السبت، أغسطس 30، 2014

غزل



ساگر تیمی
دن نہ آے مگر رات بدل سکتی ہے
روشنی گاؤں کے حالات بدل سکتی ہے
ميں نے مانا کہ تیرے حسن میں حدت ہے بہت
سوچ کیا یہ میرے جذبات بدل سکتی ہے
اتنی روشن بھی نہیں تیرے مقدر کی لکیر
وہم مت پال کہ اوقات بدل سکتی ہے
کچھ عجب رشتہ ہے قربت سے وفاداری کا
تھام لے ورنہ وہ سوغات بدل سکتی ہے 
یہ خبر تھی کہ تیرا نام تو رسوا ہوگا
کب خبر تھی کہ تیری ذات بدل سکتی ہے
تھی اکڑ اس کی دولہا کار ہی لے گا پہلے
دلہن بولی کہ یہ بارات بدل سکتی ہے
موت جب کھول کے جبڑے چلی آئی ساگر
زندگی بول چلی ، ساتھ بدل سکتی ہے
L

ایک چلتی پھرتی غزل


 ( آپ بھی کوشش کریں نا پلیز !)
ساگر تیمی

اس طرح مسکرانے سے کیا فائدہ ؟
بے وجہ دل جلانے سے کیا فائدہ ؟
ميں بھی انسان ہوں تم بھی انسان ہو
خون ناحق بہانے سے کیا فائدہ ؟
ایک دن چھوڑ کر مر ہی جائينگے ہم
سوچیے گھر بنانے سے کیا فائدہ ؟
میں براہوں مگر آپ اچھے نہيں
پھر یہ انگلی اٹھانے سے کیا فائدہ ؟
چاند کی روشنی بھی تو ماخوذ ہے
اس کو تم سا بتانے سے کیا فائدہ ؟
جھوٹ کہنے سے بھی سچ نہ ہارے اگر
پھر بھلا سچ چھپا نے سے کیا فائڈہ ؟
تو بھی ساگر دعاؤں کا محتاج ہے
پھر یہ تقوی دکھانے سے کیا فائدہ ؟

الجمعة، أغسطس 29، 2014

غزل



ساگر تیمی


پاؤں اتنا نہ بڑھا شہر میں وسعت کم ہے
میں نے سمجھا تھا چمک ہے تو مصیبت کم ہے
شیخ واقف ہیں نئی رت کے تقاضوں سے بہت
دیکھ ہنگامہ تو برپا ہے ، عبادت کم ہے
کل احباب نے تعریف کی اور مجھ سے کہا
یہ تو اظہار محبت ہے ،سیاست کم ہے
شيخ و زاہد بھی ہیں اس کاکل پیچاں کے اسیر
میں اگر اس پہ فدا ہوں تو یہ شدت کم ہے 
مجھ کو لگتا ہے کسی اور کی خاطر ہے حیات
ویسے خدمت کے لیے دوست یہ مدت کم ہے
شہر کے میر کو اس غم نے گھلا رکھا ہے
کیوں فقیروں سے زیادہ نہيں، شہرت کم ہے
اب تو ساگر ذرا اللہ سے ڈریے بھائی
یہ ہے دنیا اور اس دنیا کی حقیقت کم ہے

الجمعة، أغسطس 22، 2014

غزل

ساگر تیمی

اتنی سی بات میر ی کوئي مانتا نہ تھا
ایسے تو چاہتے تھے گرادیں دیوار قہر
چاہت تو تھی مگر وہی اک حوصلہ نہ تھا
جب بیچ میں پتہ چلا ہے راہ پر خطر
بولے جناب شیخ کہ میں نے کہا نہ تھا
اونچی اڑان نے دیا بھائي کو عظمتیں
وہ جانتا ضرور تھا پہچانتا نہ تھا
میں سوچتا ہوں شب میں بیداری کا فائدہ
سورج طلوع ہوا تو کوئي جاگتا نہ تھا
ویسے تو میکدہ کھلا ساگر کے بعد بھی
لیکن شراب خانے میں کوئي بچا نہ تھا
L

الجمعة، أغسطس 15، 2014

فلسطین (ایک نظمیہ دعا )


ساگر تیمی
 جواہر لال نہرو یونیورسٹی


ہر ذرہ ہے ایسا کہ زباں کہتی ہے تحسین
مقام یہ شہدا کا ہے اور ارض نبیین
تاریخ اس زمین کی حد درجہ ہے حسین
یہ ہے ارض فلسطین ، یہ ارض فلسطین
یہ نور ہے اور ظلم کی تسخیر یہیں ہے
اٹھتی ہوئی تخریب سے تعمیر یہیں ہے
اللہ قسم یہ تو ہے خوابوں کی سرزمین
یہ ہے ارض فلسطین ، یہ ہے ارض فلسطین
انسان ہیں گر آپ تو پھر دیجیے  صدائیں
غاصب ہیں یہودی اسی اک  سچ کو بتائيں
چپ رہ کے تو مت کیجیے انسانوں کی توہین
یہ ہے ارض فلسطین ، یہ ہے ارض فلسطین

ظالم کا ظلم اور ہیں مظلوم کی آہیں
کب تک بھلا رہیں گی یہ مسموم ہوائيں
دنیا بھی کہ رہی ہے کہ یہ جرم ہے سنگین
یہ ہے ارض فلسطین ، یہ ہے ارض فلسطین
بچوں کی چیخ ، ماؤں کی آہوں کا پاس رکھ
رب قدیر! دبتی صداؤں کا پاس رکھ
تباہ کر یہودی کو ، دنیا رہے نہ دین
یہ ہے ارض فلسطین ، یہ ہے ارض فلسطین
ظالم کے پاس ظلم کے اوزار بہت ہیں
اور بے صدا بندے تیرے لاچار بہت ہیں
صرف تو ہے کہ دے سکتا ہے مظلوموں کو تمکین
یہ ہے ارض فلسطین ، یہ ہے ارض فلسطین
گھر تیرا ہے صہیونی کی تحویل میں یارب
قبلہ ترے بندوں کا چھنا جاتا ہے یارب
واپس ملے جو اقصی تو مل جائے گی تسکین
یہ ہے ارض فلسطین ، یہ ہے ارض فلسطین
محفوظ تیرے بندے نہیں آج کہیں پر
اللہ معجزہ تو دکھا دے نہ زمیں پر
ساگر بھلا کب رہے اللہ! یوں غمگین
یہ ہے ارض فلسطین ، یہ ہے ارض فلسطین




السبت، أغسطس 09، 2014







"سدا ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ"

 اردو قالب:سیف الرحمان حفظ الرحمان تیمی

۱-نماز عید کے لئے پاکی صفائی کا اہتمام اور نئے ونفیس کپڑوں کا التزام:امام مالک نے مؤطا میں حضرت نافع سے روایت کیا ہے این عمر رضی اللہ عنہ عید الفطر کے دن عیدگاہ جانے سے پہلے غسل کیا کرتے تھے"(اسکی سند صحیح ہے)
ابن قیم رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:این عمر جو سنت کی پیروی میں شدت سے کام لیتے تھے ,ان سے ثابت ہے کہ وہ عید کے دن عیدگاہ جانے سے پہلے غسل کرتے تھے"
ابن حجر لکھتے ہیں:ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے صحیح سند سے روایت کیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ عید کے روز نفیس ترین لباس زیب تن کیا کرتے تھے"(فتح الباری)
۲-عبد الفطر کی نماز کے لئے  نکلنے سے پہلے چند(۳ یا ۵) طاق کھجور کھانا مسنون ہے:حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت  اسکا بین ثبوت ہے "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے روز بغیر کھجور کھائے ہوئے نہیں نکلتے تھے,اور آپ بے جوڑ کھجورکھاتے تھے"(بخاری)
۳-عید کے روز (جہری آواز میں مردوں اور سری آواز میں عورتوں کے لئے)اللہ اکبر اللہ اکبر کی ندا لگانا سنت ہے,گھر سے نکلتے ہوئے تکبیر پڑھنی شروع کی جائیگی اور عید گاہ پہنچنے تک اس کا ورد کیا جائیگا,اس سلسلے میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہماری رہنمائی کرتی ہے:نبی صلی اللہ علیہ  وسلم عیدین کے لئے جب نکلتے تو بلند آواز سے تکبیر وتہلیل (اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ الااللہ.....)پڑھا کرتے تھے (صحیح)
حضرت نافع سے مروی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ جب عید الفطر اورعید الأضحی کو عیدگاہ کے لئے نکلتے تو بلند آواز سے تکبیر پڑھتے ہوئے نکلتے,جب عیدگاہ پہنچ جاتے تب بھی یہ عمل جاری رھتا یہاں تک کہ امام تشریف لاتے اور جماعت کھڑی ہوتی (اسے دارقطنی نے صحیح سند سے روایت کیا ہے)
ابن مسعود سے تکبیر کے جوکلمات اور صیغے منقول ہیں ,وہ اس طرح ہیں:اللہ أکبر,اللھ أکبر,لا إلہ إلا اللہ,واللہ أکبر,اللہ أکبر,وللہ الحمد" (ابن أبی شیبۃ نے اسے صحیح سند سے روایت کیا ہے)
۴-مسنون طریقہ یہ ہے کہ انسان عیدگاہ کے لئے پاؤں پیدل جائے,حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے,وہ گویا ہیں:عید گاہ کے لئے پاؤں پیدل جانا سنت ہے"(ترمذی, حسن بشواھدہ)
۵-یہ بھی نبوی طریقہ ہے کہ عیدگاہ جس راستے جائیں , لوٹتے ہوئے وہ راستہ بدل لیں,حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید کے روز راستہ بدل کے آتے جاتے تھے"(بخاری)
۶-سورج طلوع ہوکر جب بلند ہوجائے تب عید کی نماز ادا کرنا مشروع ہے,نماز عید کے لئے نہ تو اذان دی جائیگی اور نہ ہی اقامت کہی جائیگی,عید کی نماز دورکعتیں ہیں,پہلی رکعت میں سات تکبیرات اور دوسری میں پانچ تکبیرات پڑھی جائینگی,سنت ہے کہ امام جہری قراءت کے ساتھ پہلی رکعت میں سورئہ اعلی اوردوسری رکعت میں سورئہ غاشیہ کی تلاوت کرے, یا پہلی رکعت میں سورئہ ق اور دوسری میں سورۃ القمر پڑھے, عیدین کا خطبہ نماز کے بعد دیا جانا مسنون اور مشروع ہے ,نیز عورتوں کا عیدگاہ آنا متاکد طور پر ثابت ہے,دلائل حسب ذیل ہیں:
۱-اما عائشہ فرماتی ہیں:نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر عید الأضحی کی نمازوں میں پہلی رکعت کے اندر سات اور دوسری میں پانچ تکبیرات پڑھاکرتے تھے( ابوداؤد نے حسن سند سے روایت کیا ہے)
۲-نعمان بن بشیر سے مروی ہے کہ: آپ صلی اللہ علی وسلم عیدین میں سورئہ اعلی اور سورئہ غاشیہ کی تلاوت فرماتے تھے"(مسلم)
۳-عبید اللہ بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ عمر بن الخطاب نے ابوواقد اللیثی سے دریافت کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عیدین کی نماز میں کیا پڑھا تے تھے؟تو انھوں نے نے کہا:آپ عیدین میں "ق والقرآن المجید" اور "اقتربت الساعۃ وانشق القمر" کی تلاوت فرماتے تھے"(مسلم)
۴- ابن عطیہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں :ہمیں عیدگاہ جانے کا حکم دیا جاتا تھا ,چنانچہ آزاد, غلام اور کنواری سب کے سب عید گاہ جاتی تھیں , حیض والی عورتیں بھی مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ جاضر ہوتیں اورانکی دعائوں میں شریک رھتیں,تاہم وہ عید گاہ سے الگ رہتی تھیں"(بخاری ومسلم)
۵-ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے نبی پاک,ابو بکر,عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ عید الفطر کا دوگانہ اداکیا , وہ سب کے سب خطبہ سے پہلے نماز ادا کرتے تھر"(مسلم)
۷-جب عید اورجمعہ ایک ساتھ جمع ہو جائیں تو عید کی نماز پڑھنے والے سے جمعہ کی فرضیت ساقط ہو جاتی ہے,ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا :آج کے دن دو عیدیں جمع ہو گئیں ہیں , جو چاہے اس کے لئے عید کی نماز ہی جمع کے لئے بھی کافی ہے, اور ہم عید اور جمعہ دونوں ادا کرینگے انشاء اللہ"(ابن ماجہ نے اسے جید سند کے ساتھ روایت کیا ہے)
۸-جب زوال(جس وقت سورج بالکل سر کے اوپر معلوم ہو) کے وقت لوگوں کو معلوم ہو کہ کل گزشتہ ہی ہلال عید نمودار ہوچکا ہے اور آج ہی روز عید ہے تو ایسی صورت میں اگلے دن صبح دم عید کا دوگانہ ادا کیا جائیگا,سنن اربعہ اور سنن بیہقی کی روایت ہے کہ ایک قافلہ آپ کے حضور حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ہم نے کل عید کا چاند دیکھ لیا ہے,تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ روزہ توڑلیں اور کل جب صبح کریں تو عیدگاہ تشریف لے جائیں"
۹-عید کے دن باہم گلا گیر ہو کر ایک دوسرے کو یہ دعا دینا چاہئے کہ"تقبل اللہ منا ومنک"(اللہ ہمارے اورآپ کے اعمال کو قبول فرمائے),محمد بن زیاد کی روایت ہے کہ میں ابو امامہ باہلی اور دیگر صحابہ کے ہمراہ تھا , وہ جب عیدگاہ سے لوٹتے تو ایک دوسرے پر یہ گلدستہ دعا نچھاور کرتے جاتے "تقبل اللہ منا ومنک" (امام احمد نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے)
۱۰-روز عید دراصل روز سعید ہے,روز مسرت وشادمانی اور روز وسعت وفراخی ہے,حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے نزدیک سال کے دودن ایسے تھے جن میں وہ کھیل کود کیا کرتے تھے,آپ نے دریافت کیا :یہ دودن کیسے ہیں؟انہوں نے جواب دیا:ان دنوں کے اندر ہم زمانہ جاہلیت میں لہو ولعب کیا کرتے تھے"آپ گویا ہوئے:اللہ نے تمہیں انکے بدلے ان سے بہتر دو دن عطا کئے ہیں: عیدالأضحی اور عید الفطر"(امام احمد نے اسے صحیح سند سے روایت کیا ہے)
۱۱-برادران اسلام!شریعت کی مخالفت اور دین کی خلاف ورزی سے آگاہ اور متنبہ  رہئے,کیونکہ عید کی خوشی میں کچھ لوگ اس قدر بدمست ہوتے ہیں کہ انہیں حلال وحرام تک کی تمیز نہیں رہتی اور لباس وٍپوشاک اور خوردونوش ہر طرح سے معصیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں , ایسے لوگوں کے لئے عید روز سعید نہیں روز وعید قرار پاتی ہے,یہ لوگ اظہار مسرت میں اس قدر مبالغہ کے شکار ہوتے ہیں شرعی حدود اور مذہبی قیود کی ذرا بھی پرواہ باقی نہیں رہتی,میوزک بازی,اختلاط مردوزن , خواتین کی حسن نمائی,رقص وسرود,شراب وکباب اور طاؤس ورباب کی محفلیں یہ سب ایسے جذباتی جارئم ہیں جنکا انسان خوشی کے مواقع پر ہی عموما مرتکب ہوتا ہے,اس لئے :

کر بلبل وطاؤس کی تقلید سے توبہ

بلبل فقط آواز ہے طاؤس فقط رنگ
اور یہ کہ:
خزاں ہو کہ بہار
سدا ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ



نماز کے اوقات

 اعداد: علی بن عبد الرحمان العویشز
    اردو قالب: سیف الرحمان حفظ الرحمان تیمی


ضروری  بات
دلیل
خروج کا وقت
آغاز کا وقت
نماز
زوال کے وقت کی پہچان یہ ہے کہ سایہ کا چھوٹا پن ختم ہوجائے اور ہرچیز کا سایہ اسی کے مثل ہوجائے
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث ہے:ظہر کا وقت تب ہوتا ہے جب سورج (درمیان آسمان سے)ڈھل جائے اور آدمی کاسایہ اس کی قد کے مثل ہو,یہ وقت اس وقت تک رہتا ہے جب تک عصر نہ ہوجائے"(مسلم)
ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ جبریل امین نے دودن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت فرمائی,پہلے دن ظہر کی نماز اس وقت پڑھائی جب سورج وسط آسمان سے مائل ہوگیا,اور دوسرے دن ا س وقت جب ہر چیز کاسایہ اس کے ہم مثل تھا,پھر جبریل امین نے ارشاد فرمایا:اے محمد!یہ آپ سےپہلے کے انبیاء کا وقت ہے,اور (آپ کا صحیح )وقت وہ ہے جو ان دونوں دنوں (کی نمازوں کے وقت)کے درمیان کا وقت ہے"(ابو داود وترمذی)
جب ہر چیز کا سایہ اسی کے ہم مثل ہوجائے(صحیح قول کے مطابق)
جب سورج درمیان آسمان سے ڈھل جائے(اجماع)
ظہر
اصفرار شمس(سورج کے زرد ہونے)کا مطلب یہ ہے کہ سورج اس قدر پیلا ہوجائے کہ دیکھنے سے واضح ہو
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ظہر کا وقت اس وقت تک باقی رہتا ہے جب تک کہ سورج زرد نہ ہوجائے"(مسلم)
جب سورج زرد ہوجائے
جب ہر چیز کا سایہ اسی کے مثل ہو,سوائے زوال کے وقت کر سایہ کے

اختیاری وقت


عصر


اضطراری وقت
بغیر عذر کے اس وقت تک عصر کی نماز کو مؤخر کرنا جائز نہیں,اگر بغیر عذر کے کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ عاصی وگنہگار ہوگا, تاہم اس کی نماز ادا ہو جائیگی
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث ہے:جسے سورج غروب ہونے سے پہلے ایک رکعت مل گئی اسے عصر کی نماز مل گئی"(متفق علیہ)
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث ہے : یہ منافق کی پہچان ہے کہ بیٹھا بیٹھا سورج دیکھتا رہے,جب سورج شیطان کی دو سینگھوں کے درمیان آجائے(ڈوبنے لگے) تو کھژا ہواور چار مرتبہ چونچ مارلے اور اللہ کا ذکر بہت کم کرپائے"(مسلم)
جب سورج غروب ہوجائے
جب سورج زرد ہو جائے

حضرت عبد اللہ بن عمرو کی حدیث ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مغرب کا وقت اس وقت تک رہتا ہے جب تک شفق (افق کی سرخی) غائب نہ ہوجائے"(مسلم)
جب شفق کی سرخی زائل ہوجائے
جب سورج غروب ہوجائے(اجماع)
مغرب
نصف لیل(درمیان رات)کی پہچان یہ نہیں کےگھڑی کے بارہ بج جائیں جیسا کہ عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں,بلکہ سورج ڈوبنے کے وقت سے لیکے فجر کے طلوع ہو نے تک جو مجموعی وقت ہوتا ہے , اسی کا درمیانی حصہ نصف لیل قرارپا تا ہے,اس کو اس طرح سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے:
پوری رات کا مجموعی وقت÷2+غروب کا وقت=عشاء کی نماز کا آخری وقت یعنی نصف لیل
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا:عشاء کا وقت آدھی رات تک رہتا ہے"(مسلم)
درمیان شب تک(صحیح قول کے مطابق)
جب شفق(افق کی لالی )غائب ہوجائے(اجماع)

عشاء


فجر کا وقت ظہر کے وقت کے ساتھ جڑا ہوا نہیں ہے,فجر ثانی یا صبح صادق کا مطلب یہ ہے کہ افق میں سفیدی پھیلی ہوئی ہو
عبد اللہ بن عمرو کی مرفوع حدیث ہے :فجر کی نماز کا وقت طلوع فجر(صبح صادق کی نموداری) سے لیکر سورج کے طلوع ہونے تک ہے"(مسلم)
جب سورج طلوع ہوجائے
فجر ثانی (صبح صادق)جب نمو دار ہوجائے
فجر



نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز

بسم اللہ الرحمان الرحیم


اردوقالب:سیف الرحمان حفظ الرحمان تیمی

جب بندئہ مؤمن نماز کا ارادہ کرے تو قبلہ رخ ہو کر دل سے اس نماز کی نیت کرلے جو پڑھنا چاہتا ہے,پھرنماز نبوی کے حسب ذیل آئینہ کو سامنے رکھ کر اپنی نماز مکمل کرے:

اللہ اکبر کہ کر تکبیر تحریمہ پڑھے , اپنے ہاتھ کندھے یا کان کی لو تک اٹھائے, اور اپنی نگاہیں سجدے کی جگہ پر رکھے
۱-
اپنے ہاتھوں کو سینے پر اس طرح رکھے کہ دایاں ہاتھ با ئیں ہاتھ کے بالائی حصہ پر ہو
۲-
پھر نماز کا آغاز اس دعاء ثنا سے کرے"اللہم باعد بینی وبین خطایای کما باعدت بین المشرق والمغرب,اللہم نقنی من خطایای بالماء والثلج والبرد"    یا یہ دعا پڑھے      "سبحانک اللہم وبحمک وتبارک اسمک وتعالی جدک ولا إلہ غیرک"
۳-
پھر" أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم" اور"بسم اللہ الرحمان الرحیم" پڑھے
۴-
اب سورئہ فاتحہ کی تلاوت کرے کیونکہ اس کے بغیر کوئی نماز درست نہیں,اسکے بعد آمین کہے
۵-
اب قرآن کی جو آیتیں تلاوت کرنا چاہے ,کرے
۶-
پھر" اللہ اکبر" کہکر رکوع میں جائے اور اپنے ہاتھوں کو کندھے یا کان کی لو تک لے جائے,رکوع کی حالت میں سر پشت کے بالکل برار ہو, نہ ذرا سی بلند نہ ہی ذراسی بھی پست
۷-
رکوع میں کم ازکم تین مرتبہ یہ دعا پڑھے"سبحان ربی العظیم"
۸-
پھر  "سمع اللہ لمن حمدہ"کہتے ہوئے اپنے سر کو رکوع سے اٹھا ئے,اپنے ہاتھوں کو کندھے یاکان کی لو تک لے جا ئے اور ہاتھوں کو سینے پر باندھ لے
۹-
رکوع سے اٹھنے کے بعد یہ دعا پڑھے"ربنا ولک الحمد حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ ملأ السماوات وملأ الأرض وملأ ما شئت من شیئ بعد"
۱۰-
پھر "اللہ اکبر" کہکر سجدے میں جائے,سجدہ اپنے جسم کے ان سات اعضاء پر کرے(پیشانی مع ناک,دونوں ہاتھ,دونوں گھٹنے,اور پاؤں کی انگلیوں کے بل پر)نیز سجدے میں اپنے بازوؤں کو اپنے پہلوؤں سے الگ رکھے, بازوؤں کو زمین پر نہ پھیلائے,ہاتھ اور پاؤں کی انگلیوں کو قبلہ رو رکھے, ہاتھ کی انگیاں سمٹی ہوئی کندھے یا کان کے برابر ہوں,اور پاؤں کو بالکل کھڑا رکھے باہم ملے ہوئے انداز میں
۱۱-
سجدہ میں کم ازکم تین مرتبہ یہ دعا پڑھے"سبحان ربی الأعلی",یہاں پر نبی اکرم کی یہ حدیث بھی پیش نظر ہو"سجدہ کی حالت ہی میں بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے,اس لئے سجدہ میں خوب دعا کیا کرو"
۱۲-
پھر "اللہ اکبر"کہتے ہوئے سجدہ سے سراٹھا ئے
۱۳-
دونوں سجدوں کے درمیان اپنے بائیں پاؤں پر بیٹھے اور دائیں پاؤں  کو کھڑا رکھے,ہاتھوں کو زانو پہ رکھے اور انگلیوں کو اپنے گھٹنوں کے پاس
۱۴-
دو سجدوں کے درمیان حالت نششت میں یہ دعا پڑھے"رب اغفرلی وارحمنی واھدنی وارزقنی واجبرنی وعافنی"
۱۵-
پھر دوسرا سجدہ بالکل پھلے سجدے کی طرح کرے,اور وہی دعا دھرائے جو پہلے میں پڑھا تھا
۱۶-
اب "اللہ اکبر" کہےاور گھٹنوں کے بل پر دوسرے سجدے سے اٹھے ,اور دوسری رکعت اسی طرح پوری کرے جس طرح پھلی کیا تھا تاہم "أعوذ باللہ"اور "دعاء ثنا " کو نہ دہرائے,اس لئے کہ یہ دونوں دعائیں پہلی رکعت کے لئے خاص ہیں
۱۷-
دو سری رکعت پوری کرنے کے بعد پہلے تشھد کے لئے اسی طرح بیٹھے جس طرح دوسجدوں کے درمیان بیٹھا تھا,اپنے داھنے ہاتھ کو داھنے زانو پر اس طرح رکھے کہ داھنے طرف کی دونوں چھوٹی انگلیاں بند ہوں ,انگوٹھا اور درمیان کی انگلی آپس میں ملکر گول دائرہ بنا رہی ہوں, دعا پڑھتے ہوئے شہادت کی انگلی کو حرکت دے اورنگاہ کو اس پر جمائے رکھے,اور بائیں ہاتھ کو بائیں زانو پر رکھے
۱۸-
پہلے تشھد میں یہ دعا پڑھے"التحیات للہ والصلوات والطیبات , السلام علیک أیھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ,السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین , أشھد أن لا الہ الا اللہ وأشھد أن محمدا عبدہ ورسولہ"
۱۹-
پھر "اللہ اکبر" کہ کر کھڑا ہو جائے اور ہاتھوں کو کندھے یا کان کی لو تک لے جائے,ہاتھوں کو سینہ پر باندھے, تیسری اور چوتھی رکعت پوری کرے,یہ دو رکعتیں پہلے کی دو رکعتوں سے چھوٹی اور ہلکی ہوں,اور ان میں صرف سورئہ فاتحہ کی تلاوت کرے
۲۰-
پھر آخری تشھد کے لئے "تورّک" کرے یعنی دائیں پاؤں کو کھڑا رکھے,بائیں پاؤں کو دائیں پنڈلی کے نیچے سے باہر نکالے,زمین کے بل پر اچھے انداز میں بیٹہے , داھنے ہاتھ کو داھنے زانو پر اسی طرح رکھے جس طرح پھلے تشھد میں رکھا تھا, اور بائیں ہاتھ کو بائیں زانو پر انگلیاں کھول کر یا ان سے گھٹنہ پکڑ کر رکھے
۲۱-
پھر پہلے تشھد کی دعا پڑھے اور یہ اضافہ کرے "اللھم صلّ علی محمد وعلی آل محمد ,کما صلیت علی ابراھیم و آل ابراھیم إنک حمید مجید"اور یہ دعا بھی پڑھے"اللھم إنی أعوذ بک من جھنم, ومن عذاب القبر, ومن فتنۃ المحیا والممات,ومن فتنۃ المسیح الدجال"ان کے علاوہ اللہ سے جو چاھے دنیا و آخرت کی بھلائی کی دعا کرے
۲۲-
پھر دائیں اور بائیں طرف سلام پھیرتے ہوئے کہے "السلام علیکم ورحمۃ اللہ"
اس طرح سے نماز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ادا ہوتی ہے
۲۳-
ماخوذ از:ویب صید