السبت، أغسطس 29، 2015

اردو کا اسلامی لٹریچر : جائزے کی ضرورت ہے !

ثناءاللہ صادق تیمی ، مکہ مکرمہ ،  سعودی عرب

 اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری اکثریت تقلیدی ذہنیت رکھتی ہے ۔ یہاں تقلیدی ذہنیت سے مراد ائمہ اربعہ کی فقہی تقلید نہیں ہے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ملی سطح پر اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ جس طرف ایک چل پڑا سب چل پڑے ۔ ہم نئی راہ نکالنے کا کم ہی سوچتے ہيں ۔ اسی لیے بہت کم ایسا دیکھنے کو ملتا ہے جب کوئی ایسی چیز سامنے آتی ہو جسے دیکھ کر آپ مارے خوشی کے بالکل اچھل پڑیں اور ساتھ ہی آپ کو حیرت و استعجاب بھی ہو ۔ وجہ ظاہر ہے کہ ہم کرتے تو ہیں باتیں آزادی ، اجتہاد اور بلندی افکار کی لیکن چلتے ہیں ہمیشہ اسی راہ پر جس پر سب چلتے ہیں ۔ ہمارے یہاں ایک عجیب و غریب رویہ یہ پنپ چکا ہے کہ اگر کبھی کسی بڑے انسان سے کسی رائے میں اختلاف کیجیے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ اس بڑے انسان کی بے عزتی ہوگئی ، حالانکہ اختلاف رائے کا بے عزتی سے کوئی تعلق نہیں ۔ بدتمیزی اور اختلاف رائے میں آسمان زمین کا فرق ہے ۔ اور یاد رہے کہ جب تک ہماری نسل سچ کہنے اور سچائی کی راہ میں بزرگوں سے اختلاف کرنے کا حوصلہ پیدا نہیں کرے گی وہ ترقی کی طرف اپنا قدم نہیں بڑھا پائے گی ۔ ہمیں یہ بات ذہن نشیں کرنی ہوگی کہ خطرہ مول لیے بغیر بڑی بلندیاں مشکل سے ہی ہاتھ آتی ہیں ۔
     اب ذرا اردو کے اسلامی رسالوں اور اردو اسلامی لٹریچر پر ہی ایک نظر ڈال لیجیے ۔ جس مکتب فکر کے رسالے آپ ہاتھ میں اٹھالیں سب کا طرزو انداز یکساں نظر آئے گا ۔ مثال کے طور پر ایک اہل حدیث ادارے سے نکلنے والے کسی ایک ماہنامے کو سامنے رکھیے اور پھر دوسرے کسی اہل حدیث ادارے سے نکلنے والے رسالے کو سامنے رکھیے آپ کو کوئی بہت بڑا فرق نظر نہیں آئے گا ۔ اسی طرح کسی دیوبندی مکتب فکر یا بریلوی مکتب فکر کے رسالے کو اٹھالیجیے آپ کو صورت حال ایسی ہی نظر آئے گی ۔ یہ سب در اصل تقلیدی ذہنیت کی اپج ہے ۔ ایک رسالہ مقبول ہوا سب نے اسی رسالے کی نقالی کرنی شروع کردی ۔ بالکل ایسے ہی جیسے پانچ سال سات پہلے ایم بی اے کرنے والوں کی کھپت زیادہ تھی ، اب جسے دیکھو ایم بی اے کررہا ہے ۔ پتہ چلا کہ اب ایم بی اے ہی ایم بی اے ہے ۔ نہیں ہے تو جاب نہیں ہے ۔
  مجھے یہ بات کم ہی سمجھ میں آتی ہے کہ جب ایک طرح کا رسالہ نکل ہی رہا ہے تو پھر اسی طرح کا ایک دوسرا رسالہ کیا ضروری ہے ۔ ٹھیک ہے کہ ہر ایک کا اپنا دائرہ ہوتا ہے اور ایک سطح پر اس کی افادیت سے انکار بھی نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم تھوڑا الگ نہیں سوچ سکتے ؟ کیا ذرا نیا راستہ نہیں اپنا سکتے ؟ کیا کوئی نیا تجربہ نہیں کرسکتے ؟ کیا نئے تجربوں کی ضرورت نہیں ہے ؟ کیا اور ایسے گوشے نہیں ہیں جن پر توجہ صرف کی جاسکتی ہو ؟ روایتی اور تقلیدی دائرے سے نکل کر ان دائروں تک نہیں پہنچا جا سکتا جہاں ضرورت بھی شدید ہے اور جہاں کچھ پایا بھی نہیں جاتا ؟
         عام طور سے مدارس سے تعلیم مکمل کیے بنا نکل جانے والے لوگ جو ابتدائیہ ، متوسطہ یا زیادہ سے زيادہ ثانویہ تک کی تعلیم حاصل کرپاتے ہیں اور جنہیں اردو پڑھنے آتی ہے ۔ اسی طرح وہ لوگ جو گورنمنٹ اسکولوں میں میٹرک وغیرہ کرکے تعلیم چھوڑ دیتے ہيں اور جنہیں اردو پڑھنے آتی ہے یا پھر وہ خواتین جن کی گھریلو تعلیم ہوتی ہے ۔ جنہیں قرآن کریم اور اردو پڑھنا آتا ہے ۔ کیا ہمارے پاس ان کے لیے کوئی لٹریچر ہے ؟  جب مذکورہ لوگوں کے بارے میں بات ہورہی ہے تو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ان کی استعداد اتنی زيادہ بھی نہیں ہوتی کہ وہ ان رسالوں سے استفادہ کرسکیں جو ہمارے دینی اداروں سے نکلتے ہیں ۔ ان کی استعداد یہ ہوتی ہے کہ وہ پیام تعلیم ، امنگ اور خاتون مشرق قسم کے رسالوں سے استفادہ کرسکیں ۔ اسی لیے ایسے لوگوں کے یہاں زيادہ تر خاتون مشرق ، پاکیزہ آنچل اور ہما وغیرہ کا ہی رواج دیکھنے کو ملتا ہے ۔ ہمارے دینی حلقوں کی کمی یہ ہے کہ وہ مذکورہ طبقے کی تربیت کے بارے میں سوچتے ہی نہیں ۔
    شمالی بہار کے اہل حدیث گھرانوں میں پہلے سواء الطریق کا چلن تھا ۔ ارباب حل وعقد کی دانشمندی دیکھیے کہ اب اس کتاب کا تذکرہ ہوتا ہے، کتاب کی صورت دیکھنے کو نہيں ملتی ۔ دیوبندی مکتب فکر کے لوگ اپنی بچیوں کو شادی کے موقع سے بہشتی زیور دیا کرتے تھے لیکن یہ سچ ہے کہ انہوں نے بھی اس کی تہذیب کی طرف دھیان نہیں دیا اور اس طرز پر ذرا بہتر اور جاذب اسلوب میں اس طرح کی کوئی اور چیز تیار کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ بریلوی حضرات کے یہاں اس طرف آکر دینی رسالوں کے نکالنے کا رجحان بڑھا ہے لیکن ان کا رویہ بھی اس معاملے میں یکساں ہے ایسے شاید انہیں اس لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ خاتون مشرق اور پاکیزہ آنچل وغیرہ کے توسط سے جو دین مسلم گھروں میں داخل ہوررہا ہے وہ وہی دین ہے جن کے یہ ماننے والے ہیں ۔ جماعت اسلامی کا رویہ اچھا رہا ہے انہوں نے حجاب اسلامی ، بتول ، حسنات اور ذکری  جیسے رسالوں سے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ جماعت اسلامی کی رسائی محدود ہے ۔ ان کا اثر محدود ہے ۔ اگر ایسی کوششیں دوسری جماعتیں اپنی سطح سے بھی کریں توایک اچھی شروعات ہو سکتی ہے ۔ اسی طرح ہمارے یہاں بچوں کا کوئی دینی رسالہ نہیں پایاجاتا ۔ یہ بوجھ بھی جماعت اسلامی والے ڈھوتے رہے ہیں ۔ حکومتی اداروں سے بعض بچوں کے رسالے نکلتے ہیں جیسے امنگ اور بچوں کی دنیا لیکن ان کا مقصد دینی تربیت نہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح ہمارے دینی اداروں سے ایسے رسالے نہ کے برابر نکلتے ہیں جنہيں خالص علمی اور تحقیقی رسالوں کا نام دیا جاسکے ۔ دوسرے ملکوں کے لوگ جب کبھی یہ پوچھتے ہيں کہ آپ کے یہاں سے کوئی قابل ذکر علمی تحقیقی دینی رسالہ نکلتا ہو تو بتائیے تو ہمیں بغلیں جھانکی پڑتی ہے ۔  سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس جانب توجہ دینے کو تیار ہیں ؟ یا پھر ہمیں لگتا ہی نہیں کہ اس کی ضرورت بھی ہے ؟ کیا خاتون مشرق ، پاکيزہ آنچل اور امنگ کے اسلوب میں صحیح خالص دین کو پیش کرنے کی کوشش نہیں کی جاسکتی ؟ کیا قرآنی قصے خوبصورت اردو میں نہیں ڈھالے جاسکتے ؟ کیا صحابہ کرام کی زندگیوں سے لوگوں کو نہيں جوڑا جاسکتا ؟ کیا اسلامی عقائد کی آسان اور سہل تشریح و تعبیر نہیں کی جاسکتی ؟ کیا اسلامی تاریخ کے روشن واقعات دلچسپ پیرایے میں نہیں پیش کیے جاسکتے ؟
ثناخوان تقدیس مشرق کہاں ہیں ؟
    پچھلے دنوں مدینہ منورہ کے سفر کی سعادت حاصل ہوئی ۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں فاضل طلبہ سے گفتکو کے درمیان میں نے جب یہ بات رکھی تو انہوں نے اس سے اتفاق کیا ۔ ہم نے ان سے گزارش کی کہ وہ اپنے دوستوں سے اس موضوع پر گفتگو کریں ، اس کے امکانات پر غور کریں اور پھر ان شاءاللہ اس طرف عملی اقدام کے بارے میں سوچیں ۔ میرا ذاتی طور پر یہ تاثر بہت گہرا رہا ہے کہ اگر اس جانب قدم بڑھایا جائے اور تھوڑی ایماندارانہ کوشش کی جائے تو بڑے حوصلہ افزا نتائج حاصل ہو سکتے ہیں ۔ اپنی نسل کی تربیت ہماری ذمہ داری ہے ۔ یاد رہے کہ اگر شروع سے ان کے اندر اسلام کو بٹھادیا گیا تو پھر کوئی آندھی انہیں ہلا نہیں پائے گی ۔ ایک ایسے ملک میں جہاں سسٹم آپ کے پاس نہ ہو اور جہاں قدم قدم پر غیر اسلامی افکار و خیالات اور مظاہر کی دنیا آباد ہو وہاں اس قسم کی کوششیں بہت ضروری ہوتی ہیں ۔ اللہ ہمیں نیک توفیق دے ۔

الاثنين، أغسطس 17، 2015

سیرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی عصری معنویت
ثناءاللہ صادق تیمی ، اسسٹنٹ پروفیسر ، جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ ، ریاض
          اسلامی تاریخ میں شروع عباسی دور کو عصر ذہبی(سنہری دور) کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اس لیے کہ اسی عہد میں علوم و فنون کا ارتقاء عمل میں آیا ۔ حدیث ، تفسیر ، بلاغہ ، جغرافیہ ، طب ، فلکیات ، ادب اور بقیہ دوسرے علوم وفنون کی شاخیں نکلیں اور مضبوط ہوئیں لیکن اسی عہد میں اور خاص طور سے مامون کے زمانے میں بیت الحکمۃ بھی بنایا گيا جس کے اندر یونانی فلسفہ کی کتابوں کا ترجمہ عمل میں آیا اور دیکتھے دیکھتے معتزلہ کے ہاتھوں اپنے ہاتھ پاؤں پسارنے لگا ۔ قرآن کریم اور انبیائی طریق دعوت کا مطالعہ کیجیے تو ایک بات سمجھ ميں آتی ہے کہ اللہ نے قرآن حکیم کے اندر کائنات میں غور و فکر کرنے کا حکم بھی دیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ اس غور وفکر کے نتیجے میں انسان کا اللہ پر ایمان مضبوط ہوتا ہے لیکن اللہ کی ذات و صفات میں بے مطلب کی موشگافیوں میں الجھایا نہیں ہے بلکہ امور غیبیہ سے متعلق ایمان لانے کو ہی اصل بتلایا ہے ۔ تمام انبیاء بشمول نبی کائنات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ دعوت و عمل یہی رہا ۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام کے اندر ذوق عبودیت کے ساتھ حسن عمل اور جذبہ جہاد موجزن تھا اور دیکھتے دیکھتے انہوں نے ایک دنیا تک اسلام کی سچائی کو پہنچادیا ۔ بنیادی طور پر اسلام اسی سچے عقیدے اور حسن عمل کی دعوت لے کر آیا تھا ۔ لیکن جب یونانی فلسفہ سے مسلمان آشنا ہوئے اور معتزلہ نے اسے نہ صرف یہ کہ قبول کیا اور دین کو فلسفیانہ موشگافیوں کی نذر کیا بلکہ اس کی ترویج و اشاعت بھی شروع کی ۔  وقت وہ تھا کہ اسلامی حکومت کی چولیں مضبوط تھیں ، نظام اپنی جگہ پر پوری طرج چست درست تھا اورعلماء آسانیوں میں تھے ۔ انہوں نے تعقل آمیزی اور فلسفہ طرازی میں خود کو بری طرح لگادیا اور وہاں وہاں اپنی عقل و خرد کے گھوڑے دوڑانے لگے جہاں عقل و خرد کی رسائی تھی ہی نہیں اور یوں پورے عالم اسلام کو ایک عجیب وغریب قسم کی ایمان سوز بدعت میں مبتلا کردیا ۔ اس کا تجزیہ کرتے ہوئے احمد امین جو معتزلہ کے بڑے قدردان اور حامی ہیں ، لکھتے ہیں " ان پر ( معتزلہ ) پر یہ مواخذہ کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے دین کو عقلی مسائل اور منطقی دلائل کے مجموعے میں بدل دیا ۔ یہ منہج فلسفہ میں تو درست ہو سکتا ہے لیکن دین کے معاملےمیں درست نہیں ہوسکتا ۔ اس لیے کہ دین اس سے زیادہ زندہ شعور کا تقاضہ کرتا ہے جتنا کہ منطقی قواعد کرسکتے ہیں " (رجال الفکر والدعوۃ فی الاسلام ص 195 نقلا من ضحی الاسلام )  فتنہ خلق قرآن اسی فلسفہ آمیزی اور تعقل پرستی کانتیجہ تھا جسے مامون کی سرپرستی میں اس کے درباری معتزلی علماء نے اتنا بڑا مسئلہ بنادیا کہ انبیائی طریقہ عمل اور قرآنی و محمدی سنت کے برعکس ایک نئے طرز فکر و عمل کو ناکارنے کے لیے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو تاريخ ساز قربانی دینی پڑی ۔
      امام احمد بن حنبل کو بجا طور پر امام اہل السنۃ و الجما‏عۃ کہا جاتا ہے ۔ مانا جاتا ہے کہ اللہ نے دو مشکل وقتوں میں اپنے دو خاص بندوں کے ذریعے اپنے دین کی حفاظت کی ۔ ایک رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب مانعین زکوۃ اور مرتدین (اسلام سے پھر جانے والوں  ) کا فتنہ اٹھا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی قوت ایمانی نے اس کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور اللہ کی نصرت سے مالا مال ہوئے اوردوسرے جب قرآن کریم کے مخلوق ہونے کا شوشہ چھوڑ کر فتنہ اٹھایا گیا اور جب ایک دو کے علاوہ سارے علماء نے حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے ہی میں اپنی عافیت سمجھی تو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے پہاڑ جیسے موقف نے اللہ کے دین کی حفاظت کی ۔ امام احمد بن حنبل ائمہ اربعہ میں سے ایک ہیں ۔ محدثین کے زمرے میں بھی ان کا شمار کبار ائمہ حدیث میں ہوتا ہے ۔ مسند احمد بن حنبل ان کی مشہور و معروف اور معتبر کتاب ہے ۔ 164 ہجری میں آپ کی پیدائش ہوئی اور 241 ہجری میں آپ کا انتقال ہوا ۔
امام احمد بن حنبل اپنی خدمت حدیث اور خدمت فقہہ کے لیے تو جانے جاتے ہی ہیں لیکن خاص طور سے آپ کو آپ کی پاکیزہ سیرت ، روشن کردار، زہد و ورع ، صبر وقناعت ، اتباع سنت رسول،  پہاڑ جیسے غیر متزلزل ایمان اور منہج صحابہ و تابعین پرقائم رہنے کے لیے جان کی بازی تک لگادینے کے فراواں جذبے کے لیے جانا جاتا ہے ۔ امام یحی بن معین فرماتے ہیں " میں نے احمد بن حنبل کے جیسا کسی کو نہیں دیکھا ۔ میں ان کے ساتھ پچاس سال تک رہا ۔ انہوں نے کبھی اپنی نیکی اور کامیابی کے لیے ہمارے سامنے فخر نہیں کیا " (حلیۃ الاولیاء 9/181 ) ربیع بن سلیمان کی روایت ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں " احمد بن حنبل آٹھ خصلتوں میں امام ہیں ۔ حدیث میں امام ہیں ، فقہ میں امام ہیں ، لغت میں امام ہیں ، قرآن میں امام ہیں ، فقر میں امام ہیں ، زہد میں امام ہیں ، ورع میں امام ہیں اور سنت میں امام ہیں " ( مناقب الامام احمد ، مقدمۃ التحقیق ص 10 از عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی ) عبدالرزاق بن ھمام کہتے ہیں " میں نے احمد بن حنبل سے زیادہ فقیہہ اور صاحب ورع شخص نہیں دیکھا " (ایضا ) عبدالملک المیمونی رحمہ اللہ فرماتے ہیں " میری آنکھوں نے احمد بن حنبل سے زیادہ بہتر کسی کو نہیں دیکھا۔ میں نے محدثین میں ان سے زیادہ اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرنے والا اور حدیثوں پر شدت سے عمل کرنے والا نہيں دیکھا جبکہ وہ حديث ان کے نزدیک صحیح ہو " ( ایضا ص 11 ) مروذی نے ان س روایت کیا ہے کہ " میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جب کوئی حدیث لکھی تو اس پر عمل کیا یہاں تک کہ میری نظروں سے گزرا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا اور ابوطیبہ کو ایک دینار دیا تو میں نے جب پچھنا لگوایا تو حجام کو ایک دینار دیا " (ایضا 12 ) امام احمد بن حنبل کے بیٹے صالح بن احمد روایت کرتے ہیں کہ واثق کی طرف سے اسی کے عہد حکومت میں ایک پروانہ آیا جس کے اندر ہماری پریشان کن صورت حال کا ذکر تھا ۔ اور چارہزار درہم تھے اور گزارش کی گئی تھی کہ قرض ادا کرلیں ، اپنے اہل و عیال پر خرچ کریں اور یہ وضاحت بھی تھی کہ یہ صدقہ خیرات کا مال نہیں ہے بلکہ اپنے والد صاحب سے ملی وراثت کا حصہ ہے ۔ والد صاحب نے جواب میں لکھا " آپ کا خط ملا ، ہم عافیت میں ہیں ، قرض خواہ ہمیں تنگ نہیں کرتا اور اہل و عیال الحمد للہ اللہ کی نعمت میں جی رہے ہیں " اور یوں دراہم لوٹادیا ۔ ایک سال کے بعد جب ہم نے اس کا ذکر کیا تو کہا کہ اگر ہم نے قبول بھی کرلیا ہوتا تو اب تک وہ ختم ہی ہو چکا ہوتا ۔ (ایضا 16 )
    امام شافعی نے ان سے کہا : امیر المؤمنین نے مجھ سے کہا کہ ہے کہ میں یمن کے لیے کوئی قاضی تلاش کروں ۔اورآپ عبدالرزاق کے پاس جانا چاہتے ہیں ۔ یہ لیجیے آپ کو آپ کی مراد مل گئی ، حق کے ساتھ فیصلے کیجیے اور عبدالرزاق سے وہ سب سیکھیے جس کے آپ جویا ہیں ۔ امام احمد نے امام شافعی سے کہا " اگر دوبارہ یہ بات میں آپ سے سنوں گا تو آپ مجھے اپنے پاس نہیں دیکھینگے "
خشیت الہی کا وہ عالم تھا کہ ان کے بیٹے صالح کہتے ہیں کہ جب کوئی ابو کو دعا دیتا تو کہتے کہ اعمال کا دارو مدار خاتمے پر ہے ۔ (ایضا )
         یہ چند شہادتیں اس لیے پیش کی گئی ہیں کہ اندازہ ہو سکے کہ وہ آدمی جو تن تنہا دنیا کی سب سے بڑی حکومت سے ایمان و عقیدہ کے مسئلے پر ٹکر لے رہا تھا وہ داخلی طور پر کس قدر مضبوط کردار کا مالک تھا ۔ مصر کے بڑے عالم ابوزہرہ مصری نے اپنی کتاب "ابن حنبل حیاتہ وعصرہ ۔ آراءہ وفقہہ" میں  لکھا ہے کہ جب مامون کے اس مطالبے پر کہ قرآن کو مخلوق ماناجائے ، بعض علماء ومحدثین نے انکار سے کام لیا تو اس نے انہیں خط لکھا اور ایک ایک کو ان کی بعض کمیوں کی یاد دلائی اور کہا کہ ان کمیوں کو افشا کرکے انہیں رسوا کردے گا ، اپنے احسانات بھی یاد دلائے اور یوں انہيں خاموش کرنے میں کامیاب ہو گیا لیکن اس کے پاس امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو مطعون کرنے کے لیے کوئی چیز نہیں تھی ۔ اس نے اور اس کے بعد معتصم نے انہيں زدو کوب تو کیا لیکن کوئی ان کے کردار و عمل پر حرف اٹھانے کی جرات نہ کرسکا ۔
        امام احمد بن حنبل کا اصل کردار صرف یہ نہيں کہ انہوں نے معتزلہ کے اس رویے کی مخالفت کی اور قرآن کو مخلوق ماننے سے انکار کردیا بلکہ اصل کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے طریقہ نبی اور قرآنی فکر کو باقی رکھنے پر اصرار کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فلسفہ آمیزیوں میں پڑے ہی نہیں ، مناظرہ کیا ہی نہیں اور کہا تو یہ کہا کہ کتاب وسنت کی کوئی دلیل دے دو اور ہم تسلیم کیے لیتے ہیں ۔ احمد بن ابی دؤاد رئیس المعتزلین کو اس بات کا قلق تھا کہ احمد بن حنبل اس مسئلے پر بات کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتے اور احمد بن حنبل کی فراست یہ تھی کہ قرآن وسنت کا کوئی نص لاؤ اور ہم قبول کرنے کے لیے تیار ہیں اور یوں انہوں نے سرے سے اس پورے طرز فکرو عمل کا راستہ ہی بند کردینا چاہا ۔ اور ہر چند کہ اس راہ میں انہيں جاں سوز مراحل سے گزرنا پڑا ، کوڑے کھانے پڑے ، بے عزتیاں سہنی پڑیں لیکن ٹس سے مس نہ ہوئے اور پھر وہ وقت آیا جب اللہ نے ایک احمد بن حنبل کے ذریعہ پورے دین کو محفوظ کردیا ۔ واثق کے زمانے میں جب محدثین اور اہل سنت و الجماعت کے علماء کی قدردانی ہونے لگی اور اس نے چاہا کہ امام احمد بن حنبل کو نوازے تو امام احمد بن حنبل نے اسے پہلی آزمائش سے زیادہ سخت سمجھا اور اس آزمائش میں بھی کھڑے اترے ۔
     امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی فراست اور قوت ایمانی کا یہی مظہر نہیں بلکہ عظیم مظہر یہ بھی ہے کہ جب معتصم انہیں زدوکوب کررہا ہے اور ان کے اوپر عذاب کی سنتیں تازہ کی جارہی ہیں تب بھی وہ اسے امیر المؤمنیں کہہ کرہی خطاب کررہے ہیں ۔ اس پورے مرحلے میں لمحے بھر کو ان کے ذہن میں یہ نہیں آتا کہ وہ بغاوت کردیں یا عوام کو حکومت کے خلاف ورغلا دیں حالانکہ جس طرح پورے عالم اسلام میں ان کی پذیرائی تھی اور اس مسئلے میں جس طرح پوری مسلم دنیا ان کی طرف نگاہ اٹھائے ہوئی تھی کچھ اتنا بعید بھی نہ تھا کہ وہ اگر اشارہ کردیں تو عوام تختہ الٹنے کو تیار ہو جائیں لیکن وہ تھے بھی تو امام اہل السنۃ و الجما‏عۃ کیسے کرسکتے تھے ایسا غیر اسلامی عمل !
      آج کے اس پر فتن دور میں کئی ایک اعتبار سے اس سیرت کی مسلمانان عالم کو ضرورت ہے جسے سیرت امام احمد بن حنبل سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ سنت رسول پر عمل کرنے کا جذبہ فراواں ، زہدو ورع ، علم و عمل ، صحابہ کرام کے نقش قدم کی پیروی اور ہر صورت میں اشتعال انگیزیوں سے دور رہنے کی بے نظیر مثال ۔ آج واقعۃ اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ جب مختلف غلط سلط فلفسیانہ موشگافیوں کے ذریعہ اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش ہورہی ہے کہ مسلمان نبوی طرز فکر و عمل پر اس طرح جم جائے جس طرح احمد بن حنبل جم گئے تھے ۔ آج مسلمان دور آشوب و فتن میں اسی طرح اشتعال انگیزیوں سے خود کو بچائے جس طرح امام احمد بن حنبل نےبچایا تھا ۔ آج مسلمان سنت رسول کو اسی شدت سے عمل میں لے لے جس طرح احمد بن حنبل کیا کرتے تھے ۔ آج مسلمان کا علماء طبقہ حب دنیا سے ایسے ہی کنارہ کش ہو جائے جس طرح احمد بن حنبل تھے ۔ آج ہمارے پاس علم و شعور کا ایسا ہی خزانہ ہو جیسا کہ امام احمد بن حنبل کے پاس تھا ۔ کتنی ضرورت ہے آج ہم میں احمد بن حنبل جیسے علماء کی کہ احمد بن ابراہیم الدورقی کہتے ہیں " جس کسی کو دیکھو کہ وہ احمد بن حنبل کا برا تذکرہ کرتا ہے اس کے اسلام پر اتہام لگاؤ " (تاریخ بغداد للخطیب : 4 /431 ) قتیبہ بن سعید کہتے ہیں " جب کسی شخص کو احمد بن حنبل سے محبت کرتے پاؤ تو جان لو کہ وہ صاحب سنت ہے " (ترجمۃ الامام احمد ، ص 16 ) اور علی بن المدینی شیخ البخاری کہتے ہیں " اللہ نے ارتداد کے دن ابوبکر کے ذریعہ  اور آزمائش کے دن احمد بن حنبل کے ذریعہ اس دین کو شوکت بخشی ( ایضا 17 )

    کیا ہم اس بات کے لیے خود کو تیار کررہے ہيں کہ اللہ ہمارے ذریعہ اس فتنے کے دور میں اپنے دین ( قرآن و سنت ) کی حفاظت کرلے ؟ کیا ہم احمد بن حنبل کا کردار ادا کرنے کو تیار ہيں ؟ ہے کوئ سننے والا ؟؟؟
غزل
ساگر تیمی
دعا کرو تو دواؤں میں ہو اثر پیدا
خدا جو چاہےغذاؤں میں ہو اثر پیدا
جناب شیخ ! یہی  سنت الہی ہے
عمل کرو تو صداؤں میں ہو اثر پیدا
عصا پڑا تو کئی راستہ بنا دریا
کلیمی ہو تو خلاؤں میں ہو اثر پیدا
غریب آج بھی محتاج آب ودانہ ہے
الہی !  اب تو ہواؤں میں ہو اثر پیدا
سنا تھا ان کی جفا ہی نشان الفت ہے
تمنا ہے کہ جفاؤں میں ہو اثرپیدا
کئی فقیر نے دی تھی دعا مسرت کی
دعا یہ ہے کہ گداؤں میں ہو اثر پیدا
کسی کی یاد میں رونے سے آنکھ  ساگر جی
دعا کرے گی بلاؤں میں ہو اثر پیدا