الخميس، يوليو 29، 2010

شاہ فیصل : مواقع کو چیلنجیز میں بدلنے والے شاہین صفت نوجوان


تحرير: ظل الرحمن تیمی



مشکلات وچيلنجز کو مواقع ميں بدل کرنماياں کاميابی سے ہمکنار ہونے والے شاہ فيصل پچھلے دنوں سول سروسز امتحان ميں اول مقام حاصل کر کے سرخيوں ميں رہے ۔ ان کی کاميابی نے مصاٰئب وآلام میں جی رہے ہزاروں بے سہاروں کو سہارا دیا۔ ان کی دوررس پرواز نے حالات کے گرداب میں پھنسے سیکڑوں نوجوانوں کو کامیابی کی امید دلائی، انہوں نے اپنی کاميابی کے ذريعہ يہ پيغام ديا کہ اگر ہم مشکل حالات ميں بھی جہد مسلسل ، سعی پيہم اور لگاتار کوشش کرتے رہے توکاميابی ضرور ہمارا قدم چومے گی۔ ناسازگار حالات کو بھی ہم مواقع اور Opportunities ميں بدل سکتے ہيں اور اعلیٰ سے اعلیٰ تعليم حاصل کر کے تعمیروترقی کے منازل طے کر سکتے ہيں۔
شاہ فيصل بچپن سے ہی جن نامساعد حالات سے دوچار ہوئے انہيں پڑھ اور سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے اور دل پگھل سا جاتا ہے۔ ابھی شاہ فیصل اسکول کی تعلیم مکمل کر کے اپنے کیریرکی طرف قدم بڑھانے والے ہی ہوتے ہیں کہ دہشت گردوںنے ان کے والد محترم غلام محمد شاہ کو 2002 میں قتل کردیا ۔انسانیت دشمن عناصر کی سفاکانہ کارروائی سے پورے گھرانے پر خوف وہراس کا ماحول طاری ہو گيا۔ امیدوں کا شیش محل چکنا چور ہوگیا۔ شاہ فیصل کی والدہ محترمہ مبینہ اپنے محبوب شوہر کے وحشيانہ قتل پر تلملااٹھیں اور ان کا دل بیٹھ سا گیا ۔اس خونی حادثے کے چند ہی دنوںبعد شاہ فیصل میڈیکل کے مقابلہ جاتی امتحان میں شریک ہونے والے تھے۔ایسے نازک حالات اور ماتم کدہ ماحول میں کسی اہم مقابلہ جاتی امتحان کی تیاری کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھی ۔لیکن داددیجیے شاہین صفت فیصل کے حوصلے اور عزائم کو کہ انہوںنے ناامیدی کے بجائے اعتماد وحوصلے سے کام لیا اور پورے انہماک کے ساتھ اپنی تیاری میں مشغول ہوگئے ۔اللہ تعالی کے قضاءو قدر پر کامل یقین رکھنے والے فيصل کی یکسوئی ر نگ لائی اور وہ پہلے ہی کو شش میں میڈیکل امتحان میں کامیابی سے ہمکنار ہوئے ۔ان کی کامیابی سے والدہ کے پگھلے ہوئے بے قرار دل کو قرار نصیب ہوا ۔بھائی بہنوں کو حوصلہ ملا اور خود فیصل کے دل میں اس بات کا احساس جاگا کہ نامساعد حالات میں بھی کامیابی و کامرانی اور عروج و ارتقاءکی منازل طے کی جا سکتی ہیں ۔
شاہ فیصل نے اپنے والد محترم کی سفاکانہ موت کا غم بھلایا بھی نہیں تھا کہ دہشت گردوں نے ان کے ماموں محترم کو بھی اپنی درندگی و حیوانیت کا شکار بنا کر ہلاک کر دیا ۔والد اور ماموں کی تڑپتی ہوئی موت سے پورے گھر انے میں مسلسل سوگ کا ماحول رہتا تھا ۔لیکن فیصل نے اپنے مستقبل کو تابناک بنانے، دراندازوں کی گھس پیٹھ پر بند باندھنے اور دہشت گردانہ کاروائیوں پر روک لگانے کے لیے منظم منصوبہ بنا رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے دہشت گردی کا جواب دہشت گردی سے دینے اور ہاتھ میں بندوق اٹھانے کے بجائے اعلیٰ تعليم حاصل کرنے اور حکومت کے سسٹم ميں اہم مقام پر فائز ہونے کا عزم کيا۔ چنانچہ ميڈيکل گريجويٹ ہو جانے کے بعد وہ خاموش نہيں بيٹھے بلکہ سول سروسز کی تياری شروع کر دی۔ اس سلسلے میں وہ دہلی آئے اور ہمدرد اسٹڈی سرکل میں داخلہ لے کر پورے انہماک کے ساتھ اپنی تیاری میں مشغول ہوگئے۔ یہاں تیاری مکمل کرنے اور امتحان سے فارغ ہونے کے بعد فرصت کے اوقات میں کچھ مدت کے لیے آپ ہمدرد نگر کے اسپتال میں میڈیکل افسر بھی رہے ۔آپکی شبانہ روز کی محنت رنگ لائی اورآپ نے سال 2009-10 کے سول سروسزکے امتحان میں اول مقام لاکر کشمیر کی تاريخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔آزادی کے بعد آپ چوتھے مسلم نوجوان ہیں جنہوں نے سول سروسز میں ٹاپ کیا ہے۔ اس سے قبل اے ٹی رضوی ،جاوید عثمانی اور عامر سبحانی اس عظیم کامیابی سے ہمکنار ہوکر ملک وملت کا نام روشن کر چکے ہيں۔ شاہ فیصل کی کامیابی پرپورے ہندوستانی مسلمانوں میں خوشی کا ماحول دیکھنے کو ملا ۔کشمیر میں لوگوں نے جشن منایا ۔فیصل کی والدہ مبینہ اور ان کے بھائی بہنوں کا دل خوشیوں سے مچل گیا۔ کشمیر میں دراندازوں اور دہشت گردوں کی شبانہ روز کی وحشت ناک کارروائیوں سے تنگ آچکے کشمیریوں کو اس بات کا احساس ہوا کہ ہم ہندوستان کی سر زمین پر ترقی کی اعلیٰ منزل تک پہنچنے کے مواقع رکھتے ہيں۔ چنانچہ ہمیں سازشیوں کے جال میں پھنسنے کے بجائے مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
سول سروسز امتحان کےلئے سال 2009-10میں کل (409110 ) چار لاکھ نو ہزار ایک سو دس طلبا ءنے مقابلہ جاتی فارم پرکیا تھا ۔مذکورہ تعداد ميں سے 190091طلباءوطالبات Preliminary امتحان ميں بيٹھے۔ ان ميں 12026طلباءوطالبات Main امتحان کے ليے چنے گئے۔اور آخری مرحلے ميں 2432 اميدوار انٹرويو Personality Testکے ليے بلائے گئے۔ انٹرويومارچ اپريل 2010 ميں نئی دہلی ميں کرايا گيا تھا۔ آخری مرحلہ کے انٹرويو کے بعد کل 857 اميدوار کو سول سروسز کے ليے منتخب کيا گيا جن ميں 680طلباءاور 195 طالبات شامل تھيں۔ پورے امتحان ميں شاہ فيصل پہلے نمبر پر،IIT کے انجينئرنگ گريجويٹ پرکاش راجپوت دوسرے نمبر پر اور JNU کی ايوا ساہا تيسرے نمبر پر تھيں۔
سال 2009-10کے سول سروسز امتحان میں کل 23مسلم طلباءو طلبات نے اپنی کامیابی درج کرائی ۔مسلم طلباءکا تناسب 2010میں2.63فیصد ہے جبکہ گذشتہ سال یہ تناسب4.04 فیصد تھا۔کامیابی کے تناسب ميں گویااس سال گذشتہ سال کے مقابلہ میں 1.59% کی کمی آئی ہے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مسلمان اپنی آبادی کے تناسب سے اس اعلیٰ میعاری امتحان میں اپنی کامیابی کےلئے کوشش کرتے ۔دوسرے جو مسلم طلباءوطالبات کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں ان میں محمد یوسف قریشی 55،محمد شاہد عالم 74، یونس 80، احمد اقبال 118، رئیس محمد بھٹ 124، محمد صادق عالم135 اورعابد خان 144 رينک کے ساتھ قابل ذکر ہيں۔
سول سروسز سميت دوسرے مقابلہ جاتی امتحانوں کی تياری کے ليے ہمدرد اسٹڈی سرکل اور کچھ دوسرے ادارے پچھلے کئی سالوں سے سرگرم ہيں۔ ہمدرد اسٹڈی سرکل کی کارکردگی بطور خاص کافی حوصلہ افزا ہے۔وزارت برائے اقليتی امور نے بھی سول سروسز سميت ميڈيکل وانجينئرنگ اور دوسرے مقابلہ جاتی امتحانوں کے ليےمفت کوچنگ کی سہولت دينی شروع کی ہے۔ البتہ اس سلسلہ ميں ايک قابل غور پہلو يہ ہے کہ کچھ ادارے کام کم اوراپنی سستی شہرت کے ليے کوشش زيادہ کرتے ہيں۔زکوة فاﺅنڈيشن آ ف انڈيا اس سلسلہ ميں سرفہرست ہے۔ زکوة فاﺅنڈيشن آ ف انڈيا نے شاہ فيصل کو سول سروسز کی تياری کے ليے اسکالرشپ دی تھی۔ليکن فيصل کی کاميابی کے بعد اس نے اس اسکالرشپ کی جس انداز سے تشہير کی، اس سلسلہ ميں فيصل کی تصويروں اور کچھ دستاويزات کا جس انداز سے استعمال کيا گيا، وہ افسوسناک ہے۔ يہ حرکتيں ايک سنجيدہ تنظيم کا شيوہ نہيں ہيں۔ ہمدرد اسٹڈی سرکل تقريباً دو دہائی سے اس سلسلے ميں نماياں خدمات انجام دے رہا ہے ليکن اس نے کبھی یہ انداز اختيار نہيں کيا۔
اللہ تعالی ہماری تنظيموں کو کہنے سے زيادہ کرنے کی توفیق عنايت کرے۔

ليست هناك تعليقات: