السبت، نوفمبر 16، 2013

سیر دلی کی سرکاری بس سے



ثناءاللہ صادق تیمی ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی
9560878759
بے نام خاں کا ماننا یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی سہولت ملے تو اس کا فائدہ بھر پور انداز میں اٹھانا چاہیے ۔ اور اگر نہ ملے تو اسے حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دینا چاہیے ۔ وہ اکثر اقبال کا یہ شعر گنگناتے رہتے ہیں کہ 
دمادم رواں ہے یم زندگی
ہر اک شی سے پیدا رم زندگی

وہ مجھ سے کہتے ہیں کہ بیٹا اگر اقبال کی شاعری سمجھناہے تو بس ایک شعر سمجھ لے ان کا پورا فلسفہ اور ان کی پوری شاعری سمجھ میں آجائیگی ۔ اور جانتے ہو وہ شعر کیا ہے ۔ یہی کہ
سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی
فقط ذوق پرواز ہے زندگی
اس لیے وہ ہمیشہ پرواز بھرنے کی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چلتے رہنا چاہیے ۔ حرکت میں برکت ہے ۔ اقبال کا شاہین اسی لیے لپٹتا اور پلٹتا رہتا ہے ۔ یہ ذوق پرواز زندہ رہنا چاہیے ۔ آگے بڑھنے کی ہوس اور پیچھے نہ ہو پانے کی کوشش ہی انسان کی اصل روح ہے اور اسی میں اس کے کما ل کا راز پوشیدہ ہے ۔ ہمارے دوست کی باتیں گہری لگتی ہیں لیکن جب اس کا عملی مظاہرہ سامنے آتا ہے تو اقبال کی شاعری شرمندہ ہوجاتی ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے خوبصورت دلہن کی تعریف کرتے ہوئے کوئی کہے کہ اس کی آنکھ  خراب نہيں ہے !  در اصل ہمارے دوست اقبال کی پوری شاعری کا یہ سارا فلسفہ بگھارنے کے بعد گویا ہوئے کہ چلو ڈی ٹی سی بسوں پر دہلی کی سیر کرتے ہيں ۔ بھائی اگر جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں داخلہ ملنے سے پاس کی سہولت میسر ہے تو کیوں نہ دہلی دیکھ لی جائے ۔ ہم نے پوچھا لیکن اس کے پیچھے کوئی مقصد؟ کوئی پلان ؟ بگڑ کربولے تبھی تو بیٹے مولانا لوگوں نے کوئی کارنامہ انجام نہيں دیا ۔ پہلے نکلو ، دنیا دیکھو ، لوگوں سے ملو ، کائنات کا مطالعہ کرو ، اپنے خول سے نکلو اور پھر تمہیں سمجھ میں آجائے کہ یہ دنیا کیا ہے ؟ اور مقصد خود کس طرح تمہارے پاس آجاتا ہے ۔ اقبال کہتے ہیں
خودی کو کربلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
اور ہمیں اپنے دوست کی شعرفہمی اور اقبال شناسی کا قائل ہوجانا پڑا ! خیر ان کے کہنے پر نہیں بلکہ اتنے زیادہ اعلا افکار و خیالات سننے کے بعد ہم نے یہ فیصلہ لیا کہ بھائي نکلنا ہی پڑے گا ورنہ بے نام خاں ہمیں کچھ بھی ثابت کرسکتے ہیں! جاہل ، بے وقوف ،نادان، کم فہم اور ناعاقبت اندیش !!!

          جہاں سے پاس بنوایا تھا وہیں سے دس قدم دور بس اسٹاپ پر آکر آدھا گھنٹے کے انتظار کے بعد 615 نمبر کی بس آئی ۔ اب جو دیکھتا ہوں تو آگے پیچھے انسان ہی انسان ہیں ۔ وہی یونیورسٹی کہ جب پہلی مرتبہ اندر آئیے تو ایساسناٹا نظر آئے کہ جیسے یہاں کوئی رہتا ہی نہ ہو اور اسی دانش کدہ جواہر لال نہرو میں بس ایسے کھچاکھچ بھری ہوئی ہے کہ جیسے انسانوں کا سارا قافلہ یہیں آکر ڈیرے ڈالے ہوا ہو ۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ چڑھوں نہ چڑھوں کہ بے نام خاں کمال ہوشیاری اور دانشمندی سے سب سے پہلے سوار ہوگئے اور اندر جاکر خوب زور سے آواز دی کہ میں  بھی چڑھ جاؤں ۔ بے نام خاں کے آواز دینے کے انداز سے لوگ ڈر گئے اور اندر والے بھی باہر آگئے ۔ فائدہ بس یہ ہوا کہ ہم آسانی سے داخل ہی نہيں ہوئے بلکہ ہمیں سیٹ بھی مل گئی ۔ بعد میں جب ہم نے ان سے ادب و احترام کے ساتھ کہا کہ بھائی یہ تم نے کیا کیا تھا تو بولے بیٹا میری وجہ سے جگہ بھی ملی اور مجھے ہی سمجھا رہے ہو ۔ اب میں کیا بولتا !
            بھائی پھر ہم نے کہا کہ یہ بتلايے جانا کہاں ہے ؟ بولے ارے بھائی کونسا پیسہ خرچ ہورہا ہے ۔  جہاں پر کوئی دوسری سرکاری بس نظر آئیگی اسے چھوڑ کر اسے پکڑ لیںگے جہاں جائے گی چلینگے ۔ مختلف بسوں پر بیٹھین گے مختلف جگہوں کو دیکھینگے اور اس طرح پورا فائدہ اٹھائینگے پاس کا ۔ میں نے ایک بار پھر کہاکہ یار کچھ تو مقصد ہونا ہی چاہیے تو بولے اگر ایسی بات ہے تو یہ کرو کہ تم چلے جاؤ واپس اور میں گھومتاہوں بس میں ۔
         کیا کرتے بھائی ہم بھی بے نام خاں کے ساتھ لگے رہے ۔ زندگی کے سارے تجربات ایک ہی دن میں حاصل کرلینے کے ارادے سے نکلے تھے خان صاحب ۔ بسوں کی صورت حال کو دیکھ کر ساغر خیامی کی نظم بار بار یاد آرہی تھی ۔ ایسے بھی ہمیں بسوں میں' وہ' آتی ہے ۔ نہ معلوم کیوں اس دن تھوڑا زیادہ ہی آرہی تھی۔ ہماری بغل میں ایک محترمہ بیٹھیں تھیں ۔ ہم نے ان سے درخواست کیا کہ ہمیں کھڑکی کی  طرف جانے دیں اس لیے کہ ہمیں وہ آتی ہے اور محترمہ ناراض ہوکر بولنے لگیں ، صرف تمہیں ہی نہیں ہمیں بھی آتی ہے ۔ اور جب تھوڑی دیر بعد ان کے لباس فاخرہ پر ہمارے' وہ ' کی نظر کرم پڑی تو کیا منظر تھا بیان سے باہر ۔ ارے پہلے بھی تو بتا سکتے تھے ۔ کتنے غیر مہذب ہوتے ہیں یہ ۔ بسوں میں سفر بھی کرنے نہیں آتا ۔ اگر یہ سلیقہ نہیں تو بسوں میں چڑھتے ہی کیوں ہیں ۔ میں نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا کہ میڈم لیکن 'وہ' تو آپ نے کہا تھا کہ آپ کو بھی آتی ہے ۔ مجھے کیا خبر تھی کہ تمہاری 'وہ ' اتنی تباہ کن ہوگی ۔ میں نے تو سوچا تھا کہ تمہیں بھی میری طرح نیند آتی ہوگی ۔ اس درمیان بے نام خاں ہم سے اس طرح لاتعلق رہے جیسے ہمارا ان کا کوئی رابطہ ہی نہ ہو ۔ ہم نے شکایت کی تو بولے کون سا تم کمزور پڑرہے تھے کہ میں بیچ میں آتا اور یوں بھی جو کام اکیلے کر سکتے ہو ، اس میں مدد کی ذہنیت نہیں رکھنی چاہیے ۔ لیکن اصل مزہ تو تب آیا جب بے نام خاں ایک خاتونی سیٹ پر بیٹھ گئے اور ایک محترمہ نے انہیں اٹھ جانے کا اشارہ کیا اور بے نام خاں یہ کہ کر اڑ گئے کہ میں پہلے آیا تھا اس لیے سیٹ پر بیٹھنے کا حق ہمارا ہے ۔ اس درمیان ہم نے دیکھ لیا تھا کہ اوپر طرف جلی حروف میں ' مہیلائیں ' لکھا ہوا ہے ۔ ہم نے اشارے سے بے نام خاں سے گزارش کی کہ بھائی اٹھ جاؤ ۔ بے نام خاں کو لگا کہ میں اس سے اپنی مدد نہ کرنے کا بدلہ لے رہاہوں اور وہ مجھے بھی غصیلی نگاہوں سے دیکھنے لگے ۔ اب جو ان محترمہ نے ہمارے دوست کو جاہل ، بے وقوف ، بہاری ، گدھے اور ایک پر ایک اعلا القاب کی سوغات دینی شروع کی تو بقیہ دوسرے تمام سواری ہی نہیں ڈرائیور تک ان محترمہ کے ساتھ ہوگئے ۔ ڈرائیور نے یہاں تک کہ دیا کہ یہ لفنگے بے مطلب گھوم رہے ہيں ۔ پاس لیے ہوئے ہیں اور لوگوں کو پریشان کررہے ہیں ۔ پتہ چلا اس بس میں ہم لوگ دوسری مرتبہ سوار ہوئے ہیں اور ڈرائیور ہمیں پہچان گیاہے ۔ اب بے نام خاں کیا کرتے ۔ سیٹ تو انہیں چھوڑنی ہی تھی ۔ اگلے اسٹاپ پر بس سے اتر گئے اور دوسری بس آئی تو بغیر نمبر دیکھے سوار ہوگئے ۔ اور کیا بتایاجائے کہ وہ بس ہمیں کہاں لے گئی ؟؟؟

           رات کا گیارہ بج گيا اور ہم ادھر ادھر مارے مارے پھرتے رہے ۔ اب جہاں تھے وہاں سے کوئي بس نہيں تھی ۔ چارو ناچار آٹو رکشا لینا پڑا اور اس سے پہلے کہ  ہم  بے نام خاں کو لعن طعن کرتے بے نام خاں الٹے ہمارے اوپر شروع ہوگئے اور کیا کچھ سخت سست نہيں کہا ۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ آخر بے نام خاں کے بتائے ہوئے سارے راستے غلط کیوں نکلتے تھے ۔ در اصل جب بے نام خاں کو پتہ نہیں ہوتا تھا تو وہ اور بھی زیادہ اعتماد سے بولتےتھے اور اس طرح ہم بھٹک جاتے تھے ۔ اس دن ہمیں پتہ چلا کہ صرف اعتماد ضروری نہیں ہے بلکہ اعتماد تب فائدہ مند ہوگا جب اس کے ساتھ دولت علم بھی ہو ۔

        ہم آج بھی جب جب پاس بنواتے ہیں تو وہ واقعہ یاد آجاتا ہے اور بے نام خاں ہم سے ناراض ہو جاتے ہیں ۔ دلی دیکھنا حالانکہ اپنے  آپ میں ایک خوشگوار تجربہ ہوتا ہے لیکن سرکاری بس میں یہ تھوڑا زیادہ ہی خوشگوار ہوجاتا ہے ۔ اور خاص طور سے جب آپ کے ہمراہ بے نام خاں ہوں ۔ ایک مرتبہ تو بھیڑ ایسی تھی کہ ہم نے ایک بزرگ کا ہاتھ یہ سمجھ کر پکڑ لیا کہ یہ بے نام خاں کا ہاتھ ہے اور اس پر جناب کیا بتلائیں کہ کیا ہنگامہ ہوا ۔ اس کے بعد تو ہم نے بس میں کسی کا بھی ہاتھ پکڑنے سے توبہ ہی کر لیا ۔ ایسے اگر دلی دیکھنا ہو تو اس سے اچھی اور کوئی شکل ہماری نظر میں ہے بھی نہيں ۔بے نام خاں کا ماننا ہے کہ سرکاری بس میں آدمی کی اہمیت گھٹتی ہو تو گھٹتی ہو لیکن پیسے کا بچاؤ ضرور ہوتا ہے ۔
            ہمارے دوست اسے اسلامی نقطہ نظر سے بھی ثابت کرتے ہيں اور کہتے ہیں کہ قل سیروا فی الارض تو کہا ہی گیا ہے ۔ لاتسرفوا اور ان المبذرین کا نوا اخوان الشیاطین بھی کہا گیا ہے ۔ اتنا ہی نہيں بلکہ اسلامی اعتبار سے دنیا کا مطالعہ بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے ۔ ایسے بھی سفر وسیلہ ظفر ہے ۔ اور اگر انسان تھوڑی مشکلوں کا سامنا نہ کرے تو اس کی عادت بگڑ جائیگی اور وہ آرام پسند ہوجائیگا ۔  اصغر گونڈوی کا شعر ہے ۔
                    چلاجاتاہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے
                    اگر آسانیاں ہوں ، زندگی دشوار ہو جائے
وہ مجھے میرا ہی شعر یاد دلاتے ہیں کہ
                   کٹھن حالات میں دنیا سمجھ میں اور آئی
                 مزہ سفینے کا اصلا بھنور میں رہتا  ہے
ہمارے دوست ہم سے اکثر کہا کرتے ہیں کہ تم یہ مت دیکھو کہ دنیا کیا کہے گی بلکہ یہ دیکھو کہ تم جو کچھ کر رہے ہو وہ تمہارے رب کے مطابق اور تمارے اپنے اصولوں کے اعتبار سے درست ہے یا نہيں ۔ بس میں اس لیے سفر نہ کرنا کہ اس سے آپ کو لوگ کمتر خیال کرینگے ، انتہائی درجے میں کمتر ہونے کی دلیل ہے ۔ اگر اللہ نے صلاحیت دی ہے تو موٹر کار پہ گھومیے نہیں تو بس میں سفر کرنا کوئي خراب بات نہیں ۔ میرا بس چلے تو سارے لوگوں کے لیے بس کی سواری کو لازم کردوں کہ ٹریفک کا سارا معاملہ درست ہوجائے ۔ لیکن کیاکروں ۔ اپنے بس میں ہے ہی کیا۔ بے نام خاں کی حسرت دیکھنے کے لائق ہوتی ہے ۔

ليست هناك تعليقات: