السبت، أغسطس 14، 2010

کتاب امن کے تئیں مغرب کا طرزعمل اسلام دشمنی کا شاخسانہ

صفات عالم محمد زبير التيمي
ابھی ہمارے سروں پر رمضان المبارک کا مہینہ سایہ فگن ہے ،اس مہينے کو اس اعتبار سے بے انتہا فضیلت حاصل ہے کہ اسی ماہ مبارک میں رشد وہدایت کا سرچشمہ،علوم ومعارف کا خزینہ اور روحانی وجسمانی بیماریوں کا علاج قرآن کریم نازل ہوا جو فائنل اتھارٹی ہے ،جس کا تعلق زمین سے نہیں بلکہ آسمان سے بلکہ آسمان کی بلندیوں سے ہے ، یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ اللہ پاک نے اپنا کلام ہمارے ہاتھوں میں دے دی ہے ، جس کی عظمت کا کیا کہنا کہ اگر اسے پہاڑوں پر اتاردیا جاتا تو پہاڑ اس کی ہیبت سے رائی ہوجاتے ،دنیا کی یہ واحد کتاب ہے جو اپنا آغاز پرزور دعوے سے کرتی ہے کہ یہ کتاب” لاریب“ ہے اوراس کی جملہ تعلیمات خالص علم کی بنیاد پر ہیں ۔
انسانیت کی رفعت وبلندی، عزت وسطوت ، اور دنیوی واخروی فلاح قرآن کی اتباع میں مضمر ہے ، یہ کوئی مجنون کی برنہیں بلکہ زمینی حقائق ہیںکہ اس کتاب نے عرب کی غیرمہذب،بادیہ پیمااور بوریہ نشینوں کو انسانیت کی معراج تک پہنچایا چنانچہ جہانگیری وجہاںبانی ان کے قدم چومنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے اسلام کا پرچم چہاردانگ عالم میں لہرانے لگا لیکن جب امت مسلمہ نے قرآنی تعلیمات سے کنارہ کشی اختیار کی ذلت ومسکنت اس کا مقدر بن گئی ،عالمی، ملکی، اور قومی ہر سطح پر ان کی ساکھ گھٹ گئی ، علامہ اقبال جب ایک ماہر طبیب کی حیثیت سے زوال امت کے اسباب کی تشخیص پر آئے تو اس نتیجے پر پہنچے کہ اس کی واحد وجہ ان کا تارک قرآن ہونا ہے چنانچہ بانگ دراکی نظم جواب شکوہ میں فرماتے ہیں
حیدری فقر ہے نہ دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے
وہ زمانے میں معززتھے مسلماں ہوکر
اور تم خار ہوئے تارک قرآن ہوکر
جی ہاں آج ہم خوار ہورہے ہیں تو محض اس لیے کہ ہم نے قرآن کے پیغام سے منہ موڑ لیا ہے ، کیا یہ المیہ نہیں کہ آج ہم میں سے بیشتر لوگ قرآن پڑھنا نہیں جانتے ، اور جو لوگ پڑھنا بھی جانتے ہیں انہوں نے اسے اپنی طاقچوں کی زینت بنارکھا ہے ،اور جولوگ پڑھتے بھی ہیں تو ان کا پڑھنا محض تبرک کی خاطر ہوتا ہے ،یہ ایک افسوسناک معاملہ ہے کہ دنیا کی ہر کتاب سمجھ کر پڑھی جاتی ہے لیکن خالق ارض وسما کے کلام کے ساتھ ہمارا معاملہ بالکل الٹا ہوتا ہے، ہماری اکثریت کو کبھی توفیق نہیں ہوتی کہ انسانیت کے نام آنے والے کلام ربانی کے پیغام کو جانیں اور اسے اپنی عملی زندگی میں جگہ دیں ۔ظاہر ہے کہ جب ہم نے ہی کلام الہی سے پہلو تہی اختیار کی ہے تو غیر تو غیر ہیں ....لیکن پھر بھی دشمنان اسلام نے قرآن کی عظمت کا ادراک ہم سے کہیں زیادہ کیا اور اس کے آثار کو ملکوں اور قوموں سے نابود کرنے کی کوشش کی کیونکہ انہیں اس بات کا شدید خطرہ لاحق تھا کہ مبادا یہ امت قرآن کی طرف لوٹ آئے چنانچہ عہد وکٹوریہ کے وزیر اعظم مسٹر گلیڈ اسٹون نے قرآن مجید کا ایک نسخہ ہاتھوں میں اٹھاکر برطانوی دارالعلوم کے ارکان کو بتایا کہ ” جب تک یہ کتاب مسلمانوں کے ہاتھوں میں موجود رہے گی یورپ مشرق پر قبضہ نہیں جماسکتا اور نہ وہ بذات خود امن وامان سے رہ سکتا ہے“ ۔ چنانچہ اسی ذہنیت کے زیر اثر ان کی نارواکوششیں مختلف رنگ وروپ میں گل کھلاتی رہتی ہیں اسی سلسلے کی ایک کڑی حالیہ دنوں منظر عام پر آئی ہے ، ۱۱ ستمبر کے حادثے کو لے کر اگلے ماہ کی اسی تاریخ کو فلوریڈا کے ایک عیسائی چرچ نے قرآن کریم کا نسخہ نذر آتش کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اور میڈیا کے ذریعہ اس خبر کی اعلی پیمانے پر تشہیر کی جا رہی ہے ۔
حالانکہ قرآن کا ادنی طالب علم جانتا ہے کہ یہ کتاب امن کا علمبردار ہے، جس کتاب کی تعلیم یہ ہے کہ ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسان کو بچانا ساری انسانیت کو بچانا ہے (المائدہ 32) آخر وہ دہشت گردی کی تعلیم کیوںکر دے سکتی ہے ۔جس کتاب کا اعلان ہے کہ مذہب کے معاملے میں کوئی جبرواکراہ نہیں (البقرہ 256) آخر وہ کتاب تشدد پر کیسے ابھار سکتی ہے ۔ جس کتاب نے ﴾لکم دینکم ولی دین﴿ (الکافرون 6) کے ذریعہ ہرمذہب کے مانے والوں کو اپنے مذہب اور طریقہ کے مطابق زندگی گزارنے کا اختیار دیا ہے آخر وہ تنگ نظری کی داعی کیوںکر ہوسکتی ہے ۔ جس کتاب نے کسی مذہب کی عبادتگاہ کو منہدم کرنے یا اس پر غاصبانہ تسلط جمانے کو ناپسند کیا ہے (الحج 40) آخر وہ ناروا داری کی تعلیم کیوں کر دے سکتی ہے ۔ جس کتاب نے امن وامان سے رہنے والے غیرمسلموں کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور عدل وانصاف روا رکھنے کی تاکید کی ہے (الممتحنة 8) آخر وہ قطع تعلق کی دعوت کیوں کر دے سکتی ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ آخر مغرب کو اپنے دل کا بھڑاس نکالنے کے لیے قرآن کریم کا نسخہ ہی کیوں نظر آیا ، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ قرآن ہی ان کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ۔ یہ کتاب ہی آج مردہ دلوں میں زندگی کی روح پھونک رہی ہے ، کیونکہ قرآن ھدی للناس (البقرہ 185) یعنی تمام انسانیت کے لیے رشد وہدایت کا سرچشمہ ہے اور اس کااعجازمحض یہ نہیں ہے کہ یہ تاصبح قیامت ساری انسانیت کے لیے چیلنج ہے بلکہ اس کا سب سے بڑا اعجاز یہ ہے کہ اس کے اندر انسانیت کو بدلنے کی پوری صلاحیت موجود ہے ۔ آخر عمرفاروق جیسا سخت مزاج انسان کيوں کرپروانہ اسلام میں داخل ہوا ؟ ولید بن مغیرہ جیسا کٹر دشمن رسول کیوں کر قرآن پاک کے کلام الہی ہونے کا برملا اعلان کیا ، قبیلہ دوس کاطفیل بن عمروکیوں کر اسلام کی دولت سے مالا مال ہوا،حبش کا نجاشی بادشاہ کیوں کرقرآن کی حقانیت کا معترف ہوا ،یہ قرآن کا جادوئی اثر ہے جس نے پتھر دلوں کو موم بنا دیا اور آج بھی بنا رہا ہے اسی لیے دشمنان اسلام بوکھلاہٹ میں اس کتاب پر طرح طرح کا الزام ڈال رہے ہیں ،کبھی اسے انسانی کلام باور کرانے کی کوشش کرتے ہیںتو کبھی اس پر دقیانوسیت کالیبل چسپاں کرنے کی ناروا جسارت کرتے ہیں تو اب اسے تشدد کا داعی اور پیغامبر ثابت کرنے جرأت کی جا رہی ہے ۔
لہذا یہ ذمہ داری مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے کہ سب سے پہلے قرآن کے ساتھ اپنے طرزعمل پر نظر ثانی کریں ،ساری انسانیت کی ہدایت کا ضامن کلام الہی ان کے ہاتھوں میں موجود ہے ،گم کردہ راہ انسانیت کی رہبری اسی کتاب سے ہوسکتی ہے اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان قرآن کی تعلیمات کو گھر گھر عام کریں، اسکے نہج پر اپنے گھر ،خاندان اور معاشرہ کی تربیت کریں،دنیا کی زندہ زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم غیرمسلموں تک پہنچائیں ، قرآن کے تعارف پر مشتمل کتابچے تقسیم کیے جائیں،ظلمت ِ شب کومٹا نا ہے تو قرآن کی شمع جلانی ہوگی ،اسی کی روشنی میں انسانیت اپنی راہ طے کر سکتی ہے
مسلمانو! اٹھو قرآن کی عظمت کو چمکاؤ
جہانِ بے اماں کو عافیت کے راز سمجھاؤ
زمانہ آج بھی قرآن ہی سے فیض پائے گا
مٹے گی ظلمتِ شب اور سورج جگمگائے گا

ليست هناك تعليقات: