الجمعة، فبراير 28، 2014

اللہ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی

ثناءاللہ صادق تیمی
 جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی 110067

    اس سے  پہلے ایمان کے ارکان کے بارے میں گفتگو ہوئي  تھی اور بتلایا گیا تھا کہ ایمان کے چھ ارکان ہیں ۔ اللہ پر ایمان ، اس کے فرشتوں پر ایمان ، اس کی کتابوں پر ایمان ، اس کے رسولوں پر ایمان ، یوم آخرت پر ایمان اور تقدیر کے خیروشر پر ایمان ۔ یہاں ہم اسلام کے ارکان کی بابت گفتگو کرینگے ۔ اس کا پہلا رکن اللہ کی وحدانیت اور رسول کی رسالت کی گواہی ہے ۔ اس رکن کے دو اجزاء ہیں اور ان دونوں اجزاء کے ٹھیک ٹھیک سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے پر ہی اسلام کی صحیح سمجھ منحصر ہے ۔ اس کے پہلے حصے کا تعلق اللہ کی وحدانیت کے قبول و اعتراف اور اظہار واعلان سے ہے اور دوسرے کا تعلق اللہ کے رسول محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسوہ اور آئیڈیل قبول کرنے اور اسی کے مطابق زندگی گزارنے سے ہے ۔ اور در اصل یہی بنیادی طور پر اسلام بھی ہے ۔
اللہ کی وحدانیت کا مطلب
: کسی بھی ملک ، قوم اور آرگنائزیشن کاکوئی نہ کوئی نشان ہوتا ہے جو اس کی پہچان بھی ہوتا ہے ۔ اسلام کا نشان یہی لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے ۔ بظاہر یہ سادہ سا جملہ ہے لیکن حقیقت کے اعتبارسے یہ اتنا سادہ بھی نہیں ہے ۔ درا صل اس کے اندر پورے دین کی شمولیت ہے ۔ یہ اقرار کرنا کہ معبود صرف اللہ ہے اور کوئی نہیں، ایک بہت بڑی سچائی کو سینے لگا کر اس کے مطابق خود کوڈھالنا ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس سچائی کا اعلان کیا اور مکہ کےلوگوں کو اس حقیقت کی طرف بلایا تو مکہ کے مشرکین نے اس دعوت کا مطلب سمجھا ۔ اس لیے جنہوں نے قبول کیا انہوں نے بھی دل سے قبول کیااور جنہوں نے انکار کیا انہوں نے بھی مطلب سمجھ کر اور یہ جان کر انکارکیاکہ اس دعوت کاپیغام کیا ہے اور اس کے تقاضے کیاہونے والے ہيں ۔ مکہ والوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ کیا تم نے تمام معبودوں کی  جگہ ایک ہی معبود ٹھہرادیا ہے ۔ یہ تو عجیب و غریب بات ہے ۔ ا جعل الالھۃ الھا واحدا ، ان ھذا لشیئ عجاب(ص: 6 ) ۔ اور جن اللہ والوں نے قبول کیا انہوں نے اپنی جان دے دی لیکن کلمہ کے اس تقاضے کو لمحہ بھر کے لیےفراموش نہ کیا ۔ اللہ نے مسلمانوں کو جو کلمہ دیا اور جس کے ذریعہ کوئی بھی انسان دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے ۔ اس کا پہلا حصہ در اصل انکار ہے ۔ انکار اس بات کا کہ کوئی معبود نہيں ہے ۔ کوئی اس قابل نہيں ہے کہ اس کی  عبادت کی جائے ، اسے سجدہ کیا جائے ، اس سے مدد مانگی جائے ، اسے مشکل کشا اور حاجت روا سمجھا جائے اور زندگی کی جملہ ضرورتوں میں اس کی طرف مراجعہ کیا جائے ۔ اور دوسراحصہ بتلاتا ہے کہ مگر ایک ذات ہے ۔ ایک اللہ ہے جو ان تمام صفات کا مالک ہے اور جس سے رجوع کیا جائيگا اور صرف اسی سے کیا جائيگا ۔ صرف اسی کی عبادت کی جائیگی اور کسی کی نہيں۔  اسلام نے انکار و اثبات کی اس ترتیب و ترکیب سے بڑی گہری معنویت پیدا کی ہے اور وہ ہے عقیدے کی وہ پختگی ، صلابت اور مضبوطی جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ اللہ نے شروعات ہی میں اس بات کو اتنا واضح کردیا ہے کہ اس میں کسی قسم کی کوئی ملاوٹ ، کوئي التباس یا پیچیدگی باقی نہ بچے ۔ یہی در اصل اسلام کی بنیاد ہے ۔ اسی دعوت کو لے کر تمام انبیاء کرام دنیا میں آئے تھے اور سبھوں نے اسی پیغام کو پہنچانے کا کام کیا تھا ۔ وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لاالہ الا انا فاعبدون۔(الانبیاء : 25 ) اس معاملے میں اللہ تعالی کافی غیور واقع ہوا ہے ، اس معاملے میں وہ کوئي کوتاہی قبول کرنے کا روادار نہيں ۔ اسی لیے اس نے اس قبیل کے گناہ معاف کرنے سے انکار کیا ۔ ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ و یغفر ما دون ذلک لمن یشاء ومن یشرک باللہ فقد ضل ضلالا بعیدا۔ (النساء : 116 )  اسلام اس حوالے سے کسی قسم کا کوئي کنفیوزن نہيں چھوڑتا ۔ اسی لیے وہ پہلے انکار سے شروع کرتا ہے اور پھر اعتراف تک لاتا ہے ۔ یہ در اصل اعلان براءت بھی ہے اور اعلان حق وصداقت بھی ۔ یہاں نہ تو صرف انکار ہے اور نہ صرف اقرار ۔ اب یہ بالکل بھی نہ چلے گا کہ اسے بھی مان لیا جائے اور کسی اور کو بھی مان لیا جائے اور نہ یہ چلے گا کہ اسے مانا ہی نہ جائے ۔  اس موقف میں وہ کسی قسم کے سمجھوتے کا روادار نہیں ۔ اس بارے میں اس کا موقف ہے کہ لکم دینکم ولی دین ۔ اگر کوئی اس سچائی کوئی نہيں مانتا تو نہ مانے لیکن ہم اس حقیقت پر اٹل ہیں اور اس بارےمیں کوئي سمجھوتہ نہيں کرسکتے ۔ اسی لیے اہل کتاب سے جب اتحاد کی بات کی گئي تو ان سے کہا گیا کہ ایسی بات کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں مشترک ہے اور وہ یہ کہ ایک اللہ کی عبادت کی جائے ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے اور  ہم میں کا بعض بعض کو رب نہ بنائے ۔ اگر مانتے ہيں تو ٹھیک ورنہ اعلان کردیا جائے کہ بھائی ہم یہی مانتے ہیں ۔ قل یا اھل الکتاب تعالوا الی کلمۃ سواء بیننا و بینکم ان لا نعبد الا اللہ ولا نشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اللہ فان تولوا فقولوا اشھدوابانا مسلمون۔( آل عمران : 64)
        مکہ کے کفار کو پتہ تھا کہ اس کلمہ کا مطلب کیا ہے ۔ تبھی تو انہوں نے اس کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا لیکن آج مسلمانوں کو اس کلمے کی حقیقت نہيں معلوم تبھی تو وہ کلمہ کا ورد بھی کرتے رہتے ہیں اور ہر طرح کے مشرکانہ اعمال بھی انجام دیتے ہیں ۔ ہر مصیبت ، پریشانی ، بیماری  اور دقت میں اللہ کے علاوہ نہ معلوم کتنے غیراللہ کی چوکھٹ پر ماتھے ٹیکتے ہيں اور اپنے سر کی عزت کو خاک میں ملاتے ہیں ۔ ٹھیک کہا تھا اقبال نے ۔
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
   آج کا مسلمان ایک اللہ کو چھوڑنے کی وجہ سے کہاں کہاں ٹھوکر کھا رہا ہے ۔ اور کیا کچھ وہ نہيں گنوا رہا ہے ۔ ایمان و علم کی ساری دولت کھو رہا ہے ۔ کسی اردو شاعر نے آج کے مسلمانوں کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے ۔
مشکل کشا سمجھ کے اٹھا لے گئی مجھے
حاجت روا سمجھ کے اٹھا لے گئی مجھے
میں اک شکستہ سنگ تھا لوح مزار کا
دنیا خدا سمجھ کے اٹھا لے گئی مجھے
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت :
کلمے کا دوسرا حصہ در اصل اس بات کاجواب ہے کہ وہ جو ایک اللہ کو ماننا ہے اور اسی کی عبادت کرنی ہے اور اسی کے مطابق چلنا ہے تو سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہوگاکیسے ؟  اور اس کیسے کاجواب یہ ہے کہ ویسے جیسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کرکے دکھلایا ۔ یعنی اصول بھی متعین اور شروح بھی متعین ۔ اسی حقیقت کو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے ۔ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ ۔(الاحزاب: 21 ) اور اسی کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے "صلوا کما رایتمنونی اصلی " (البخاری) ویسے نماز پڑھو جیسےتم نے  مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے ،کے اندر بیان کیا ہے ۔ اور اسی حقیقت کو اور زیادہ وضاحت سے اللہ نے قرآن کریم کی ایک آیت میں بیان کیا ہے کہ اگر مجھ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میرے رسول کی پیروی کرو ۔ قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ۔(آل عمران: 31 ) یعنی کام صرف اللہ کے لیے ہو اور طریقہ صرف محمد رسول اللہ کا تبھی جاکر قابل قبول ہے ۔ اسی لیے علماءاسلام کے نزدیک کوئی کام تبھی جاکر اسلامی ہوتا ہے جب وہ خالص اللہ کے لیے کیا جائے اور اللہ کے رسول کے مطابق ہو ۔ اور اسی حقیقت کواس کلمے کے اندر بیان کیا گيا ہے ۔ اسلامی تاریخ اور اللہ کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ بتلاتا ہے کہ صحابہ کرام کو بھی اللہ کے رسول کی اس حیثیت کا بخوبی پتہ تھا اور اس معاملے میں وہ کسی قسم کی کوتا ہی کے شکار نہیں تھے ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ جب مہاجرین و انصارکے درمیان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلافت کے موضوع پر اختلاف ہو گیا ۔ ان میں سے ہر دو فریق اپنے آپ کو زیادہ مستحق سمجھ رہا تھا اور اپنے اپنے دلائل پیش کررہا تھا ۔ اسی درمیان جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سنائی کہ الائمۃ من قریش کہ حکمراں قریشی ہوگا تو تمام صحابہ کرام نے اپنی اپنی دعویداری اس طرح واپس لے لی جیسے انہیں اس سے کوئي مطلب ہی نہ ہو ۔ اور خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معاملے میں کسی قسم کی کوئی چھوٹ نہيں دی ۔ اور اللہ تبارک وتعالی نے اس معاملے کو یہیں پر نہیں چھوڑا بلکہ اس نے یہ بھی ضروری قرار دیا کہ نہ صرف یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی جائے بلکہ پوری محبت ، آمادگی اور شرح صدر کے ساتھ آپ کے ایک ایک عمل اور ایک ایک حکم کو اپنا لیا جائے ۔ اللہ نے فرمایا کہ فلا وربک لا یؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجا مما قضيت و یسلموا تسلیما۔(النساء: 65 ) ایک مسلمان کے لیے در اصل یہی فلاح و کامرانی کی راہ بھی ہے ۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ آج کا مسلمان جہاں اللہ کے حقوق کے معاملے میں کوتاہ واقع ہوا ہے اور اس نے لا الہ الا اللہ کے تقاضے فراموش کررکھے ہیں وہیں اس نے محمد رسول اللہ کے مطلب کو بھی الجھاکر رکھ دیا ہے ۔  مختلف شخصیتوں کو اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ دے رکھی ہے اور اس طرح ہر چند کہ کلمہ رسول کا پڑھ رہا ہے لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس کارویہ انتہائي درجے میں بے وفائی کا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر عقیدے کی سطح پر بھی اور عمل کی سطح پر بھی گمراہیوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ نظر آتاہے ۔ جب تک مسلمان لا الہ الا اللہ محمد رسول کے مطلب کو نہ سمجھےاور اس کے مطابق عمل نہ کرے ،نہ تواس کی دنیا بن سکتی ہے اور نہ آخرت سنور سکتی ہے ۔ اللہ ہمیں بہتر توفیق سے نوازے ۔ آمین 


کوئی بے وقوف نہیں ہے


ثناءاللہ صادق تیمی
جواہرلال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی 110067

    یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم بھی ایک خاص قسم کی نوکری سے جڑے ہوئے تھے ۔ ہم دو تین لوگوں کا گروپ تھا ۔ ایک پر ایک سمجھدار لوگ ، بزعم خویش عقلمند ترین اور دوسروں کی سادگی سے فائدہ اٹھانے والے ۔ ہم تین لوگوں میں ایک صاحب تھوڑے زیادہ ہی عقلمند تھے ۔ نہ معلوم کیسے انہيں کوئی نہ کوئي شکار مل ہی جاتا تھا ۔ ایک صاحب کو تو انہوں نے بطور خاص
اپنا نشانہ بنا رکھا تھا ۔ بات یہ تھی کہ وہ تقریر اچھی کرتے تھے ۔ انہیں اپنی تقریر پسند بھی بہت تھی اور انہیں ایسا لگتا تھا کہ ان کی تقریر کے بعد ان کی تعریف تو ہونی ہی ہے ۔ اس لیے وہ اکثر لوگوں کا فیڈ بیک جاننا چاہتے تھے ۔ اس کا مطلب یہ نہ نکالا جائے کہ وہ تنقید بھی سننے کے روادار تھے ۔ نہيں ایسا بالکل بھی نہیں تھا ۔ اگر ان سے کوئی یہ کہتا کہ آپ کی تقریر میں فلاں کمی تھی تو جھٹ کہ دیتے کہ آپ کیا جانینگے ۔ ہم میں جو صاحب زیادہ عقلمند تھے وہ ان کی اس کمزوری سے واقف تھے اور جب کبھی انہیں معلوم ہوتا کہ آج حضرت کی تقریر ہوئی ہے وہ ان سے مل کر ان کی تعریف کرتے ۔ تعریف کرنے کا انداز یہ ہوتا تھا کہ وہ ان کے بعض اچھے جملے اور استدلالات یاد رکھتے اور ان کی اہمیت اور اس کی بلندی کا احساس دلاتے ۔ اس سے حضرت خوب خوش ہو لیتے تھے اور ہمارے عقلمند صاحب کا ناشتہ ہوجاتا تھا۔ ایک روز انہوں نے اپنی عقلمندی اور بیوقوف بنانےکی اپنی اس صلاحیت کا جب ہمارے سامنے ذکر کرنا شروع کیا تو ہم انہیں نہ صرف یہ کہ دیکھتے رہ گئے بلکہ ہمیں ان پر ایک قسم کا رشک بھی آیا ۔ ہم انہیں حسرتوں بھری نگاہوں سے دیکھ ہی رہے تھے کہ ہمارے دوسرے عقلمند جناب نے کہا: بھائی اصل عقلمندی تو ہمارے حصے میں آئی ہے ۔ جناب کو ناشتے پر ٹرخایا جاتا ہے اور ہمیں تو ناشتے ، چائے کے ہمراہ مٹھائی کی سوغات بھی نصیب ہوتی ہے ۔ اس سے پہلے کہ ہم ان سے حیرت میں ڈالنے والی اس صلاحیت کی گہرائی کی بابت پوچھتے وہ گویا ہوئے کہ بھائی ہم اس راز سے اس لیے پردہ نہيں اٹھا سکتے کہ ہم اس سے دیر تک محظوظ ہونا چاہ رہے ہیں ۔ میں منہ بنائے حیرت کی تصویر بنا انہیں دیکھ رہا تھا کہ بے نام خاں نے کہا: بیٹے تم اتنے بھی تو بے وقوف نہیں کہ کچھ قسمت آزمائی نہ کر سکو ۔ چلو تم اپنے طور پر کوشش کرکے دیکھو کچھ نہ کچھ تو کامیابی مل ہی جائيگی ۔ دوسرے دن میں بھی ایک ارادہ لیے ان کی طرف بڑھا کہ انہوں نے حال چال دریافت کرنے کے بعد کہا : بابو یہ دنیا ہے ۔ لوگ آپ کو بے وقوف ہی سمجھتے ہیں ۔ ہر نیک اور شریف آدمی کو بے وقوف سمجھاجاتا ہے ۔ اب تم میری ہی مثال لے لو کہ لوگ میرے سامنے میری تقریروں کی تعریف کیا کرتے ہیں اور جب میں انہیں ناشتہ چائے پلاکر رخصت کرتا ہوں تو وہ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ انہوں نے مجھے بے وقوف بنا دیا ۔ میں جانتا ہوں کہ وہ ایسا کہتے ہیں اور کہتے رہيںگے لیکن میں یہ سوچتا ہوں کہ میں ان کے بارے میں نہيں وہ میرے بارے میں بات کرتے ہیں اور یہی کیا کم ہے ۔ کل ان کو اور میرے چائے ناشتے کو بھلا دیا جائيگا لیکن میں اور میری تقریر مزید پختہ ہوتی جائیگی ۔ اس زاویے سے سوچو تو وہ مجھے کم اور میں انہیں زیادہ بے وقوف بنا رہا ہوں ۔ مجھے لگا کہ واقعۃ کوئی بے وقوف نہيں ہے ۔
           میرے پاس میرے دوست بے نام خاں آئے اور انہوں نے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یار ان دنوں تمہارے بار ے ميں بڑی الٹی سیدھی باتیں ہورہی  ہیں ۔ تمہيں پتہ ہے ایک یونیورسٹی کی ایک بڑی اسکالر تمہارا نام لے کر تم پر فتنہ پردازی کا الزام لگا رہی تھیں ۔ میرے کئی ایک دوست تمہارے بارے میں پوچھ رہے تھے کہ کہیں تم واقعۃ ایسی ویسی کوئی حرکت تو نہیں کررہے ۔ مجھے اپنے دوست کی بات پر پہلے پہل تو بڑی پریشانی ہوئی لیکن جب میں نے سوچا اور اس پر کسی قسم کا کوئی منفی رد عمل ظاہر نہيں کیا تو وہ بڑے پریشان ہوئے اور کہنے لگے مجھے ڈر ہے کہ کہیں اب تم بھی عقلمند تو نہیں ہو گئے ۔ کچھ تو بولو یار اول فول اور میری محنت وصول ہو ۔ تھوڑی دیر بعد خود ہی گویا ہوئے کہ یارمجھے لگتا ہے کہ اب تم بھی بے وقوف نہیں رہے ۔
         ہمارے ایک دوست تھے ۔ جناب کو عشق کا دورہ پڑتا رہتا تھا اور بڑے معصومانہ سوالات کرتے رہتے تھے ۔ ہم انہيں ایک پر ایک ٹپس دیتے اور اپنی محفلوں میں ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے ۔ ایک روز اسی عمل میں مصروف تھے کہ بے نام خاں نے کہا بیٹے بے وقوف وہ نہیں تم لوگ ہو ۔ ہمیں غصہ آیا اور پوچھا وہ کیسے ؟  اور بے نام خاں کا جواب تھا کہ تمہارا وہ عاشق دوست بتارہا تھا کہ علمی طور پر تو تم اس کا نام لے نہیں سکتے اور نہ وہ بے چارہ اس معاملے میں تم سے سبقت کر سکتا ہے ۔ کم ازکم اسی عشق اور بے وقوفی کی وجہ سے وہ تمہاری گفتگو کا حصہ تو ہو جاتا ہے ۔ مجھے سمجھ میں آیا کہ کوئی بے وقوف نہیں ۔
        وہ ہمارے جاننے والے تھے اور انتہائی غریب اور پریشان حال پریوار سے ان کا تعلق تھا ۔ ہمارے اور ان کے درمیان انسانیت کا رشتہ تھا ۔ ان دنوں مکھیا کا الیشن ہونے والا تھا ۔ کافی گہما گہمی تھی اور ایک پر ایک افواہ کا بازار گرم تھا ۔ ہم اپنے کسی علمی کام میں مصروف تھے کہ بے نام خاں آئے اور میری طرف دیکھ کر مسکرانے لگے ۔ ہم نے ان سے  مسکرانے کی وجہ پوچھی تھی کہ وہ اور بھی مسکرانے لگے ۔ اب مجھے غصہ آنے لگا تھا اور بے نام خاں تاڑ رہے تھے ۔ انہوں نے مجھے اور بھی  پریشان کرتے ہوئے قہقہ لگانا شروع کردیا ۔ میں اپنا قلم لے کر ان کی طرف چلانے ہی والا تھا کہ انہوں نے اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے کہا کہ بھائی  اصل میں ایک بڑی زبردست انفارمیشن دینے آیا ہوں ۔ جانتے ہو تمہارے انسان دوست نے مکھیا کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ میں نے یوں ہی ٹالتے ہوئے کہا کہ چلو کچھ اور سناؤ اور بے نام خاں نے سمجھ لیا کہ ہم نے ان کی خبر کو درست نہيں مانا اور انہوں نے کہا دیکھو دوست میں سنجیدہ ہوں ۔ بعد میں یہ مت کہنا کہ ہم نے تمہیں بتایا نہيں ۔ میں نے اس کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا اور بے نام خاں قسمیہ بیان دینے کو تیار ہوگئے ۔ میں نے مان لیا کہ وہ جھوٹ نہيں بول رہے ۔ لیکن پھربھی میں نے جب کوئی جواب نہيں دیا تووہ پریشان ہوکر چلے گئے ۔ شام کو ہماری ملاقات ہمارے انسان دوست سے ہوئی اور جب ہم نے انہيں کہا کہ یہ کیا بے وقوفی کررہے ہو تو وہ مجھے عجیب و غریب نگاہوں سے دیکھنے لگے ۔ گویا ہوئے تو جیسے ستم ہی نازل ہوگیا ۔ کہنے لگے کم از کم آپ سے اس رد عمل کی توقع نہيں تھی ۔ اکیلے آپ ہی کو تو میں اپنا خیرخواہ اور عقلمند دوست سمجھتا تھا ۔ آج آپ نے وہ بھرم بھی توڑ دیا ۔ میں نے کہا اس کا مطلب ہے کہ مجھے خبر دینے میں دھوکہ دیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بھائی صاحب ہم تو آئے تھے کہ آپ سے حوصلہ افزائی کے چند کلمات سننے کو ملینگے ۔ اور ہم زیادہ تندہی کے ساتھ کام کرسکیںگے۔ میں نے کہا کہ آپ کا خیر خواہ ہوں اور عقلمند بھی تبھی تو آپ سے یہ کہ رہا ہوں کہ آپ یہ کیا حماقت کرنے جارہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ آپ  زرا مجھے یہ بتلائیں کہ اس میں برائی کیا ہے ؟  میں نے کہا کہ بھائی آپ کے جیتنے کی ایک فیصد  بھی توقع نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ لیکن میں جیتنے کے لیے کب لڑ رہا ہوں ؟  میں نے کہا : مطلب ؟ انہوں نے کہا کہ بھائی  میں نہیں جیتونگا یہ آپ سوچتے ہيں لیکن کیا ضروری ہے کہ میں ہار ہی  جاؤں ، ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کو مجھ سے ہمدردی ہو جائے اور میں جیت جاؤں ۔ واضح رہے کہ تاریخ میں ایسا ہو بھی چکا ہے ۔ میں نے کہا کہ آپ کی سادگی پر مجھے ہنسی آرہی ہے ۔ اس پر ہمارے انسان دوست گویا ہوئے : مولانا صاحب ! اگر لڑونگا تو کم از کم لوگوں کی نگاہوں میں رہونگا ۔ میرا ذکر ہوگا ۔ تاریخ کا حصہ بن جاؤنگا ۔ ورنہ مجھ غریب کو جانتا کون ہے اور پہچانتا کون ہے ؟ جب سے میں نے الیکشن لڑنے کی گھوشنا کی ہے کئی سارے لوگ مجھ سے اپروچ کرچکے ہیں ۔ کچھ لوگوں نے تومجھے پیسوں سے مدد کرنے کا بھی  یقین دلایا ہے ۔ آپ مجھے بے وقوف سمجھ رہے ہيں اور اب تو مجھے لگتا ہے کہ اب تک میں آپ کوعقلمند سمجھ کر کچھ عقلمندی نہیں کررہا تھا ۔ یہ کہ کر وہ اٹھ بیٹھے اورمیں انہیں جاتا ہوا بس دیکھتا رہ گیا ۔
           ان دنوں جناب عالی ڈاکٹری کررہے ہیں ۔ ایک وقت تھا جب ہمارے ساتھ اسلامی علوم پڑھ رہے تھے ۔ جناب جھوٹ نہیں بولتے تھے ۔ کچھ بھی بولتے تو ایسا لگتا کہ سچ ہی بول رہے ہیں ۔ ایک عجیب و غریب قسم کی معصومیت ٹپکی پڑتی تھی ۔ ایک روز کلاس میں نہیں تھے ۔ دوسرے دن جب استاذ نے سوال کیا اور پوچھا کہ کل آپ کیوں نہیں تھے تو ان کا جواب تھا کہ شیخ موڈ نہیں تھا ! ہم سب پریشان تھے کہ آج تو ان کا ہوا ستیا ناس لیکن استاذ محترم نے کہا تو یہ کہا کہ چلیے کم از کم کوئي تو ہے جو سچ بولتا ہے اور ہم بس استاذ محترم کے ساتھ ساتھ اس معصوم بے وقوف دوست کو بھی دیکھتے رہ گئے ۔ حد تو تب ہوگئی جب وہ ایک مرتبہ مغرب بعد مین گیٹ سے مدرسے میں داخل ہو رہے تھے اور جب ایک پروقار، بارعب اور پر ہیبت  استاذ نے سوال کیا کہ بھائی اس وقت کہاں سے نمودار ہورہے ہو تو عالی جناب کا جواب تھا کہ شیخ ایک اچھی فلم لگی ہوئی تھی اسے ہی دیکھنے چلا گیا تھا ۔ شیخ نے کہا تو بس یہ کہا کہ آئندہ احتیاط برتیے ۔ فلم دیکھنا کوئی اچھی بات نہیں ۔ اور کوئي باز پرس نہیں ہوئي ۔ ہم نے ایک مرتبہ کہا کہ بھائی تم اتنی سچائی سے سچ کیسے بول دیتے ہو تو اس نے کہا کہ بھائی بچنے کا یہی راستہ سب سے یقینی ہوتا ہے ۔ میں  سوچتا رہ گيا کہ ہم بے وقوف تھے کہ ایک سچ کو چھپانے کے لیے ہزاروں جھوٹ کا سہارا لیتے تھے یا پھر یہ کہ جو سچ بول کر بھی بچ جاتے تھے ۔ ہمارے جھوٹ کا مقصد بھی تو بچنا ہی ہوتا تھا ۔ ہمارے تعجب کی انتہا تو اس وقت ہوگئی جب انہوں نے مدرسے کے اعلا ذمہ دار کے یہ کہنے پر کہ مولانا دو جوتے لگاؤنگا تو چار ہو جاؤگے۔ تہمیں میں نے  پہلے بھی  کہا ہے کہ چھٹی نہیں ملیگی  ۔ جناب نے ان کے قدموں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ لیکن شیخ آپ نے توچپل پہن رکھا ہے ۔ آپ کو کیا معلوم اس بات پر کتنا یقین آئے لیکن اس کے بعد مدرسے کے اعلا ذمہ دار نے مسکراتے ہوئے انہیں چھٹی دے دی تھی ۔ کبھی کبھی دل کہا کرتا ہے کہ اے کاش ہم بھی انہی کی طرح بے وقوف ہوتے !!


الأربعاء، فبراير 19، 2014

غزل

ساگر تیمی

نئی رتوں سے بغاوت سنبھال کر رکھنا
حیاو شرم کی دولت سنبھال کر رکھنا
برے دنوں میں یہی کام آنے والی ہے
بھلے دنوں کی عبادت سنبھال کر رکھنا
سفید کپڑوں پہ دھبے کبھی نہیں چھپتے
شریف ہو تو شرافت سنبھال کر رکھنا
ہر ایک شخص کو ملتی نہيں ہے آزادی

تمہیں ملی ہے یہ نعمت سنبھال کر رکھنا
ضمیر زندہ بھی فضل خدائے تعالی ہے
گناہ کرکے ندامت سنھبال کر رکھنا
حسین لوگ تو نازک بھی کم نہیں ہوتے
بگڑتے وقت بھی چاہت سنبھال کر رکھنا
سنا ہے لوگ بڑے بے ایمان ہیں ساگر
نگاہ و دل کی صداقت سنبھال کر رکھنا

مسلم سماج ، تعلیم اور خواتین


ثناءاللہ صادق تیمی
جواہرلال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی 110067
9560878759

عام طور سے کہا جاتا ہے کہ بہتر تعلیم سے بہتر سماج کی تشکیل عمل میں آتی ہے ۔ اور بہتر سماج تبھی بنتا ہے جب خواتین کی بہتر تعلیم ہوتی ہے ۔ پڑھے لکھے لوگ کہتے ہیں کہ ایک مرد کی تعلیم ایک فرد کی تعلیم اور ایک خاتون کی تعلیم ایک خاندان کی تعلیم ۔ تعلیم کو تحریک اور ترقی و بلندی کا ذریعہ بنا کر پیش کرنے کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ ادھر آکر مسلمانوں کے اندر بھی تعلیم پر زور بڑھا ہے اور مسلم لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں بھی لوگوں کے اندر سنجیدگی دیکھی جارہی ہے ۔ ورنہ ایک وقت تھا کہ جب ہمارے بڑے بڑے مفکرین خواتین کی اعلا تعلیم کے حق میں نہيں تھے ۔  اس سلسلے میں ہندوستانی مسلمانوں کے عظیم محسن اور تعلیم کے بڑے رسیا سرسید احمد خان کا نام لیا جا سکتا ہے ۔ ہر چند کہ ان کے یہاں اس سلسلے میں ایک طرح کی حکمت اور دانائی کا بھی عنصر پایا جاتا تھا کہ جب لڑکے پڑھے لکھے نہ ہونگے اور لڑکیاں تعلیم یافتہ ہونگی تو لڑکے ان کی بے قدری بھی کریں گے اور زندگی میں مسائل بھی جنم لینگے ۔ لیکن عمومی صورت حال یہ تھی کہ جب غالبا مولانا حالی کی بہن کو تعلیم دی جانے لگی تو ان کی دادی کا رو رو کر برا حال تھا ۔ مانا جاتا تھا کہ لڑکیاں پڑھ لکھ کر بہک جائینگی ۔ اسی لیے ہم پاتے ہیں کہ اس بیچ جو ناول وغیرہ اردو میں لکھے گئے ان میں عورتوں کی گھریلو تعلیم کی طرف کافی توجہ دی گئی اور اسے ضرورت بنا کر پیش کیا گیا ۔ اس سلسلےمیں ڈپٹی نذیراحمد اور راشد الخیری کا نام لیا جا سکتا ہے ۔
         بہرحال اس کے بعد ایک وقت آیا جب لڑکیوں کی گھریلو تعلیم عام ہوئی اور ان کے اندر تھوڑی بہت دینی تعلیم اور اخلاقیات پڑھانے کا باضابطہ رواج ہوگیا ۔ اس کے بعد ایک مرحلہ وہ آیا جسے ہم ایک قسم کے انقلاب کے طور پر دیکھ سکتے ہيں ۔ قدم قدم پر تعلیم نسواں کے مراکز کھولے گئے ۔ لڑکیوں کی تعلیم کے نام پر بہت سے "بنات" کی تاسیس عمل میں آئی ۔ اور یکایک ایسا لگا جیسے واقعۃ اصل ضرورت صرف لڑکیوں کی تعلیم ہی ہے ۔ پھر کیا تھا بہت سے لوگوں کی تجارت چل پڑی اور خدمت و تعلیم کے نام پر خوب پیسے کمائے گئے  ۔ ذاتی طور پر میں تعلیم کی ترویج و اشاعت کو تجارتی نقطہ نظر سے بھی  آگے بڑھانے کے خلاف نہيں ہوں۔ اس لیے کہ تجارت بری چیز نہیں ۔ تعلیم ضرورت ہے اور ضرورت کی چیزوں میں ہی تجارت کی جاتی ہے ۔ البتہ تجارت میں ایمانداری ، دیانتداری اور اصول پسندی کی بہرحال اپنی معنویت ہے ۔
         لیکن شکایت اگر ہے تو ہماری اس روش سے ہے جسے آسانی سے تقلیدی روش سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔ ایک طرف بنات کی بات چلی اور سب لوگ بنات کھولنے میں لگ گئے اور ساری قوت اسی کی نذر کردی ۔ میں یہاں اس بات پر زورر دونگا کہ بنات کی آج بھی ضرورت باقی ہے لیکن اس کے لیے ہمارے اندر بہتر حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔ ان علاقوں پر نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے جو اب بھی اس نعمت سے محروم ہيں ۔ بس یہ نہیں کہ سب کے سب جہاں تہاں یا بسا اوقات ایک ہی جگہ بغیر سوچے سمجھے بنات کھول رہے ہیں ۔ ضرورت دیکھی جائے اور پھر سرمایوں کا بہتر استعمال کیا جائے ۔ اور اس چکر میں اس بات کو فراموش نہ کیا جائے کہ خواتین سے متعلق ہماری دوسری ضروریات بھی ہیں ۔ اب ذرا تعلیم کو ہی لے لیجیے تو کیا یہ ضروری نہيں کہ ہمارے سماج میں مسلم خواتین ڈاکٹر ہوں ، نرس ہوں اور اعلا تعلیم یافتہ خواتین ہوں جو خواتین سے جڑے مسائل کو زیادہ بہتر طریقے سے حل کرسکیں ۔ مختلف یونیوسٹیز اور دعوہ سینٹرز میں میرے خطاب کے درمیان مجھ سے یہ بات پوچھی گئی کہ جہاں جہاں مخلوط تعلیم کا نظام رائج ہے وہاں اپنی بہن بیٹیوں کو تعلیم کے لیے بھیجنا مناسب ہے یا نہیں ۔ میں نے اس موقع اسے اپنے پڑھے لکھے ، اعلا تعلیم یافتہ اور کامیاب پروفیسنل لائف جینے والے یا اسے حاصل کرنے کی کوشش کرنے  والے دوستوں سے پوچھا کہ کیا ایسا نہيں ہو سکتا کہ ہم متبادل کی تلاش کریں ۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ ہم ایسے اداروں کی بنیاد ڈالیں جہاں کلچر ہمارا ہو ، تہذیب ہماری ہو ، اصول ہمارے ہوں اور تعلیم آج کی ضرورتوں کے مطابق ہو ۔ کیا ہم اپنی خواتین کے لیے طبی ادارے نہیں کھول سکتے ؟ کیا ہم اپنی خواتین کو نرسنگ اور مڈوائف وغیرہ کی ٹریننگ نہیں دے سکتے ۔ کیا ہم ایسا انتظام نہیں کر سکتے کہ ہماری خواتین اسلامی کوڈ آف لائف میں رہتے ہوئے بہتر اعلا تعلیم سے بہرہ ور ہوں اور پھر وہ بھی فکری سطح پر زیادہ اعتماد کے ساتھ اسلامی تعلیمات کا پرچار و پرسار کریں اور ضرورت پڑنے پر دشمنان دین مبین کو دنداں شکن جواب دے سکيں ۔
         مخلوط نظام تعلیم غیر اسلامی بھی ہے اور اس  کی مخالفت ضروری بھی ہے ۔ لیکن تاریخ بتلاتی ہے کہ صرف مخالفت کبھی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتی ۔ اگرہم اور آپ متبادل تلاش کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو اس کا واضح مطلب ہے کہ ضرورت رک نہیں سکتی ۔ ہم لاکھ مخلوط نظام تعلیم کی خطرناکی کا ہنگامہ کھڑا کریں لیکن چونکہ ہمارے پاس متبادل نہیں اس لیے یہ معلوم بات ہے کہ مسلمانوں میں جن کے پاس وسائل ہیں وہ اپنی بیٹیوں کو میڈیکل کی تعلیم دلانے کے لیے انہیں اداروں کا رخ کرتے ہیں ۔ ان میں بلاشبہ بہت سے ایسے لوگ ہيں جن کی ذہنیت اسلامی نہیں ، اس لیے ان پر کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن ان میں کچھ ایسے بھی ہيں جو اسلامی ذہن رکھنے کے باوجود ایسا کرنے پر اس لیے مجبور ہیں کہ ان کے پاس متبادل نہیں ۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ ایک طرف ہم اپنی عورتوں کی حد درجہ پردہ داری کے قایل ہیں جو بلاشبہ ہماری دینی اور اخلاقی غیرت کا اشاریہ ہے اور دوسری طرف ضرورت پڑنے پر خود ہمیں اپنی خواتین کو غیر محرم ہی نہیں ، غیر مسلم حضرات تک کے پاس بغرض علاج لے جانا پڑتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ہم اپنی ضرورتوں کو فراموش نہيں کرسکتے ۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم ایسا کیوں نہیں کرسکتے کہ ہماری ضرورتیں بھی پوری ہو جائیں اور ہمیں اپنی تہذيب و تمدن اور طرز معاشرت سے سمجھوتہ بھی نہ کرنا پڑے اور ہمارا دینی تشخص بھی مضبوط رہے ۔ عام طور سے مسلم برادری کی پہچان ایک غیر تعلیم یافتہ اور پچھڑی ہوئی کمیونیٹی کی ہے  ۔ اس میں بلاشبہ حکومتوں کی اپنی حصہ داریاں ہیں لیکن ہمارا اپنا قصور بھی کچھ کم نہیں ہے ۔ غیر ضروری جلسے جلوس اور بے مطلب کے دکھلاوے میں ہم جتنا سرمایہ ضائع کردیتے ہیں اگر اس کا عشر عشیر بھی پلاننگ کے تحت بہتر مقصد اور ضرورت کو سامنے رکھ کر خرچ کیا جائے تو کایا پلٹ ہو سکتی ہے ۔ یاد رہے کہ یہ کام آسان نہیں لیکن اگر ہمت ، حوصلے اور بلند فکری سے کام لیا جائے تو یہ ایسا کچھ مشکل بھی نہیں ہے ۔ یاد رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ اس طرف تو جہ دینا ضروری بھی ہے اور مجبوری بھی ورنہ ان آنکھوں نے ان یونیورسٹیز کے اندر جہاں مخلوط نظام تعلیم رائج ہے دختران ملت کی جو کیفیت دیکھی ہے اس سے کسی اچھے نتیجے کی توقع فضول ہی ہے ۔ کبھی کبھی تو دینی تعلیم سے آراستہ ان بہنوں کی کیفیت بھی خون کے آنسو رلا دیتی ہے  جو مدرسوں سے عربی دینی تعلیم کے حصول کے بعد اعلا تعلیم کی غرض سے ان دانش گاہوں کا رخ کرتی ہیں ۔ بھائیوں کا ذکر یہاں اس لیے جان بوجھ کر نہيں کیا جارہا کہ وہ تو جو ہے سو ہے ہی ۔ لیکن سوچنے کا زاویہ یہ بھی ہونا چاہیے کہ تالاب میں کسی کو ڈھکیل کر اگر ہم یہ توقع رکھیں کہ اس کے کپڑے نہيں بھگیں گے تو ظاہر ہے اسے ہماری عقلمندی کے زمرے میں نہيں رکھا جاسکتا ۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہ نکالا جائے کہ اس معاملے میں کچھ لوگوں کا رویہ زبردست کردار وعمل کا مظہر نہیں لیکن اتنا تو ہم سب جانتے ہیں کہ استثناءات بہر حال استثناءات ہی ہوتے ہیں ۔


