السبت، يناير 31، 2015

ماں کا پژمردہ چہرہ

محمد شاکر عادل محمد عباس تیمی
جامعہ اسلامیہ،مدینہ منورہ



 ماں تو خوشی سے آج پاگل ہوئی جاتی ہے. پڑوسن پوچھتی ہے کیا بات ہے رحیمن آپا "لگتا ہے کوئی" سونے کا ٹکڑا"ہاتھ لگ گیا ہے! ماں جواب میں کہتی ہے.ان کا چہرہ لائق دید ہے."میرا لعل دسویں کتھا میں اول نمبر لایاہے" زندگی کس مپرسی میں ہے.اور قرض لے کر شیرینی تقسیم ہورہی ہے کہ "میرا بابو"ثانویہ میں فرسٹ پوزیشن لایا ہے. اب جامعہ کے لئے فیس کا بندوبست.نیا ڈریس بھی تو ہونا چاہئے.کتابیں بھی خریدنی ہوں گی.پرانی کتابیں بھی اسٹالوں سے خریدی جاسکتی ہیں.مگر نہیں. ان کا بیٹا کیسے پرانی کتابوں میں پڑھے گا. جب کہ دوسروں کے پاس نئی کتابیں ہوں گی.بیٹا کہتاہے"ماں!ایک جوتا چمڑے کا ہوتا تو..."ابھی الفاظ پورے بھی نہیں ہوئے کہ اپنی مسکنت کے کرب کومسکراہٹ میں چھپا کر کہتی ہے"کوئی بات نہیں میرے لعل میں لادوں گی". گھر سے کالج روانگی کا وقت آن پڑا. ماں نہیں چاہتی کہ اس کے جگر کا ٹکڑا اس سے جدا ہو.مگر کیا کرے! یہ تعلیم و تعلم ضروریات ہیں.واجبات ہیں. زندگی کے تجربات ہیں. جنہیں گھر بیٹھے حاصل نہیں کیا جاسکتا.اس لئے وہ اپنے لاڈلے کی دوری کے الم کو برداشت کرنے پر مجبور ہے. وہ صبر کرتی ہے.سلامتی کی دعائیں کرتی ہے. اور اس وقت کا انتظار کرتی ہے جب وہ اس کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگا.اس کے کمزور بازؤوں کو سہارا دے گا.اس کے لاغر جسم کو قوت بخشے گا.اس کی کمزور بینائی کا بینا بنے گا.اس کاسکھ بنے گا،سکون بنے گا.مشفق ہوگا. لطیف ہوگا.مہربان ہوگا. آج ماں کا حال یہ ہے کہ وہ خوشی سے دوہری ہوئی جاتی ہے کہ اس کی محنت بے رنگ نہ ہوئی. ان کا بیٹا اب پڑھائی مکمل کرچکا ہے. ماشاءاللہ قسمت سے اچھی ملازمت بھی پائی ہے.اور اب ساری فکر اسی بات پر آ ٹکی ہے کہ کوئی پری پیکر اس کے گھر آنگن کی تقدیر بن جائے.رشتوں کا تانتا ہے.اور یہ تو ہونا ہی ہے جب لڑکا ہونہار ہو.وجیہ شخصیت کا مالک ہو. اور سونے پر سہاگہ اس وقت جب کسی اچھی فرم میں ملازم ہو تو ہر لڑکی والا چاہتا ہے کہ اس کی بیٹی کا رشتہ قبول کیا جائے جس کے لئے وہ دعائیں بھی کرتا ہے.سفارشیں بھی لگتی ہیں.ایسا ہی کچھ آج ماں کے اس فرزند کا بھی ہے.  خیر سے رشتہ ہو چکا. اب چند روز میں شادی کی ساری رسمیں ادا ہو جائیں گی.تیاریاں جاری ہیں.آج دعوت نامے تو کل کپڑے کی خریداری. حلوائی کوگلاب جامن اور بالو شاہی کا آرڈر. ماں کے مائکہ والے بھی آئے ہیں.لڑکا کے ماموں زادوں اور خالہ زادوں کی بھیڑ ہے. سبھوں پر ذمہ داریاں تقسیم ہیں جسے وہ اچھے انداز میں نباہنے میں مصروف ہیں.شادی کو مثالی بنادینا چاہتے ہیں.ادھر ماں خوش تو ہے پر تھوڑا کھوئی-کھوئی سی ہے.رہ رہ کر بسااوقات وہ کسی انجانے خوف سے ڈر بھی جاتی ہے.مگر کسی کو اس کا احساس نہیں ہونے دیتی.بلکہ مستعدی سے سارے کام انجام دے رہی ہے.جملہ ذمہ داریوں کی نگراں بھی ہے.اور آج چوں کہ بارات کی روانگی ہے.اس لئے لمحہ بھر کو ان کے جسم میں سکون نہیں. کھانا تو دور کی بات شاید چائے پانی بھی پیا ہو.بس وہ لاڈلا کو سہرا میں سجا دیکھنا چاہتی ہے. ادھر لڑکی والوں نے بھی کسی اچھے ہوٹل کا انتظام کیا ہے جہاں نکاح کے بعد کھانے کی رسم ادا ہوگی اور لڑکی وہیں سے رخصت کردی جائے گی. اور یہ شادی کی رسمیں بھی عجیب ہیں.ابتداء تا انتہا خرافات ہی خرافات.بہت سے افراد اسے اچھا نہیں مانتے تاہم وہ ان رسوم سے آزاد بھی نہیں ہونا چاہتے.نتیجہ سامنے ہے.یہ بارات.یہ لاکھوں کا جہیز.کھانے میں فضول خرچیاں تو اس قدر کے کسی غریب کے گھر اس اخراجات سے مہینوں کا راشن پانی ہو جائے. بہر کیف!اب دلہن گھر آچکی ہے.گاؤں سماج سے دیکھنے والیوں کا تانتا ہے.کچھ تبصرے جہیز پر ہیں تو کچھ لڑکی والوں کے انتظام وانصرام پر.کوئی تعریف کے کلمے پڑھ رہا ہے تو کسی کی عادت ہی صرف نقص نکالنا ہے.اور ابھی یہ سارے ہنگامے ہفتہ دن تو چلیں گے ہی.پھر سارا کچھ معمول پر ہوگا. ماں کی طبیعت آج ناساز ہے مگر وہ اس کا اظہار نہیں کرتی.کہیں دور  سوچوں.میں گم ہے. خود سے باتیں کر  رہی ہیں: " میں دیکھ رہی ہوں جب سے  دلہن گھر میں آئی ہے بیٹا آفس بہت زیادہ ناغہ کرنے لگا ہے.ایسا ہوا تو ملازمت سے بھی ہاتھ دھونی پڑے گی...اور ہاں!پہلے سے رویے میں بھی بہت تبدیلی آئی ہے.پہلے آفس کے لئے گھر چھوڑتا تو سلام اور دعائیں لیتا..آتا تو ماں!ماں!کی پکار لگاتا گھر میں داخل ہوتا.اب تو جیسے ہفتوں کانیں "ماں"جیسے میٹھے اور انمول شَبد (بول)سننے کو ترس جاتی ہیں..مجھے تو کچھ اچھا نہیں لگتا.بس کبھی کبھار اگر اس کے من میں آیا تو رسمی مسکراہٹ لئے سامنے آجاتا ہے اور پھر چلاجاتا ہے.یہی تقریبا 6 ماہ سے شب و روز کا معمول ہے.میں کچھ کہہ بھی نہیں سکتی.ایک دن تو اس وقت حد ہوگئی جب آفس سے گھر پہنچتے ہی بَرَس پڑا.اور نہ جانے کن باتوں کو لے کر پورے گھر کو سر پر اٹھا لیا.میں خاموش رہی.چوں کہ میں جانتی ہوں. بچپن سے یہ تھوڑا سخت مزاج ہے اور کچھ میرے لاڈ نے بھی اسے بگاڑ دیا. اس لئے وہ جب اپنی ننھی زندگی میں بھی کسی ضد اور غصہ کا اظہار کرتا تو میں پیار سے سن لیتی. مگر وہ تو اس کا بچپنا تھا .اب تو وہ شعور والا ہے.کم سنی میں باتوں کی گرفت نہیں ہوتی. بڑا ہونے کے بعد تو ایک-ایک نقل وحرکت کی  نگرانی ہوتی ہے.اللہ بھی انسان کی طفولت کا خیال کرتے ہوئے اسے مرفوع القلم (یعنی اس کی غلطیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھی نہیں جاتیں)سمجھتا ہے.لیکن اب اس کے لفظ پر پہرہ ہے.اللہ کا رقیب مقرر ہے.وہ لکھتاہے.پھر کیوں اس نے ایسا کیا.خیر کیا کروں.اب تو صبر کے علاوہ کوئی دوسری راہ نہیں.اللہ سے اس کی سلامتی کی دعاء کرتی ہوں". اس کے علاوہ بیچاری ماں کربھی کیا سکتی ہے.رو رہی ہے ،بلک رہی ہے،آنکھیں پتھرائی ہوئی ہیں.چہرہ پژمردہ ہے. تنہا سسکیوں میں زندگی کے بچے ایام گزر رہے ہیں.اور لاڈلے صاحب ہیں کہ ان کو فرصت ہی نہیں.طبیعت کی ناسازی کا حال کون دریافت کرے.بہت ہوا تو سامنے سے مسکرا کر گزر گئے جیسے ماں کے احسان کا بوجھ اتار رہے ہوں.صبح ہوئی تو آفس چل دئے.شام گھر لوٹے تو بیوی بچوں میں مصروف ہیں.ہفتے کو چھٹی ملی تو دوست احباب کی آمد یا ان سے ملاقات کی رسم ادائیگی یا شادی بیاہ کی بناؤٹی رسمیں.ماں کی کون خیریت لیتا ہے.کھایا نہیں کھایا.عید کو ایک "ساٹن" کی ساری بابو صاحب نے لاکر دی تھی وہ سال بھر سے چل رہی ہے.بیوی بچوں کے پوشاک جیسے کپڑوں کا گودام ہو.شاید سال میں ایک بار بھی کسی کپڑے کی دوبارہ باری آتی ہوگی.موسم کافی سرد ہے.یوں بھی اس جاڑے میں اچھے اچھوں کی گرمی غبارہ ہوجاتی ہے اور وہ تو بوڑھی ہڈی ہے ٹھنڈک کا کپکپی والا احساس تو اسے اور بھی پریشان کرتا ہوگا.مگر کیا کرے! بس کسی طرح زندگی کاٹ لینا چاہتی ہے.وہی ایک 10 سال پرانی شال ہے جو شوہر صاحب نے اپنی حیات میں لاکر دی تھی اب تو ان کی وفات کو 2 سال گزر چکے ہیں.اور ایک سویٹر جو ان کا لاڈلا والد کی وفات کے بعد لایا تھا. بس!گُدریوں کا اوڑھنا ہے اور چارپائی پر پُوال ڈال کر اناج کی بوریاں بچھا لیتی ہیں.کھانے میں کبھی شاید ہی پہلے کھا لیا ہو.بھوک بھی لگی ہو تو مَن مارے بیٹھی ہیں کہ سب کھالے اور رُوکھا سُوکھا کچھ بچے تو ماں بھی کھالے. وہ اس دن کے بعد سے اور بھی ڈرنے لگی کہ ایک دن بہو کے مائیکہ سے کچھ مہمان آنے والے تھے اور اس موقع پر بہت سے پکوان کے ساتھ "شامی کباب" بھی تیار ہوا تھا.بہو نے اپنے ہاتھوں سے پکایا تھا.یوں عام دنوں میں وہ بہت کم ہی کھانا بنانے کا جوکھم اٹھاتی تھی.مگر آج اس نے بھائی اور بھابھی کی آمد پر کھانا تیار کیا تھا.شوہر نام دار کو سامان کی لمبی چوڑی فہرست تھمائی کے وہ نوکر کے معرفت یہ سامان بھیجوادیں.شوہر تابع دار نے بھی ویسا ہی کیا.اب لذیذ اور مُرَغَّن کھانا تیار تھا.اماں بیچاری کو کیا سوجھی.حالاں کہ اس سے قبل انہوں نے بہو کی آمد کے بعد ایسی جرأت نہیں دکھلائی تھی.تو ہو یوں کہ اماں نے شامی کباب میں سے تھوڑا چَکھ لیا کہ دیکھوں بہو نے کیسا بنایا ہے اور مہمان کی بھی آمد ہے.اب کیا تھا! ایک پوتا کی نظر اس چکھنے پر پڑ گئی .وہ بچہ ذات اسے کیا معلوم کہ نتیجہ کیا ہوگا.وہ ممی سے کہتا ہے:"مَمّی!مَمّی!میں نے ڈیکھا ڈاڈی ڈان ماموں ڈان کا کپاپ کھا لہی تھیں".ان باتوں کا سننا تھا کہ بہو پھٹ پڑیں: "کیا؟ان کو ذرا بھی صبر نہیں ہوتا.انہیں معلوم ہے کہ آج مائکے سے مہمان آنے والے ہیں.ایک تو پہلے ہی سے تھوڑا تھا.اور چھوٹا "احمد"بھی بہت پسند کرتا ہے.اور اس پر سے انہوں نے کھالیا.اب کتنا بچا ہی ہوگا.سارا کام بگاڑ دیا.اس عمر میں آکر لوگ نہ جانے کیوں بے صبر ہوجاتے ہیں". سو اب ماں اسی وقت کھاتی ہے جب سارے لوگ کھالئے ہوں.پھر ماں برتن دھل کر رکھ دیتی ہے. اور بستر پر کروٹیں بدلتے ان کے شب وروز کٹ جاتے ہیں.یہی روزانہ کا معمول ہے.نماز کا وقت ہوا نماز ادا کی. بہو کو تو ڈر سے جگاتی ہی نہیں کہ ان پر برس پڑے گی.صبح اٹھیں. نماز کی ادائیگی کے بعد تلاوت کیا.اور یہ بھی کھٹکا لگا ہے کہ بہو کے بیدار ہونے سے پہلے بچوں کے اسکول کا ٹفن تیار کرنا ہے.ورنہ بہو کی روز روز کی بڑبڑاہٹ:"ایک تو سارے دن بستر پر پڑے رہنا ہے. اتنا بھی نہیں ہوتا کہ بچوں کو اسکول کے لئے تیار کر دوں". اس طرح گھر کی "مالکن" ماں اپنے ہی گھر میں اب بہو کی"نوکرانی" ہے. اور ماں کا لاڈلا جیسے اس کو سانپ سونگھ گیا ہو.اطاعت و فرماں برداری کے سارے جذبے اب کتابوں کی لکھاوٹ ہیں.ماں کو ماضی کی یادیں ڈستی ہیں کہ بیٹا کے بڑے بڑے دعوے تھے:"ماں میں پڑھ لکھ کر جب بڑا ہو جاؤں گا تو یہ کروں گا اور وہ کروں گا".اب جب کہ وہ اچھی تنخواہ دار ہے تو ماں کا کچھ بھی خیال نہیں.وہ  ساری صعوبتوں کو بھول چکا جو اس کی ماں نے اس کی پرورش اور تعلیم وتربیت میں اٹھائیں.اب بس ایک ہی دھن ہے.دولت جمع کرنی ہے ،بچوں کی تعلیم ہے اور بیوی کی نازبرداریاں. یہ تعلیم یافتہ،اشراف اور مہذب ومثقف لوگوں کے سماج کا نقشہ ہے.جن کی اونچی دیواریں بظاہر بلند ہونے کا پتا دیتی ہیں مگر وہ حقیقت میں پست ہیں. رہی بات پچھڑے سماج کی تو وہ اس بات کو قبول کرنے کے لئے تیار ہی نہیں کہ ماں کے حق میں ان کی کوتاہیاں کوتاہیاں بھی ہیں.ان کا کہنا یہ ہے کہ میرا تو اپنا ہی تن کھلا رہتا ہے.خود کا اور بچوں کا پیٹ بھی نہیں بھر سکتا تو ماں کو کہاں سے دوں.کیا ان کے جواب سے اتفاق کیا جاسکتا ہے؟؟؟ان کے یہاں بیوی اور بچوں کے حقوق وجوبی ہیں.اورماں کے لئے ان کی زیارت ہی کرلینا کافی ہے.یعنی:خالی ہاتھ مسکرا کر بے شرمی سے چلے جائیں،ان کا راشن پانی کھالیں اور ہاتھ سُکھا کر چلے آئیں.یہ ان لوگوں کا رویہ ہے جن کی مائیں اپنے اجداد کی زمین پر ہوتی ہیں اور اولاد ملازمت کے لئے اپنے گاؤں یا وطن سے دور اہل خانہ کے ساتھ. بہت ہوا یا کسی نے عار دلائی تو دو چار ماہ پر ہزار دو ہزار کسی کے معرفت بھیج دیا.یا وہ بھی ضروری نہیں سمجھا. کہاں ہے یہ طبقہ؟؟؟ کوئی ان سے اس کا جواز طلب کرے. یہ بات بالکل درست ہے کہ گھر بیٹھے کچھ بھی نہیں ہوتا. روزگار کے لئے ہاتھ پاؤں مارنا ہوگا.گھر کی دہلیز سے باہر نکلنا ہوگا.لیکن روزگار کا بہانہ بناکر کیا ماں کے حقوق سے چشم پوشی کی جاسکتی ہے؟کیا ماں کے حقوق یہی ہیں کہ کچھ بندھی رقمیں ماہانہ ڈاک سے لگا دی جائیں ؟ یہ میں نے کچھ زیادہ کہہ دیا. بلکہ دو چار ماہ پر کچھ رقمیں ارسال کردیں اور اپنی ذمہ داریوں سے مطمئن ہوگئے. کہاں گیا احسان؟ماں کے ساتھ حسن سلوک کیا اسی کا نام ہے؟ان کے لئے اپنے بازؤوں کو بچھادویہ اللہ کا حکم ہے.بہت ہی نادر ہے ایسی مثال ہمارے معاشرے میں جو اللہ کے فرمان کی عملی تفسیر پیش کرتی ہو.اس کے برعکس ماں کے ساتھ بدسلوکی سماج کی شناخت بن چکی ہے .ماں سے اونچی آواز میں کلام،بات-بات پر جِھڑکی، طعنے دینا اور برا بھلا کہنا یہ بہت ہی معمولی بات ہے.بلکہ نوبت تو یہ ہے کہ ہاتھ بھی اٹھانے میں تامل نہیں ہوتا اور مار پیٹ کرتے ہیں.یہ ہے ہمارا سماج جس میں ماں کی حالت یتیم ونادار اور بیواؤوں سے بھی بدتر ہے. استغفراللہ! جب کہ اللہ کا حکم ہے: "جب والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہو". لعن طعن تو بڑے جرات کی بات ہے. معاشرہ میں ایک طبقہ ایسا بھی پایا گیا جو اپنی وسعت بھر ماں کے حق سے ادا ہوتے ہیں مگر ساتھ ہی وہ جتلانے سے بھی باز نہیں آتے.اور یہ عموما اس وقت دیکھا جاتا ہے جب کسی کو اللہ نے اولاد سے نوازا ہو.چناں چہ بھائی آپس میں ایک دوسرے کا منھ تکتے ہیں کہ ان کا بوجھ کون اٹھائے.بوجھ اس لئے کہ اولاد ماں کی دیکھ ریکھ اس نیت سے نہیں کرتی کہ اس پر ان کے اللہ کی جانب سے فرض حقوق ہیں.بلکہ سماج کا عار اور اس کا طعن اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ اس بوجھ سے بری ہوجائیں.کیا امید رکھی جائے ایسی خدمت سے. کیا یہی احسان ہے جس کا ذکر اللہ رب العالمین نے بطور وصیت کیا: "ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ سے متعلق نصیحت کی ہے،اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا،اور اس کی دودھ چھڑائی برس میں ہے کہ تو میری اور اپنے والدین کی شکر گزاری کر،تم سب کو میری طرف لوٹ کر آناہے". (لقمان/14) اور صحیح بخاری اور مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا:لوگوں میں کون سب سے زیادہ میرے حسن سلوک کا مستحق ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تمہاری ماں".پھر پوچھا:پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"پھر تمہاری ماں".پھر پوچھا:پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پھرتمہاری ماں".پھر پوچھا:پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تمہارا باپ ". بلکہ بسااوقات ماں کی نافرمانی موت کے وقت کلمہ توحید کے اقرار سے روک دیتی ہے.جیسا کہ عبداللہ بن ابی اوفی کی مشہور روایت ہے کہ ایک شخص موت کے وقت کلمہ توحيد کا اقرار صرف اس وجہ سے نہیں کرپارہا تھا اور تکلیف میں تھا کہ وہ اپنی ماں کا نافرمان تھا،گرچہ وہ نمازی تھا.پھر جب اس کی ماں نے رضامندی ظاہر کی تو اسے کلمہ کی توفیق ملی. اللہ رب العزت کی اس وصیت اور نافرمانی کے انجام کو معلوم کرنے کے بعد بھی اگر کوئی معاشرہ اپنی ماؤوں کے حق میں بے حس ہوگا تو پھر اس کا کوئی علاج نہیں کہ وہ اللہ تعالی کے حضور جواب دہ ہے.اور عجب نہیں کہ وہ دنیا ہی میں آلام ومصائب سے دوچار کیا جائے جیسا کہ عبداللہ بن ابو اوفی صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں گزرا کہ وہ شخص کلمہ توحید کی ادائیگی سے محروم تھا جس نے ماں کی حکم عدولی کی. اخیر میں یہی کہ ماں کی عظیم ممتا کا کوئی مول نہیں.ماں کی بے پناہ محبت،9 ماہ شکم میں برداشت کرنے کی صعوبت اور پھر بعد ولادت رضاعت وطفولت سے سن شعور کا مرحلہ.اگر ایک ذی شعور اور زندہ شخص ان کی بے لوث قربانیوں پر غور کرے تو وہ تاحیات ان کا ایک وفادار اور متواضع غلام بن کر زندگی گزارے گا. اللہ ہماری ماؤوں کے درجات بلند کرے.ان کے سیئات مٹائے اور اس کا نعم البدل جنت الفردوس دے. ■■■■■■■■■■■■■■■■■ ملاحظہ:اس تحریر میں جملہ باتیں ماں کو سامنے رکھ کر کی گئی ہیں.اس لئے کہ ماں کا چہرہ اور اس کا مقام وفضل سماج میں سب سے بڑھا ہواہے.اور اللہ تعالی کے یہاں بھی ماں کا باپ کی نسبت کچھ الگ اور خاص مقام ہے. پھر یہ کہ باپ کے اندر بحیثیت مرد مشکلات کے مقابلہ کی قوت زیادہ ہوتی ہے اور وہ اولاد کی نافرمانی کے قلق کو بہت حد تک برداشت کرلیتا ہے.جب کہ ماں کے لئے یہ بات بڑی شاق ہوگی کہ اس کا وہ لاڈلا جسے اس نے اپنے بطن میں 9 ماہ رکھا،زچگی کی سخت تکلیف کو جھیلا،دودھ پلایا،اس کی ٹھنڈی گرمی کا خیال کیا اور پھر وہ نافرمان ہوگیا.

الجمعة، يناير 30، 2015

ثبوت اور حجت کے بغیر کسی مسلمان کو کافر قرا دینے سے گریز کریں!


اردو قالب: شفاء اللہ الیاس
جامعہ امام ابن تیمیہ

۱-کسی فرد مسلم کو کا فرٹھرانے سے احتراز برتنا ضروری ہے, کیونکہ کسی ایسے مسلمان کو کافر کے زمرے میں شامل کرنا جس کے اندر کفر کا کوئی شائبہ نہ ہو, گناہ عظیم ہے, اس سلسلے میں امام بخاری اور مسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ سے ایک روایت نقل کیا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس فرد بشر نے بھی اپنے بھائی کو کافر کہا, تو دونوں میں سے کسی کے ساتھ یہ تکفیر ثابت ہوجاتی ہے, اگر یہ صفت دوسرے کے اندر نہیں پائی جاتی تو قائل اس صفت سے ضرور متصف ہوجاتا ہے"
 امام ابن حبان نے اپنے صحیح اور امام بخاری نے " التاریخ الکبیر" میں ایک دوسری حدیث حضرت حذیفہ سے روایت کیا ہے جس کے اندر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگوں پر مجھے اس شخص کا زیادہ خوف ہے جو تلاوت قرآن کا اتنا خوگر ہو کہ اس کا جمال اس کے اوپر عیاں ہو, لیکن وہ اسلام کو سمجھنے میں غلط فہمی کا شکار ہواور اس کے  درست مفہوم سے بہت دور بھٹک رہا ہو,نتیجتا اسلام سے بھی دور ہوجائے اور اسلام کے سچی تعلیمات کو پس پشت ڈالکر اپنے پڑوسی کو شرک کا مرتکب قراردیدے اور اس کے خلاف تلوار سونت لے, حضرت حذیفہ کہتے ہیں :میں نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول ! ان میں سے کون زیادہ شرک کے قریب ہوگا؟ وہ شخص جس کے اوپر شرک کا الزام لگایا گیا, یا وہ شخص جس نے شرک کا الزام لگایا؟  جواب عرض ہوا : الزام تراشنے والا ہی سب سے زیادہ شرک کا حقدرا ٹھریگا"(بہ تحسین علامہ البانی)
۲-یہ شدت وسختی ایسے شخص کے باے میں ہے جو اپنے مسلم بھائی کے حق میں صفت کفرکو ثابت کرے جبکہ وہ اس سے بالکل ہی پاک صاف ہو, اور جرأت تکفیر کے لئے اس کے پاس شرعی دلیل اور بین ثبوت بھی نہ ہو, لیکن اگر کوئی مسلمان ایسے شخص پر کفر وشرک کا حکم لگاتا ہے جو واقعی کافر اورمشرک ہے, اور اسکا کفر واضح بھی ہے, تو اس کے ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے, کیونکہ اس نے مشرک شخص کو ایسی صفت سے متصف کیا ہے جس کا وہ حقدار ہے,حدیث رسول کے الفاظ بھی یہی بتاتے ہیں" فإن کان کما قال وإلا رجعت علیہ" جس سے یہ مطلب واضح طور پر سمجھ میـں آتا ہے کہ اہل شرک وکفر کو کافر اور مشرک ٹھرانے میں کوئی قباحت اور شرعی ممانعت نہیں ہے,کیونکہ کفر کو واجب ٹھرانے والی جو صفات اسلام میں بتائی گئی ہیں, وہ ایسے لوگوں میں بدرجئہ اتم پائی جاتی ہیں,جن کے سبب انہیں کافر اور مشرک کہنے والے شخص پر کسی قسم کی شرعی گرفت کا جواز نہیں بنتا,شیخ ابن باز رقم طراز ہیں: جس شخص کے اندر کفریہ یا شرکیہ اعمال موجود نہیں, اس کے اوپر تکفیر کا حکم لگانا شرعی زاوئے سے درست اور جائز نہیں, ہاں اگرکفریہ یا شرکیہ صفات اس کے اندر پائی جائیں تو کفر وشرک سے اسے موصوف کرنا قابل اعتراض نہیں, اور نہ ایسا کہنے کرنے والے کے اوپر کو ئی سرزنش ہے(فتاوی نور علی الدرب)
مذکورہ حدیث کے اندر  "خوارج" کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جنہوں نے مسلمانوں کو کافر ٹھرانے کی بدعت ایجاد کرکے امت میں تکفیر کا دروازہ کھولا, ان کا ماننا ہے کہ جو کبیرہ گناہوں کے مرتکب ہیں,اور جو معاصی میں مبتلا ہیں,وہ در اصل کفر کر رہے ہیں, اسی غلط فکر اور بے بنیاد عقیدہ کی وجہ سے ایسے گنہگار لوگوں کا قتل تک ان کے نزدیک مباح ہے, ان کے اس باطل عقیدہ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ صنم پرست کو چھوڑ کر اللہ اور رسول اللہ کے اقراری گنہگاروں سے قتال وجدال جائز اور روا ہے_
۳-شرعی دلیل پائے جانے سے پہلے ہی کسی مسلمان کو اس کے ظاہری عمل کی بنیاد پر کافر کے صف میں شمار کرنا شرعی تعلیمات کی روشنی میں جائز نہیں, اس سلسلے میں شیخ ابن عثیمین لکھتے ہیں کہ بغیر حجت قائم  کئے کسی انسان پرکفر کا حکم ثبت کرنا اسلام کی نگاہ میں درست نہیں, کونکہ اللہ کا فرمان ہے" وأوحی إلی ھذا القرآن لأنذرکم بہ ومن بلغ" نیز اللہ کا ارشاد ہے "وما كان ربك مهلك القرى حتى يبعث في أمها رسولا يتلو عليهم آياتنا وما كنا مهلكي القرى إلا وأهلها ظالمون " مطلب یہ کہ انبیاء ورسل اور آسمانی کتابوں کے نزول کا اصل مقصد انسانوں پر حجت قائم کرنا اور انہیں حقیقی علم سے روشناس کرانا ہی تھا, تاکہ بغیر دلیل اور ثبوت وحجت کے کسی کو کافر ٹہرانے اور اسے عذاب میں مبتلا کرنے کا جواز باقی نہ رہے_
شیخ مزید لکھتے ہیں : کفریہ اعمال کے صدور اور اس سلسلے میں دلیل اور حجت ثابت ہونے سے قبل کسی شخص معین کو کافر ٹھرانا روا اور جائز نہیں_(فتاوی نور علی الدرب)
کسی فرد مسلم پر کفر وفسق کا حکم لگانے سے قبل دو چیزوں کالحاظ رکھنا ضروری ہے:
۱-جو فعل انجام دیا جارہا اور جو بات کہی جارہی ہے,دونوں شرعی دلیل کی روشنی میں کفر اور فسق کو واجب قرار دینے والے اعمال میں سے ہیں یا نہیں_
۲-تکفیر کا حکم اسی حالت میں جائز ہو سکتا ہے جبکہ کفر اور فسق کو واجب قرار جینے والی تما شرطیں اس کےحق میں ثابت ہورہی ہوں  اور کفر وفسق کی نفی کرنے والی ہر قسم کی ممانعت مفقود اور غیر موجود ہوں_
تکفیر کے اہم شروط:
۱-وہ شخص اس شریعت مخالف قول وعمل سے باخبر ہو جس کے سبب اس کا فسق اور کفر ثابت ہورہا ہے
۲-بغیر کسی قصد وارادہ کے اگر وہ کسی ایسے عمل کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے جس سے کفر ثابت ہوتا ہے,  تو اسے کافر نہیں قرار دیا جاسکتا, کیونکہ یہ تکفیر کے موانع(روکنے والی چیزوں) میں سے ہے_
۳-تکفیر کے موانع میں یہ بھی ہے کہ انسان کے اندر درست تاویل کرنے کی قابلیت ہو, اس کے اندر بعض ایسے شبہات پائے جاتے ہوں جو شریعت کی حقیقی دلیل کو سمجھنے اور شرعی حجت کے صحیح مفہوم تک پھنچنے کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہوں_
ایسے مقام پر یہ بات زیادہ اہم اور سنگین بات یہ ہے کہ شخص معین جو کسی غلطی,نادانی, جہالت, تاویل مباح  یا ان جیسی دوسری عذر کے سبب معذوربھی ہو سکتا ہے,کی تکفیر سے بچنے کا مطلب یہ ہے گز نہیں کہ  اس طرح کے قول وعمل ہی کو بنفس نفیس کفر وشرک کی صفت سے پاک صاف مان لیا جائے, بلکہ ایسے اعمال کا شرک قرارپانا حکم الہی سے ثابت ہو چکا ہے, یہی اس سلسلے میں زیادہ اہم ہے او راس باب میں یہی مطلوب بھی, بطور خاص ایسے وقت میں جب جہالت ونادانی سرچڑھ کر بول رہی ہو, اعتقادی کمزوریاں رواج پارہی ہوں, اور اس سلسے میں ثبوت و حجت کی ضرورت تک محسوس نہ کی جاتی ہو اور بسا اوقات ایسے افعال واقوال کے مرتکبین کى حالات کو حقیقت سے زیادہ نظریاتی طور پر لیاجارہا ہو_

زمان ومکان کی تفریق سے اوپر اٹھ کر دعوت کی راہ میں سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے خلاف جو بھی اعمال ہیں, انکی تفصیل اور توضیح پیش کی جائے اورشریعت کو ہی اعمال واقوال کو پرکھنے کا میزان مانا جائے تاکہ کوئی بھی انسان اس قسم کا کوئی بھی کام انجام دینے کی جسارت نہ کرسکے اور ان سے گریزاں رہے_

الثلاثاء، يناير 27، 2015

عالمی د ہشت گردی کا موجودہ منظر نامہ (ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ)

سیف الرحمان حفظ الرحمان تیمی
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ

آج دہشت گردی کی جو تصویر افق عالم پہ چھائی ہوئی ہے اور فضاء کائنات جس کے گندہ سے مکدر ہو رہی ہے...کسی بھی دین دھرم اور آسمانی پیغام وپیام سے اسکا دور کا بھی رشتہ نہیں...کیونکہ مذہب ظلم کی مخالفت کانام ہے..جبکہ انتہا پسندی کا اصل نام ہی ظلم ہے...!
جب حقیقت اس طرح ہے تو یہ دہشت گرد ہیں کون...جبکہ وہ بھی خود کو مذہبی کہتے اور دنیا بھی اسے مذہب سے جوڑتے نہیں تھکتی...؟
دہشت گرد در اصل ہر وہ انسان ہے جو لوگوں پر ظلم کرتا ہے,سرکشی روا رکھتا ہے,نوعیت جو بھی ہو, شکل جیسی بھی ہو...صرف ظلم ہے تووہ دہشت اورتشدد ہے..!
مظلوم وہ ہے جو دہشت,ظلم اورتشدد کانشانہ بنے, انصاف کو دربدر نگر نگر بھٹکے اور مایوس لوٹ آئے..تھک ہار جائے.. ٹوٹ پڑے..پھوٹ پڑے..جسے کہیں سے بھی  دلاسا اور دل آشا نہ ملے...وہ اپنا دفاع کرنا چاہے, اپنے بچاؤ کا اپائے کرے پھر بھی ظالم کہلائے...موجودہ عالمی منظر نامے پہ یہی دوہرا پیمانہ غالب سے غالب تر ہوتا دکھائی دے رہا ہے, ظالم کا ظلم مضبوط تر ہوتا جارہا ہے, تباہی اور بربادی کے وسائل وسیع تر ہوتے جارہے ہیں...دوسری طرف مظلوم کی آہ وفغاں تیزتر ہوتی جارہی ہے, کسک بڑھ ہی رہا ہے, اس کا دفاعی اقدام , وسائل اپنانے کی کوشش, اور انتقامی جذبہ کے اظہارکو بھی انتہا پسندی کہا جارہا ہے,مظلوم کے اس دفاعی انتظام کو اس کے مذہب سے جوڑ کر, اسے باغی اور انتہا پسند مذہب کا پیروکار ہونے کا ملزم قرار دیکر, زمانے کی نظر میں اسے مجرم بتایا جارہا ہے...یہ سب کھلے عام زمانے کی پھٹی آنکھوں کے سامنے دن کے اجالے میں سرعام سر مجلس ہو رہا ہے....ایسا مظلوم جب تمام اسباب زیست سے تہی دست ہوجاتا ہے, دنیا اس کے سامنے اندھیری ہوجاتی ہے,پھر جب وہ عقل سے بھی معذور ہوجاتا ہے, زندگی اور موت اس کے لئے برابر ہوجاتے ہیں, تب وہ موت کا مزید انتظار کرنا بے سود سمجھتا ہے...موت کی طرف خود بڑھنے لگتا ہے...؟ اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کا گلہ گھونٹ دیتا ہے, موت کا جام گھونٹ لیتا ہے..اس وقت یہ مظلوم بھی بظاہر ظالم ہوتا ہے.. اسے اس ظلم پر اسکا پہلا ظالم مجبور کرتا ہے,یہ ظلم بھی اسی کو عود کرتا ہے..دوہری دہشت گردی کا یہ مجرم پھر بھی زمانے کا ہنر مند انٹلکچوئل کہلاتا ہے, بدستور دندناتا پھرتا ہے, اورظلم بالائے ظلم کہ  دنیا کو وہی امن پسندنظر آتا ہے...؟!
یہ عالمی دہشت گردی کا وہ منظر نامہ ہے جو دراصل  منظم کوششوں کا نتیجہ اور خاص مقصد کے حصول کی کاوشیں ہیں جسے اگر دنیا پر حاوی ہونے کی یہودی پلاننگ سے تعبیر کیا جائے تو کچھ بے جا نہ ہوگا...!
یہود اس حقیقت سے واقف ہیں کہ اس دنیا میں اگر کوئی مذہب, ملت, دین اور کوئی قوم اس کی فساد انگیزی, انسانیت کے خلاف اسکی درندگی, دنیا پر قابض ہونے کی اس کی پلاننگ, اور اپنے اثرورسوخ کو نافذ کرنے کی یہودی سازش جیسے مقاصد کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے تو وہ ہے دین اسلام اور قوم مسلم, اسی وجہ سے ابتدائے اسلام ہی سے یہود اپنے مقصد برآری کے لئے مسلمانوں کو گروہوں اور فرقوں میں تقسیم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے, وہ مسلمانان عالم کو ایک ہی دین کے پیرو ہونے کے باوجود اس قدر ٹولیوں میں بانٹنے میں کامیاب ہوچکا ہے کہ سب آپس میں ایک دوسرے کے جان کے دشمن بنے پڑے ہیں, ہم سب دین کے نام پر ہی باھم متفرق ہیں, ایک دین, ایک رسول, ایک قرآن اور ایک قبلہ کے ہمہ جہت اتحاد کے باوصف ہم انتشار اور عناد ہی کو ترجیح دے رہے ہیں,اپنے ہی بھائی کواپنا دشمن سمجھتے, ایک دوسرے کو ایک آنکہ نہیں دیکھنا چاہتے, باہم دست وگریباں ہیں" إن الذین فرقوا دینہم وکانوا شیعا لست منھم فی شیئ إنما أمرھم إلى اللہ ثم ینبئھم بما کانوا یفعلون" (انعام: ۱۵۹)
برطانیہ کی ایک خبر رساں ایجنسی نے ایک دلچسپ خبر نشر کی ہے جس میں اس حقیقت سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ بیسویں صدی کے چوتھے دھے میں یہودیوں نے بیس افراد پر مشتمل اپنی ایک ٹیم جامعہ أزھر روانہ کیا تاکہ وہاں باضابطہ اسلام کو پڑھے اور اسلام کے دروبست سے آگاہی حاصل کرے...یہ چالیسوں افراد باقاعدہ أزھر سے فراغت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اورپوری اسلامی دنیا میں پھیل گئے...اسلامی رنگ ڈھنگ..مسلمانہ لب ولہجہ..اور مذہبی لبادہ میں ان یہودیوں نے اسلام کے نام پر یہودی دہشت گردی پھیلانا شروع کردیا..اسلامی فکر کے ظاہری خول میں یہودی شدت پسندی, سرکشی,غلو آمیزی,اور دہشت گردی کو پھیلانے کی مہم چل پڑی..یہاں تک کہ اسلام کے نام پر چلنے والی یہ یہودی دہشت گردی, یہودیوں کی مشہور شدت پسندی سے بھی تجاوز کر گئی..کیونکہ اسلام کو دنیا کا سب سے انتہا پسند مذہب کی شکل میں پیش کرنا مقصود تھا,اس لئے اس راہ میں کوئی کوئی کوتاہی روا نہیں رکھی گئی ..اتنا تو بظاہر تھا..بباطن جو نظریہ روبہ عمل تھا وہ یہ کہ یہودیوں کہ علاوہ تمام غیر اقوام( بطور خاص مسلمان)کے ساتھ جو چاہو ظلم روا رکھو, انہیں جینے کا حق ہی نہیں ہے, انہیں جینے ہی نہ دو..یہی وہ زہریلی یہودی فکر ہے جسے صحابئہ کرام کے عہد ذریں سے ہی اسلام کی انسانیت نواز اور ہمدردانہ فکر پر غالب کر نے کی انتھک کوششیں کی جارہی ہیں..یہی وہ مسموم فکر ہے جو منافقانہ رنگ وروپ اوڑھ کربنام اسلام  دنیا میں پھیل رہی ہے..دنیا اسے ہی اسلامی دہشت گردی کا نام دے رہی ہے... آج دنیا جہان میں جو کچھ بھی دہشت گردی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں, در اصل وہ اسی انسانیت سوز یہودی فکر کا عملی نتیجہ ہے, انکی دیرپا دسیسہ کاریوں کا ثمرہ ہے, مسلمانان عالم کے لئے باہمی افتراق کو قبول کرنے کی سزا ہے, تمام تر دینی اتحاد کو پس پشت ڈالکر یہودیوں کا آلئہ کار بننے کا جو گناہ ہم نے اپنی نادانی سے کیا ہے, آج عالم اسلام اسی کی سزا دہشت گردی کے جہنم کی شکل میں بھگت رہی ہے... اسلامی دہشت گردی کے نام پر آج جو کچھ بھی سنے دیکھنے کو آرہا ہے, وہ سب ایسے ہی لوگوں کے کئے دھرے ہیں جنہیں دنیا اسلام کا پیرو سمجھتی ہے, جبکہ وہ ایسے منافقین ہیں جو اسلامی شکل میں یہودی عقل سے کام کر تے ہیں..یہ "یہودی أزہر" کے پروردے ہیں...افراد استعمال کرنے کے اس حربے پریہودی شروع زمانے سے عمل پیرا ہے, تاکہ دنیا ان کے ہاتھوں تخلیق کردہ اس اسلامی دہشت گردی سے نبرد آزما رہے, اسکی بلائوں سے مسلسل جوجھتا رہے, دفاعی اقدامات میں اس قدر مشغول ہوجائے کہ اصل چہرہ تک اسی کی نظرہی نہ پہنچ سکے,پوری دنیا سے مسلمانوں پر عتاب برسے اورمردود یہودی اور صہیونی اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل میں مصروف رہیں, فساد کی آگ پر تیل چھڑکتے رہیں, دنیا اسکی جھلس سے بھسم ہوتی رہے اوراس کی ایوانوں میں خوشی کے شادیانے بجتے رہیں,فلسطین لالہ زار ہو,عراق لٹ جائے,شام اور لیبیا میں قہرنازل ہو, مصر,افغان, ایران,اور تمام مسلمان امن کے نام کو ترس جائیں, چین کو ڈھونڈتے پھریں, نگر نگر شور ہو پھر بھی دنیا کو ظالم بھی ہم ہی نظر آئیں, یہودی اور صہیونی لابیوں کے شفاف چہرے پر ایک شکن تک نہ آئے...دنیا کو کسی کی فکر دامن گیر رہے تو بس یہودی میڈ اسلامی دہشت گردی کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکنے کی فکر...جس میں ساری دنیا ایک ساتھ کوشش کرنے کے بعد بھی ناکام ہے..اور ناکام ہی رہیگی..کیونکھ ایک غیر موجود کو وجود دینے سے پہلے اسکا خاتمہ کیسے کیا جاسکتا ہے...وجود تو جس نے دیا ہے وہ پردے کے پیچھے ہے اور سارے نمبر رانگ ڈائل ہو رہے ہیں...!
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچہ

دیتے ہیں بازی گر دھوکا کھلا

الاثنين، يناير 26، 2015

جامعة امام ابن تيمية میں یوم جمہوریہ کی مناسبت سے مشاعرہ کا انعقاد



                                                               آصف تنویر تیمی

جامعہ امام ابن تیمیہ ہندوستان کا وہ دینی ادارہ ہے جس کی شہرت دنیا میں اس کے باکمال اساتذہ اور طلبہ سے ہے. یہاں کے طلبہ میں بیک وقت گونا گوں خوبیاں اور صلاحیتیں پائی جاتی ہیں.وہ عربی، اردو اور انگریزی زبانوں میں تقریر وتحریر کی مہارت رکہتے ہیں.زبان کی دونوں قسموں نثر ونظم پر انہیں عبور ہوتا ہے.ان کی تحریر میں آزاد کا عکس اور نظم میں غالب ومیر کی جہلک ہوتی ہے.وہ ابتدائی درجات سے ہی مثر ونظم گوئی کی مشاقی کرتے ہیں، انہیں اسٹیج فراہم کیا جاتا ہے، ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، ان کے بال وپر کو سنبہالا جاتا ہے.جامعہ میں "حلقہ ادب" اور مشاعرے کی تاریخ بڑی پرانی ہے، يہ "کیفی" کی یاد، "شکیل" کی کوشش اور "شیدا" کے شدت ذوق کی امین ہے.یہ حسین ماضی کی داستان اور صبح نو کی کرن ہے.ماضی کی تاریخ کو دہراتے ہوئے آج 26/جنوری 2015 ء کو جامعہ میں ایک شاندار مشاعرے کا انعقاد عمل میں آیا، جس کے محرک دو کہنہ مشق شاعر ایک استاذ اور دوسرے ان کے شاگر اس سے میری مراد جناب ماسٹر مشتاق احمد شیدا اور جناب ابراہیم سجاد تیمی ہیں، دونوں کی کوششوں سے آج کی رات سہانی ہوگئی. بہائی ذبیح اللہ تیمی نے بہی مشاعرہ میں خوب رنگ بہرا، اپنی خوبصورت نظامت کے ذریعہ سامعین کے ذہن ودماغ پر حاوی رہے.ابہرتے شعراء میں بہائی نسیم وسہیل نے بہی اپنے کلام سے سامعین کو خوب محظوظ کیا، غزل کی گہرائی میں جہانکتے دکہے، اس کے نشیب وفراز کا جائزہ لیا، خوب واہ واہی سے ان حضرات کے اشعار کا استقبال کیا گیا، اس کے علاوہ محفل مشاعرہ میں بعض دیگر حضرات بہی تہے، مولانا اشفاق سجاد سلفی(حفظہ اللہ) اور مولانا شجاعت حسین رحمانی نے بہی عربی واردو کے بعض اشعار پیش کیے. مجلس کی صدارت کی ذمہ داری بزرگ استاذ جناب ماسٹر مشتاق احمد شیدا نے انجام دی.کل ملا کر آج کی یہ ادبی نششت اپنے مقصد میں کامیاب رہی،واضح رہے کہ بعض طلبہ نے بہی اپنے کلام کے ساتہہ اس پروگرام میں شرکت کی.سچ بتاوں تو مزہ آگیا اپنے "سر" کے اشعار سن کر، ابراہیم بہائی کے اشعار کے بارے میں کیا کہنا تعلیق سے خالی ہیں،نام ہی کافی ہے.اللہ ہم سب کو حسن عمل کی توفیق بخشے. (آمین)

السبت، يناير 24، 2015

فضول خرچی اور پان

آصف تنویر تیمی


قرآن وحدیث میں فضول خرچی اور اسراف کو ناجائز قرار دیا گیا ہے.اللہ تعالی نے تو ایک جگہ اسراف کرنے والے کو شیطان کا بہائی ٹہرایا ہے.اور پیارے بنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع سے ارشاد فرمایا:"اگر تم بہتے چشمہ کے پاس بہی ہو تو پانی کم بہاو".اور یہ حکم ایک نیک اور مباح عمل وضوء کے تعلق سے دیا، تو ایسے اعمال کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے جو سراسر حرام یا ناجائز ہوں،یقینا یہ قابل غور بات ہے.
آئیے اب ذرا اپنے گہر سے نکلیں اور اپنے اور اپنے بہائیوں کی فضول خرچیوں کا جائزہ لیں.

سورج اپنی لالی کے ساتہہ رات کی تاریکی کے بعد روشن ہونا چاہتا ہے، لوگ اپنے بستروں سے اٹہہ رہے ہیں، کسی کی زبان پر کلمہ ہے، کسی کی زبان پر گالی تو کوئی گانے اور صبح کی عالمی خبروں سے اپنے جنرل نالج میں اضافہ کرنا چاہتا ہے.صبح کی روشنی میں تو سب نہارہے ہیں، مگر بہ حیثیت مسلمان عمل میں فرق سب کے ہے.فجر کی نماز کی بات تو میں نے اس لیے نہیں کہی کہ ڈر ہے کہ کہیں میرا بہی نام اس بلیک لسٹ میں نہ آجائے.ایسے بہت کم اللہ والے ہیں جو اپنی صبح کا آغاز فجر کی باجماعت نماز سے کرتے ہیں، اور ان کا نام اللہ کے حضور پیش کیا جاتا ہے.

خیر یہ باتیں تو ہم سب اپنے میاں مولوی صاحب سے بلاناغہ جمعہ اور دیگر دینی محفلوں میں سنتے رہتے ہیں.اور ان بے چاروں کا کام بہی اس کے علاوہ کیا ہے، ان سے کہانا بہی کہاتے ہیں اور ضرورت پڑی تو گالیوں کا سوغات بہی ملتا ہے.بہائی آپ مولوی برادری کو مظلوم مانیں یا نا مانیں لیکن میں تو آئندہ اسمبلی الیکشن میں اس کو اپنا مدعا ضرور بناوں گا ہوسکتا ہے، میں اس کے ذریعہ پارلیمنٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاوں.اور ویسے بہی ہماری برادری کے بہت سارے لوگ سیاست کی سیڑہیوں پر پہلے سے موجود ہیں.

اوہ! میں بہی کہاں سے کہاں چلاگیا، بات تو گئی ہی، مگر آپ بہی کتنے بہولے بہالے اور کتنے پورانے ہیں کہ میرے ساتہہ خاموشی سے اب تک لگے ہوئے ہیں.

خیر صبح ہوئی اگرچہ دیر سے ہوئی، یہ میاں کالو سویرے سویرے اپنے کلے میں پان دبائے نکلے چلے آرہے ہیں، موسم تو ٹہنڈی کا ہے ہی، شال وسویٹر میں ڈہکے چہپے اپنے منہ کی سرخی سے سورج کی سرخی کو مات دینا چاہتے ہیں.کلی پر کلی کررہے ہیں، ان کے پان کے شوق نے زمیں کے ایک حصے کو بدنما کردیا ہے، ان کے چہینٹوں سے کئی کے کپڑے خراب ہوچکے ہیں، ان کے منہ اور دانٹ کا تو مت پوچہئے رات کی سیاہی بہی اس کے سامنے پہیکی ہے، پیسے اور وقت کا نقصان اس کا اعتراف تو چچا کالو بہی کرتے ہیں.پان کی بہی مختلف قسمیں ہیں جیسے بازار میں انواع واقسام کی سبزیاں ملتی ہیں اسی طرح پنواڑی کے پاس پان اور اس کے مصالحے، یہ نشہ آور پان ہے، یہ سادہ پان ہے، یہ اس کی جڑی بوٹیاں ہیں،جڑی بوٹیاں اس تعداد میں ہین کہ اگر میرے جیسا کمزور حافظے کا کوئی طالب اس کے حفظ کا امتحان دے تو فیل ہوجائے اور دنیائے پان سے بے دخل کردیا جائے (ویسے پہلے سے ہی اس سے محرومی کا غم برداشت کررہا ہوں).

پان کی قیمت کی راز افشا نہیں کروں ورنہ ہوسکتا ہے پان والوں کے گہر انکم ٹکس آفیسر کل صبح ہی پہنچ جائے، اور ٹکس کا مطالبہ کر بیٹہے.پانچ روپئے میں نارمل پان ہے، جس کو غریبوں کا پان کہا جاتا ہے، اس کے آگے کی کوئی حد نہیں پانچ پانچ سو روپئے کا بہی پان موجود ہے.پہر بہی لوگوں نے کہا دکان پر بہیڑ ہوتی ہے، لوگ اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں.

اگر آپ مجہہ جیسے کم علم سے یہ سوال کریں کہ جناب آپ تو پان کہاتے ہی نہیں پہر اس کی اتنی تفصیل کیسے معلوم ہے؟ اور اس کے فوائد کیا ہیں آپ کو کیا پتہ؟ تو جناب! اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ آج تک میں نے کوئی ایسی کتاب، مضمون، کوئی تقریر ایسی نہیں سنی جس میں مقرر، مصنف اور کسی مضمون نگار نے پان کی فضیلت وافادیت کو بیان کیا ہو، اگر واقعی اس کے کوئی خوبی ہوتی تو کہیں تو کچہہ ہوتا.

تو عقلمندی اسی میں کہ ہم اپنے پان کا پیسہ بچا کر کسی رفاہی تنظیم کو دیں جس سے ہماری دنیا بہی سنورے اور آخرت میں بہی کام آئے.

الجمعة، يناير 23، 2015

فضول خرچی اور سگریٹ نوشی

 آصف تنویر تیمی

کل سے میں پتہ نہیں کیوں فضول کی باتوں میں لگاہوں، آپ بہی میرے ساتہہ خواہ مخواہ لگے رہتے ہیں، میں پورے اعتماد کے ساتہہ کہہ سکتاہوں کہ آپ میرے لاکہہ بہگانے اور بہکانے کے باوجود میدان چہوڑنے والے نہیں.ویسے تو گزشتہ کل ہی سے ارادہ تہا کہ مرداندگی کی علامت، مالداری کی علامت، جوانی کی علامت حضرت سگریٹ کا مختصر مگر جامع تعارف آپ کے سامنے پیش کروں گا، مگر بعد میں خیال آیا کہ اس کے تعارف کی چنداں ضرورت نہیں تہی، آپ جہاں چلے جائیں گہر، بس اسٹیشن، ریلوے اسٹیشن،ہوٹل،ہر موڑ اور ہر نکڑ پر اس کے عشاق اور نام لیوا ہی نہیں بلکہ دہن لیوا بہی پائیں جاتے ہیں.بعض بڑے شہروں میں یاران سگریٹ کے امیج کا بہی بڑا خیال رکہا جاتا ہے، جیسے ایر پورٹ اور اس قسم کی مہنگی جگہوں پر خاص انتظام کیا جاتا ہے،"smoking Room"حضرت عالی پورے تزک واحتشام سے وہاں تشریف لے جاتے اور اپنے شوق کو جلا بخشتے ہیں.پورا ماحول سیاہ آلود ہوتا ہے، دہواں کی وجہ سے دن رات کا نظارہ پیش کرتا ہے، ایسا لگتا ہے جیسے سانسوں کا عالمی مقابلہ جاری ہے.ہر کوئی پوری طاقت سے کش لینے میں مصروف ہوتا ہے.ڈبا کا ڈبا ختم ہوتا چلا جاتا ہے.
یونیورسیٹی اور کالج کے طلبہ اس کے زیادہ شوقین دیکہے جاتے ہیں، کلاس ختم اور ادہر سگریٹ کی کلاس شروع، جینس پینٹ، ٹی شرٹ، گردن میں کتابوں کا بستہ ایک ہاتہہ جینس کے پوکیٹ میں اور دوسرے دست مبارک سے جناب والا سگریٹ کا مزہ لے رہے ہیں، ایسا نہ سمجہیں کے سگریٹ کے اس حسین مرض میں صرف ہماری ہی برادری (مرد حضرات) کے لوگ ہیں بلکہ غیر برادری والوں(خواتیں حضرات) کا نام بہی جلی حروف میں ہے.ان کا نعرہ ہے (ہم کسی سے کم نہیں).
سگریٹ کی تاریخ بڑی قدیم ہے، کچہہ دہائیاں قبل اس کی جگہ لوگ بیڑی پیا کرتے تہے، ویسے بیڑی والے اب بہی دیہاتوں اور گاوں میں پائے جاتے ہیں، بعض لوگ تو "بیڑی والے"ہی کے نام سے مشہور ہیں، جیسے کہ یہ ان کا "تخلص" ہوگیا ہو.کیا کہیے جہالت کا ہم بہی بچپن میں اپنے بڑے بوڑہوں کے لیے بیڑی لانے جایا کرتے تہے."عالم بیڑی"،"مرچہیا"کی بیڑی.
خیر باتیں بہت ہیں؛ آئیے چلتے چلاتے سگریٹ نوشی کی اہمیت وفضیلت اور اس کے چند اہم فوائد کا سرسری جائزہ لے لیا جائے تاکہ ہمارے اتنے طول طویل بہاشن کا کچہہ تو نتیجہ آمد ہو، فائدہ نمبر ایک:اگر آپ سگریٹ کے عادی ہیں تو آگ اور سلائی کی کمی نہیں ہوگی.راستہ میں بہی چولہا جلانے کی بہی ضرورت ہو تو بہ آسانی جلا سکتے ہیں.فائدہ نمبر ٹو:گناہوں کے علاوہ سگریٹ سے بہی آپ کے دل کا کلر بدل سکتا ہے.فائدہ نمبر سوم:نئے سٹائل کے تحت اگر درجی کپڑے میں سراخ کرنا بہول گیا تو آپ کی یہ بہترین عادت اس کمی کو پورا کر سکتی ہے.فائدہ نمبر چار:آپ اپنے اس خوشگوار عمل کے ذریعہ آلودگی کے روک تہام میں ملک کی اچہی خدمت کر سکتے ہیں.فائدہ نمبر فائنل: دنیا کے فائنل کہیل میں آپ کی ہار یقینی ہے.
سگریٹ کے انسدادی سفر میں کیا آپ ہمارے ساتہہ ہیں؟ اگر ہاں تو زور سے بولیے"مخدرات مردہ باد".

سعودی عرب کے باد شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز رحمہ اللہ

                                                                 آصف تنویر تیمی

صحیح عقیدہ کے حامل، خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے خادم، کتاب وسنت کے شیدائی، مسلک سلف کے امین، علماء اور طلبہ کے قدر داں، عالم اسلام اور عام مسلمانوں کے سپاہی، اپنوں اور بے گانوں کے معین ومددگار، سعودی قوم کے دلوں پر حکومت کرنے والے حاکم وقت جناب عبد اللہ بن عبد العزیز (رحمہ اللہ) اب اس دنیا میں نہ رہے، ہمیشہ ہمیشہ کے ہم سب سے بہت دور جاچکے ہیں، اب صرف ان کی باتیں اور یادیں رہ گئیں ہیں.تقریبا دو دہائی سے زیادہ کی حکومتی مدت میں انہوں نے ملک وملت کی فلاح وبہبودی کی خاطر بے شمار کارہائے نمایاں انجام دیں ہیں، جس سے دنیا آگاہ ہے، اور یہ خدمات ان کے لیے صدقہ جاریہ بہی ہے

یقینا ان کی کامیاب زندگی پر قلم کار حضرات ہزاروں صفحات کی کتابیں اور مقالیں تحریر فرمائیں گے، سمینار اور کانفرنس منعقد ہوگی، ان کی خدمات پر سیر حاصل گفتگو ہوگی، اور ہونی بہی چاہیے، مگر ان کے صدقہ جاریہ میں دو کام بہت اہم ہے اور دونوں کا تعلق اللہ کے گہر خانہ کعبہ اور مسجد نبوی سے ہے.انہوں نے اپنے دور حکومت میں دونوں مسجدوں کی جو غیر معمولی توسیع کا کام کیا ہے یقینا وہ قابل رشک ہے.عربوں اور کہربوں کی لاگت سے پایہ تکمیل کو پہنچنے والا یہ کام ان شاء اللہ ان کے میزان حسنہ کو وزنی بنائے گا.

خاص طور سے حرم مکی میں جو توسیع کا کام ہوا اور ہورہا ہے اس سے قبل اتنے بڑے پیمانے پر کبہی نہیں ہوا، یہ کوئی سنی سنائی بات نہیں بلکہ مشاہدہ پر مبنی اور حقیقت ہے.

اس کے علاوہ عالم اسلام پر بہی ان کے بہت احسانات ہیں.دنیا کی تمام دینی وملی تنظیمیں اور تحریکیں اس ملک اور اس کے باشندے کی احسان مند ہیں.

اللہ ملک عبد اللہ بن عبد العزیز کی لغزشوں کو معاف فرمائے، ان کے خاندان کے غم زدہ افراد کو صبر جمیل کی توفیق دے، ان کے درجات کو بلند فرمائے، اور اس مملکت توحید کے ایک ایک اینٹ کی حفاظت کرے، اور ان کے جانشیں ملک سلمان بن عبد العزیز حفظہ اللہ کو ملک وملت کے حق میں مفید بنائے.

جامعہ امام ابن تیمیہ بہار (الہند)کے تمام ذمہ داران، اساتذہ، طلبہ،اور تمام منسوبین آل سعود کے غم میں برابر کے شریک ہیں اور اللہ تعالی سے ممدوح کے حق میں مغفرت کی دعا کرتے ہیں.
انا للہ وانا الیہ راجعون

الخميس، يناير 22، 2015

زيارة فضيلة مؤسس جامعة الإمام ابن تيمية الشيخ الدكتور الوالد محمد لقمان السلفي حفظه الله

لقد تشرفت _بفضل الله وتوفيقه_ليلة البارحة ليلة الخميس 2 ربيع الثاني 1436 الموافق 21 يناير 2015م بزيارة فضيلة مؤسس جامعة الإمام ابن تيمية ومركز العلامة ابن باز للدراسات الإسلامية الشيخ الدكتور الوالد محمد لقمان السلفي _حفظه الله ورعاه ومن كل سوء وقاه_ وذلك في منزله العامر بمدينة الرياض برفقة إخواني الأفاضل الأعزاء د.ظل الرحمن التيمي والشيخ محمد ثناء الله صادق ساغر التيمي والشيخ حفظ الرحمن لطف الرحمن التيمي ، وقد رحب بنا الدكتور ترحيبا حارا واستقبلنا برحابة صدره ودماثة خلقه وبادربالسؤال عن أحوالنا وعن مناشطنا الدعوية والعلمية كما سألناه نحن عن صحته وقد سررنا بماشاهدناه أنه يتمتع بالصحة والعافية والمعافاة.

وقد تجاذبنا أطراف الحديث حول الجامعة ومناشطها العلمية وسررنا بما سمعنا منه وأسدى إلينا بنصائح قيمة نافعة وتوجيهات سديدة مدعمة بالقصص والوقائع من حياته تضيء لنا الدروب وتفتح لنا الآفاق و نستنير بها في حياتنا_ إن شاء الله_ و قددعا لنا بدعوات صادقة تقبلها الله وفرح بلقاءنا فجزاه الله خيرا. والحمدلله الذي وفقنا لهذه الزيارة كما أشكر _إصالة عن نفسي ونيابة عن إخواني _ والدنا ومرشدنا الشيخ الدكتور على حسن الاستقبال وكرم الضيافة وعلى إعطائه لنا من أوقاته الثمينة سائلين الله تعالى أن يتقبل جهوده ويجعلها في موازين حسناته ويجعلها ذخراله يوم لا ينفع مال ولا بنون، كما نسأله سبحانه أن يرزقه الصحة والعافية والمعافاة وأن يطيل في عمره على طاعته ومرضاته وأن ينفع به الإسلام والمسلمين في أرجاء المعمورة وأن يحفظ جامعتنا من كل مكروه وأن يكفيها شر الأشرار وكيد االفجاروأن يوفق القائمين عليها ويسدد خطاهم آمين يارب العالمين.
والحمدلله الذي بنعمته تتم الصالحات.
كتبه
د.معراج عالم محمد إنفاق التيمي

الجمعة، يناير 16، 2015

غصہ نہ کریں !

بسم اللہ الرحمن الرحیم



"والذین یجتنبون کبائر الإثم والفواحش وإذا ما غضبوا ھم یغفرون"( شورى:۳۷)
جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی سے پرہیز کرتے ہیں , اور جب غصہ ہوتے ہیں تو معاف کر دیتے ہیں

·       صحابی رسول حضرت سلیمان بن یسار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمی سب وشتم کر رہے تھے , ہم بھی آپ ہی کے پاس بیٹھے ہوئے تھے, ان میں سے ایک کا چہرہ غصہ سے سرخ ہو گیا تھا اور وہ اپنے ساتھی کو گالیاں دئے جارہا تھا, نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں جسے اگر وہ پڑھ لے تو اس کا غصہ جاتا رہیگا, اگر وہ أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھ لے" اس پر صحابہ نے اس آدمی سے کہا: کیا تم سنتے نہیں اللہ کے رسول کیا فرما رہے ہیں!اس نے کہا: میں کوئی مجنوں نہیں"(ابو داود)
·       صحابی رسول حضرت ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول گرامی صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی غصہ ہو جائے اور وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے, اس کے بعد اگرغصہ ختم ہو جائے تو ٹھیک ہے ورنہ  لیٹ جائے"(ابوداود)
·       حضرت عطیہ بن سعد القرظی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: غصہ شیطان(کی صفات میں) سے ہے, شیطان کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے, آگ کو صرف پانی ہی بجھا سکتا ہے, چنانچہ تم میں سے کوئی جب غصہ ہو تو وضوء کرلے" (ابوداود)
·       ایک صحابی رسول سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی گرامی صلى اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے کچھ نصیحت کیجئیے, آپ نے فرمایا: غصہ نہ کرو, اس شخص کا بیان ہے کہ میں نے نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کی اس(مختصر اور جامع) نصیحت میں غور وفکر کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ غصہ اور غضب ہی تمام برائیوں کی آماجگاہ اور محرک ہے"(ابوداود)
·       حضرت ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بہادر وہ نہیں جو (دشمن کو) پچھاڑ دے, بلکہ بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر کنٹرول رکھے"(بخاری)

غضب اور غصہ کی تعریف:
·       امام جرجانی فرماتے ہیں: غضب ایک ایسی تبدیلی کانام ہے جو خون دل کے جوش مارنے سے پیدا ہوتی ہے, اور اس سے سینے کی صفائی اور شفایابی حاصل ہوتی ہے_
·       امام راغب لکھتے ہیں: غصہ, بدلے اور انتقام کے ارادے کے وقت خون دل کے جوش مارنے کا نام ہے_
·       حضرت تھانوی رقم طراز ہیں: غضب, نفس کی ایسی حرکت ہے جو جذبئہ انتقام سے پیدا ہوتی ہے_
·       امام غزالی فرماتے ہیں: جذبئہ انتقام سے جو دل کا خون بھڑکتا اور جوش مارتا ہے, اسی کا نام غصہ اور غضب ہے_

غضب اور غصہ کا علاج:
۱-ذکر الہی سے غصہ دور کرنا
۲-غصہ کے وقت ان احادیث میں غور وفکر کرنا جن میں غصہ پی جانے, عفو و در گزرکرنے, حلم وبردباری اپنانے اور صبر وتحمل سے کام لینے کی فضیلت آئی ہے
۳-اپنے آپ کو اللہ کے عذاب اور عقاب سے خوف دلائے, اور یہ یقین پختہ  کرے کہ جس قدر میں اس انسان پہ قدرت رکھتاہوں, اس  سے کہیں زیادہ اللہ تعالى مجھ پر قادر ہے, اگر میں اس پر اپنا غصہ اتار بھی لوں تو کل قیامت کو اللہ کے غضب سے مامون مہیں رہ سکتا, بہر صورت مجھے عفوو درگزر کو ہی ترجیح دینی چاھئے یہی شان ایمانی ہے
۴-غصہ کے وقت انسان کے چہرے پہ جو بدنمائی ظاہر ہوتی ہے , اس کی قباحت کو یاد کرے اور یہ خیال کرے کہ عالم غضب میں انسان خونخار درندے اور بھونکتے کتے کی مانند ہوتاہے, اور اس حالت میں  وہ علماء, صلحاء اور انبیاء کے اخلاق عالیہ سے بہت ہیچ اور نیچ ہوتا ہے
۵-غصہ اور غضب کے نتیجے میں جو ندامت اور بد انتقامی حاصل ہوتی ہے, اس کو یاد کرے
۶-اپنی موجودہ حالت کو بدلے, اگر کھڑا ہو تو بیٹھ جائے, بیٹھا ہو تو لیٹ جائے, وضوء ضرور کرے یا کم سے کم ناک میں پانی ڈال کر اتارے
۷-شیطان مردود سے اللہ کی پناہ طلب کرے
۸-عفوو درگزر پر اللہ نے جس ثواب کا وعدہ کیا ہے اس کو یاد کرے اور اپنے نفس کو غصہ پر قابض رکھے

غضب اور غصہ کے اسباب:
امام غزالی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: غصہ کے بعض اسباب یہ ہیں: کبر ونخوت, خود پسندی, دل لگی, بیہودہ مزاق, حقارت اور توہین, غیرت اور عار دلانے کی کوشش, نوک جھونک, عناد ودشمنی, دھوکہ اور فریب, مال ودولت اور جاہ وحشمت کی بے جا طلب_
اکثر نادان اور جاہل قسم کے لوگوں کے نزدیک غصہ کا سب سے اہم محرک یہ ہوتا ہے کہ وہ غصہ کو بہادری, مردانگی, عزت نفس اور بلند ہمتی کا نام دیتے ہیں, اور جہالت ونادانی میں غصہ کو مختلف تعریفی القاب سے موسوم کرتے نہیں چوک تے, تاکہ دل اس کو برا نہ سمجھے اور نفس کا میلان برقرار رہے, اس نظریہ کو ان حکایات سے مزید تقویت ملتی ہے جو اکابرین کے حوالے سے بیان کی جاتی ہیں (کہ وہ بہت غصیلے ہوتے تھے, بات بات پر چراغ پا ہو جاتے اور مزاج کے خلاف کسی بات کو برداشت نہیں کرتے تھے), نیز ان صفات کو مدح سرائی کے انداز میں بیان کیا جاتا ہے,اور انہیں بہادری کا سنہرا نام دیا جاتا ہے, چونکہ نفس طبعی طور پر اکابر کی مماثلت اختیار کرنے پر فخر محسوس کرتا ہے اس لئے طبیعت وصف غضب کی طرف مائل ہوتی ہے, اور یہ حکایات اس کا اہم سبب ثابت ہوتى ہیں_

غصہ اور غضب کے نقصانات:
۱-غصہ, اللہ رحمان ورحیم کو غضب دلاتا ہے اور اس سے شیطان مردود کو خوشی ہوتی ہے
۲-غصہ پر صبر کرنا دشمن سے لڑنے سے زیادہ گراں ہے
۳-غصہ باہمی ناچاقی اور آپسی دوری کو جنم دیتا ہے
۴-غصہ سے حقد وحسد پیدا ہوتا ہے , اور یہ عقل اور دین دونوں ناحئے سے نقص اور کمی ہے
۵-اکثر ہمیں غصہ کے بعد شرمندگی ہوتی ہے اور ہم معذرت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں, بسا اوقات تو ہمیں اس کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے
۶-غصہ انسان کو اندھا کردیتا  ہے,اور اسے اس لائق نہیں چھوڑتا کہ نصیحت وموعظت سے کچھ فائدہ اٹھا سکے
۷-انسان کے ظاہری جسم پر بھی غصہ کافی اثر انداز ہوتا ہے, بسا اوقات شدت غضب سے آنکھ کی بینائی چلی جاتی ہے, کبھی قوت سماعت کھو بیٹھتا ہے, اور کبھی گویائی سے ہی انسان محروم ہو جاتا ہے, بلکہ جان جانے اور وفور غصہ سے اسکی جان گھٹ جانے کا بہی اندیشہ رہتا ہے
۸-لوگ اس سے نفرت کرنے لگتے اور اس سے دور رہنے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں
                                                                                                                  
جمع وترتیب:
عبد اللہ بن أحمد العلاف
اللہ انہیں,انکے والدین اور تمام مسلمانوں کی مغفرت فرمائے
اردو قالب:
سیف الرحمن حفظ الرحمن تیمی
جامعہ إسلامیۃ , مدینہ منورۃ