مسلمانوں کی ایک مکمل بستی کو جلادیا ،جس میں آٹھ سو گھر تھے ، پھر دوسری بستی کا رخ کیا جس میں700 گھر تھے اسے بھی جلاکر خاکستر کردیا، پھر تیسری بستی کا رخ کیا جہاں 1600گھروں کو نذرآتش کردیا۔ جان کے خوف سے 9 ہزار لوگوں نے جب بری اور بحری راستوں سے بنگلادیش کا رخ کیا تو بنگلادیشی حکومت نے انہیں پناہ دینے سے انکار کردیا ۔ 
یہ ہیں وہ حالات جن سے اراکان کے مسلمان حالیہ دنوں گذر رہے ہیں، مظلوموں کی آہیں، یتیموں اور بیواؤں کی چینخ وپکار،اورخانہ بدوش مسلمانوں کی سسکیاں آنکھوں کو اشکبار کردیتی ہیں اورضمیر کو کچوکے لگاتی ہیں کہ کہاں ہے غیرت مسلم ....؟ کہاں ہے ہمارے مسلم حکمراں کا سیاسی رول.... ؟ کہاں ہے رفاہی اداروں اورعالمی تنظیموں کی دادرسی ....؟ 
ہماری بات اقتدار کے ایوانوں تک نہیں پہنچ سکتی ،عالمی تنظیموں کوجھنجھوڑنہیں سکتی لیکن آپ کے سمندغیرت کو تازیانہ ضرورلگاسکتی ہے ، آپ کے احساس کوضرور بیدار کرسکتی ہے،کہ آپ تک مظلوم مسلمانوں کی حالت زارپہنچ چکی ہے ۔
 توآئیے !رحمت ومغفرت اورمواسات وغم خواری کے اس ماہ مبارک میں اراکان کے مظلوم مسلمانوں کے لیے گڑگڑاکراللہ کے حضور دعائیں کریں ، اوراپنے پاکیزہ مالوں کی زکاة وصدقات سے ان کی داد رسی کریں کہ یہ دینی اخوت کا ادنی تقاضا ہے۔ 

ليست هناك تعليقات: