الأربعاء، ديسمبر 28، 2016

نکاح ثانی
ساگر تیمی
دالان میں وہی دس بارہ لوگ رہے ہوں گے ۔ گاؤں کے چودھری، مولوی ، کسان اور مزدور سب کی نمائندگی کسی نہ کسی طرح ہورہی تھی ۔ سب اپنی اپنی حیثيت کے مطابق ہی بیٹھے ہوئے تھے ۔ مزدوروں کا ٹھکانہ وہی زمین کا فرش تھا ، کسان چوکی پر ، مولوی کے لیے کرسی تھی اور چودھری جی مسند پر ٹیک لگائے حقہ گڑگڑا رہے تھے ۔ بات امیرالاسلام کی ہی ہورہی تھی ، چودھری صاحب مزہ لے رہے تھے اور مولوی مرچ مصالحہ ملا رہا تھا ۔
چودھری : ویسے امیر صاحب  اتنے بھی بوڑھے تو نہیں ہوگئے ہیں کہ دوسری شادی نہیں کرسکتے ۔
مولوی : چودھری صاحب ! اس عمر میں نئی عمر کی لڑکی سے شادی کرنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے !
چودھری : اگر ایسی ہی بات ہے مولانا ! تو آپ اپنے اور ہمارے لیے بھی کوئی کمسن حسینہ کیوں نہیں دیکھتے ۔۔۔۔ اور دیر تک ٹھہاکے لگتے رہے ۔
چودھری : امیرالاسلام کو کم از کم یہ تو سمجھنا چاہیے کہ اس کے بچوں پر اس کا کیا اثر پڑے گا ؟
مولوی : صرف بچوں پر نہيں جناب ! اثر تو سماج پر بھی پڑتا ہے ، اس عمر میں کیا شیطنت سوجھی ہے ان کو ، اب تو چھوٹی عمر کی بچیاں چاچا دادا کی عمر کے لوگوں سے گھبرا کر ہی رہیں گیں ۔
اب جیسے مزدوروں اور کسانوں کو بھی موقع ملا ۔ پلٹو کسان نے اپنی منطق رکھی ، بات یہ ہے مولوی صاحب کہ آپ جیسے ہی لوگ تو نکاح بھی پڑھائيں گے اور یہ بھی کہیں گے کہ شریعت کب منع کرتی ہے ؟ آپ تو خیر سے سمجھدار مولانا ہیں !! اس پر چودھری نے " سمجھدار" کو زرا زور دے کر ادا کیا اور پھر ٹھہاکے ہی ٹھہاکے تھے ۔ مولوی صاحب نے پہلے تو ذرا منہہ بنایا اور پھر خود بھی ٹھہاکے کا حصہ ہوگئے ۔ نتھنی مزدور نے اور بھی تگڑا دیا : بات یہ ہے حجور! کہ ہم مجدوروں کی حیشیت ہی نہیں ، امیر الاسلام ساحب کے پاش شلاحیت ہے تو وہ کررہے ہیں ، ویسے ہونے دیجیے تب پتہ چلے گا کہ کیا بیتتا ہے ان پر ۔۔۔
باتیں ہورہی تھیں ، اس بیچ چودھری صاحب کے یہاں سے چائے بھی آگئی اور اب تو جیسے اس محفل کو کم از کم ایک گھنٹہ اور کھنچ ہی جانا تھا ۔ اسی درمیان دالان سے امیرالاسلام کے منجھلے بیٹے شوکت کا گزرنا ہوا ، چودھری صاحب نے آواز دی ۔
شوکت بابو ! ارے سنیے ! مٹھائی کھلائیے ، پتہ چلا ہے کہ ایک دم سے جوان ماں آرہی ہے آپ کے گھر ! صاحب ! ہر ایک کو ایسی قسمت تھوڑی ہی ملتی ہے ! پھر سے ٹھہاکے تھے اور شوکت تیز قدموں سے سر نیچا کیے نکل بھاگے ۔
   برکت کا غصہ زیادہ خراب تھا ، ابو کو اب شادی کرنے کی کیا ضرورت ہے ، یار! اب تو ہمارے بچے بڑے ہورہے ہیں ، کون سا امی مرگئی ہوئی ہیں ، یہ کس قسم کا شوق چرارہا ہے انہیں ؟
شوکت : بھیا ! گاؤں والے بھی مذاق اڑا رہے ہیں ، چودھری صاحب ، مولوی صاحب اور سب لوگ دالان میں تھے اور مزے لے رہے تھے ، ابو کو تو کسی نہ کسی طرح روکنا ہی پڑے گا ۔
برکت : وہ مانتے کب ہیں ، تمہاری بھابھی نے تو باضابطہ منع کیا لیکن پھربھی وہ نہیں مانے ۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ امی ہنگامہ کیوں نہیں کرتیں  اور نعمت ان کا ساتھ کیوں دے رہا ہے ؟
     شوکت : کیا معلوم ! امی اداس تو ضرور ہیں لیکن وہ کچھ بول نہیں رہی ہیں شاید وہ صدمے میں ہیں ۔
    ان کی باتیں جاری ہی تھیں کہ نعمت پہنچ گئے اور باتوں میں وہ بھی شامل ہوگئے ، پہلے تو انہوں نے ان کی بات سنی اور پھر کہنا شروع کیا ۔
نعمت : بات یہ ہے کہ اگر انہیں ایک اور شادی کی ضرورت ہے تو ہم انہیں روکنے والے کون ہوتے ہیں ، یہ ان کی زندگی ہے ، وہ اپنے حساب سے گزاریں ، اگروہ شادی کریں گے تو انہیں خوشی ہوگی اور ہم ان کی اولاد ہیں تو ہمیں بھی خوش ہونا چاہیے ، ہماری پرورش میں انہوں نے کون سی کمی کی ہے ؟ ہم ان کے جذبات کو سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں ، پہلے تو میں بھی آپ کی ہی طرح سوچتا تھا لیکن پھر مجھے لگا کہ اگر ابو کو ضرورت ہے تو ہم کون ہوتے ہيں روکنےو الے ؟
 دونوں بھائیوں نے برا سا منہہ بنایا ، نعمت کو الٹا سیدھا کوسا اور اٹھ کھڑے ہوئے ۔ چرچا پوری بستی میں ہوتا رہا ۔ جتنے منہہ اتنی باتیں ۔ ایک پر ایک لطیفے اور ایک پر ایک مسخراپن ۔ ہر محفل کی ایک ہی بات ، امیر الاسلام کی دوسری شادی !
          امیرالاسلام جانتے تھے کہ شادی ان کی مجبوری ہے ورنہ وہ گناہ میں بھی پڑسکتے ہیں ، وہ اپنی اہلیہ کو سمجھا بھی چکے تھے ، اہلیہ سمجھ بھی چکی تھیں اور چاہ بھی رہی تھیں کہ وہ ایک اور نکاح کرلیں ، جس سے نکاح ہونا تھا وہ کوئی اور نہیں ، ان کی اپنی پھوپھا زاد بیوہ بہن تھیں ، شادی کے تیسرے سال ہی زاہدہ کے شوہر کا انتقال ہوگيا تھا ، کوئی اولاد بھی نہیں تھی اور تب سے وہ ایسے ہی پڑی ہوئی تھیں ، وہ سوچ رہے تھے کہ ان کی ضرورت بھی پوری ہو جائے گی ، کسی گناہ میں بھی نہیں پڑیں گے اور بیوہ کی کفالت بھی ہوجائے گی ، ان کے چہرے کی چمک بھی لوٹ آئے گی ۔ انہیں یہ بھی پتہ تھا کہ لوگ آسانی سے نہیں مانیں گے لیکن وہ بڑے پر عزم تھے ۔ بیٹے تو آہستہ آہستہ مان بھی گئے لیکن اصل مرحلہ تب آیا جب خبر بیٹیوں کو پہنچی ۔ بڑی بیٹی تمنا نے تو گھر پر آکر دھرنا ہی دے دیا اور وہ اودھم مچایا کہ مت پوچھیے ، منجھلی کو تو اس سے کوئی خاص مطلب نہیں تھا لیکن چھوٹی بیٹی رخسار کا رویہ بڑی والی سے بھی کہیں دھماکہ خیز تھا ، وہ ایسے بھی باپ سے تھوڑی بے تکلف تھی ، آتے ہی اس نے آسمان سر پر اٹھا لیا
ابو ! آپ کو تھوڑا تو ہمارا خیال کرنا چاہیے ، سب مذاق اڑا رہے ہيں ہمارا ! آپ کی عمر اب شادی کرنے کی نہیں ، اللہ اللہ کرنے کی ہے ، نماز روزہ کیجیے ، اعتکاف میں بیٹھیے ، حج کرنے جائیے ، تبلیغ میں نکلیے لیکن اللہ کے واسطے ہماری رسوائی کا یہ سب سامان تو مت کیجیے ۔ لوگ کیا کیا باتیں بنا رہے ہیں ، ہماری تو ناک میں دم ہے ۔ ہم کسی بھی صورت میں یہ شادی نہیں ہونے دیں گے ۔ یہ کیا ہوگیا ہے آپ کو ! آپ تو کتنے سمجھدار تھے ! ہمیں کتنے پیار سے پالا پوسا ہے آپ نے! اب آپ کو خراب نہیں لگتا کہ ہم پر کیا کیا تیر طعنے کے برس رہے ہيں ، خود آپ کے بارے میں کیاکیا باتیں ہورہی ہیں ؟؟؟
   امیرالاسلام رخسار کی باتیں سن رہے تھے ، ان کی آنکھیں تو خاموش تھیں لیکن دل رورہا تھا ، اپنے کمرے میں آکر وہ اپنی بیوی کو دیکھتے تو وہ نیچے نگاہ کرکے رہ جاتی ، ایک بیٹا ، ایک بیوی کی خاموش رضامندی اور اپنا ارادہ اور بقیہ سب کے سب لوگوں کی مخالفت ۔ انہوں نے پھربھی نکاح کرنے کا ارادہ باندھے رکھا اور اپنا آخری فیصلہ پوری قوت سے یہ سنایا کہ جسے اعتراض ہے وہ اپنا راستہ لے سکتا ہے ، میں یہ شادی کروں گا ، چاہے جسے جو کہنا ہے کہے کہ یہ میں جانتا ہوں کہ یہ شادی کیوں ضروری ہے ۔

  بیٹیاں روپیٹ کر لوٹ گئیں ، بیٹے خاموش ہوگئے ، سماج البتہ چہ ميگوئی کرتا رہا ۔ لیکن امیر الاسلام کو جب یہ معلوم ہوا کہ زاہدہ اس شادی کے لیے تیار نہیں ہیں ، انہوں نےاب ارادہ ملتوی کردیا ہے اور ان سے درخواست کی ہے کہ اللہ کے واسطے وہ شادی کی بات کو بالکلیہ ختم کردیں تو ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین ہی کھسک گئی ۔ وہ زير لب بدبدا رہے تھے : بے چاری کمزور بیوہ عورت ! گھٹیا سماج کے گھٹیا طنز میں آگئی !!! اور ان کی چہرے پر تفکرات کی لکیریں پھیل گئیں ۔۔۔

السبت، ديسمبر 17، 2016

غزل
ساگر تیمی
کدھر گیا وہ ملاقات میں نہیں آیا
عجیب خواب تھا کہ رات میں نہیں آيا
مجھے وہ کب سے نئی زندگی کا کہتا تھا
ہوا نکاح  تو بارات میں نہيں آیا
اسے ایمان کی دولت ملی تھی کچھ اتنی  
ستا بہت مگر حالات میں نہیں آيا
یہ کیسی مار پڑی موسموں کی قسمت پر
کہ پانی پھر سے کیوں برسات میں نہیں آیا
"فقیر " کھا گیا کتنے غریب لوگوں کو
عذاب کیوں اسی کی گھات میں نہیں آیا
 زبان اس کی کہ قینچی سے تیز چلتی تھی
زہے نصیب کہ تو بات میں نہیں آیا
مجھے بھی عشق نے ساگر بہت بلایا مگر
میں بے وقوف  خیالات میں نہیں آيا