الأحد، فبراير 16، 2014

ہندوستانی مسلمان اور پارلیمانی انتخابات


رحمت کلیم امواوی
(جواہر لعل یونیورسیٹی ،نئی دہلی(

ملک عزیز میں عام انتخابات کی تیاری پورے زورو شورکے ساتھ چل رہی ہے ،ساری پارٹیا ں حتی المقدور اپنا ووٹ بینک مضبوط کرنے کی سعی پیہم کر رہی ہیں لیکن ایک مسئلہ جو کہ آزادی کے بعد سے ا ب تک دامن گیر رہا ہے اور اس کا اب تک کوئی حل نہیں نکل پایا ہے کہ آخر مسلمان کس کوووٹ دیں؟اگر بی جے پی کو اپنا ووٹ دیتے ہیں تو پھر گجرات کا دلدوزسانحہ رونما ہوجاتا ہے،اگر کانگریس کے ہاتھوں میں زمام پادشاہی دیتے ہیں تو پھر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری عام ہو جاتی ہے اور بٹلہ ہاوس انکانٹر جیسا جانکاہ حادثہ وقوع پذیر ہوجاتا ہے اور اگر سماجوادی پارٹی کو اپنا مسیحا بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر دھولیہ اور مظفر نگر کے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی ہے ،الغرض ایسی کوئی پارٹی آزادی کے بعد سے اب تک معرکہ وجود میں نہیں آئی جوواقعتا ہندو مسلم ،سکھ عیسائی تصادم سے بالا تر ہوکر صرف ہندوستان کی تعمیر و ترقی کیلئے کام کرے ،بلکہ سبھوں نے اپنی سیاسی دنیا کو رنگا رنگ رکھنے کیلئے فرقہ وارانہ فسادات کرائے اور لاچار و بے بس عوام کی زندگی لیکر اپنی دنیا چمکائے،شاید یہی وجہ کہ اب یہ بات کہی جانے لگی ہے اور بڑے اعتما سے کہی جا رہی ہے کہ سیاست کا فساد سے بڑا گہرا تعلق ہے،یعنی سیاست میں کامیابی اور ناکامی کیلئے فسادات برپا کرنا یا کرانا انتہائی اہم اور کا رآمد ہوتا ہے،اب ایسے میں یہ فیصلہ کرناتقریباً ناممکن ہے کہ فی الوقت ہندوستان میں موجود سیاسی پارٹیوں میں کون سی پارٹی سیکولر ہے اور مسلمانوں کی ہمدرد ہے پھر کھلے عام یہ بھی نہیں کہا جانا چاہیے کہ فلاں پارٹی فرقہ پرست ہے چونکہ یہاں جمہوریت ہے اور جمہوریت میں سب سے بڑی یہاں کی عدلیہ ہوتی ہے،گرچہ کچھ پارٹیاں ایک دوسرے کوفرقہ پرست کہنے اور زبانی دعوی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی لیکن یہ سب اس لیے کیا جاتا ہے تا کہ سیدھے سادھے بھولے بھالے عوام کی نظروں میں مخالفین کو ظالم و جابر اور اپنے آپ کو عوام کا سب سے بڑا مسیحا ثابت کر سکے،لیکن اب عوام پوری طرح سے ہوشیار و بیدار ہو چکی ہے اور بہت حد تک موجودہ سیاسی پارٹیوں کے حقیقت کی تہ تک پہنچ چکی ہے،انہیں ان پارٹیوں کا اصلی چہرہ صاف دکھ گیا ہے اور وہ سمجھنے لگے ہیں کہ کونسی پارٹی ملک اور ملک کے عوام کے حق میں کتنا بہتر ثابت ہو سکتی ہے،جہاں تک مسلمانوں کا مسئلہ ہے کہ انہیں کیا کرنا چاہیے اور آنے والے انتخابات کیلئے کس طرح کی تیاری کرنی چاہیے،تو اس کیلئے بعض لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ بہتری اسی میں ہے کہ ہم ایک علیحدہ سیکولر مسلم پارٹی بنالیں۔یہ ان لوگوں کی ذاتی رائے ہے جنہیں لگتا ہے کہ مسلمان بڑی آسانی کے ساتھ ہندوستان کی گدی پر بیٹھ سکتا ہے،بہر کیف یہاں آزادی رائے کی پوری اجازت ہے اور ہر کسی کو اسکاپروانہ حاصل ہے کہ وہ اپنی رائے اس ملک میں پوری آزادی کے ساتھ پیش کرسکے۔لیکن میںذاتی طورپر ایسے لوگوں کی رائے سے فی الوقت اتفاق نہیں رکھتا اس لیے کہ یہ فیصلہ ابھی خطرے سے خالی نہیں معلوم پڑتا ہے،چونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہندوستان میں ایک ایسی پارٹی ہے جس کو استحکام صرف ان ہندں کی وجہ سے ہے جو یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان میں صرف ہندو راج ہی ہو اور مسلمان یہاں سے پاکستان چلے جائیں،لیکن یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہندوں کی ایک اچھی خاصی تعداد سیکولر ذہنیت کی حامل ہیں جو ایسا نہیں چاہتے اورجس کی وجہ سے مذہب کی سیاست کرنے والی پارٹی پوری طرح قدم نہیں جما پارہی ہے ایسے میں ہم نے اگر سیکولر مسلم سیاسی پارٹی بنانے کا اعلان کردیا تو بہت ممکن ہے کہ ہم سے ان جماعتوں کا ساتھ چھوٹ جائے جو سیکولر ہیں اور ہندوستان کی کرسی پر سیکولر رہنما بیٹھانا پسند کرتے ہیں اور جب ایسا ہوگا تو پھر فرقہ پرست طاقتیں پوری طرح ملک پر قابض ہو جائیں گی اور پھر مسلم اقلیت کا کیا حال ہوگا وہ اللہ ہی جانے۔
علاوہ ازیں ایک سوال جو بار بار اٹھایا جاتا رہا ہے کہ اخر مسلمانوں میں سیاسی قیادت کا فقدان کیوں ہوا؟اس سلسلے میں اول تو ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تقسیم ہند و پاک کے بعد مسلمانوں کی وہ اکثریت پاکستان ہجرت کر گئیں جو دولت و ثروت کے بادشاہ تھے اور بیشتر کمزور مسلمان ہندوستان میں رہ گئے،لیکن اس کے باوجود بھی جو لوگ اس وقت مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی کر رہے تھے وہ پوری ایمانداری کے ساتھ کر رہے تھے ،تاریخ گواہ ہے کہ مولانا آزاد کے بعد سے اب تک کوئی ایسا مسلم قائد کا ہندوستانی سیاست میں جنم نہیں ہوا جو مسلمانوں کے مسائل کو ایوان بالا میں ببانگ دہل رکھتا ہو اور پوری طرح مسلمانوں کے حقوق کی لڑائی لڑتا رہا ہو یہ واحد آزاد کی ذات تھی جنہوں نے صحیح معانی میں مسلم قیادت کا حق ادا کیا ہے،لیکن ان کے بعد آج تک کوئی ایسا مسلم چہرہ ہندوستانی سیات میں نظر نہیں اآتا جنہوں نے اس طرح کی جواں مردی کا ثبوت دیا ہو،دوسری بات یہ کہ ہم مسلمانوں نے اپنی تاریخ کو بہت حد تک فراموش کردی ہے،ہم نے اپنی پہچان کھودی ہے،اور ہم نے اپنے اسلاف کے طور سیاست کو بھلا دیاہے،ورنہ قیادت و سیادت تو ہم مسلمانوں کی خمیر کا عنصر رہا ہے ،دنیا بھر میں ہماری حکومت کا چرچہ رہا ہے لیکن جب ہم نے اپنی زندگی کا لبادہ بدلہ،مادہ پرستی،مفاد پرستی اور دنیا پرستی کو اپنے گلے لگایا تو یہ نعمت عظمی ہمارے ہاتھ سے یکسر نکلتی چلی گئی اور پھر ہم حاکم سے محکوم بن گئے۔یہاں پر یہ سوال بھی کافی اہم ہے کہ آخر مسلمانوں میں سیاسی لیڈروں کی کمی کا ذمہ دار کون ہے ؟مسلم عوام،مسلم قائدین یا سیکولر جماعتیں؟میرا ماننا یہ ہے کہ اس کے ذمہ دار ہم خود مسلم عوام ہیں ۔چونکہ ہم اپنے ووٹ کی قدرو قیمت کا اندازہ نہیں کرتے۔ہم اس کی اہمیت کو نہیں سمجھتے ،ہم اس کو چند سکوں کے عوض فروخت کر دیتے ہیں،ہم لالچ میں آکر سونے کو کوئلے کے دام تول دیتے ہیں۔ہم نے دیکھا ہے کہ بعض خطے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں سے بھی مسلم نمائندے کو کامیابی نہیں مل پاتی،ہم نے دیکھا ہے کہ بیشتر مسلمان لوگوں کے بہلاوے میں آجاتے ہیں،ہم نے یہ بھی دیکھا ہے مسلمان لالچ میں آ کر فریب کھا جاتے ہیں۔اگر ہم ایسا نہ کریں اور اپنے ووٹ کی اہمیت کو سمجھ کر ایک ساتھ مناسب نمائندہ چنے تو پھر یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ مسلم لیڈران کی کمی نہ ہوکر آئے دن اضافہ ہی ہوتا جائے گا ۔اگر ضرورت ہے تو صرف اس بات کی کے ہم پورے اتحاد و اتفاق کے ساتھ ووٹ کریں، اس کا بیک وقت دو فائدہ ہو گا ،اول تو یہ کہ آپ کے اتحاد کی ایک بڑے پیمانے پر پہچان بنے گی اور دوئم یہ کہ مسلم نمائندگان کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ آخر ہم کانگریس یا بی جے پی دونوں میں سے کسی ایک کو کھل کر کیوں نہیں سپورٹ کرتے؟کیا دونوں مسلم دشمن پارٹی ہیں؟کیا دونوں کا ایک ہی منشور ہے ؟اور کیا دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں؟جواباً یہ عرض کیا جا سکتا ہے کہ دونوں پارٹی ایک سکے کے دورخ کے جیسے گرچہ نہیں ہیں لیکن دونوں پارٹی” نہلے پے دہلا“کے مانند ہیں ،بی جے پی کھلے عام مسلمانوں کا قتل عام کراتی ہے تو کانگریس آستین میں پل کر اچانک ڈنک مار دیتی ہے یعنی دونوں پارٹیاں مسلمانوں کے حق میں بھلائی کیلئے بہت کم سوچتی ہے ،بی جے پی تو سرے سے مسلمانوں کو کامیاب دیکھنا ہی نہیں چاہتی البتہ کانگریس کچھ حد تک مسلمانوں کے حق میں مثبت اقدام کرتی ہے۔اب بات یہ سمجھنے کی رہ جاتی ہے کہ مسلمان آخر کیسے اپنے ووٹ کو موثر بنا سکتے ہیں؟چونکہ ملک عزیز کے چند ریاستوں میں مسلمانوں کا ووٹ فیصلہ کن ووٹ ہوتا ہے ،لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کا اپنا فیصلہ نہیں ہوپا تا اور اس کی سب سے بڑی وجہ ہے باہمی انتشار ،اور مادیت کا بخار ۔اول تو یہ کہ ہم کسی بھی مسئلے پر چاہے وہ سیاسی ہو یا مذہبی،معاشی ہو یا تعلیمی جلد متحد نہیں ہوتے اور دوسری بات یہ کہ ہم اپنے ووٹ کی قدر نہیں کرتے ،ہم اس کی طاقت کا اندازہ نہیں کرتے،اور سیاسی کھلونوں سے باآسانی بہل جاتے ہیں جس کی وجہ سے جب نتائج کا اعلان ہوتا ہے تو وہ ہمارافیصلہ نہیں ہوتا اور جو نمائندہ منتخب ہو کے آتا ہے وہ بھی ہمارا نہیں ہوتا چونکہ ہم نے آدمی دیکھ کر کے ووٹ نہیں دیا ہے۔لیکن ہمیں اپنے ووٹ کو موثر بنانا ہی ہوگا چونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ فرقہ پرست طاقتیں دن بہ دن سر اٹھاتے ہی جا رہی ہیں اگر ہم اس کے خلاف اپنے قائد کی قیادت میں نہیں کھرے ہوں گے تو پھر ہم کہیں کے نہیں رہ پائیں ،یہ صرف میری رائے ہی نہیں ہے بلکہ یہ وقت کی پکار ہے جس پر مسلمانوں کا کان دھرنا اور اس کو عملی جاما پہنانا ہی ایک کار آمد راستہ معلوم پڑتا ہے،اس لیے ہمیں اپنے ووٹ کی قدر وقیمت کا اندازہ لگا نا ہوگا ،اتحاد کا دامن تھامنا ہوگا اور مادر وطن کے سیاسی میدان میں ہمیں اپنا قائد و نمائندہ زیادہ سے زیادہ بھیجنا ہوگا،چونکہ فرقہ پرست طاقتیں ہمارے خلاف ہر وقت گھات لگائے بیٹھی ہیں اور موقع ملتے ہی ہماری زندگی میں دخل اندازی شروع کرنے لگیں گی۔اور اگر ہمیںاپنے مضبوط قائد کا ساتھ نہ ملا تو وہ بہت جلد کامیاب ہو جائیں گی۔اس لیے ہمیں اپنے ووٹ کو موثر و کا رآمد بنانے کیلئے اس کی طاقت کو سمجھنا ہوگا۔اب فیصلہ یہ کرنا باقی رہ جاتا ہے کہ آخر آنے والے عام انتخابا ت میں مسلمان کس کو ووٹ دیں؟پہلے تو ہمیں یہ کرنا چاہیے کہ ہم جہاں جہاں سے ہو مسلم نمائندگان کو کامیاب بنانے کی جان توڑسعی کریں اس کے بعد دوسری یہ کہ کانگریس کو مرکز میں لانے کی کامیاب کوشش کریں چونکہ ہم مسلمان جانتے ہیں کہ بی جے پی کی حکومت ابھی ریاستی سطح پر ہے تو اس طرح ہمیں تباہ وبرباد کر رہی کہ کچھ کہا نہیں جاسکتا اور اگر مرکز میں آگئی تو پھر نہ جانے کیا کرےگی جس کا ہم لوگ شاید تصور بھی نہیں کرپائیں البتہ کانگریس پارٹی سے کچھ حد تک امیدلگانے کے جواز کا ثبوت ملتا ہے اس لیے ہمیں فی الوقت اسی بینر تلے اپنے نمائندگان کی تعداد میں غیر معمولی اضافے کی کوشش کرنی چاہیے ،پھر ایسا ہوگا کہ ایک دن کانگریس پارٹی کی پہچان ہی مسلمان پارٹی سے ہوجائے گی۔اللہ ہم سب مسلمانوں کو ہندوستانیسیاست میں تاریخی انقلاب پیدا کرنے کی توفیق دے:آمین
rahmatkalim91@gmail.com

الاثنين، فبراير 10، 2014

ڈاکٹر معراج عالم تیمی کے والد گرامی جناب انفاق صاحب انتقال فرما گئے


السلام ایجوکیشنل اینڈویلفیر فاؤنڈیشن پٹنہ کے جنرل سکریٹری ہمارے مربی اور مشفق بھائی ڈاکٹر معراج عالم تیمی مدنی کے والدگرامی قدر جناب انفاق صاحب کا آج صبح اچانک انتقال ہوگیا ، سینہ میں ہلکا سادردمحسوس ہوا اورکچھ دیر کے بعد داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ،انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس گھرکے ہر فردسے ہمارا اتنا قریبی تعلق تھا کہ ہم خود کولواحقین میں محسوس کررہے ہیں اور یہ دل خراش خبر سن کر جذبات سے بے قابو ہوتے جارہے ہیں۔لیکن موت سے کس کو رستگاری ہے ، آج وہ کل ہماری باری ہے ۔ اس موقع سے ہم پورے اہل خانہ بالخصوص بڑے بھائی جمال الدین مدنی ، برادرم ڈاکٹر معراج عالم مدنی ،ہم سبق سراج الدین تیمی ، عزیز ی اعجاز الدین اور اکرم جمال تیمی سے کہیں گے :أعظم اللہ أجرکم ، اوران سے گذارش کریں گے کہ صبرسے کام لیں،اللہ کے فیصلے سے راضی ہوں، یہ دنیا کی ریت ہے،یہاں کوئی ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آیا، اللہ پاک موصوف کی مغفرت فرمائے اوران کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے ۔آمین ہم تیمی احباب موصوف کے غم میں برابرکے شریک ہیں ۔

الأحد، فبراير 09، 2014

رد عمل کی نفسیات خطرنا ک ہوتی ہے !!!


ثناءاللہ صادق تیمی
 جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی

       عام طور سے یہ بات مشہور ہے کہ عمل کا رد عمل ہوتا ہے ۔ ایکشن کا ری ایکشن ہوتا ہے اور یہ بات کچھ اتنی غلط بھی نہیں ہے ۔ تاریخ بتلاتی ہے کہ یقینا عمل کا رد عمل ہوا ہے لیکن اس معاملے میں یہ بات عام طور سے نظر انداز کی گئی ہے کہ یہ رد عمل بالعموم بہت اچھی شکل میں سامنے نہیں آتا ۔ اسی لیے اس کے نتائج بھی اچھے نہیں ہوتے ۔ ردعمل کی نفسیات در اصل ایک منفی نفسیات ہے ۔ رد عمل کے تحت سوچنے والوں کے اندر مثبت طرز فکروعمل کی کمی پائی جاتی ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ مثبت فکر کا فقدان پایا جاتا ہے ۔ اس نفسیات کا شکار انسان بالعموم معاملے کے صرف ایک پہلو کو دیکھتا ہے اور دوسرے اہم پہلوؤں کو نظر انداز کردیتا ہے ۔ رد عمل کی نفسیات در اصل ایک قسم کے غلط ڈیفینس کے اظہار کے طور پر سامنے آتی ہے یا پھر اپنے فخر و اعتزاز کے بیان کے طور پر اور ان ہر دو صورت میں آدمی بہتر حکمت عملی اور صحیح شعور کی بجائے جذباتیت کا شکار ہوتا ہے اور یہ معلوم بات ہے کہ جذباتیت سے کبھی اچھے نتائج رونما نہیں ہوتے ۔
          تاریخ کا مطالعہ بتلاتا ہے کہ رد عمل کی یہ نفسیات ہمیشہ غلط ہی رہی ہے ۔ ہر چند کہ وہ دینی،ملی اور قومی غیرت کی شکل میں ہی کبھی کبھی کیوں نہ ظاہر ہو ۔  اس قسم کے ایک رد عمل کی مثال ہمیں حضرت عمر رضي اللہ عنہ کے یہاں نظر آتی ہے جو انہوں نے صلح حدیبیہ کے موقع سے صلح کے کڑے شرائط پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی پر دکھلایا تھا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تیکھے قسم کے سوالات کیے تھے اور جن کا بہت ہی متوازن اور حکمت آمیز جواب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنی اس حرکت پر زندگی بھر ملال رہا اور آپ اللہ سے اپنی مغفرت کی دعا کرتے رہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع سے حضرت عمر کی نہ صرف یہ کہ بات نہيں مانی بلکہ آپ نے مثبت طرز فکرو عمل کی ایک نہایت روشن مثال قائم کردی اور پیار سے پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ اپنے عمل کو خدائی حکم قراردیا اور کسی قسم کے غصے یا رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس کی ایک مثال وہاں بھی نظر آتی ہے کہ جب ایک یہودی نے آپ کو السام علیک کہا تو آپ نے وعلیک کہا ۔ حضرت عائشہ رضي اللہ عنھا آپ کی بیوی تھیں اور آپ سے بلاشبہ بہت محبت کرتی تھیں ۔ یہودی کی یہ بات آپ کوبہت بری لگی اورآپ نے یہودی کو جلی کٹی سناتے ہوئے کہا کہ تم پر موت آجائے اور تم پر اللہ کی لعنت ہو ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ کو ایسا کہنے سے منع کیا اور جب حضرت عائشہ نے کہا کہ آپ نے سنا نہیں کہ اس یہودی نے آپ کو کیا کہا تو آپ نے فرمایا اے عائشہ ! اور کیا تم نے سنا نہيں کہ میں نے اسے اس کا جواب بھی دے دیا اور پھر آپ نے حضرت عائشہ کو رفق و نرمی برتنے کی تلقین کی ۔ اسی طرح جب ایک کافر نے آپ کو مذمم کہا تو آپ نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ میں تو محمد ہوں ۔
         انسانی زندگی میں ایسے مواقع بہت آتے ہیں جب انسان کے اندر اس قسم کی نفسیات پیدا ہوجاتی ہے ۔ در اصل انسان ایک سماجی جانور ہے ۔ اس کے اندرمختلف قسم کی خواہشیں پائی جاتی ہیں ۔ انسان اپنے تمام خواہشات کی تکمیل چاہتا ہے جب کہ اس محدود زندگی میں اس کی لامحدود خواہشات کی تکمیل ہو نہیں پاتی اور وہ ایک قسم کے احساس محرومی میں جینے لگتا ہے اور پھر یہ احساس محرومی اس کے اندر رد عمل کی نفسیات پیدا کردیتا ہے ۔ انسانوں سے گھرے ہونے کے باعث وہ بالعموم اپنی محرومی کا ذمہ دار خود کو سمجھنے کی بجائے دوسروں کو سمجھنے لگتا ہے کبھی کبھار بظاہر ایسا لگتا بھی ہے کہ اس کی پریشانی واقعی کسی اور کی وجہ سے ہی ہے اور پھروہ غلط سلط قسم کے اندازے لگا کر رد عمل کی نفسیات میں گھر جاتا ہے ۔ ایسے انسان کو در اصل ایک قسم کی بیماری لگ جاتی ہے ۔ وہ مریضانہ ذہنیت سے سوچنے لگتا ہے اور زندگی کے اس مختصر سے سفرمیں جس سے تس سے جھگڑنے لگتا ہے ۔
         اسلام سرے سے اس قسم کی نفسیات کو ختم کرنے کی تعلیم دیتا ہے ۔ در اصل وہ تمام ایسے طریقے سکھلاتا ہے جس سے انسان اس قسم کی رد عمل والی نفسیات سے بچ سکے ۔ وہ انسان کو سکھلاتا ہے کہ انسان کے پاس جب کوئي خبر پہنچے تو وہ کسی بھی قسم کے رد عمل سے پہلے اس خبر کے استناد کو تلاش کرے ۔ وہ پہلے یہ دیکھے کہ وہ خبر صحیح بھی ہے یا نہيں اور پھر ٹھہر کر اس کے ما لہ و ماعلیہ پر غور کرنے کے بعد حکمت و دانائی سے کوئی مثبت قدم اٹھائے ۔ اللہ فرماتا ہے ۔ یاایھا الذین آمنوا ان جاء کم فاسق بنبا فتبینوا ان تصیبوا قوما بجھالۃ فتصبحوا علی ما فعلتم نادمین( الحجرات : 6 )
          اسلام بتلاتا ہے کہ انسان کو اگر کسی معاملے میں بظاہر کوئی ناکامی ملے تو گھبرانے کی بجائے وہ اللہ سے امید باندھے اور صبر کا دامن تھام لے ۔ اس سے اس کے اندر بہتر خیالات پیدا ہوںگے اور وہ اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے پھر سے کوشش کرے گا ۔ حدیث کے اندر اسے مومن کی ایسی خصوصیت سے تعبیر کیا گیا ہے جو اور کسی کے اندر نہیں پائی جاتی ۔ حدیث کے الفاظ ہیں ۔ عجبا لامر المومن ان امرہ کلہ لہ خیرو ما ذلک الا للمومن۔ ان اصابتہ سراء شکر فکان خیرا لہ و ان اصابتہ ضراء صبر فکان خیرا لہ  ۔ اسلام سکھلاتا ہے کہ انسان کو جو کچھ ملتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے ۔ یہ عقیدہ در اصل انسان کے اندر ایک قسم کا اطمینان اور سکون پیدا کرتا ہے ۔ وہ رد عمل یا احساس محرومی تلے نہیں جیتا ۔ وہ اللہ سے لو لگاتا ہے اور ہر ایک ناکامی کے بعد زیادہ اعتماد سے کوشش کرتا ہے اور بالآخر وہ اپنی منزل کو پا ہی لیتا ہے ۔ قرآن کریم کے اندر اللہ نے فرمایا ہے ۔ والعاقبۃ للمتقین ۔ اس موقع سے  مجھے اس سلسلے میں کسی مفکر کی وہ بات یاد آتی ہے کہ آپ کوشش کرتے رہیں اور جب تک آپ کو آپ کا رزلٹ نہیں ملتا اس وقت تک یہ سمجھیں کہ ابھی اس کا آخری مرحلہ نہیں آیا ہے ۔
   رد عمل کے تحت جینے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ آدمی مثبت انداز فکروعمل سے محروم ہو جاتا ہے ۔ وہ بات بات میں غصہ کرتا ہے اور لڑنے جھگڑنے کو تیار ہوجاتا ہے اور ہر جگہ اپنا نقصان کرتا ہے ۔  اسی لیے حدیث کے اندر آتا ہے کہ جب ایک صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ انہيں نصیحت کریں تو آپ نے کہا کہ غصہ مت کرو۔ صحابی رسول نے تین مرتبہ آپ سے نصیحت کی درخواست کی اور آپ نے تینوں  مرتبہ یہی نصیحت کی کہ غصہ مت کرو ۔ اسلام اسی لیے کہتا ہے کہ انسان اپنے اندر زیادہ سے زیادہ جذبہ شکر کو پروان چڑھائے اور اپنے سے نیچے کو دیکھے اوپر کو نہیں تاکہ اس کے اندر شکر کے جذبات پیدا ہو سکیں ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ انظروا الی من ھو اسفل منکم ولا تنظروا الی من ھو فوقکم فھو اجدر ان لا تزدروا بنعمۃ اللہ علیکم ۔
       اجتماعی زندگی میں بھی اس نفسیات سے بچنا بہت ضروری ہوتا ہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بتلاتی ہے کہ آپ نے حضرت خالد بن ولید کو اس جنگ کے موقع سے سیف اللہ کے خطاب سے نوازا جس کے اندر انہوں نے کمال ہوشیاری سے مسلم فوج کو بچ بچاکر دشمنوں کے نرغے سے نکال لیا تھا ۔ جب کچھ لوگوں نے اس  پر طنز کیا تو آپ نے اس کی تردید کی اور حضرت خالد کی تعریف کی ۔ حکمت عملی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی اس رد عمل کی نفسیات کا شکار ہوئے بغیر حقیقت کی روشنی میں کوئی فیصلہ لیتا ہے ۔ اس کی ایک مثال حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے یہاں ملتی ہے کہ انہوں نے اپنے مثبت فکرو عمل کو کام  میں لاتے ہوئے اور صورت حال سے ڈرے بغیر نہایت حکمت و دانائی کا ثبوت پیش کیا اور حضرت اسامہ کے لشکر کو نہ صرف یہ کہ  روانہ کیا بلکہ منعین زکوۃ اور مرتدین کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑی اور کامیاب و کامران ہوئے ۔ اس کی ایک مثال خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی ملتی ہے کہ جب اہل مکہ نے بد عہدی کی اور صلح حدیبیہ کے دفعات کی خلاف ورزی کی تو آپ نے 8 ہجری میں مکہ پر چڑھائی کا منصوبہ بنایا ۔ حضرت سفیان رضی اللہ عنہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ۔ وہ مکہ کے سردار تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ اب مسلمانوں کی قوت کافی بڑھ چکی ہے اور اکر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے چڑھائی کردی تو ان کی فتح طے ہے ۔ اس لیے انہوں نے اپنی پوری کوشش اس بات میں لگادی کہ کسی بھی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح کو باقی رکھنے پر رضامند کیا جائے ۔ لیکن یہ معلوم بات ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کی کسی بھی صلح سے بالکلیہ انکار کردیا اور حالات کو سامنے رکھتے ہوئے مکہ پر چڑھائی بھی کی اور کامران و کامیاب بھی  ہوئے ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ آپ نے اس سلسلے میں پوری انسانیت نوازی کا مظاہرہ کیا اور بے مثال فراخی اور کشادہ قلبی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے بد ترین جانی دشمنوں کو بھی بخش دیا۔
       آج مسلمانوں کے اندر انفرادی اور اجتماعی  سطح پر رد عمل کی نفسیات پیدا ہوگئی ہے ۔ اسی لیے وہ بجائے اس کے کہ حکمت و دانائی کا راستہ اپنائیں غلط سلط انداز میں رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ اسی لیے وہ مہیا مواقع سے فائدہ اٹھانے کی بجائے الٹی سیدھی مشکلوں کا رونا روتے ہیں اور ہر چھوٹی بڑی بات پر لڑنے کو تیار ہو جاتے ہیں ۔ اس معاملے میں برصغیر ہندو پاک کے مسلمانوں کا گراف تھوڑا زیادہ ہی اونچا ہے ۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ زندگی کے ہر معاملے میں پچھڑے ہوئے ہیں ۔ ان کے  پاس عذر بہت ہے ۔ شکایتیں بہت ہيں ۔ جا و بے جا شکووں کی بھرمار ہے لیکن ان کے اندر کچھ کرگزرنے کا جذبہ نہیں ۔ کوئي بہتر پلان نہیں ۔ حمکت و دانائی نہيں ۔ موجود مواقع سے فائدہ اٹھانے کا سلیقہ نہيں ۔ یاد رہے کہ رد عمل کی نفیسیات سے الگ ہو کر سوچنے کی دعوت دینے کا یہ مطلب ہرگز نہ نکالا جائے کہ آدمی بزدلی کا راستہ اختیار کرلے ۔ اس کا مطلب اصلا یہ ہے کہ آدمی صورت حال کا صحیح طریقے سے جائزہ لے کر مناسب قدم اٹھائے  ۔ اگر ضرورت اقدام کی ہو تو اقدام کرے اور اگر دفاع کی ہو تودفاع کرے اور اگر خموشی کے تقاضے ہوں تو خموشی کو ترجیح دے ۔ وہ جذباتیت سے بچے اور ہر ممکن کوشش کرے کہ مثبت انداز میں اپنا فریضہ ادا کرتا رہے ۔ اسے ایک حدیث کے اندر اس طرح سمجھا یا گیا ہے کہ اپنی ذمہ داری ادا کرو اور اپنے حقوق اللہ کے ذمے لگادو۔ حدیث کے الفاظ ہیں ۔ ادوا ماعلیکم و اسئلوا اللہ حقکم  ۔  دعا ہے کہ اللہ ہمیں رد عمل کی غلط نفسیات سے محفوظ رکھے ۔ آمین ۔

الثلاثاء، فبراير 04، 2014

روشنی ( ایک افسانہ )

ساگر تیمی
 جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی 110067

" پروردگار عالم ! تجھے خبر ہے کہ یہ سارا کام میں صرف اور صرف تیری رضا جوئی کےلیے کرتا ہوں ۔ مجھے پتہ ہے کہ میرے احباب اور دوست مجھے بے وقوف سمجھتے ہیں ۔  لیکن میں یہ سب صرف اس لیے کرتا ہوں کہ میرا ان کے اوپر اثر باقی رہے اور میں ان سے دینی مشن میں کام لے سکوں ۔ اے اللہ ! تو جانتا ہے کہ میرا مقصد سوائے تیری خوشنودی اور تیرے پیغام کی اشاعت کے اور کچھ نہیں ۔  پروردگار! میرا مال ، میری جان اور میری تعلیم اگر اس مشن میں کام آسکی تو ٹھیک ورنہ ان کا حاصل بھی کیا ہے ؟ "
     اجمل  کے سامنے یادوں کا سارا دریچہ کھل گيا ۔ وہ ملک کی بہت مشہور اور بہترین یونیورسٹی تھی ۔ صرف قابل اور محنتی طلبہ ہی اس یونیورسٹی میں داخلہ پاتے تھے ۔ وہاں داخلہ ملنے کا مطلب یہ مانا جاتا تھا کہ اب آپ کی زندگی کامیابی کے زینے پر قدم رکھ چکی ہے ۔ طلبہ بڑے جوش اور فخر سے بیان کرتے تھے کہ وہ اس یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں ۔ یونیورسٹی کا ماحول تھوڑا زیادہ ہی کھلا ہوا تھا ۔ آزادی اور الحاد کی تو جیسے وہاں سے ہوا ہی اٹھتی تھی ۔ ہم جنس پرستوں سےلے کر ہر طرح کے فیشن کو یہاں سے تقویت ملتی تھی ۔ لڑکیوں کی آزادی ہی نہیں بلکہ مکمل آزادی کی صدا جیسے اس یونیورسٹی کے بام ودر سے آتی تھی ۔ لڑکیوں کو ماں ، بہن ، بیوی اور دیوی ہونے تک پر اعتراض تھا ۔ وہ صرف لڑکیاں بننا چاہتی تھیں اور وہ بھی ایسی جیسی وہ خود چاتی تھیں ۔ انہیں یہ بالکل بھی گوارہ نہیں تھا کہ ان کے لباس ، بود و باش یا سوچنے سمجھنے کے انداز میں کسی قسم کی رخنہ اندازی کی جائے ۔ یونیورسٹی میں مخلوط تعلیم کا نظام نافذ تھا ۔ لڑکے اور لڑکیاں ہاسٹل میں رہتے تھے اور اس سلسلے میں کسی قسم کی کوئی قید نہیں تھے ۔ رات رات بھر ڈھابے کھلے رہتے تھے ۔ وہاں تو جیسے رات ہوتی ہیں نہیں تھی ۔ پڑھنے والے بھی رات کو شب بیداری کا فریضہ انجام دیتے تھے اور مستیاں کرنے والے بھی شام کےبعد ہی حرکت میں آتے تھے ۔
       اجمل ایک متوسط گھرانے کا لڑکا تھا ۔ یونیورسٹی سے پہلے کی  تعلیم مدرسے میں ہوئی تھی ۔ جھارکھنڈ کے ایک چھوٹے سے قصبے سے اس کا تعلق تھا ۔ وہ سانولے رنگت کا خوش شکل اور لمبا چوڑا  لڑکا تھا ۔ اس یونیورسٹی میں داخلہ سے پہلے اس نے ملک کی ایک دوسری یونیورسٹی سے بے ایڈ کیا تھا ۔ اس کے اندر بلا کی کشش پائی جاتی تھی ۔ مسکراہٹ جیسے اس کے وجود کا حصہ ہو ۔ اس کی آنکھوں میں گہرائی اور پیشانی  پر چمک تھی ۔ لڑکیاں بالعموم اس پر نثار ہو جاتی تھیں ۔ بی ایڈ کے زمانے میں اس کے اندر کافی تبدیلی رونما ہوئی تھی ۔ در اصل مدرسے کی پابند زندگی کے مقابلے میں اتنی آزاد زندگی میں وہ کچھ سے کچھ ہو گیا تھا ۔ یہ بات اس کے صرف قریبی دوست ہی جانتے تھے کہ وہ ایک مدرسے کا باضابطہ فارغ التحصیل عالم ہے ۔ دراصل وہ چاہتا بھی نہیں تھا کہ لوگ اسے اس حیثیت سے جانیں ۔ لیکن اتنی ساری تبدیلی اور آزادی کے باوجود اس کے اندر ایک چیز بڑی ریمارکیبل تھی ۔ وہ لوگوں کے کام بہت آتا تھا ۔ اس کی ایک بڑی خاصیت یہ تھی کہ وہ لوگوں کی باتوں کو بالعموم ہنس کر ٹال دیتا تھا ۔ اس لیے اس کی کبھی کسی سے برائي نہيں ہوتی تھی ۔ وہ اپنے سرکل میں لڑکیوں سے تھوڑا زیادہ ہی کھلا ہوا تھا ۔ بات یہ تھی کہ وہ لڑکیوں کی تعریف کرنے کی خوبی سے واقف تھا ۔ لیکن بہرحال وہ اپنے حدود کو بھی نظر میں رکھتا تھا ۔
         یونیورسٹی میں اس کی دوستی ایک دوسری ہی  قسم کے طالب علم سے ہو گئی ۔ وہ در اصل اتفاق ہی تھا ۔ لیکن اجمل کے  سماجی اعتبارسے متحرک ہونے  اور اس کے  دوست شاداب کے خلوص کی وجہ سے اس کے اندر بہت گہرائي آگئی تھی۔ شاداب مضبوط ارادوں کا مالک جوان تھا ۔ لمبا چہرا ، چوڑی پیشانی ، چھوٹی چھوٹی سمجھدار آنھکیں اور اس پر لجائی ہوئي مسکراہٹ اسے وقار و اعتبار عطا کرتی تھی ۔ بہار کے ایک قصبے سے اس کا تعلق تھا۔ وضعداری اور دینداری اس کی اصل پہچان تھی   ۔ ان دونوں کے بیچ ایک اور تیسرا طلب بھی تھا نوید ۔ یہ در اصل ان دو انتہاؤں کے بیچ ایک پل کی حیثيت رکھتا تھا ۔ شاداب ایک ایمان والے عملی مسلمان کا نمونہ تھا ۔ پوری یونیورسٹی میں ہر طرح کے مسلم اور انسانیت کے مسائل کو لے کر وہ پریشان رہا کرتا تھا ۔ وہ اس دین بیزار دانش گاہ میں پکا سچا مسلمان تھا ۔ پانچ وقت کی نمازین ، ہفتے میں دو روزے سموار اور جمعرات کے اور ہمہ وقت وضو کی حالت میں رہنا اس کی عادت میں شامل تھا ۔ وہ نہ تو کوئي فلم دیکھتا تھا اور نہ فلموں سے اسے کسی قسم کی کوئي دلچسپی تھی۔ وہ کسی قسم کی بے مقصد مجلس کا حصہ بننا پسند نہیں کرتا تھا۔ یونیورسٹی میں کلچر کے نام پر آئے دن رقص و سرود وغیرہ کی محفلیں سجاکرتی تھیں لیکن اسے ان سے کوئی سروکارنہيں تھا ۔ در اصل اس کی پچھلی زندگی اس کے بقول جاہلیت کی تھی ۔ جب وہ صرف نام کا مسلمان تھا اور سارے کام غیر مسلموں والے کیا کرتا تھا ۔ اس کی عملی زندگی کو دیکھ کر اسیا لگتا جیسے وہ اپنی پچھلی زندگی کی تلافی کررہا ہو ۔ عام طور سے طلبہ اس کا مذاق اڑاتے اور اس پر پھبتیاں کسا کرتے تھے ۔ در اصل وہ ایک الگ ہی قسم کا انسان تھا ۔ لوگوں کو اس کی اخلاقی بلندی اور اصول پسندی کا بھی اعتراف تھا اس کے باوجو نہ جانے کیوں اسے لوگ قبول کرنے کوتیار نہیں رہا کرتے تھے ۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا جیسے اپنے مقابلے میں اس کی نیکیوں کی وجہ سے لوگ اس سے چڑھ جاتے ہوں ۔ لیکن وہ تھا کہ بس اپنے کام میں لگاہوا تھا ۔ اس کے اندر ایسا نہیں کہ خامیاں نہیں تھیں۔ اسے تعریف بہت پسند تھی ۔ وہ بھی اپنے آپ کو کبھی کبھی اس طرح پیش کرتا جیسے واقعۃ اس کے علاوہ کوئی نیک ہو ہی نہیں لیکن ایسا کم کم ہی ہوتا تھا ۔ ان بن کی صورت میں وہ ہمیشہ معافی مانگنے میں جلدی کیا کرتا تھا ۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تیرتے رہتے تھے اور جب اللہ رسول کا ذکر آتا تو وہ سیلاب کی مانند بہ جاتے ۔
           اجمل اور نوید بالعموم ایک طرف ہو جاتے اوراسے دق کیا کرتے ۔ اس کا مزہ لیتے ۔ اور جب وہ غصہ کیا کرتا تو یہ خوب خوش ہوتے ۔ پھر یہ دونوں ناراض ہو جاتے اور وہ انہیں منانے کے لیے کسی اچھے ریستوراں میں پارٹی دیتا اور پھر سب کچھ ٹھیک ہوجاتا ۔ لیکن دوسرے طلبہ کے لیے یہ بڑی عجیب بات تھی ۔ وہ سوچتے کہ یہ دونوں آخر ایک ساتھ رہتے کیوں ہیں ۔ ان کی ایک ساتھ اتنی اچھی کیوں کر بن جاتی ہے ۔ کمال کی بات یہ تھی کہ اجمل اور نوید اس کے ساتھ ہونے کی وجہ سے نماز وغیرہ کی پابندی بھی کرلیا کرتے اور ہر طرح کے دینی اور سماجی کاموں کا حصہ ہو جایا کرتے ۔ البتہ ہر سموار اور جمعرات کو افطار کرنے کے باوجود انہیں کبھی نفلی روزے کی توفیق نہیں ملی تھی ۔ لیکن شاداب کے لیے اتنا بھی کم نہیں تھا کہ یہ لوگ نماز ادا کرلیتے ہیں ۔ دینی اور سماجی کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہیں اور ان کی وجہ سے اسے اپنے مقاصد کے حصول میں آسانی ہوتی ہے ۔ ایسے وہ ان کی مدد بھی کم نہیں کرتا تھا ۔ وہ ہمیشہ یہ کوشش بھی کرتا تھا کہ اگر وہ کوئی علمی کام کررہا ہے تو اس کے ساتھ اس کے دوست بھی ایسا ضرور کریں ۔ وہ ٹیم ورک میں یقین رکھتا تھا ۔ وہ اتنا سماجی تھا کہ کبھی کبھی نوید اسے الٹے نصیحتوں سے نوازنے لگتا۔ اکیڈمک پر دھیان دینے کی گزارش کرنے لگتا۔ اور بالعموم وہ یا تو ہوں ہاں کرکے رہ جاتا یا پھر ٹوپک چینج کردیتا۔ در اصل وہ اپنے اسٹڈیز میں بھی اچھا ہی تھا ۔
             اتنے لمبے عرصے کی دوستی میں بہت سے ایسے مواقع آئے جب ان کے درمیان تو تو میں میں ہوئي ۔ وہ ایک دوسرے سے ناراض ہوئے اور پھر بات بن گئي۔ بات یہ تھی کہ نوید بالعموم الجھنے کی بجائے مذاق میں ٹال جاتا تھا اور اجمل کے اندر رد عمل کی نفیسات تھی نہیں ۔ اور اگر کبھی ایسا ہو بھی جاتا تو شاداب کی معافی کےبعد  معاملے کے نہ بننے کا سوال ہی نہیں بچتا ۔ حالانکہ ایسی کوششیں بھی کی جاتیں کہ ان تینوں میں کچھ گڑ بڑ ہوجائے ۔ لیکن شاداب کا خلوص سب پر حاوی پڑ جاتا ۔
         لیکن اس مرتبہ کی صورت حال کچھ اور ہی تھی ۔ شاداب کی معافی اور نوید کی صلح کرانے کی کوشش سب بے کار ہو چکی تھی ۔ در اصل اجمل نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ اسے اب اس پابند زندگی سے پیچھا چھڑا ہی لینا ہے ۔ وہ یوں بھی اپنے لبرل دوستوں کے درمیان زیادہ ہی طنز کا نشانہ بن جایا کرتا تھا ۔ اسی لیے جب کسی بات پر شاداب نے اسے کچھ کہ دیا تو اب اسے جیسے ایک بہانہ ہاتھ لگ گیا ہو ۔ ایسے شاداب کے اندر بھی ایک قسم کا تحکمانہ انداز پایا جاتا تھا ۔ یہ سچ تھا کہ وہ اپنے دوستوں کا کچھ زیادہ ہی خیال رکھتا تھا لیکن یہ بھی سچ تھا کہ اس خیال میں کبھی کبھی وہ دوستوں کی آزادی میں مخل بھی  ہو جایا کرتا تھا ۔ وہ جذبہ خلوص کی شدت میں بھول جاتا کہ لوگوں کے اپنے بھی احساسات ہوتے ہیں ۔ اس کے دوست باتوں باتوں میں اسے اس کا احساس بھی دلاتے لیکن وہ دوسری باتوں کی طرح اسے بھی ان کا مذاق ہی خیال کرتا ۔
 یہ صورت حال سب سے زیادہ نوید کے لیے  پریشان کن تھی ۔ اس لیے کہ وہ بہرحال یہ نہيں چاہتا تھا کہ جو رشتے اتنی مدت تک چلتے رہے ہیں ، وہ یوں ٹوٹ جائیں ۔ بات یہ بھی تھی کہ خود نوید بھی اس رشتے سے اتنا جڑ گيا تھا کہ اس کے بغیر اس کی پوری یونویرسٹی لائف بے کیف سی معلوم ہوتی تھی ۔ لیکن وہ دیکھ رہا تھا کہ اس کی کوششیں بھی کچھ خاص نہیں کرپارہی ہیں ۔ اس کے سامنے ایک مرحلہ یہ بھی تھا کہ آخر وہ کیا کرے ۔ وہ دونوں سے محبت کرتا تھا ۔ اس کے لیے دونوں کو یوں الگ کرکے دیکھنا آسان نہیں تھا ۔ اسے کبھی کبھی شاداب کے مشن کی بھی یاد آتی تھی ۔ اور وہ جانتا تھا کہ ہر چند کہ وہ اور اجمل عملی سطح پر اس کے لیے بہت اچھے معاون نہيں ہیں لیکن یہ بھی سچ تھا کہ وہ دونوں دوسروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ اس کے مشن کے لیے مفید تھے ۔ بات یہ تھی کہ خود نوید کے اندر بھی بہتر سماج بنانے کی للک کچھ کم نہ تھی ۔ وہ دین کے نظری پہلوؤں پر بطور خاص بہت گہری نظر رکھتا تھا ۔ اس نے اپنے وقت کے اچھے اسلامی مفکرین کو پڑھا تھا ۔ لیکن اس کی سیمابیت اسے کچھ کرنے نہيں دیتی تھی ۔ وہ اپنے آپ کو بیلینس نہیں کرپاتا تھا۔  در اصل مختلف میدانوں کی آری ترچھی معلومات کے سہارے وہ چاہتا تھا کہ ہر ایک فیلڈ سر کرلے ۔ اس لیے وہ کہیں پر اپنی پوری حصہ داری نبھا نہیں پاتا تھا۔ لیکن اس کا اصل پیشن در اصل یہی تھا کہ وہ بھی کچھ قابل ذکر کام کر سکے ۔ اس معاملے میں اسے اکثر اپنے والد کی یاد آتی تھی جو اسے ایک آئڈیل انسان کے طورپر دیکھنا چاہتے تھے ۔
        اجمل نے  آخری بار یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ اب اسے شاداب سے تعلق توڑ لینا ہے ۔ وہ اپنا بچا کھچا سامان شاداب کے روم سے لے کر نکل جانا چاہتا تھا ۔ لیپ ٹاپ ، کپڑے اور کتابیں جب وہ لے کر نکلنے کا ارادہ کررہا تھا تو اس کی نظر شاداب کی  ڈائری پر پڑي اور وہ یہ سوچ کر اسے دیکھنے لگا کہ اتنی دیر میں اگر شاداب آگیا تو اسے آخری سلام کرکے نکل جائيگا ۔ اس کے سامنے ڈائری کا جو صفحہ کھلا اس نے اسے پریشان ہی کردیا ۔ اکثر وہ اور نوید یہ باتیں کیا کرتے تھے کہ اگرہم دونوں نہ ہوں تو شاداب اکیلا مر جائے ۔ اس دقیہ نوس انسان کو بھلا کون اپنا ساتھ دے۔ ہم تو کسی کے ساتھ بھی نباہ سکتے ہیں ۔ اس کا تو کسی کے ساتھ نہيں چل پائیگا۔ یہ الگ بات تھی کہ کبھی کبھی وہ دونوں اس پر رشک بھی کیا کرتے تھے لیکن انہيں اپنی برتری کا احساس رہتا ہی تھا ۔ یہاں ڈائری یہ کہ رہی تھی کہ وہ تو ان دونوں کو ان دونوں سے بھی زیادہ جانتا ہے اور صرف اس لیے ان کے سارے نخرے برداشت کرتا ہے کہ اس کے اپنے نیک دینی اور ایمانی مقاصد حاصل ہو سکیں ۔ اجمل اب ایک دوسری ہی قسم کی پشیمانی میں مبتلا تھا۔ اس کے من میں آرہا تھا کہ ہم کتنی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے فکرمند تھے اور شاداب کتنی دور رس نگاہ سے دیکھ رہا تھا ۔ تیری تجارت کامیاب رہی دوست! کاش ہم تمہيں پہلے اس طرح سمجھ سکتے ! ہم تمہاری مجبوری نہیں تھے ۔ تم نے تو ہمیں اپنے اتنے اونچے مقاصد کا حصہ بنا لیا تھا ۔ اور اس کے لیے تم نے کیا کیا نہيں برداشت کیا تھا  ۔ اس نے سارا سامان وہیں چھوڑ دیا اور جب نوید کو ٹیلی فون کرکے اس نے یہ کہا کہ وہ شاداب سے معافی مانگنا چاہتا ہے تو نوید کے لیے اپنی خوشیوں پر قابو پانا آسان نہيں رہا اور اس کے آنسو نکل پڑے۔