الاثنين، يناير 30، 2017

غزل
 ساگر تیمی
لکھنے والے غلط تھے لیکن پڑھنے والے ٹھیک تھے
سطریں جیسے کہہ رہی ہوں مرنے والے ٹھیک تھے
ساری حقیقت جیسے ان افسانوں ہی میں قید ہو
اہل دانش کہہ رہے ہیں گڑھنے والے ٹھیک تھے
ظلم کی تم تائید کرو ہو شہ کے مصاحب بنتے ہو
اور ضمیر کہا کرتا ہے اڑنے والے ٹھیک تھے
کس کے اندر کس میں کتنی رہ گئی ہے بہادری
سارے فوجی سوچتے ہیں ڈرنے والے ٹھیک تھے
میرے اس کے بیچ کتنی قربتوں کا درد ہے
عشق میں روز اول ہی نہ کرنے والے ٹھیک تھے
اب تک ساگر جنگوں کی تاریخ سے کھلنا باقی ہے
 بچ کر جینے والے یا پھر مرنے والے ٹھیک تھے

الخميس، يناير 12، 2017

راہل گاندھی جی ! اس تیور کو برقرار رکھیے
ثناءاللہ صادق تیمی
2014 کے لوک سبھا الیکش میں بری طرح شکست سے دوچار ہونے کے بعد ملکی سطح پر کانگریس کی جو شبیہہ بنی تھی اور جس طرح سے یہ قیاس آرائیاں ہونے لگی تھیں کہ کانگریس اب ملک کا ماضی ہے ، حال یا مستقبل نہیں ، اس میں اب کہیں نہ کہیں تھوڑی تبدیلی آنےلگی ہے ۔ لوک سبھا انتخاب سے پہلے ہی کانگریس نے جیسے اپنی شکست تسلیم کرلی تھی ، اس کے بڑے بڑے نیتا خاموش تھے ، حد تو یہ تھی کہ دو ٹرم میں اس نے جو کام کیے تھے ، اسے بھی وہ ٹھیک سے عوام تک نہیں لا پائی تھی ۔ ملک نے مودی جی پر بھروسہ کرتے ہوئے انہیں ریکارڈ جیت سے ہمکنار کیا تھا ، ان کے وعدے بھی بڑے لبھانے والے تھے لیکن آدھی مدت گزارنے کے بعد بھی وہ وعدے وعدے ہی ہیں بلکہ خود ان کی پارٹی نے بعض وعدوں کو انتخابی جملہ کہا ہے ۔ اس بيچ ملکی سطح پر جمہوری قدروں کی پامالی دیکھنے کو ملی ہے، آربی آئی سے لے مختلف دوسرے اداروں کا استقلال اور آزادی خطرے میں نظر آئی ہے ، تعلیمی اداروں میں خاص ذہنیت رکھنے والوں کو زبردستی بٹھایا گيا ہے، طلبہ کو سڑکوں پر آنا پڑا ہے ، ادباء شعراء کو اپنا ایوارڈ واپس کرنا پڑا ہے، ملک کے اقلیتوں میں سراسیمگی رہی ہے اور ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ دیش بڑی تیزی سے ہندوتو کی طرف جارہا ہے ۔ روزگار کے مواقع کیا بڑھتے ، لوگوں کے اکاؤنٹ میں پندرہ لاکھ کیا آتے الٹے نوٹ بندی کے زير اثر وہ خود اپنے پیسینے کی کمائی کے لیے ترس کر رہ گئے ہیں، پچاس دن سے زيادہ کا عرصہ گزرگیا ہےاور نوٹ بندی کے برے اثرات ختم نہيں ہوئے ۔ حد تو تب ہوگئی جب آرٹی آئی کے ذریعہ یہ معلوم ہوا کہ آر بی آئی کو اس بات کا علم ہی نہيں کہ نوٹ بندی کے بعد کتنے پیسے چھاپے گئے ہيں !!
  ڈھائی سال سے پہلے کی مدت پر نظر دوڑائیے تو پورے ملک میں لے دے کر کیجریوال یا پھر جے این یو کے کنہیا کمار اپوزیشن لیڈر کا کردار نبھاتے نظر آرہے تھے ، لالو یادو نے بہار الیکشن کے موقع سے ضرور ماحول بنایا اور اس میں وہ کامیاب بھی رہے لیکن ملکی سطح پر اپوزیشن کا وجود باضابطہ محسوس نہيں ہوا لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے کانگریس کو جس دن کا انتظار تھا وہ دن آگیا ہے ۔ اب تک جو پارٹی ڈیفینس کرتی نظر آرہی تھی وہ اب اٹیک کرنے کے رویے کے ساتھ آگے بڑھنے کا ارادہ ظاہر کررہی ہے اور یہ ایک اچھی بات ہے ۔ راہل گاندھی نے جس طرح ڈریے نہیں ڈارائیے کا فارمولہ دیا ہے وہ اپنے آپ میں خوب ہے ، انہوں نے کھل کرکہا ہے کہ اچھے دن تب آئیں گے جب 2019 میں کانگریس جیت کر آئے گی ، اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اب کانگریس تھوڑی زیادہ سرگرمی کے ساتھ میدان میں آئے گی ۔ اس بیچ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ پرینکا گاندھی کو میدان میں لے آیا گیا ہے ، یوپی الیکشن کے لیے ڈمپل یادو اور پرینکا گاندھی کے بیچ کی ملاقات اور اتحاد بنانے کی کوشش کو بہت محدود پیمانے پر نہیں دیکھا جانا چاہیے ۔ ڈھائی سال کے عرصہ کے گزرنےکے بعد کئی سطحوں پر مودی حکومت کو گھیرا جاسکتا ہے ۔ مہنگائی ، بے روزگاری ، وعدہ خلاقی ، جمہوری اداروں کے استقلال کی پامالی ، کالا دھن اور کرپشن سے جڑی غلط دعویداری اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نوٹ بندی سے پیدا ہونے والی اقتصادی ایمرجینسی کی کیفیت ۔ اگر مکمل اعتماد اور تیاری سے کانگریس نے حکومت کو گھیرنے کی کوشش کی تو اس کا فائدہ بہرحال اسے ملے گا ۔ جاننےکی بات یہ بھی ہے کہ اب کانگریس کے پاس گنوانے کے لیے کچھ بچا بھی نہیں ہے ، بھکتوں کو چھوڑ دیجیے تو عام آدمی بہر حال ناراض ہے اور اس ناراضگی کا مظاہرہ وہ الیکشن کے موقع سے کرسکتے ہيں ۔

  راہل گاندھی کو اپنا یہ تیور برقرار رکھنا ہوگا ، ان کے پارٹی کارکنان کو لوگوں تک پہنچنا ہوگا ، آن لائن اور ڈور ٹو ڈور کمپین سے کام لینا ہوگا ، اسی طرح انہیں سیاسی اتحاد سے بھی کام لینا ہوگا ، کہیں جھکنا تو کہیں جھکانا ہوگا لیکن سمجھداری دکھانی ہوگی ، سیکولر پارٹیوں سے جڑنا ہوگا تبھی جاکر وہ کچھ کر پائیں گے ۔ اتنی مدت گزرنے کے بعد مودی جی کا جادو اترنے لگا ہے ، عوام کو اب سمجھ میں آرہا ہے وہ بھاشن دینا جانتے ہیں لیکن اس طرح سے وکاش پرش نہیں ہیں جس طرح کا ہنگامہ مچایا گیا تھا ۔ کانگریس پہلی بار اس تیور میں نظر آرہی ہے ، اپنے کارکنان اور عوام میں اپنے تئیں یقین جگانے کے لیے بھی یہ ایک اچھی پالیسی ہےلیکن یہ اہم ضرور ہے کہ یہ تیور مدھم نہ پڑے ، رکے نہیں بلکہ مسلسل چلتا رہے ۔ آرایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں مختلف ہتھکنڈوں سے انہيں گھیرنا بھی چاہیں گیں ، خود مودی جی اوچھے حملوں سے بھی کام لے سکتے ہیں لیکن انہیں تیار رہنا ہوگا کہ اب اگر وہ اپنے اس تیور سے پیچھے ہٹتے ہیں تو یہ ان کا اور ان کی اپنی پارٹی کا ہی نقصان ہوگا ۔

الأحد، يناير 08، 2017

ہمارا اسلامی لٹریچر اور بدلتی دنیا
ثناءاللہ صادق تیمی ، اسسٹنٹ پروفیسر امام یونیورسٹی ، ریاض
علامہ اقبال کا بڑا مشہور شعر ہے ۔
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں
مولانا حالی کی اس بات کو خاص طور سے زبانوں کے تناظر میں دیکھیے تو اس کے اندر اور بھی سچائی نظر آئے گی ۔ ایک وقت تھا جب ہندوستان پر مسلمانوں کی سلطنت قائم تھی ، حکمرانوں کی زبان فارسی تھی ، اس لیے دیکھتے دیکھتے ہر پڑھے لکھے انسان کی زبان فارسی ٹھہری اور اس میں کسی دین دھرم مسلک طبقے کا فرق نہیں رہا بلکہ فارسی ہی تعلیم یافتہ ہونے کی دلیل سمجھی جانے لگی ۔ فارسی ہی کے زیر اثر پنپنے والی زبان اردو کا بھی یہی حال رہا ۔ مغلیہ سلطنت کے دور زوال میں اردو کا اٹھان شروع ہوا اور دیکھتے دیکھتے بغیر تفریق مذہب و ملت ہر مہذب انسان کی زبان اردو ہوگئی ۔ آج بھی سکھوں میں اردو کا چلن ہے ۔ ہمیں اس وقت شرم محسوس ہوئی جب ہم نے پٹنہ ایئر پورٹ پر ایک سکھ کو اردو کا اخبار خریدتے ہوئے دیکھا اور ہم نے خود انگریزی اخبار لیا ۔ فارسی اردو کے اثرات آج بھی عدالتوں کے اندر محسوس کیے جاسکتے ہیں ۔ ایک وقت تو وہ بھی تھا جب اردو کا شاعر کہتا تھا ۔
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
لیکن جب حالات بدلے توبدلنے والے حالات کو ہمارے اسلاف نے بڑی خوبی سے سمجھا اور آپ جائزہ لیں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ کتنی مختصر مدت میں اردو کے اندر کتنا اچھا خاصا اسلامی لٹریچر پھیل گیا ۔ کسی مبالغے کے بغیر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ عربی کے بعد اسلامی ادب کا سب سے بڑا اور مضبوط حصہ اردومیں پایاجاتا ہے ۔ ہمارے اسلاف نے لگ بھگ سارے فنون پر اردو میں لکھا اور اس کثرت سے لکھا کہ آج بھی ان کی تابانی قائم ہے ۔ آپ کو اردو میں اسلام کے تمام گوشوں پرکتابیں مل جائیں گیں ، جب انہوں نے لکھا تو یقینا وہ وقت کی ضرورت بھی تھی اور الحمد للہ ان کی تحریروں سے دینی ضرورت کی تکمیل بھی ہوئی ، تب ایک بڑی اچھی بات یہ بھی تھی کہ اعلا تعلیم یافتہ طبقہ بھی اردو سے بہرور تھا اور کم پڑھا لکھا طبقہ بھی اردو جانتا تھا ، اس لیے اردو کی ایک مہذب تصنیف ہر سطح کے لوگوں کی تشنگی بجھا پانے میں کامیاب ہوجاتی تھی لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ حالات پھر ویسے نہیں رہے ، کافی کچھ بدلاؤ آیا ، مسلمانوں کے ہاتھوں سے اقتدار ہی نہیں گیا ، صرف انگریز حاکم ہی نہیں ہوئے ، ان کے ظلم و ستم کے مسلمان شکار ہی نہیں ہوئے ، ملک کو آزادی ہی نہيں ملی بلکہ آزادی کے ساتھ تقسیم کا گہرا گھاؤ بھی ملا ، ملکی سطح پراردو دشمنی بھی ملی ، مسلم ذہنوں میں مرعوبیت کا بچھو بھی ملا ، بے سروسامانی کی کیفیت بھی ملی اور یوں دیکھتے دیکھتے اردو بےچاری ان غریب مسلمانوں کی زبان بن کررہ گئی جن کے پاس اور کچھ پڑھنے کا ذریعہ نہیں رہا ، اردو روزگارسے الگ رہی اوراس کی جگہ انگریزی نے لیا ، انسان کو زندگی جینے کےلیے بہتر معاش کی بہت ضرورت ہوتی ہے ، وہ انہیں اسباب کو اختیار کرتا ہے جن سے اس کی معیشت مضبوط ہو سکے کہ سارا سماجی مقام اسی سے جڑا ہوتا ہے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ صورت حال یہ ہوئی کہ تقسیم کے بعد اردو مسلمانوں کی ہی نہیں کمزور مسلمانوں کی زبان ٹھہری ( استثناءات سے انکار نہیں !! ) اس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ آج جہاں اردو مدارس کے دم پر زندہ ہے وہیں یونیورسٹیوں کے اندر بھی اردو پڑھنے والوں کی اکثریت کسی نہ کسی شکل میں مدرسہ بیک گراؤنڈ ہی رکھتی ہے !!
جن کے حالات اچھے ہيں وہ عام حالات میں اپنے بچوں کو اردو نہیں پڑھاتے ، ان کی زبان انگریزی ہے اور ہم نے اب تک قابل ذکر صورت میں اسلامی لٹریچر انگریزی میں تیار نہیں کیا ہے ۔ اب کیفیت یہ ہے کہ ویسے اعلا تعلیم یافتہ لوگ اپنی اسلامی معلومات کے لیے جن لوگوں کو پڑھ رہے ہیں ان میں یا تو مستشرقین ہیں یا پھر وہ لبرل لوگ ہیں جن کے قلم نے اسلام کو کمزور کرنے کی ہی کوشش کی ہے ۔ ایسے میں مسلمانوں کے اس تعلیم یافتہ طبقےکا صحیح اسلام سے دور رہنا کوئی ویسی تعجب خیز بات بھی نہیں ۔ مجھے ام القری یونیورسٹی میں میڈیکل سائنس کے ایک ہندوستانی پروفیسر کی اس بات سے تعجب نہیں ہوا کہ قرآن تو خیر ٹھیک ہے لیکن حدیث ہم تک صحیح طریقے سے نہیں پہنچی ، انہوں نے وہی باتیں دہرائیں جو مستشرقین یا لبرلز نے اپنی کتابوں میں لکھی ہیں ۔ ان حالات میں کیا ہمیں اپنے لٹریچر کا جائزہ لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ کیا ہمیں یہ نہیں سجمھنا ہوگا کہ غیروں کو تو چھوڑ دیجیے خود اپنے پڑھے لکھے طبقے تک صحیح دین پہنچانے کے لیے ہمیں انگریزی کی ضرورت ہے ۔ مجھے یہ لکھتے ہوئے بہر حال خوشی ہورہی ہے کہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہاں تک ان لوگوں نے بھی اس طرف پیش قدمی شروع کردی ہے جن پر عام طور سے دقیانوسیت اور قدامت پرستی کا الزام رہا ہے چنانچہ ملفوظات ، سوانح اور اس قبیل کی دوسری چیزیں بڑے پیمانے پر انگریزی میں ترجمہ کی جاری ہیں اور بازار میں دستیاب کرائی جارہی ہیں ، بعض مسلم جماعتوں کے پاس بھی قابل ذکر نہیں تو بھی ایک حد تک انگریزی میں اسلامی لٹریچر ہے لیکن اس پورے معاملے میں سب سے تہی دست ہم سلفیان ہند نظر آرہے ہیں ، ہم کہ جنہوں نے ہمیشہ علم وحکمت کی راہ میں قیادت کا فریضہ انجام دیا ہے ، ہم کہ جن سے جامعہ رحمانیہ منسوب رہا ہے ، ہم کہ جنہوں نے سب سے پہلے اصلاح نصاب کی آرہ میں تحریک چلائی ہے ، ہم کہ جنہوں نے جمعیت علماء ہند ہی نہیں ندوۃ العلماء کو بھی اپنی رہنمائی سے نوازا ہے ، ہم کہ جنہوں نے ہمیشہ حالات کو سمجھا ہے ۔ آج ہم کہیں نہ کہیں پیچھے نظر آرہے ہیں ۔ ابھی تک ہمارے پاس انگریزی میں کوئی قابل ذکر لٹریچر نہيں ہے ، ہمارے اسلاف کے قابل قدر اور بیش بہا سرمایوں کو انگريزی میں منتقل کرنے کا ہمارے پاس کوئی جذبہ یا منصوبہ بھی نہيں ہے ۔ اقبال کا ایک شعر یاد رہا ہے
چراغ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مرد راہ داں کے لیے
اگراجازت دی جائے تو عرض کروں کہ حالات کا یہ شدید تقاضہ ہے کہ ہم نہ صرف یہ کہ اپنے اسلاف کی متاع بے بہا کو انگریزی میں منتقل کرنے کا سامان کریں بلکہ مختلف موضوعات پر حالات وظروف کو سامنے رکھتے ہوئے لٹریچر بھی تیار کریں ۔ ہم نے اگر اور زيادہ کوتاہی برتی تو نتائج بہر صورت سنگین ہی ہوں گے ۔ اس کے لیے ہمیں کچھ اور نہیں جذبے اورمنصوبے کی ضرورت ہے ۔ آج دوسری زبانوں کے بہ نسبت انگریزی میں کام کرنا زيادہ آسان ہے ۔ اس کام کے لیے جہاں تنظیموں کو سرجوڑکر بیٹھ کرسوچنے کی ضرورت ہے ، حدیث ، تفسیر ، عقیدہ ، تاريخ اور دوسرے موضوعات پر باضابطہ لٹریچر تیار کرنے کی ضرورت ہے وہیں افراد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جن سے جہاں تک ہو سکے وہ کوتاہی نہ برتیں ۔ اس کا یہ قطعا مطلب نہیں کہ اردو میں کام کرنا چھوڑ دیا جائے کہ بہر حال اس کی اپنی ضرورت اور اہمیت ہے البتہ اس کا یہ مطلب ضرور ہے کہ انگریزی سے اب کسی بھی صورت بے اعتنائی نہ برتی جائے کہ پہلے تو غیروں تک بات پہنچانے کے لیے ہمیں انگریزی ضروری لگتی تھی اب تو اپنوں تک اپنا دین پہنچانے کے لیے بھی یہی ذریعہ رہ گيا ہے ۔ یاد رہے کہ دنیا کا کام چلتے رہنا ہے ، وہ کسی کے لیے نہیں رکتی ۔ حالات کے بدلاؤ کا ہم ساتھ نہیں دے پائیں گے تو یہ ہمارا ہی نقصان ہوگا ۔
لگے ہاتھوں ایک اور سچائی کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا کہ جہاں ہمیں انگریزی پر دھیان دینے کی ضرورت ہے وہیں ہندی سے بے اعتنائی بھی گھاتک ثابت ہوگی ۔ یہ بہر حال افسوسناک بات ہے کہ اتنی مدت سے ہندوستان میں ہم مسلمان جی رہے ہیں اور ہم نے اپنے برادران وطن کو اسلام سے روشناس نہیں کرایا ہے لیکن اب ہمیں نہ صرف یہ کہ اپنے غیر مسلم ہندو بھائیوں کے ایک بڑے طبقے تک پہنچنے کے لیے ہندی کی ضرورت ہے بلکہ خود مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد تک پہنچنے کے لیے بھی ہندی کی ضرورت ہے ۔ مدرسہ والوں کو چھوڑ دیجیے تو زيادہ تر مسلمانوں کو اردو رسم الخط میں پڑھنا لکھنا نہيں آتا ۔ ہندی کے قومی زبان ہونے کی وجہ سے انہیں ہندی تو آتی ہے لیکن اردو نہیں آتی ۔ اس کا اندازہ بات چیت میں کم ہوتا ہے کہ بہر حال پرورش وپرداخت تو مسلم گھرانوں میں ہوئی ہے ، سبحان اللہ ، ماشاءاللہ اور الحمد للہ جیسے الفاظ ہمیں دھوکہ میں ڈال دیتے ہیں لیکن جیسے پڑھنے لکھنے کی بات آتی ہے ساری حقیقت سامنے آجاتی ہے ۔ آپ کو تعجب ہوتا ہو تو ہوتا ہو لیکن یہ سچ ہے کہ اردو اخبارات کے معتد بہ صحافی ایسے ہیں جو اپنی رپورٹ رومن رسم الخط میں تیار کرتے ہیں وہ اردو کے فارسی رسم الخط سے واقف نہيں ہیں یعنی جو اردو کی روزی روٹی کھاتے ہیں ان کا یہ حال ہے تو سوچیے ان کا کیا حال ہوگا جنہیں اردو سے کوئی مطلب ہی نہیں ۔ شمالی ہندوستان ( جو کہ اردو کا بھی گہوارہ ہے ) کے مسلمانوں کی اکثریت ہندی اخبارات ہی پڑھتی ہے کہ انہيں اردو پڑھنا نہیں آتا ۔ ایسے میں کیا اس ضرورت سے انکار ممکن ہے کہ ہمیں اسلامی لٹریچر کو ہندی میں پیش کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے کرنے کا کام صرف یہ ہے کہ آسان اردو( جو ہندی سینیما میں استعمال کی جاتی ہے ) میں چيزیں لکھی جائیں اور انہیں رومن رسم الخط میں چھاپا جائے ۔ یاد رہے کہ ہندی اور انگریزی کی طرف یہ توجہ اس لیے ضروری نہیں ہے کہ اس سے ہم غیر مسلموں تک دین پہنچا پائیں گے ، نہیں ، بلکہ یہ توجہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس سے ہم خود اپنے مسلمان بھائیوں تک اسلام پہنچا پائيں گے !!!

الأحد، يناير 01، 2017

سبق
ساگر تیمی
وہی رات کے کوئی تین بج رہے ہوں گے ، عندلیب اپنے کمرے میں سو رہا تھا ، یوں بھی ہاسٹل میں رہنے والے لڑکے بارہ بجے کے بعد ہی سوتے تھے ، اسی لیے اگر کوئی صبح صبح یونیورسٹی پہنچ جاتا تو اسے لگتا کہ یہ مردوں کی آرامگاہ تو نہیں ہے ؟ عندلیب کو ابھی ابھی نیند آئی تھی ، وہ کوئی دوبجے سوپایا تھا ، اسے لگا کہ اس کے گیٹ پر دستک ہورہی ہے ، پہلے تو اس نے نظر انداز کیا کہ اس وقت کون دستک دے گا ، اس کا وہم ہوسکتا ہے لیکن پھر کھٹکھٹ کی آواز تیز ہونے لگی ، اس نے چادر سے اپنا چہرا باہر نکالا ، لائٹ آن کی اور دیکھا تو واقعۃ اسی کا دروازہ پیٹا جارہا تھا ۔
اوئے مولی صاحب ! یار ! کھولو نا دروازہ ! ابے سالے ! کیسی نیند میں سوتا ہے ! کسی کی جان جارہی ہے اور تو گھوڑی بیچ کرسویا ہوا ہے ! کھول نہ یار ! اوئے عندلیب !!
 عندلیب کو پہچانتے دیر نہ لگی کہ یہ تو اس کے کلاس میٹ مصطفی کی آواز ہے ، دروازہ کھولنے پر مصطفی سامنے تھا ، اس کی سانسیں تيز چل رہی تھیں اور ٹھنڈی کے اس موسم میں پسینہ آرہا تھا ۔ عندلیب نے اسے اپنی چادر میں ڈھانپا ۔۔
عندلیب : ابے یہ رات گئے اس وقت کیا ہوا تمہیں ؟ کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ لیا تم نے کیا ؟ لاحول پڑھ کر تھکتھکا کر سوجانا تھا ، میری بھی نیند خراب کردی ۔۔
مصطفی : نہیں یار! میں بہت پریشان ہوں ، یار مجھے نیند نہيں آتی ، جب سونے کی کوشش کرتا ہوں ایسا لگتا ہے وہ یہیں ہے میرے سامنے ! دیکھ اگر میں مرجاؤں تو میرے جنازے کی نماز تو پڑھانا !
عندلیب : سالے ! یہ تو کیا بول رہا ہے ، تو مرے گا کیوں الو کہیں کے ، اتنی ایموشنل باتیں کرکے جان لے گا کیا میری ؟ اور یہ کون سامنے آجاتا ہے تیرے ؟ سایہ ہے کوئی ، بھوت پریت ہے ؟ کیا ہے ؟
مصطفی : نہيں یار ! وہ اپنی کلاس میٹ شوبھا نہیں ہے ، یار مجھے اس سے محبت ہوگئی ہے ، میں اس کے بغیر نہیں جی پاؤں گا ، یار مجھے سوتے جاگتے ہر جگہ وہی نظر آتی ہے ۔ پلیز تم کچھ کرو!
عندلیب : شوبھا !! اوراس کا ذہن تین چار سال پیچھے چلا گیا ۔ وہی برسات کا موسم تھا ، ملک کی ممتاز یونیورسٹی میں اس کا شمار ہوتا تھا ، اس ڈپارمنٹ میں کل پندرہ لڑکوں کا داخلہ ہوا تھا ، ان میں ایک وہ بھی تھا ، شکل و شباہت سے خوبصورت ، مناسب قدو قامت ، بہت ہوشیار نہیں لیکن نسبۃ بے خوف ضرور تھا ، عربی مدرسے سے فارغ ہوکر آیا تھا لیکن داڑھی بس نام کو تھی ، محنتی تھا لیکن جیسے شروع دن سے ہی اسے کسی لڑکی دوست کی تلاش تھی ۔ لڑکے لڑکی کے موضوع پر باتیں کرتے ہوئے اس کی ناآسودگی جھلک جاتی تھی ، شروعاتی چند مہینوں میں اس نے کئی لڑکیوں پر ڈور ڈالے تھے لیکن کہیں سے بھی اسے بہت اچھا ریسپانس نہیں ملا تھا ، جسے وہ اپنی کمزور انگريزی سے جوڑ کر دیکھتا تھا ۔ شوبھا خوب صورت تھی ، شوخ تھی اور ہوشیار بھی لیکن پڑھنے میں اس حساب سے کمزور تھی ، کئی لڑکے اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا چکے تھے ، پوری کلاس میں پندرہ لڑکوں میں تین چار لڑکیاں ہی تھیں اور ان چار میں شوبھا نسبۃ زيادہ خوب صورت تھی ۔ دوستی کا ہاتھ بڑھانے والوں میں مصطفی قدرے مختلف تھا ، شوبھا نے ایک ایک کرکے سب کو کہیں نہ کہیں ریجیکٹ ہی کیا تھا البتہ وہ اس معاملے میں عقلمند واقع ہوئی تھی ، بہت سمجھدار ی الگ ہوجاتی تھی اور کسی کو پتہ بھی نہیں چل پاتا تھا ۔ مصطفی سے اس کی دوستی بڑھی تو اس کے لیے مصطفی سے جڑے رہنا گھاٹے کا سودا نہیں تھا ، اس کے اندر بلا کی وفاداری ، خدمت اور مدد کا جذبہ پایا جاتا تھا ، وہ اس کی ہر بات مانتا تھا ، ہر طرح کے معاملات میں اس کے لیے کھڑا رہتا تھا اور یوں دیکھتے دیکھتے سبھوں میں مصطفی ہی شوبھا کے ساتھ رہ گیا تھا ۔ کلاس میٹس میں ان دونوں کے بارے میں ایک پر ایک قصے گردش کرتے ، اپنے اپنے اندازے سے لوگ مزے لیتے ، مصطفی کو جیسے یہ سب سننے میں مزہ بہت آتا ، وہ زيادہ تر مسکراکر طرح دے دیتا یا پھر ایک دو بات ملا کر قصوں کی توثیق ہی کردیتا ۔ امتحانات کے مواقع سے دونوں زیادہ ساتھ نظر آتے ، مصطفی جی جان لگا کر شوبھا کی تیاری کراتا ، کہیں سے کوئی کمپنی کیمپس سیلیکشن کے لیے آتی تو دونوں امتحان میں ساتھ بیٹھتے اور خود سے زيادہ مصطفی شوبھا کے لیے کوشش کرتا ۔ یہ سب باتيں دوستوں میں مشہور تھیں ۔ احباب مزہ بھی لیتے لیکن وہ کبھی برا نہیں مانتا ۔ عندلیب سے کبھی کبھی بتاتا کہ یار یہ سب اسی لیے تو کررہا ہوں کہ آخر آنا تو میرے ہی گھر ہے ، اس لیے سمجھو کہ اس کے لیے نہیں خود اپنے لیے ہی محنت کررہا ہوں اور جب عندلیب اس سے پوچھتا کہ کیا اس نے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے یا شادی کرنے کا ارادہ جتایا ہے تو وہ مسکراتا اور کہتا : مولی صاحب ! فلسفے سے نکلو ، محبت میں اظہار معنی نہیں رکھتا ، سانسیں بولتی ہیں ، نگاہوں کو لب ہوتے ہیں ، حرکتیں بتاتی ہیں ، یہ محسوس کرنے کی ہوتی ہے بولنے کی نہیں ۔۔۔۔
  مصطفی نے عندلیب کا ہاتھ پکڑا اور جب کہا کہ یار میرا کچھ کرو ورنہ میں ہلاک ہو جاؤں گا تب جاکر عندلیب اپنے خیالوں سے باہر آیا اور اسے تسلیاں دینے لگا ۔
عندلیب : دیکھ ! اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، شوبھا یہیں ہے ، ایسا نہيں کہ وہ کہیں چلی گئی ہو ، تم اس سے جاکر صبح میں بات کرلینا ۔ یوں بھی تمہارے اس کے درمیان اچھی خاصی بے تکلفی ہے !
مصطفی : نہیں یار! میں کب سے کہنا چاہتا ہوں لیکن میں کہہ نہیں پاتا ۔ اس سے باتیں کرتے ہوئے میرے الفاظ دم توڑ دیتے ہیں ، ایسا لگتا ہے کہ قوت گویائی چھین لی گئی ہے ۔ نہيں ہوپاتا مجھ سے یار !
عندلیب : تم تو کہتے تھے کہ احساس ہی سب کچھ ہے ، نگاہ بولتی ہے تو کیا اب اس کی نگاہ نے بولنا بند کردیا ؟؟
مصطفی : یار ! نگاہ تو اب بھی بولتی ہے لیکن جب تک بات شروع نہيں ہوگی ، مرحلہ آگے بڑھے گا کیسے ؟ باتوں کے بغیر تو کچھ بھی ہونے سے رہا ۔ پلیز تم کچھ کرو! یار پلیز!
عندلیب : ایسا ہے بیٹے ! چل ابھی تو جاکر سوجا ، میں صبح میں کوئی سیٹنگ کرتا ہوں ، دیکھتا ہوں کیا ہوپا تا ہے ۔
  دوسرے دن پھر صبح سویرے مصطفی اپنی سوجی سوجی آنکھوں کے ساتھ عندلیب کے پاس آگیا ۔ اب کہ عندلیب کے لیے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں بچا کہ وہ کوئی حل نکالے ۔ اس نے دوسری کلاس میٹ لڑکی نہاریکا سے ساری باتیں بتائیں اور گزارش کی کہ وہ کسی طرح شوبھا سے بات کرکے مصطفی کی حالت سے اسے آگاہ کرے ۔ تیسرے دن نہاریکا نے عندلیب سے ڈھابے پر چائے پلانے کو کہا ۔ دونوں چائے پی رہے تھے اور نہاریکا بتارہی تھی ۔۔۔ عندلیب بھائی ! شوبھا تو میری بات سن کر ناراض ہی ہوگئی ، پہلے تو اس نے برا سا منہہ بنایا اور پھر بولی بھی تو یہ بولی : دیکھنا نہاریکا ! میرا ہسبینڈ  دیکھنے لائق ہوگا ۔ عورت اسے شریک سفر بناتی ہے جس کے پیھے وہ چل سکے اسے نہیں جو اس کے پیچھے چلتا ہو ۔ مصطفی اچھا لڑکا ہے ، سیدھا ہے ، دکھتا بھی ٹھیک ہی ہے ، پھر اس نے میری مدد بھی بہت کی ہے ، لیکن یار ! میں اسے ایک اچھے انسان اور دوست کے طور پر دیکھتی ہوں ، وہ کہیں سے بھی میرے آئیڈیل ہسبینڈ جیسا نہیں لگتا ۔ ایسے تم یہ باتیں کسی سے مت بتانا ، کل میں خود اس سے مل کر بات کرلوں گی ۔۔
عندلیب نے مصطفی سے صرف اتنا بتایا کہ کل شوبھا تم سے ملے گی اور دوسرے دن رات کے بارہ بجے جب مصطفی عندلیب کے کمرے میں آیا تو اس کا چہرا اترا ہوا تھا لیکن جنون یا دیوانگی کی کیفیت نہیں تھی ۔
عندلیب : ہاں ! بیٹے کیا ہوا ؟ ملی شوبھا ؟
مصطفی : ہاں یار ملی ، اس نے مجھے ریسٹورانٹ میں کھانے پر بلایا تھا ، کھانے کے بعد اس نے خود ہی اس موضوع کو چھیڑا ، اس نے آج کپڑے بھی بہت اچھے پہنے تھے ، بہت خوب صورت لگ رہی تھی ، مجھے لگا کہ وہ مجھے ہاں بولنے والی ہے لیکن اس نے اس سے زيادہ بڑی بات کی آج مجھ سے ۔ آج مجھے لگا کہ وہ تو مجھ سے کہيں زيادہ سمجھدار ، سنجیدہ اور عقلمند ہے ۔ عندلیب ! اس نے میرا شکریہ ادا کیا کہ میں نے اس کا ساتھ دیا ، اس کا اچھا دوست بن کر رہا ، اسے اس قابل سمجھا کہ اسے چاہ سکوں ، اس نے کئی بار مجھے تھینک یو کہا ۔ آج کھانے کے بل اس نے ہی ادا کیے لیکن پھر آج مجھے اس نے سمجھایا بھی ۔ اس نے کہا کہ میں اسے بہت اچھا لگتا ہوں ، ان فیکٹ وہ مجھ سے محبت بھی کرتی ہے ، میں ایک اسمارٹ اور قابل اعتماد مرد ہوں لیکن وہ ایسا اس لیے نہیں کرسکتی کہ ہم دونوں کی تہذیب الگ ہے ، دین الگ ہے ، رہنے سہنے کے ڈھنگ الگ ہیں ۔ اس نے بتایا کہ کتنے ارمانوں سے اس کے ماں باپ نے اسے پالا پوسا ہے ، اچھی تعلیم دلائی ہے ، یہاں تک بھیجا ہے ، انہیں کتنا فخر ہے اس پر ، اسی طرح اس نے مجھے احساس دلایا کہ میرے والدین نے بھی کتنی محبتوں سے مجھے پالا ہوگا ۔ یار! جب وہ یہ باتیں بتا رہی تھی تو مجھے اپنے والدین کی بہت یاد آرہی تھی ، میرے آنکھوں میں تو آنسو تھے ۔ اس نے مجھ سے کہا : مصطفی ! ہم کتنے برے ہوں گے اگر اپنی چھوٹی سی خواہش کے لیے اپنے ماں باپ اور خاندان کے سارے ارمانوں ، ان کے مان سمان اور عزت و آبرو کا خون کردیں ، تم ایک سمجھدار اور پڑھے لکھے آدمی ہو ، بتاؤ یہ بری بات ہوگی یا نہیں ، یہ مفاد پرستی ہوگی ، کمینگی ہوگی لیکن شرافت یا سلیقہ مندی تو نہیں ہوگی نا !
   عندلیب یار ! آج اس نے میری آنکھوں پر پڑی پٹی کھول دی ، مجھے سبق مل گیا اور عندلیب سوچ رہا تھا کہ جس سبق کے لیے اسے اتنے مرحلوں سے گزرنا پڑا وہ سبق کیا اس کے والدین نے اسے اپنے گھر میں نہیں پڑھایا ہوگا ، کیا اس کے اساتذہ نےاسے مدرسے میں نہيں بتایا ہوگا ، کیا کیا کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