السبت، يونيو 23، 2012

رہنمائے ملت بیدار ہوں


 رحمت کلیم امواوی
                                                               

rahmatkalim91@gmail.com
اس دنیا میں ہر وہ شخص جو فہم وادراک کا ذرا برابربھی مادہ رکھتا ہے اس بات سے بخوبی واقف ہوگا کہ آج عالمی پیمانے پر عالم اسلام کے خلاف مختلف طرح کی سازشیں رچی جا رہی ہیں ،مسلم قوم کیلئے مسائل و مصائب پیدا کئے جا رہے ہیں،مذہب اسلام پر کیچڑ اچھالنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہیں،مذہبی آزادی سلب کرنے کیلئے جہد پیہم کیا جا رہا ہے اور نست ونابود کا سپنا سجائے ہوے شیطانی چال چلی جا رہی ہے ۔”لیکن وعدہ الہی بر حق ہے اور دین حق کو غالب ہونا ہے مغلوب ہونا نہیں“ بلاشبہ یہ آراءوخیالات ان غیر مسلم حضرات کے ہیں جو گرگ باراں دیدہ ہیں،جو عالمی دسیسہ کاریوں اور شیطانی ماشگافیوں سے باخبر ہیں ،مذہب و ملت سے اوپر اٹھ کرانسانیت کا چشمہ لگا رکھے ہیںاور مطلق انسانی حقوق وآزادی اور باہمی میل میلا پ کے قائل ہیں۔
اس کے برخلاف ایک دوسراطبقہ جو ہمارے علماءوصلحا، ارباب قلم، اور ملت کے نمائندگان کا ہے ان کا حال کچھ عجیب ہے کہ ہر وہ مسئلہ جس سے دنیا واقف ہے بار بار اسی کا ڈھنڈوڑا پٹتی رہتے ہیں او ر معمولی شہرت کیلئے میڈیا کا سہارا لیکر یہ بیان عوام تک پہونچاتے ہیںکہ آج اسلام کے خلاف سازش کی جارہی ہے،مسلمانوں کو دہشت گرد کہا جارہا ہے، مذہبی آزادی پر قدغن لگایا جارہا ہے ، مدارس اسلامیہ کو دہشت گردی کا اڈہ بتایا جارہا ہے ،ٹوپی کر تا اور داڑھی کو دہشت گردوں کی علامت بتائی جا رہی ہے ،مسلمانوں کے ساتھ عالمی اور ملکی پیمانے پر ناانصافی کی جارہی ہے اور ظلم وجبر کا سیل رواںجاری وساری ہے،وغیرہ وغیرہ ۔جبکہ رھنمائے قوم و ملت کو ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ چونکہ یہ عمل لا حاصل ہے اور جبکہ دنیا کا ہر فردوبشر اس حقیقت سے آشنا ہے تو پھر آپ آ واز لگا کر کیا کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔اردو میڈیا نے بھی آج تک اس میدان میںاس کے علاوہ کوئی دوسرا قدم اٹھایا ہی نہیں سوائے اسکے کہ مسائل کو بار بار شائع کرکے درد سر بڑھایا گیا۔جبکہ علماءو صلحا، اور ارباب دانش، سربراہان قوم وملت اور صاحب زبان وقلم کا یہ رویہ اور یہ کردار ہونا چاہیے کہ ان پیدا شدہ مسائل سے نپٹنے کیلے عمدہ سے عمدہ حل تلاش کیے جاتے اور دشمنان قوم کے سازشوں کو ناکام کرنے کیلے بہترین وسائل پید ا کیے جاتے اور عوام کو اس بات سے باخبر کرایا جاتا کہ اس طریقے سے ہماری آزادی،ہمارا شعاراور ہمارا امن و سکون محفوظ رہ سکتا ہے اور اس طرح سے دشمنو ں کا دندان شکن جواب دیا جاسکتا ہے اور اسی میں ہماری بھلائی اور کامیابی ہے گرچہ ہم تھوری دیر کیلے یہ سوچ کر خوش ہو جاتے ہیں کہ’ زندہ قوموں کے ہی مسائل ہیں‘،لیکن ساتھ ہی ساتھ اس بات کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ                                          
 خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہی بدلی
 نہ ہو جس کو فکر خود اپنی حالت کے بدلنے کی
            آج امت محمدیہ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ امت مسائل و مشکلات کو شمار کرنے اور عوام کو اس سے باخبر کرنے تک ہی اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے جب کہ آ ج ضرورت ہے کہ ہم اپنے مسائل ومصائب کو گنانے کے بجائے اس کے حل کیلے سعی پیہم کریں اسی میں ہمارے لیے عافیت ہے ۔حل کے کون سے طریقے زیادہ بہتر اور کارفرماں ہو سکتے ہیں آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔لیکن مجھے جہاں تک سمجھ میں آتا ہے وہ یہ کہ سارے کے سارے مسائل اس وقت خود بخود رفع دفع ہوجائینگے جب ہم قرآن و سنت کی تعلیمات کو زندگی کے ہر میدان میں اپنالیںگے کیونکہ دنیا و آخرت کی فلاح وبہبودی کا راز اسی میں پنہاں ہیں

ليست هناك تعليقات: