الثلاثاء، يوليو 31، 2012

سیرت طيبہ کی جھلکیاں 2


الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی  قائد الغر المحجلین نبینا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد

حضرت محمد ﷺ کی پاکیزہ زندگی پرروشنی ڈالنے سے پہلے ....مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم آپ کو اُس دورمیں لے چلیں ....جس میں محمد ﷺ پیداہوئے تھے ، اوراُس وقت عرب کی اور پھر دنیا کی کیا حالت تھی اُس کا ایک ہلکا سا خاکہ آپ کے سامنے رکھیں.... تاکہ آپ کو اندازہ ہوسکے کہ دنیا.... کس حالت کو پہنچ چکی تھی.... اورپھر.... نبی پاک ﷺ کے ذریعہ دنیا میں کیسی تبدیلی آئی ؟۔
ایران کو دیکھیں تو.... اپنی ترقی کے باوجود.... زرتشت کوانہوں نے خدا کا درجہ دے رکھا تھا، وہ بھلائی کا پیدا کرنے والا یزداں کو مانتے تھے اوربُرائی کا پیداکرنے والا اہرمن کو سمجھتے تھے اوران کی پوجا کرتے تھے ، ان کے ہاں آگ کی پوجا بھی ہوتی تھی اوروہ چاند ستاروں کے سامنے بھی جھکتے تھے ۔
روم ویونان کودیکھیں تویہ بہت بڑی تہذیب کے مالک تھے ،اِسی ملک میں سقراط ،بقراط،افلاطون اورارسطو پیداہوچکے تھے لیکن یہ بھی ایران سے کچھ کم نہ تھے ،اپنے بچوںتک کو بیچ ڈالتے اورغلام بنالیتے تھے ۔....عیسائیوں کودیکھیں تو انہوں نے اللہ کی ذات کو تین حصوںمیں بانٹ رکھاتھا، راہبوںاورراہباوں کے بیچ شرمناک حرکتیںتک ہوتی تھیں ۔....یہودیوںکو دیکھیں تو ان کے پیشوا مال کے لالچی بن بیٹھے تھے ، خود کو رب کے درجہ پر بٹھا لیاتھا اورلوگوں پراپنی مرضی چلاتے    تھے ۔
ہندوستان کی طرف جھانک کردیکھیں تو یہاں جتنے کنکر اُتنے شنکر کی بات تھی ،یہ ہرچیز کی پوجا کرتے تھے ،یہاں ستاروں،س یاروں، درختوں، جانوروں، سانپوں، پتھروں اورشرمگاہوںتک کی پوجا ہوتی تھی ۔
جب ہم جزیرہ عرب کی طرف آتے ہیں تودیکھتے ہیں کہ عرب ہر اعتبار سے پستی کے شکارتھے ،دینی حالت کا جائزہ لیں تو عرب ویسے تو اسماعیل علیہ السلام کے خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ابراہیمی دین کے ماننے والے تھے ،ایک اللہ کی عبادت کرتے تھے ،لیکن یہ طریقہ زیادہ دنوں تک نہ چل سکا ،بنوخزاعہ کا ایک سردار.... جس کا نام عمروبن لُحی تھا ،اُس نے عرب میں بُت پرستی کو عام کردیا ۔ایسا کیسے ہوا ؟ وہ ایک بار ملک شام گیا ،وہاں اُس نے دیکھا کہ لوگ اپنے ہاتھوںسے بنائے ہوئے بتوں کی پوجا کرتے ہیں ۔ شروع میں تو اُسے عجیب سا لگا ،لیکن اُ س کے خیال میں شیطان نے یہ بات ڈالی کہ شام پیغمبروں کی زمین ہے ، یہاں کی روایت غلط کیسے ہوسکتی ہے ،اس طرح وہ جب شام سے لوٹا تو اپنے ساتھ ہُبل بُت بھی لے کر آیا ۔ اُسے خانہ کعبہ میں نصب کردیا اورلوگوں کو اُس کی پوجا کی طرف بُلانے لگا ۔ ....ظاہر پرستوں نے اس کی بات مان لی اورہُبل کی پوجا شروع کردی ۔ اب کیاتھا....دیکھتے ہی دیکھتے پورے عرب میں بتوںکی پوجا عام ہوگئی ۔ کعبہ تین سو ساٹھ بتوں سے بھر گیا....اِن بتوں کے تعلق سے اُن کا عقیدہ تھا....کہ یہ ہم کو.... اللہ کے قریب کردیں گے مانعبدھم الا لیقربوھا الی اللہ زلفا” ً ہم اُن کی عباد ت محض اس لیے کررہے ہیں کہ و ہ ہم کو اللہ کے قریب کردیں گے ۔
عربوںمیں بدفالی اور بدشگونی کا عام چلن تھا ۔ پرندے کو بھگاتے ،اگر داہنے جانب بھاگتا تو کام کرتے اوراگر بائیں جانب بھاگتا تو کام سے رُک جاتے ۔ وہ جوا کے بڑے شوقین تھے ،کاہنوں،نجومیوں اور جیوتشیوں کی خبروں پر یقین رکھتے تھے ،کچھ بھی ہوتا جیوتشیوں کے پاس پہنچ جاتے ۔ عربوںکی اجتماعی زندگی بھی ابتر سے ابتر تھی ، عربوں کے نچلے طبقے میں عورتوں کو ....کچھ حیثیت حاصل تھی ،لیکن ....عام عربوںمیں بے حیائی ،بدکاری ،فحش کاری اورزناکاری عام تھی ۔ اُن کی شادیوںمیں بھی بدکاری کے طریقے عام تھے ۔ عربوں کے اندر ایسی سخت دلی تھی کہ اپنی لڑکیوں کو رسوائی کے ڈر سے ....زمین میں ....زندہ ہی دفن کردیتے تھے ۔ اور ذرہ برابربھی اُن پر رحم نہیں کھاتے تھے ۔ قبائلی عصبیت اُن میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی ....وہ یہی جانتے تھے کہ اپنے خاندان کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم ....چاہے وہ حق پر ہو یا باطل پر ....بس اِتنا دیکھ لو کہ وہ خاندان کا ہونا چاہیے ....یہ بڑے لڑاکو بھی تھے ،معمولی معمولی باتوں پر تلوار نکل جاتی اور جنگ چھڑ جاتی تھی ،جو سالوں تک چلتی رہتی ۔
خلاصہ یہ سمجھیں کہ پوری دنیا تاریکی میں بھٹک رہی تھی ،پوری دنیا میں روشنی کا دوردور تک پتہ نہ تھا ۔ دنیا انتظار کر رہی تھی ایسے مسیحا کا جو اُن کو تاریکی سے نکال کرروشنی کی طرف لے جائے ....یہودیوں اور عیسائیوں کو انتظار تھا اُس نبی کا.... جن کی صفتیں وہ اپنی کتابوںمیں لکھاہوا پاتے تھے ۔ ایران والے زرتشت کی رہنمائی کے مطابق ایک رہبر کی تلاش میں تھے ....ہندودھرم کے ماننے والے ویدوںمیں نراشنس کے نام سے 31جگہ پر آخری اوتا ر کی صفتیں پڑھتے تھے اور اورکلکی اوتار کے نام سے آخری اوتار کا انتظار کر رہے تھے ۔ بدھ دھرم کے ماننے والوںکو بھی ایک آخری بدھ کا انتظار تھا جس کا نام میتری ہوگا ۔
جی ہاں ! یہی وقت تھا انسانیت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا ....شروع میں ایسا کرنا ممکن نہیں تھا کہ لوگ الگ الگ ملکوں میں بٹے تھے ،اُن میں آپسی میل جول نہ تھا ،ہر ایک کی زبانیں بھی الگ الگ تھیں ، انسانی عقل بھی محدودتھی ،اِس لیے ....ضرورت بھی تھی.... کہ الگ الگ نبی بھیجے جاتے ....لیکن ساتویں صدی عیسوی میں حالات ساز گار ہوگئے تھے ،آمد ورفت کے ذرائع میسر ہوگئے تھے ،اجنبی زبانوں کے سیکھنے کا رجحان عام ہوگیا تھا ۔ اِس طرح یہ ممکن ہوگیاتھا کہ اسلام کاآخری پیغمبر ساری انسانیت کے لیے بھیج دیاجائے ۔
جب اپنی پوری جوانی پہ آگئی دنیا
جہاں کے واسطے ایک آخری پیام آیا ۔
اب سوال یہ تھا کہ یہ آخری پیغمبر کہاں بھیجے جائیں ؟ تو اِسکے لیے عرب کی سرزمین.... سب سے زیادہ مناسب تھی ....جانتے ہیں کیوں ؟
 اِس لیے کہ یہ سرزمین پوری دنیا کے بیچوںبیچ واقع تھی ....اورآج جغرافیائی تحقیق نے یہ ثابت کردیا ہے کہ مکہ مکرمہ کرہ ارضی کے سینٹرمیں واقع ہے ۔ظاہر ہے کہ جو نبی پوری دنیا کے لیے آنے والے تھے ،اُن کا پوری دنیا کے سینٹر میں آنا ہی زیادہ مناسب تھا ۔
اِس سرزمین کی دوسری خوبی یہ تھی کہ عرب ہر طرح کی بُرائیوںمیں لت پت ہونے کے باوجود بہادر تھے ،نڈر تھے ، سخی اورداتا تھے ،اُن کی سخاوت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ اگر کسی کے پاس مہمان آجاتا اور اُس کے پاس کھلانے کے لیے کچھ نہ ہوتا سوائے سواری کی اونٹنی کے تو اُسے ہی ذبح کرکے مہمان کی خدمت میں پیش کردیتے ۔ وہ عدہ کے بڑے پکے تھے ،جو بول دیتے وہ پتھر لی لکیر ثابت ہوتی ،وہ کبھی وعدہ خلافی نہ کرتے تھے ، اُن کے اندر خو داری اور عزت نفس کوٹ کوٹ کر پائی جاتی تھی ۔ اورعالمی رہبر کوایسے ہی لوگوںکی ضرورت تھی ۔
ایک تیسری خوبی یہ تھی کہ اس ملک میں کوئی حکومت نہ تھی جو دعوت کے راستے میں رکاوٹ بنتی .... پورے مشرق وسطی میں عرب ہی وہ دیش تھا جہاں کوئی راجہ نہیں تھا ،وہاں ہر قبیلے کی الگ الگ سرداری تھی ،اگر وہاں پر راجا ہوتا جیسا کہ دوسرے ملکوں کاحال تھا تو پوری حکومت آپ ﷺ کی مخالفت پر کمربستہ ہوجاتی ،دوسرے کئی انبیاءکے ساتھ ایسا ہوا بھی ....، یہاں تک کہ کتنوں کو قتل کردیاگیا۔
پھر اُن کی زبان بھی عربی تھی جس کے اندر لطافت اور شیرینی کے ساتھ ساتھ ایسی جامعیت پائی جاتی ہے کہ مختلف معانی کو کم سے کم الفاظ میں سمولے ۔اورآخری کتاب الہی کے لیے ایسی ہی زبان کی ضرورت تھی

محترم قارئين !عربوں کی ہراعتبارسے ابتر حالت ہونے کے باوجوداُن میں بعض اہم خوبیوںکا پایاجانا.... اورپھر مکہ مکرمہ کا محل وقوع اِس بات کا تقاضا کررہا تھا کہ اِسی سرزمین پر ایک عالمی پیغمبر کی بعثت ہو ....چنانچہ اِنہیں حالات میں محمدﷺمکہ کی دھرتی پر پیدا ہوتے ہیں....آپ کی پیدائش سے پہلے دوبڑے اہم اوریادگارواقعات پیش آئے ....وہ کیاہیں ؟ اِنہیں ہم جانیں گے اگلے حلقہ میں۔تب تک کے لیے اجازت دیجئے ....اللہ حافظ 

ليست هناك تعليقات: