الأربعاء، أبريل 14، 2010

آپ کے فتوے کس قدر خطرناک ہیں

ریڈیو کویت کی دینی محفل ”باتیں جن سے زندگی سنورتی ہے ‘’ ميں براہ راست سامعین کے سوالات کے جوابات دینے کا اللہ پاک نے ناچیز کو جو موقع دیا ہے، اس سے ذاتي طور پر بہت سارے تجربات حاصل ہوئے ہیں اورالحمد للہ لوگوں کو فائدہ بھی ہورہا ہے ۔ اللہ تعالی حاسدین کی نظر بد سے بچائے آمین ۔ آج ایک عجیب فاکس ملا ہے اسے ہو بہو نقل کردیتا ہوں اس کے بعد بتاؤں گا کہ آخرصوت التیمی پر اس کا تذکرہ  کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، تو لیجئے مکتوب پیش خدمت ہے
” مکرمی....میرا نام اسلم ہے ....میرے ساتھ رئیس نام کا ایک لڑکا رہتا ہے جو ایک مہینے سے بہت پریشان ہے ،جن کو آرام بہم پہنچانے کے لیے کویت آیا تھا انہوں نے ہی اس کے پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ہے ، بات دراصل یہ ہے کہ وہ تین بچوں کا باپ ہے اور اسے کسی نے فون کرکے بتایا ہے کہ اس کے باپ نے اس کی بیوی کے ساتھ ناجائز جنسي تعلق قائم کیا ہوا ہے ، اس کی بیوی نے اس كا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک بار زبر دستی اس نے میرے ساتھ ایسا کیا ہے ۔ جبکہ باپ اس سے انکار کررها ہے ، وہ بہت زیادہ الجھن میں پھنسا ہوا ہے ، کیا ایسی حالت میں بیوی نکاح میں رہی یا نہیں ....اور باپ کے ساتھ کیا سلوک کیا جانا چاہئے ....مولانا....برائے مہربانی قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دینے کی زحمت فرمائیں ....ریڈیو کی بجائے اگر فون پر جواب مل جائے تو اچھا ہوگا ....میرا نمبر ہے ....اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے آمین

فاکس ملتے ہی میں نے ان کو فون کیا اوران کے ساتھی رئیس سے براہ راست بات کرکے ان کو سو فی صد یقین دلایا کہ آپ کا نکاح باقی ہے ، زنا سے نکاح متاثر نہیں ہوتا ، اس سلسلے میں آپ پوری طرح مطمئن رہیں ....اورکسی کی بات کی ذرہ برابر پرواہ نہ کریں ....البتہ اگرآپ اپنی اہلیہ کو کویت نہیں بلاسکتے ، توان کو فوری طورپران کے میکے پہنچا دیںجہاں ان کے والدین رہتے ہوں اور ان کے سارے اخراجات بھیجتے رہیں، اگر میکے میں کوئی ان کا محرم نہ ہو تو آپ اپنی اہلیہ کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے جو بہترہو فیصلہ کریں کہ آپ کے لیے کویت میں رہنا اچھا ہے یا ہندوستان سفر کرجانا ....

ہاں! اب میں اصل موضوع کی طرف آتاہوں یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصود دراصل آج کے میڈیا کو باور کرانا ہے کہ بعض لوگوں کے فتوی کو بنیاد بناکر شریعت اسلامیہ کونشانہ طعن بنانا قطعاً مناسب نہیں....دوسروں کی بات چھوڑئیے اپنے گھر کی بات کرتےہيں یعنی مسلمان گھرانے میں پیدا لینے والے نام نہاد سیكولر سوچ کے علمبرداروں کی .... چند دنوں سے ہندی بلوگ دنیا میں فردوس خان چھائی رہیں ....حقوق نسواں کے نام پر....کہ اسلام نے عورتوں پر ظلم کیا ہے ، مولوی ملا مسلمان عورتوں کو مزید پیچھے کرناچاہتے ہیں اس کے لیے وہ باربار ظلم کی شکار عورتوں کی مثالیں دے رہی تھی، اور یہ سوال کررہی تھی کہ آخر ايسي عورتوں كي كيا غلطي تهي كه انهيں کے ساتھ زنا بالجبر کیا جائے اور ان کو شوہر سے محروم بھی ہونا پڑے ، یہ کیا شریعت ہے ....؟ یہ کیا دین ہے ....؟ اس کا جواب تو وہ لوگ بہتر طریقے سے دیں گے جو اس طرح کا فتوی دیتے ہیں اور اسلامی شریعت پر کیچڑ اچھالنے کا موقع فراہم کرتے ہیں ....جو شریعت ربانی شریعت ہے ، کامل ومکمل ہے ، ہردور میں انسانیت کی نجات دہندہ ہے، ہرزمانے کے لیے قابل عمل ہے ۔

میں نے اوردیگر مسلم ساتھیوں نے اسے سمجھایا لیکن وہ سمجھتی کب اسے تو شاید ہندو تنظیموں کی پشت پناہی حاصل ہے ، معاملہ يہاں تک پہنچ چکاہے کہ رام اورکرشن کی پوجا کے لیے مندر کا رخ بھی کر نے لگی ہے ، آج کے پوسٹ میں اس نے یہی قصہ لکھا ہے دیکھیے
 اس کا کہنا ہے
अगर इंसान अल्लाह या ईश्वर से इश्क़ करे तो... फिर इससे कोई फ़र्क नहीं पड़ता कि उसने किसी मस्जिद में नमाज़ पढ़कर उसकी (अल्लाह) इबादत की है... या फिर किसी मन्दिर में पूजा करके उसे (ईश्वर) याद किया है...
میرے بھائیو ! یہ اثر ہے مخلوط تعلیم کا .... یہ اثر ہے ہندو ثقافت کا ....یہ اثر ہے اسلام دشمن عالمی تنظیموں کی کوششوں کا جو یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانون كي نئي نسل كو ايسا بدل ديا جائے كه ان كا نام مسلمان تو ضرور رہے لیکن اسکے اندر سے مسلمانیت بوري طرح نكل چكي ہو۔ جی ہاں!عصرحاضرمیں امت مسلمہ کا المیہ ہے کہ اس کا ایک طبقہ روشن خیالی اوررواداری کے نام پر شریعت اسلامیہ کو تمسخر کا نشانہ بنارہاہے،اسلام کے بنیادی عقائد سے منہ موڑ کر فکری ارتدار کا شکار ہو رہا ہے۔ اوریہ دراصل عالم اسلام میں وحدت ادیان اور فکری ارتداد کے لیے کام کررہی اسلام دشمن تنظیموں کی کوششوں کا شاخسانہ ہے ۔افسوس کہ میڈیامیں اسلام کی ترجمانی کرنے والوں کی اکثریت اسی نظریہ کی حامل ہے ۔ ”مولانا ابوالحسن علی ندوی کی کتاب ردة ولا ابابکر لھا ’امت میں ارتداد عام ہے تاہم اس کی سرکوبی کے لیے ابوبکر نہ رہے ‘ اس دور کی ہوبہو عکاسی کرتی ہے“ ۔(یہ فقرہ راقم سطور نے ڈاکٹر محمد لقمان سلفی بانی جامعہ امام ابن تیمیہ سے سناتھا) اس پرطرہ یہ کہ یہ جماعت اسلام کی تعلیمات کو اپنا نے اور اسے پوری طرح عملی زندگی میں جگہ دینے کو مذہبی کٹرپن کانام دیتی ہے۔ (مزيد تفصيل كے ليے  ديكهیں )
 
یہاں پر ہمیں شدت سے ضرورت محسوس ہوتی ہے ان مدارس کی جو آج ہندوستان میں اسلام کی روح کو بحال کیے ہوئے ہیں ۔ ڈاکٹر علامہ اقبال رحمہ اللہ نے اندلس سے واپسی کے بعد مدارس اسلامیہ کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں سے کہا تھا : ”ان مدرسوں کو ان ہی حال میں رہنے دو، غریب مسلمانوں کے بچوں کو ان ہی مدارس میں پڑھنے دو، اگر یہ ملا درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا ؟جو کچھ ہوگا میں انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں ۔ اگر ہندوستانی مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہو گيے تو بالکل اسی طرح ہوگا جس طرح اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ وقرطبہ کے کھنڈرات اور اور الحمراءکے نشانات کے سوا اسلام کے پیروؤں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا ۔ ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعہ کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا ۔

میری بات موضوع سے ہٹتی جا رہی ہے، بلکہ مجھے موضوع کی وضاحت کرنی بھی نہیں ہے ،میرا مقصود بس اشارہ کردینا ہے کہ آپ کے فتوے کس قدر خطرناک بن رہے ہیں....اس لیے ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ ہم اسلامی مدارس کی اہمیت کو سمجھیں گے .... نئی نسل کوخالص کتاب وسنت کی تعلیم سے آراستہ کریں گے، اپنے بچوں کو غیرمسلموں کی زبانیں (یعنی ریاستی زبانیں) سکھائیں گے تاکہ وہ ان تک اسلام کا پیغام پہنچا سکیں ۔

ليست هناك تعليقات: