الاثنين، أغسطس 17، 2015

سیرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی عصری معنویت
ثناءاللہ صادق تیمی ، اسسٹنٹ پروفیسر ، جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ ، ریاض
          اسلامی تاریخ میں شروع عباسی دور کو عصر ذہبی(سنہری دور) کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اس لیے کہ اسی عہد میں علوم و فنون کا ارتقاء عمل میں آیا ۔ حدیث ، تفسیر ، بلاغہ ، جغرافیہ ، طب ، فلکیات ، ادب اور بقیہ دوسرے علوم وفنون کی شاخیں نکلیں اور مضبوط ہوئیں لیکن اسی عہد میں اور خاص طور سے مامون کے زمانے میں بیت الحکمۃ بھی بنایا گيا جس کے اندر یونانی فلسفہ کی کتابوں کا ترجمہ عمل میں آیا اور دیکتھے دیکھتے معتزلہ کے ہاتھوں اپنے ہاتھ پاؤں پسارنے لگا ۔ قرآن کریم اور انبیائی طریق دعوت کا مطالعہ کیجیے تو ایک بات سمجھ ميں آتی ہے کہ اللہ نے قرآن حکیم کے اندر کائنات میں غور و فکر کرنے کا حکم بھی دیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ اس غور وفکر کے نتیجے میں انسان کا اللہ پر ایمان مضبوط ہوتا ہے لیکن اللہ کی ذات و صفات میں بے مطلب کی موشگافیوں میں الجھایا نہیں ہے بلکہ امور غیبیہ سے متعلق ایمان لانے کو ہی اصل بتلایا ہے ۔ تمام انبیاء بشمول نبی کائنات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ دعوت و عمل یہی رہا ۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام کے اندر ذوق عبودیت کے ساتھ حسن عمل اور جذبہ جہاد موجزن تھا اور دیکھتے دیکھتے انہوں نے ایک دنیا تک اسلام کی سچائی کو پہنچادیا ۔ بنیادی طور پر اسلام اسی سچے عقیدے اور حسن عمل کی دعوت لے کر آیا تھا ۔ لیکن جب یونانی فلسفہ سے مسلمان آشنا ہوئے اور معتزلہ نے اسے نہ صرف یہ کہ قبول کیا اور دین کو فلسفیانہ موشگافیوں کی نذر کیا بلکہ اس کی ترویج و اشاعت بھی شروع کی ۔  وقت وہ تھا کہ اسلامی حکومت کی چولیں مضبوط تھیں ، نظام اپنی جگہ پر پوری طرج چست درست تھا اورعلماء آسانیوں میں تھے ۔ انہوں نے تعقل آمیزی اور فلسفہ طرازی میں خود کو بری طرح لگادیا اور وہاں وہاں اپنی عقل و خرد کے گھوڑے دوڑانے لگے جہاں عقل و خرد کی رسائی تھی ہی نہیں اور یوں پورے عالم اسلام کو ایک عجیب وغریب قسم کی ایمان سوز بدعت میں مبتلا کردیا ۔ اس کا تجزیہ کرتے ہوئے احمد امین جو معتزلہ کے بڑے قدردان اور حامی ہیں ، لکھتے ہیں " ان پر ( معتزلہ ) پر یہ مواخذہ کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے دین کو عقلی مسائل اور منطقی دلائل کے مجموعے میں بدل دیا ۔ یہ منہج فلسفہ میں تو درست ہو سکتا ہے لیکن دین کے معاملےمیں درست نہیں ہوسکتا ۔ اس لیے کہ دین اس سے زیادہ زندہ شعور کا تقاضہ کرتا ہے جتنا کہ منطقی قواعد کرسکتے ہیں " (رجال الفکر والدعوۃ فی الاسلام ص 195 نقلا من ضحی الاسلام )  فتنہ خلق قرآن اسی فلسفہ آمیزی اور تعقل پرستی کانتیجہ تھا جسے مامون کی سرپرستی میں اس کے درباری معتزلی علماء نے اتنا بڑا مسئلہ بنادیا کہ انبیائی طریقہ عمل اور قرآنی و محمدی سنت کے برعکس ایک نئے طرز فکر و عمل کو ناکارنے کے لیے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو تاريخ ساز قربانی دینی پڑی ۔
      امام احمد بن حنبل کو بجا طور پر امام اہل السنۃ و الجما‏عۃ کہا جاتا ہے ۔ مانا جاتا ہے کہ اللہ نے دو مشکل وقتوں میں اپنے دو خاص بندوں کے ذریعے اپنے دین کی حفاظت کی ۔ ایک رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب مانعین زکوۃ اور مرتدین (اسلام سے پھر جانے والوں  ) کا فتنہ اٹھا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی قوت ایمانی نے اس کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور اللہ کی نصرت سے مالا مال ہوئے اوردوسرے جب قرآن کریم کے مخلوق ہونے کا شوشہ چھوڑ کر فتنہ اٹھایا گیا اور جب ایک دو کے علاوہ سارے علماء نے حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے ہی میں اپنی عافیت سمجھی تو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے پہاڑ جیسے موقف نے اللہ کے دین کی حفاظت کی ۔ امام احمد بن حنبل ائمہ اربعہ میں سے ایک ہیں ۔ محدثین کے زمرے میں بھی ان کا شمار کبار ائمہ حدیث میں ہوتا ہے ۔ مسند احمد بن حنبل ان کی مشہور و معروف اور معتبر کتاب ہے ۔ 164 ہجری میں آپ کی پیدائش ہوئی اور 241 ہجری میں آپ کا انتقال ہوا ۔
امام احمد بن حنبل اپنی خدمت حدیث اور خدمت فقہہ کے لیے تو جانے جاتے ہی ہیں لیکن خاص طور سے آپ کو آپ کی پاکیزہ سیرت ، روشن کردار، زہد و ورع ، صبر وقناعت ، اتباع سنت رسول،  پہاڑ جیسے غیر متزلزل ایمان اور منہج صحابہ و تابعین پرقائم رہنے کے لیے جان کی بازی تک لگادینے کے فراواں جذبے کے لیے جانا جاتا ہے ۔ امام یحی بن معین فرماتے ہیں " میں نے احمد بن حنبل کے جیسا کسی کو نہیں دیکھا ۔ میں ان کے ساتھ پچاس سال تک رہا ۔ انہوں نے کبھی اپنی نیکی اور کامیابی کے لیے ہمارے سامنے فخر نہیں کیا " (حلیۃ الاولیاء 9/181 ) ربیع بن سلیمان کی روایت ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں " احمد بن حنبل آٹھ خصلتوں میں امام ہیں ۔ حدیث میں امام ہیں ، فقہ میں امام ہیں ، لغت میں امام ہیں ، قرآن میں امام ہیں ، فقر میں امام ہیں ، زہد میں امام ہیں ، ورع میں امام ہیں اور سنت میں امام ہیں " ( مناقب الامام احمد ، مقدمۃ التحقیق ص 10 از عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی ) عبدالرزاق بن ھمام کہتے ہیں " میں نے احمد بن حنبل سے زیادہ فقیہہ اور صاحب ورع شخص نہیں دیکھا " (ایضا ) عبدالملک المیمونی رحمہ اللہ فرماتے ہیں " میری آنکھوں نے احمد بن حنبل سے زیادہ بہتر کسی کو نہیں دیکھا۔ میں نے محدثین میں ان سے زیادہ اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرنے والا اور حدیثوں پر شدت سے عمل کرنے والا نہيں دیکھا جبکہ وہ حديث ان کے نزدیک صحیح ہو " ( ایضا ص 11 ) مروذی نے ان س روایت کیا ہے کہ " میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جب کوئی حدیث لکھی تو اس پر عمل کیا یہاں تک کہ میری نظروں سے گزرا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا اور ابوطیبہ کو ایک دینار دیا تو میں نے جب پچھنا لگوایا تو حجام کو ایک دینار دیا " (ایضا 12 ) امام احمد بن حنبل کے بیٹے صالح بن احمد روایت کرتے ہیں کہ واثق کی طرف سے اسی کے عہد حکومت میں ایک پروانہ آیا جس کے اندر ہماری پریشان کن صورت حال کا ذکر تھا ۔ اور چارہزار درہم تھے اور گزارش کی گئی تھی کہ قرض ادا کرلیں ، اپنے اہل و عیال پر خرچ کریں اور یہ وضاحت بھی تھی کہ یہ صدقہ خیرات کا مال نہیں ہے بلکہ اپنے والد صاحب سے ملی وراثت کا حصہ ہے ۔ والد صاحب نے جواب میں لکھا " آپ کا خط ملا ، ہم عافیت میں ہیں ، قرض خواہ ہمیں تنگ نہیں کرتا اور اہل و عیال الحمد للہ اللہ کی نعمت میں جی رہے ہیں " اور یوں دراہم لوٹادیا ۔ ایک سال کے بعد جب ہم نے اس کا ذکر کیا تو کہا کہ اگر ہم نے قبول بھی کرلیا ہوتا تو اب تک وہ ختم ہی ہو چکا ہوتا ۔ (ایضا 16 )
    امام شافعی نے ان سے کہا : امیر المؤمنین نے مجھ سے کہا کہ ہے کہ میں یمن کے لیے کوئی قاضی تلاش کروں ۔اورآپ عبدالرزاق کے پاس جانا چاہتے ہیں ۔ یہ لیجیے آپ کو آپ کی مراد مل گئی ، حق کے ساتھ فیصلے کیجیے اور عبدالرزاق سے وہ سب سیکھیے جس کے آپ جویا ہیں ۔ امام احمد نے امام شافعی سے کہا " اگر دوبارہ یہ بات میں آپ سے سنوں گا تو آپ مجھے اپنے پاس نہیں دیکھینگے "
خشیت الہی کا وہ عالم تھا کہ ان کے بیٹے صالح کہتے ہیں کہ جب کوئی ابو کو دعا دیتا تو کہتے کہ اعمال کا دارو مدار خاتمے پر ہے ۔ (ایضا )
         یہ چند شہادتیں اس لیے پیش کی گئی ہیں کہ اندازہ ہو سکے کہ وہ آدمی جو تن تنہا دنیا کی سب سے بڑی حکومت سے ایمان و عقیدہ کے مسئلے پر ٹکر لے رہا تھا وہ داخلی طور پر کس قدر مضبوط کردار کا مالک تھا ۔ مصر کے بڑے عالم ابوزہرہ مصری نے اپنی کتاب "ابن حنبل حیاتہ وعصرہ ۔ آراءہ وفقہہ" میں  لکھا ہے کہ جب مامون کے اس مطالبے پر کہ قرآن کو مخلوق ماناجائے ، بعض علماء ومحدثین نے انکار سے کام لیا تو اس نے انہیں خط لکھا اور ایک ایک کو ان کی بعض کمیوں کی یاد دلائی اور کہا کہ ان کمیوں کو افشا کرکے انہیں رسوا کردے گا ، اپنے احسانات بھی یاد دلائے اور یوں انہيں خاموش کرنے میں کامیاب ہو گیا لیکن اس کے پاس امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو مطعون کرنے کے لیے کوئی چیز نہیں تھی ۔ اس نے اور اس کے بعد معتصم نے انہيں زدو کوب تو کیا لیکن کوئی ان کے کردار و عمل پر حرف اٹھانے کی جرات نہ کرسکا ۔
        امام احمد بن حنبل کا اصل کردار صرف یہ نہيں کہ انہوں نے معتزلہ کے اس رویے کی مخالفت کی اور قرآن کو مخلوق ماننے سے انکار کردیا بلکہ اصل کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے طریقہ نبی اور قرآنی فکر کو باقی رکھنے پر اصرار کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فلسفہ آمیزیوں میں پڑے ہی نہیں ، مناظرہ کیا ہی نہیں اور کہا تو یہ کہا کہ کتاب وسنت کی کوئی دلیل دے دو اور ہم تسلیم کیے لیتے ہیں ۔ احمد بن ابی دؤاد رئیس المعتزلین کو اس بات کا قلق تھا کہ احمد بن حنبل اس مسئلے پر بات کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتے اور احمد بن حنبل کی فراست یہ تھی کہ قرآن وسنت کا کوئی نص لاؤ اور ہم قبول کرنے کے لیے تیار ہیں اور یوں انہوں نے سرے سے اس پورے طرز فکرو عمل کا راستہ ہی بند کردینا چاہا ۔ اور ہر چند کہ اس راہ میں انہيں جاں سوز مراحل سے گزرنا پڑا ، کوڑے کھانے پڑے ، بے عزتیاں سہنی پڑیں لیکن ٹس سے مس نہ ہوئے اور پھر وہ وقت آیا جب اللہ نے ایک احمد بن حنبل کے ذریعہ پورے دین کو محفوظ کردیا ۔ واثق کے زمانے میں جب محدثین اور اہل سنت و الجماعت کے علماء کی قدردانی ہونے لگی اور اس نے چاہا کہ امام احمد بن حنبل کو نوازے تو امام احمد بن حنبل نے اسے پہلی آزمائش سے زیادہ سخت سمجھا اور اس آزمائش میں بھی کھڑے اترے ۔
     امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی فراست اور قوت ایمانی کا یہی مظہر نہیں بلکہ عظیم مظہر یہ بھی ہے کہ جب معتصم انہیں زدوکوب کررہا ہے اور ان کے اوپر عذاب کی سنتیں تازہ کی جارہی ہیں تب بھی وہ اسے امیر المؤمنیں کہہ کرہی خطاب کررہے ہیں ۔ اس پورے مرحلے میں لمحے بھر کو ان کے ذہن میں یہ نہیں آتا کہ وہ بغاوت کردیں یا عوام کو حکومت کے خلاف ورغلا دیں حالانکہ جس طرح پورے عالم اسلام میں ان کی پذیرائی تھی اور اس مسئلے میں جس طرح پوری مسلم دنیا ان کی طرف نگاہ اٹھائے ہوئی تھی کچھ اتنا بعید بھی نہ تھا کہ وہ اگر اشارہ کردیں تو عوام تختہ الٹنے کو تیار ہو جائیں لیکن وہ تھے بھی تو امام اہل السنۃ و الجما‏عۃ کیسے کرسکتے تھے ایسا غیر اسلامی عمل !
      آج کے اس پر فتن دور میں کئی ایک اعتبار سے اس سیرت کی مسلمانان عالم کو ضرورت ہے جسے سیرت امام احمد بن حنبل سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ سنت رسول پر عمل کرنے کا جذبہ فراواں ، زہدو ورع ، علم و عمل ، صحابہ کرام کے نقش قدم کی پیروی اور ہر صورت میں اشتعال انگیزیوں سے دور رہنے کی بے نظیر مثال ۔ آج واقعۃ اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ جب مختلف غلط سلط فلفسیانہ موشگافیوں کے ذریعہ اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش ہورہی ہے کہ مسلمان نبوی طرز فکر و عمل پر اس طرح جم جائے جس طرح احمد بن حنبل جم گئے تھے ۔ آج مسلمان دور آشوب و فتن میں اسی طرح اشتعال انگیزیوں سے خود کو بچائے جس طرح امام احمد بن حنبل نےبچایا تھا ۔ آج مسلمان سنت رسول کو اسی شدت سے عمل میں لے لے جس طرح احمد بن حنبل کیا کرتے تھے ۔ آج مسلمان کا علماء طبقہ حب دنیا سے ایسے ہی کنارہ کش ہو جائے جس طرح احمد بن حنبل تھے ۔ آج ہمارے پاس علم و شعور کا ایسا ہی خزانہ ہو جیسا کہ امام احمد بن حنبل کے پاس تھا ۔ کتنی ضرورت ہے آج ہم میں احمد بن حنبل جیسے علماء کی کہ احمد بن ابراہیم الدورقی کہتے ہیں " جس کسی کو دیکھو کہ وہ احمد بن حنبل کا برا تذکرہ کرتا ہے اس کے اسلام پر اتہام لگاؤ " (تاریخ بغداد للخطیب : 4 /431 ) قتیبہ بن سعید کہتے ہیں " جب کسی شخص کو احمد بن حنبل سے محبت کرتے پاؤ تو جان لو کہ وہ صاحب سنت ہے " (ترجمۃ الامام احمد ، ص 16 ) اور علی بن المدینی شیخ البخاری کہتے ہیں " اللہ نے ارتداد کے دن ابوبکر کے ذریعہ  اور آزمائش کے دن احمد بن حنبل کے ذریعہ اس دین کو شوکت بخشی ( ایضا 17 )

    کیا ہم اس بات کے لیے خود کو تیار کررہے ہيں کہ اللہ ہمارے ذریعہ اس فتنے کے دور میں اپنے دین ( قرآن و سنت ) کی حفاظت کرلے ؟ کیا ہم احمد بن حنبل کا کردار ادا کرنے کو تیار ہيں ؟ ہے کوئ سننے والا ؟؟؟

ليست هناك تعليقات: