الاثنين، أبريل 22، 2013

أولئك آبائــــي!

د.معراج عالم التيمي

على غاية من الفرح والسرور ومنتهى الانبساط والحبور يسرني ويسعدني أن أبشر طلبة العلم والدعاة وأبناء جامعة الإمام ابن تيمية ومنسوبيها أن الله تعالى قد جمع بين قلبين افترقا منذ سنوات عديدة،فقد تشرف فضيلة شيخنا المكرم محمد خورشيد السلفي نائب رئيس جامعة الإمام ابن تيمية سابقاً برفقة شقيقه/نور الإمام بزيارة كريمة خاطفة لفضيلة مؤسس جامعة الإمام ابن تيمية العلامة الدكتور محمد لقمان السلفي- حفظه الله - في المسجد المجاور لبيته في عاصمة المملكة العربية السعودية في الرياض.
وقد رحب فضيلة المؤسس الدكتور- وفقه الله - بالشيخ محمد خورشيد المدني وعانقه وقابله برحابة صدره وبوجهه البشوش وقلبه المفتوح كما هو دأب فضيلة المؤسس.وقد اطمأن الشيخ خورشيد على صحة فضيلة المؤسس وتناولا أطراف الحديث في المسجد على عجل.
وهذا من غاية التواضع لفضيلة شيخنا محمد خورشيد السلفي،فقد زاره مفاجأة و قابله بعد انقطاع دام قرابة11عاماً منذ أن ترك جامعة الإمام ابن تيمية وانتقل إلى مدينة بتنا بعد أن جاهد واجتهد في تأسيس الجامعة وتطويرها من أول لبنتها عام 1988م حتى بلغت أوج الرقي والازدهار(أربعة عشر عاماً)، وكان خلال هذه الفترة الساعد الأيمن لفضيلة المؤسس والنائب الأول له في جميع شؤون الجامعة.ثم رحل عنها -لظروفه الخاصة- حاملاً بذكريات خالدة هي بمثابة التأريخ المجيد للجامعة وأقسامها ومناشطها العلمية والبحثية والدعوية والخيرية والإنسانية.
وبعد أن تعانقا وعلى عجل فقد ألحّ وأصرّ فضيلة المؤسس - كما هي عادته المباركة وشيمته الكريمة- على الشيخ خورشيد أن يزوره في منزله، وقدقبل الشيخ دعوته،واستجابةً لهذه الدعوة الكريمة فقد زاره ليلة الأربعاء1434/6/7هــ يرافقه نجله المحاضر في كلية الصيدلة بجامعة الملك سعود بالرياض أخونا العزيز فؤاد خورشيد -سلمه الله - في منزله المبارك،وتبادلا حول أمور متنوعة وشخصية وقليل ما يتعلق عن الجامعة، وإنما كانت الجلسة عبارة عن خواطر قلبية وذكريات أحاطت بهما أيام الجامعة وما بعدها.
ثم تناولوا العشاء أعده فضيلة المؤسس تكريماً للشيخ محمد خورشيد،وكانت المائدة مليئة بأنواع من الأطعمة الشهية والمأكولات اللذيدة الطيبة.
وقد شكر الشيخ محمد خورشيد فضيلة المؤسس على حفاوة الاستقبال وكرم الضيافة ورحابة الصدر.
و قبل أن يتفرقا فقد فقد ألحّ وأصرّ فضيلة المؤسس الشيخ الدكتور على الشيخ محمد خورشيد السلفي أن يزوره مرةً أخرى قبل مغادرته المملكة برفقة نجله و زوجة إبنه خريجة جامعة الإمام ابن تيمية.
وقد تفرق كل منهما وألسنتهم تلهج بالدعاء للآخر.أسأل الله تعالى أن يكتب لجامعتنا الرقي والازدهار يوما بعد يوم وأن يجزي مؤسسها ورئيسها وكل من خدم الجامعة ويخدم ويحفظ الجميع من كل سوء ومكروه،وأن يحفظ جامعتنا من شر الأشرار وكيد الفجار ما ظهر منه وما استتار آمين يارب العالمين.
وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم تسليماً كثيراً!!!
 

ٹکنالوجی کے دور میں نئی نسل کی تربیت


ثناءاللہ صادق تیمی ، جواہر لال نہرویونیورسٹی ، دہلی
9013588985

نئی نسل کی ایسی تربیت جو انہیں قوم وملت کے لیے کارگراور مفید بنا سکے ہر زمانے میں اہم رہی ہے اور رہيگی ۔ اسلام نے ایسی تعلیم اور ایسا نظام دیا ہے جو تربیت کا بہتر ذریعہ فراہم کرتا ہے ۔ ہماری تاریخ بتلاتی ہے کہ پہلے ہمارے بزرگ مختلف ذرائع کا استعمال کرکے اپنی ذمہ داری ادا کرتے تھے۔ رات میں سوتے وقت انبیاء اور صلحاء کے سبق آموز قصوں سے لے کر دالانوں اور بیٹھکوں پر ایک پر ایک دینی مباحث چھیڑ کر اپنا کردار ادا کیا کرتے تھے ۔ ساتھ ہی خود عملی طور پر وہ اتنے مضبوط ہوتے تھے کہ وہ نمونہ ہو جایا کرتے تھے ۔ تعلیم کا وہ نظم تھا کہ بچے اچھائی اور برائی میں تمیز کر لیتے تھے ۔تعلیم تہذیب ، تمدن اور اسلامی روح کو   پروان چڑھایا کرتی تھی ۔ اب صورت حال بہت حد تک بدل گئی ہے ۔ اب بچے خود کو اپنے بزرگوں سے برتر اگر نہیں تو کم از کم اپنے آپ کو ان سے بے نیاز ضرور سمجھنے لگے ہیں ۔ لیکن ظاہر ہے کہ وہ بے نیاز ہو نہیں سکتے ۔ایسے میں یہ سوال بہت اہم ہے کہ نئی نسل کی تربیت کا یہ فریضہ کس طرح انجام دیا جائے۔
اس پورے مسئلے کو اگر اس طرح دیکھا جائے کہ بزرگوں کی ذمہ داری بہر حال ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اور بڑھ جاتی ہے تو پھر ہمیں ان امکانات کے بارے میں غور کرنا پڑے گا جو نئی نسل کی تربیت میں ممد و معاون ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس سے قبل یہ جاننا بھی اہم ہوگا کہ آخر یہ حالات بدلے کیوں؟ اور اس تبدیل شدہ حالات کی واقعی تصویر کیا ہے ؟ اور تب جاکر یہ سوچنا ہو گا کہ کس طرح ہم اپنی نسل نو کی حفاظت بھی کرسکتے ہیں اور ان کی کارگر اور مفید تربیت بھی ۔
نئے حالات: آج کی سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ زندگی بہت تیز رفتار ہوگئی ہے ۔ پہلے جن باتوں کا ذکر ایک جوان کو بے حیا بنا کر پیش کردیتا تھا اب ان کا ذکر اسے روشن خیال اور تعلیم یافتہ بنا کر پیش کرتا ہے ۔ پہلے ذرائع کم تھے اور ان تک رسائی کے امکانات کم ترین ، آج ذرائع بھی بہت ہیں اور سب کی دسترس میں بھی ہیں ۔ ایک معمولی موبائل کے اندر پوری دنیا پیوست ہے ۔  ایک بٹن دباتے ہی ساری دنیا مٹھی میں آجاتی ہے ۔ پہلے ایک عام سی ھندی فلم دیکھ کر بچے احساس جرم میں رہتے تھے آج وہ بالغوں کے لیے ریلیز ہونے والی فلمیں دیکھ کر ان پربر ملا تبصرہ کرتے ہیں۔ ٹی وی کلچر نے بہت کچھ بدل دیا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے ناچنے گانے کی تربیت لیتے ہیں اور بے حیا نغموں پر رقص کرتے ہیں اور میڈیا اسے ترقی اور ہنرکا نام  ہی نہیں دیتا ایسے بچوں کو رول ماڈل بنا کر پیش کرتا ہے ۔ یہ مرحلہ صرف بچوں کے ساتھ ہی نہيں ہے بوڑھے بھی کچھ اسی قسم کی سوچ کے حامل نظر آتے ہیں۔ ایسے میں بہتر اسلامی تربیت کا کام اتنا آسان نظر نہیں آتا۔ لیکن ظاہر ہے کہ بغیر تربیت کے کوئی چارہ بھی نہیں ہے ۔
کرنے کا کام: اب  سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ تو کیا نئی نسل کی تربیت اسی طرح کی جائے جس طرح آج سے پہلے کی جاتی تھی یا پھر کوئی اور  طریقہ اختیار کیا جائے جو زیادہ کارگر بھی ہو اور ممکن بھی ۔ میرے خیال میں اسے اس طرح دیکھنا ہوگا کہ حالات کے مطابق طریقہ اختیار کیا جائے ۔ اور اس طریقہ عمل کو اگر ہم چاہیں تو اس طرح بیان کرسکتے ہیں ۔
1 ۔ پانچ سے سات سال کے بچے آج بھی ہماری دسترس میں ہوتے ہیں ان کے اندر بہتر اسلامی تربیت کی بیج ہم اسلامی قصوں اور انبیاء کے واقعات سے ڈال سکتے ہیں ۔ مائیں اور گھر کے دوسرے افراد اگر خود کو اسلامی اوصاف و خصائل کا حامل بنالیں تو بچوں کے اوپر اس کے مثبت اثرات خود بخود پڑنے لگیںگے ۔
2۔ اگر شروعاتی دنوں میں جب بچے چھوٹے ہوتے ہیں ان کے اندر اچھائی سے محبت اور برائی سے نفرت پیدا ہوگئی تو وہ ان شاء اللہ آئندہ بھی ٹھیک رہیںگے ۔
3۔  کوشش یہ کی جائے کہ ٹی وی اور اس طرح کے دوسرے ذرائع کو گھروں سے دور ہی رکھا جائے اور اگر رکھنا نا گزیر ہی سمجھا جائے تو اس کے مثبت استعمال پر توجہ مبذول کی جائے ۔ ان پروگرامز کو چلایا جائے جو کارگر ہوں اور مخرب اخلاق نہیں جیسے تعلیمی اور تہذیبی پروگرامز۔
4۔ جو بچے نسبتا بڑے ہو گيے ہیں ان پر چیزوں کو زبردستی تھوپا نہ جائے بلکہ چیزوں کی افادیت واضح کی جائیں اور حکمت و دانائی کے ساتھ  ان کو ان کا پابند بنانے کی کوشش کی جائے۔
4۔ ٹکنا لوجی جیسے لیب ٹاپ، موبائل وغیرہ کے استعمال سے منع نہ کیا جائے بلکہ اس کے بہتر استعمال کا طریقہ سکھلایا جائے ۔ ان لوگوں کو مثال بنا کر پیش کیا جائے جنہوں نے ان چیزوں کا بہتر استعمال کرکے نام کمایا ہو ۔
5۔ جدید ٹکنالوجی کےغلط  استعمال سے بچانے کے لیے اس کے غلط اور برے اثرات کو عملی مثالوں کی روشنی میں سمجھانے کی کوشش کی جائے ۔
6۔ ہر ممکن یہ کوشش کی جائے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو ہر طرح سے نمونہ کے طور پر پیش کیا جائے تاکہ وہ اپنی نسبت کو فراموش نہ کرپائيں۔  اللہ ہمیں بہتر توفیق دے ۔

السبت، أبريل 20، 2013

Advani, Modi and Nitish Kumar

A just analysis of communal politics in India exposes that Advani was the pioneer of communal politics based on religious discrimination and disharmony. It is Advani who made Ayodhya issue a national politics and communalized entire country which resulted in demolation of Babri Masjid . When he became the home minister of India, minority communities particularly Muslims were living under the sense of fear. He sharpened and deepened the fascism of Hindutva forces and anti-democratic groups. This changed the politics in India. Even so-called secular parties started to utilize this situation of fearfulness and the whole agenda of strengthening the country and development in various fields derailed and paralyzed. No one gained except the politicians. Modi is nothing but like an obedient child in comparison with Advani in the case of communalism and politics of hatred and enmity. It doesn’t mean that Modi is a lesser threat to a prosperous, democratic India than Advani. Both are equal in this regard. Nitesh Kumar and other those who are projecting Advani as an acceptable face for the prime minister ship, in fact they are not against fascism and communalism. This is a politics of the within and the competitiveness for the highest post. But the problem is that the progressive, wise and aware people of India are not going to vote for these champions of fascism. Actually it’s a created, sponsored, media centered and industrialists managed drama without any link to the common man of the country.

الجمعة، أبريل 19، 2013

اسلام، تصوف ، نئی دنیا اور ہماری ذمہ داری


ثناءاللہ صادق تیمی ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی
9013588985
              عام وبا: مذاہب کی تاریخ کا مطالعہ بتلاتا ہے کہ بالعموم مذاہب کی شروعات اور ابتداء جن مقاصد کی تکمیل کی خاطر ہوئی بعد کو مذاہب کے پیروکاروں نے عین اس کے خلاف پائے جانے والے معاملات کو دین  و مذہب کا درجہ دے دیا۔ اور پھر ہر وہ کوشش جو دین کو اس کی صحیح جگہ لے جانے کے لیے کی گئی اسے مذہب و دین مخالف سمجھ لیا گیا ۔ یہ چیز بدھمت کی تاریخ سے لے کر عیسائیت اور یہودیت ہی میں نہیں بلکہ اسلام کے پیروکاروں کی تاریخ میں بھی نظر آتی ہے ۔ بدھ مت جو در اصل ہندومت میں پائی جانے والی طبقاتی اونچ نیچ کے خلاف گوتم بدھ  کی ایک انسانی کوشش تھی اس کے ماننے والوں نے نہ صرف یہ کہ خود کو مختلف طبقات میں بانٹ لیا بلکہ خود گوتم بودھ کو ہی خدا بنا ڈالا۔ عیسائیوں نے حضرت عیسی کی تعلیمات کے بالکل خلاف اللہ کو تین ذاتوں میں بانٹ کر خود عیسی کو معبود کا درجہ دے دیا۔ ادھر اسلام کے نام لیواؤں نے بھی عین وہی کیا کہ جس سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا ۔ تصوف دراصل سچے مذہب سے انحراف کا دوسرا نام ہے جسے بڑی چابکدستی سے دین کا لبادہ اڑھا دیا گیا ہے ۔
   تصوف اور اسلام کا نظام فکر و عمل: اسلام کی قرآنی تعلیمات اور احادیث رسول کی توضیحات کی روشنی میں دیکھا جائے تو دین در اصل انسان کو بہتر انسان اور اللہ کی سر زمین پر بہتر بندہ بنانے سے عبارت ہے تا کہ انسان جب اس دنیا سے اللہ کے پاس پہنچے تو وہ اس کی تیار کردہ جنت کا مستحق قرار پائے اور اس طرح اپنے امتحان میں کامیاب ہو جائے ۔ اسلام کے مطابق نہ تو دنیا مستقل ہے اورنہ ہی یہ کوئی سانپ بچھو ہے جو انسان کو ڈس لے یہ تو در اصل ایک پڑاؤ ہے جہاں سے ہوکر گزرنا ہی ہے ، جنت کی اس منزل تک پہنچنے کے لیے تیاری کے یہ دنیاوی ایام ضروری ہیں ۔ حدیث رسول میں اسے مسافر اور اجنبی کی مثال سے سمجھایا گیا ہے ۔ آدمی اس دنیا میں اس طرح رہے گویا وہ مسافر ہے یا اجنبی ۔ ساتھ ہی رہبانیت اور ترک دنیا کو غیر اسلامی بتلایا گیا ہے ۔ گویا امتحان کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دنیا کو برتے ضرور لیکن یہ نہ بھولے کہ آخر کار اسے اس دنیا سے جانا ہے اور پھر تب وہ جانے کے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پوری زندگی خالق کائنات کے ذریعہ اتارے گئے دین کےمطابق گزارے ۔ تجارت، اخلاق ، عبادت ، معاملات، داخلی اعتقادات اور خارجی مظاہر ہر معاملے میں وہ اللہ کے اتارے ہوئے دین کا پیرو ہو جائے ۔ اللہ کے رسول کی حدیث جس میں کہا گیا ہے کہ تم میں کا کوئی بھی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے مطابق نہ ہو جائے ، کو اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس کی معنویت اور بھی آشکارا ہو جائیگی ۔ اسی لیے اسلام میں ایک ایک چیز کے احکام اتارے گئے ہیں ۔ تجارت و زراعت کے احکام ، شادی و طلاق کے احکام ، صلح و جنگ کے احکام ، آپسی معاملات کے احکام ، ماں باپ سے سلوک کے احکام ، بچوں کی تربیت کے احکام ،سماجی زندگی کے احکام ، انفرادی امور سے متعلق احکام یعنی زندگی کا کوئی گوشہ تشنہ نہیں چھوڑا گیا ہے ۔حضرت سلمان فارسی کے بقول یہاں تک کہ یہ بھی بتلایا گیا کہ قضائے حاجت سے فراغت کس طرح کرنی ہے ۔
اس سے  بڑھ کر اسلام نے بڑے واضح انداز میں عبد و معبود کے رشتے کوبتلایا اور اس معاملے وہ راستہ اپنایا جس سے کسی قسم کی الجھن پنپنے نہ پائے ۔ اسلام کے مطابق اللہ اس کائنات کا مالک و خالق ہے اور وہی تنہا معبود بر حق ہے ۔ اس کے جیسا کوئی نہیں ۔ اس کا کوئی ساجھی اور شریک نہیں ۔ اس نے ساری مخلوق کو اپنی عبادت کی خاطر پیدا کیا ہے ۔ انسان و جن کو اللہ نے اختیار دیا ہے ۔ بقیہ دوسری مخلوقات اللہ کی تسبیح و تحمید میں لگی ہوئی ہیں ۔ اب جو جتنا اللہ کے احکام کے مطابق چلے گا اللہ تعالی سے اس کی قربت اتنی بڑھتی جائیگی اور اللہ اس سے اتنا ہی خوش ہوتا جائیگا۔ اس چیز کو ایک حدیث کے اندر اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ایک بندہ نوافل کے ذریعہ اللہ کی قربت اختیار کرتا جاتا ہے یہاں تک کہ اللہ اس کا ہاتھ بن جاتا ہے جس سے وہ پکڑتا ہے ، پاؤں بن جاتا ہے جس سے وہ  چلتا ہے ۔ ساتھ ہی اسلام کی تعلیم یہ بھی ہے کہ ایک انسان مظاہر کائنات میں غور کرے اور اس کے ذریعہ اللہ رب العزت والجلال کی عظمت کے آگے سجدہ ریز ہو جائے وہیں اس کی تعلیم یہ بھی ہے کہ بندہ اللہ کی ذات سے متعلق جو باتیں قرآن و حدیث میں بتائی گئی ہیں ان پر ایمان لائے ، اللہ کے اسماءو صفات کو جانے اور اس کے حقوق کو پہچانے لیکن وہ اللہ کی ذات ہی میں غور و فکر نہ کرنا شروع کردے ۔ ایک حدیث کے مطابق شیطان انسان کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے کہ ساری کائنات کو اللہ نے پیدا کیا تو اللہ کو کس نے پیدا کیا۔ جب آدمی یہاں تک پہنچے تو اسے شیطان سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے ۔ یعنی ذات الہی سے متعلق دی گئی معلومات پر قناعت کرتے ہوئے اس کے حقوق کی ادائیگی کے لیے کوشاں ہواجائے۔
تصوف کی بنیاد : اب اگر تصوف کی بنیاد کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ تصوف کی بنیاد بھی وہی عبد ومعبود کا تعلق اور دین ودنیا کا رشتہ ہے لیکن ظاہر ہے کہ تصوف کا اپنا نظام فکر و عمل ہے ۔
تصوف کے مطابق انسان اللہ کی عبادت کرتے کرتے وہاں تک پہنچ جاتا ہے جہاں عبد ومعبود کا فرق مٹ جاتا ہے ۔ انسان اللہ کے اندر حلول کرجاتا ہے یا کم از کم وہ اللہ میں فنا ہو جاتا ہے ۔ اس اسٹیج پر آکر وہ ظاہری احکام و اوامر کی پابندی سے اوپر اٹھ جاتا ہے ۔ اور وہ بہت سی خدائی صفات کا حامل ہو جاتا ہے ۔ دنیا ایک فریب ہے ، دھوکہ ہے اور  نجاست ہے اس لیے دنیا سے کنارہ کشی ہی میں بھلائی ہے ۔ ترک دنیا مطلوب و محمود ہے بلکہ متصوفانہ زندگی کی معراج اس کے بغیر حاصل ہی نہیں ہوگی۔ اصل وجود بس اللہ کاہے بقیہ سب بھی اللہ ہی ہے یا پھر اللہ کاپرتو ۔ اللہ کی ذات کو مرکز بنا لیا جائے اور وہ مجاہدے کیے جائیں کہ بالآخر خود انسان من و تو کا فرق بھول جائے۔
تصوف کے اقسام : عام طور سے وہ لوگ جو تصوف کی  اوپر مذکور شکل کو غیر اسلامی سمجھتے ہیں وہ تصوف کو دو خانوں میں بانٹ کر دیکھتے ہیں ۔ اسلامی تصوف اور غیر اسلامی تصوف ۔ ان کے نزدیک اوپر مذکور شکل غیر اسلامی تصوف کی ہے اور اسلامی تصوف یہ ہے کہ انسان اپنا زیادہ سے زیادہ محاسبہ کرے ، عبادات کا التزام کرے ، احکام شریعت کی پابندی کرے اور طریقت کے مطابق چلے ۔ عام طور سے ایسے لوگ تصوف کو اسلامی اصطلاح' تزکیہ' کا مترادف قرار دیتے ہیں ۔ لیکن اگر انصاف کی نظر ڈالی جائے تو پتہ چلے کہ در اصل یہ  اس  انحراف کی تبریر کی ایک کوشش ہے ۔  تصوف کی پہلی شکل تو خیر اس قدر غیر اسلامی ہے کہ اس پر وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں لیکن جہاں تک  دوسری کا تعلق ہے تو سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جب ایک اصطلاح موجود ہی ہے تو دوسری کی ضرورت کیا ہے ؟ اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب اسلام نے عبادات و احکام کے سارے گوشے روشن کردیئے ہیں تو پھر طریقت کے اضافے کی یہ گنجائش کہاں سے نکال آتی ہے ؟ تیسری اہم بات یہ ہے کہ کیا اس تصوف کا کوئی سان گمان صحابہ کرام کے یہاں بھی ملتا ہے؟ ایک عام سے عام مسلمان کے لیے بھی یہ بات ناقابل برداشت ہوگی کہ کوئی اس کے نبی کے مقابلے میں کوئی اور طریقہ رائج کرنے کی کوشش کرے لیکن یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ تصوف کے اس پورے نظام کو جس کا طریقہ نبی سے کوئی تعلق نہیں اسلام بنا کر پیش کرنے کی ناروا کوشش کی جاتی ہے۔ تزکیہ کا اسلامی تصور معلوم و متعین ہے اور وہ وہی ہے جس کے نمونے رسول کی زندگی اور صحابہ کے تعامل میں ملتے ہیں  ۔ بقیہ اور کسی بھی انسان کے مجاہدات کو حصول مراتب کا سبب بتلانا در اصل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کا مذاق اڑانا ہے اور ایسے لوگوں کو اپنی خیریت کا خیال کرنا چاہیے ۔ واضح رہے کہ اسلام میں اعمال کی قبولیت کا دارومدار دو چیزوں پر ہے ۔ ایک یہ کہ  وہ عمل صرف اللہ کی خوشنودی کے حصول کے لیے کیا جائے اور دوسرا یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر ہو ۔
نئی دنیا میں تصوف : آج خاص طور سے تصوف کو رواج دینے کی کوششیں زوروں پرہیں ۔ مشرق و مغرب کے بڑے بڑے نام نہاد دماغ اس کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں ۔ اس کے پیچھے کئی سارے اسباب ہیں جیسے
1۔ مغرب کی یہ کوشش کہ وہابی اور ریڈیکل اسلام کے بالمقابل ایک ایسا اسلام پیش کیا جائے جس سے مغرب کو کوئی خطرہ نہ ہو اور جس کے اندر اپنی بنیادوں پر بقائے باہم کا راستہ نکالا جا سکے ۔
2۔  اسلام کے نام لیوا اگر تصوف کی بھول بھلیوں میں پڑ جائیں تو پورے طور پر دنیا کا میدان صہیونی شاطروں کے لیے خالی ہو  جائیگا۔
3۔ صنعتی ترقیوں اور مادی وسائل کی فراوانی نے مغرب کی اکثریت کو افراط کی حد تک مادیت کا غلام بنا دیا اور جب اس کے نتائج نت نئے امراض ، ذہنی دباؤ اور خلش و بے چینی  کی شکل میں سامنے آئے تو لوگوں  کا پھر سے ایک دوسرے انتہا کی طرف بھاگ کھڑا ہونا کوئی تعجب خیز بات نہیں تھی  ۔ مفرط مادیت کی جگہ اب لوگوں نے مفرط روحانیت کو اپنے سارے امراض کا حل سمجھ لیا اور تصوف کی طرف سر پٹ دوڑ پڑے ۔  اس میں ایک آسانی یہ تھی کہ اس کی بنیادیں لگ بھگ ہر دین کے منحرف ورژن میں موجود تھیں ۔ اس میں دوسری آسانی یہ  بھی تھی کہ تصوف سے  انسان کے اندر  ایک خاص قسم کی روحانیت تو پیدا ہو جاتی ہے لیکن ساتھ ہی تصوف انسان کو بہت سی ذہنی عیاشیوں سے لے کر ناچنے گانے یہاں تک کہ عریانیت تک سے نہیں روکتا بلکہ وہ اسے روحانی لبادہ اڑھا دیتا ہے ، جو بنیادی طور پر نئی تہذیب کا سب سے بڑا ظاہرہ ہے ۔
4۔ بعض سادہ لوحوں اور زیادہ تر ہوشیاروں کا یہ پیروپیگنڈہ کرنا کہ تصوف انسانوں اور انسانوں کے بیچ کوئی تفریق روا نہیں رکھتا ۔ اس سے گلوبلائیزیشن کے اس دور میں بقائے باہم اور محبت و اخوت کی بنیاد پر جیو اور جینے دو کے اصول کو تقویت ملے گی اور تمدن کا بھلا ہو گا۔
 انہیں اسباب کے پیش نظر ہم دیکھتے ہیں کہ مشرق سے لے کرمغرب تک میں تصوف کو مختلف ذرائع سے عام کرنے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں ۔ اکیڈمک سرگرمیوں سے لے کر نصاب تعلیم میں تصوف کو  شامل کیے جانے کا معاملہ ہو یا مختلف ممالک کے اندر منصوبہ بند طریقے سے کانفرنسیز منعقد کرانے کی ہوڑ، ہر جگہ اس چیز کو محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ مغرب والے اب رومی کی روحانی تعلیمات کو عام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو مشرق والے اغریق کے  تہذیبی نشاۃ ثانیہ کے لیے تصوف کے احیا پر زور دے رہے ہیں ۔ غالب و اقبال سے لے کر ہر اس شاعر وادیب کا رشتہ تصوف سے جوڑنے کی کوشش ہو رہی ہے جس کا  کچھ بھی اثر عوام پر پایا جاتا ہے ۔ ایسی حدیثیں اور روایات ڈھوند ڈھونڈ کر نکالی جارہی ہیں جن سے کسی بھی طرح  زبردستی ہی سہی اور بغیر یہ دیکھے وہ روایت یا حدیث صحیح ہے بھی یا نہیں اس سے تصوف کے حق میں استدلال کیا جارہاہے ۔
ہماری ذمہ داری: اب اگر اس پورے منظر نامے پر نظر ڈالی جائے اور یہ طے کیا جائے کہ ہماری ذمہ داری کیا بنتی ہے تو میرے خیال سے مندرجہ ذیل امور پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ۔
1۔ مسلمانوں پر یہ واضح کرنا کہ تصوف کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ دلائل و براہین سے یہ ثابت کرنا کہ یہ کس قدر خطرناک تصور ہے ۔
2۔ اسلام کے صحیح اور واقعی تعلیمات کو عام کرنے کی کوشش کرنا ، اور خاص طور سے ریڈیکل اسلام کی حقیقت سے نقاب الٹ کر اسلام کے واقعی معتدل اور صفاف چہرے کو پیش کرنے کی کوشیشیں بروئے کار لانا ۔ اسلام کے عقیدہ توحید کی صحیح صحیح وضاحت کرنا اور اعتماد کے ساتھ یہ بیان کرنا کہ اسلام نے بقائے باہم کے کیا اصول دیئے ہیں ۔
3۔ تصوف کے وہ معاملات جو اسلامی تعلیمات کے خلاف نہیں ہیں جیسے نوافل کی کثرت ، تمام انسانوں سے عام سی ہمدردی اور نرم روی وغیرہ ان کو اسلام کی صحیح اصطلاح اور سنت رسول کے صحیح تناظر پیش کرنے کی   نہ صرف یہ کہ کوشش کرنا بلکہ اپنی زندگی کو ان کے مطابق ڈھالنا بھی ۔ اس لیے کہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ ہم تصوف اور ان جیسے غیر اسلامی امور و عقائد اور نظام فکر پر نشتر زنی کرتے ہوئے کبھی کبھی جوش میں درست پہلو کو بھی ناکار دیتے ہیں ۔
4۔ علمی دنیا میں خاص طور سے اکیڈمک میں ایسے افراد کو آگے لانے کی کوشش کرنا جو تصوف کی تباہ کاریوں کو بہتر طریقے سے سامنے لاسکیں ۔ اور ایسے ادبا و شعراء کی تخلیقات کو پھیلانے کی کوشش کرنا جنہوں نے بہتر طریقے سے اسلامی تعلیمات کو پیش کیا ہو ۔
5۔ تصوف کے ماننے والوں اور پھیلانے والوں کی درجہ بندی کرکے ہوشیاروں کو ہوشیاری اور علم و حکمت کی قوت سے مات دینے اور انہیں لاجواب کرنے کی کوشش اور سادہ لوحوں کو دانائی اور محبت کے ساتھ یہ بتلانا کہ اصل اسلام کیا ہے اور تصوف کے نقصانا ت کس درجہ خطرنا ک ہيں۔
6۔ اپنی بساط بھر کوشش کے بعد اللہ سے یہ دعا کرنا کہ پروردگار تو اپنے دین کی حفاظت فرما اور اسے غلبہ عطا کر ۔ غیر دینی افکارو خیالات کی تغلیط کی اہل حق کو توفیق دے اور ان کی کوششوں کو بارآور فرما۔ کیوں کہ بہر صورت جو ہوگا اللہ کی مرضی اور حکم سے ہی ہوگا۔

الثلاثاء، أبريل 16، 2013

غزل

ساگر تیمی 

اس کی آنکھوں ميں تبسم کی ادا آجائے

ہونٹ کھل جائے تو بلبل کو حیا آجائے
ایک چہرہ ہے کہ ماہتاب کہ روشن سورج
آنکھ حیران رہے ، لب پہ دعا آجائے
جب بھی بولے تو حیا ٹپکے شرافت جھلکے
ہو تبسم تو تبسم میں وفا آ جا ئے
سامنے بیٹھ تجھے آج میں دیکھوں من بھر
موت سر پہ ہے کیا جانے قضا آجا ئے
یہ ہے قسمت کہ روایت کا تسلسل کیا ہے
جب بھی آ جائے وفا ذکر جفا آ جائے
ہے معالج کی ضرورت تو بلاؤ نا حکیم
ہے مرض تیز تو بولو نا دوا آ جا ئے
میں بھی ساگر تیری نظروں میں بڑا ہو جاؤں
میرے گھر میں بھی اگر 'فضل' خدا آجا ئے

کیرالا کا دعوتی سفر


 ثناءاللہ صادق تیمی جے ،این ،یو،نئی دہلی 67

کیرالا کو با لعموم اس لیے جانا جاتا ہے کہ وہاں ایجوکیشن کا گراف بہت اچھا ہے اور مسلمان بھی دوسرے ہندوستانی صوبوں کے بالمقابل صاحب حیثیت ،مضبوط اور توانا ہیں۔ان کی اپنی سیاسی بساط ہے،علمی وقار ہے اور سماجی اعتبار ہے۔بچپن سے یہ باتیں کانوں سے ٹکراتی رہیں تھیں۔ اس لیے جب یہ پروپوزل سامنے آیا کہ کیرالہ کا سفر کیا   
 جائے اور دعوت و تبلیغ کے رموز سے آشنا ہوا جائے تو ایسا لگا جیسے اندر سے ایک آمادگی خود بخود پیدا ہوتی جارہی ہو،بے نام خاں نے چٹکی لیتے ہوئے کہا کہ بھائی اگر ایک زاہد خشک آفتاب احمد کا ساتھ ہے تو گھبراو نہیں ایک رند زندہ دل انظر حسین کی معیت بھی ہے اور ساتھ ہی حفظ الرحمن کا چلبلا پن بھی۔
                جناب نور عالم سلفی صاحب کی کوششوں سے جے این یو کے اندر چھ سات اللہ کے بندے سفر پر کمر کسنے کو تیار ہو گئے۔ ایک دوسرے ہندوستان کا سفر ،اڑتالیس گھنٹے کا سفر ،ہر ایک کیلئے نیا تجربہ ۔لیکن ہر ایک اس نئے تجربے سے پریشان بھی نہیں،نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر پہونچنے کے بعد پتہ چلا کہ یہ چھ سات لوگوں کا نہیں پورے بتیس لوگوں کا دعوتی قافلہ ہے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ،جامعہ ہمدرداور جے این یو کے طلبہ پر مشتمل یہ کاروان دعوت کیرالہ سپر فاسٹ میں محو سفر ہوا۔پہلا پندرہ بیس گھنٹہ نسبتاً اجنبی احساسوں کے ساتھ گزرا۔ہر ایک اپنے گروپ میں دوسرے گروپ سے الگ لیکن جیسے جیسے سفر آگے بڑھتا گیااجنبی پن کی دیواریں منہدم ہوتی گئیں اور یوں سب کے سب آپس میں شیر و شکر ہوگئے جیسے بچھڑے ہوئے سارے یار مل گئے ہوں۔اب جہاں دیکھیے بحث جاری ہے ،گفتگو ہو رہی ہے،سلسلہ چل رہا ہے شاعری کا،اسلامی موضوعات کا، دعوت کی اہمیت و افادیت کا،ہندوستان کی سیاست پر ایک پر ایک تبصروں کااور وقت بیتا جا رہا ہے۔احساس بھی نہیں ہو رہا ہے کہ کتنا وقت بیت گیا۔اور اب جو دیکھیے تو کالی کٹ ریلوے اسٹیشن کے باہر شہیر بھائی کے ہمراہ اس بس پر براجمان ہونے کی تیاری زور و شور پر ہے ،جو ان دیوانوں کو مالا پورم لے جانے والی ہے،اور دو گھنٹے کے اندر مالا پورم کے صاف ستھرے ہوٹل میں یہ قافلہ محو استراحت ہے۔کیرالا جاتے ہوئے مختلف گروپ کے امیر الگ الگ تھے لیکن آہستہ آہستہ حفظ الرحمن صاحب کی تحریک سے جناب آفتاب احمد کو پورے قافلے کا امیر منتخب کر لیا گیا،ایسے بھی امارت کا یہ بوجھ آفتاب احمد ہی اٹھا سکتے تھے۔کم از کم یہ روگ اپنے بس کا تو نہیں تھا کہ پالا جائے ،حالانکہ بے نام خاں نے مزہ لینے کی کوشش ضرور کی لیکن ہم نے کوئی توجہ دی ہی نہیں۔
کیرالا سچ مچ ویسا ہی ہے جیسا ہم نے سنا تھا ،سڑکیں آراستہ اور صاف ،لوگ تعلیم یافتہ اور مہذب،حضرات مدد کرنے والے اور اعلی اخلاق کے حامل اور خواتین اسلامی حجاب کی پابندجیسے یہ ہندوستان ہو ہی نہیں،زکریا بھائی سے لیکر شہیر بھائی تک جس فر د کویاد کیجئے محبت کے فوارے اچھلنے لگتے ہیں،نظم و نسق کی پابندی کا وہ نمونہ کہ کم ازکم شمالی ہندوستان میں تو سوچابھی نہیں جا سکتا۔بے نام خاں نے اپنی کہنی میرے بغل میں لگاتے ہوئے  کہا کہ بیٹے اس ترقی کا رازاور اس تہذیب کا سبب صرف یہ نہیں کہ یہاں لوگ تعلیم یافتہ ہیں بلکہ اصل سبب یہ ہے کہ یہاں کے لوگ عمل(کام کرنے میں)میں وشواش رکھتے ہیں ان کے یہاں ہماری طرح مباحثے اور لچھے دار تقریروں کا چلن نہیں،بلکہ جاوداں عملی اسپریٹ کی کار فرمائی ہے،تبھی تو ہم ہم ہیں اور یہ یہ یعنی ہم پچھڑے ہوئے اور یہ ترقی یافتہ اور خوشحال۔تین دن کے دعوتی ورک شاپ میں آنے والے خطباءو مقررین میں جن کا بھی نام لیا جائے سب کے سب کارگر ،موضوع کا حق ادا کرنے والے اور سمجھا لے جانے کی صلاحیت سے مالا مال۔اب چاہے وہ انگریزی کے لیکچرز ہوں یا ملیالم کے،یا بعض دفعہ اردو یا عربی کے،سب کے سب لاجواب ،زبر دست اور کار آمد۔کسی کو کسی پر ترجیح دینا آسان نہیں۔ہمارے دوست بے نام خاں کی مانیں تو ملیالم میں کی جانے والی تقریریں زیادہ زبر دست تھیں اور وہ اس لیے کہ ہم انہیں سمجھنے سے قاصر تھے!!!
سوال وجواب کے سیشن سے لیکر فیڈ بیک تک کا سیشن انتہائی درجے میں لائق ستائش اور قابل تقلید بھی(اگر تقلید کو درست مان لیا جائے تو!!)پروفکون (ندوة المجاہدین)کے عملہ اور طلبہ کی اعلی حوصلگی،بلند نظری اور دینی غیرت و حمیت کاہی مشاہدہ نہیں ہوا،ہمارے دوست بے نام خاں کے بقول اس دعوتی ورکشاپ کی اصل کامیابی تو یہ تھی کہ نارتھ انڈیا سے آنے والے افراد کے اندر بھی اس نے کئی جوت جگا دیے۔
بہت سے لوگ آئے تھے کہ سیاحت ہو جائیگی،کیرالا دیکھ لیں گےاور جب آئے تو کایا پلٹ ہو گئی،زاویہ بدل گیا،اب جو دیکھو تو دعوتی زندگی گزارنے کا عہد کر رہے ہیں،صحابہ کے واقعات سنائے جاتے ہیں تو آنکھیں نم ہو جا رہی ہیں اور دین کو سیکھنے کا جذبہ بڑھتا چلا جارہا ہے۔
                یہ خسرو بھائی ہیں جاوید خسرو!جامعہ ہمدرد میں ایم فارما کر رہے ہیں،ماشاءاللہ لمبی داڑھی اور متشرع وضع قطع،اللہ کے بندے مسکراتے ہیں اور لوگوں کو ہنسنے کا موقع فراہم کرتے ہیں،جذبہ جوان ہے اور تڑپ شدید۔
ان سے بھی ملیے ابو سعادت ،دبلے پتلے نحیف! لیکن اندر سے مضبوط ۔بی ٹیک کر چکے ہیں اور دعوت کے جذبے سے یوں سرشار ہیں کہ بس واہ ،سبحان اللہ۔شاعری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔بے نام خاں کہتے ہیں کہ کوشش کرنا برا تھوڑی ہے البتہ فکر کے ساتھ فن پر بھی توجہ ضروری ہے۔
                        یہ ہیں شارق اسیر۔شاعری ہی کے نہیں دعوتی جذبے کے اسیر ۔’ہم سب بلاتکاری ہیں‘کے نام سے کویتا پیش کی اور لوگوں نے دسیوں مرتبہ سنا۔کیا نقشہ کھینچا گیا ہے ،متوازن فکر ،جچے تلے الفاظ اور دل اتنا نرم کے کہ صحابہ کا ذکر چھڑا تو روئے جارہے ہیں !!!
عالی جناب نور عالم سلفی ہیں، جے این یو کے اندر ماسٹرس ان عربک کر رہے ہیں،اللہ والے ،درد مند اور خوش مزاج،مساعد امیر اور اس قافلے کے کوآرڈینیٹر جہاں ہیں وہاں بہار۔سب کے چہیتے سب کے پیارے البتہ تھوڑے شریر بھی اور چلبلے بھی اس لیے امیر نہیں مساعد امیر!!!
                حفظ الرحمن صاحب ! ضرورت سے تھوڑے زیادہ ہوشیار ،لیکن مثبت انداز فکرکے نوجوان ، خدمت خلق میں ساعی،کاہے کو امیر صاحب کو چین کی سانس لینے دیں گے،اور خاص طور سے جب انظر حسین صاحب سے سانٹھ گانٹھ بھی مضبوط ہو ۔خوب مزے لے رہے ہیں دونوں کے دونوں ،لیکن استفادے میں کوئی کمی نہیں۔
محمود عاصم صاحب!کیرالا آچکے ہیں پہلے بھی لیکن کوئی فائدہ نہیں ،ملیالم جو نہیں جانتے،سیدھے نیک لیکن باتونی ہونے میں بے نام خاں سے بس تھوڑے پیچھے،جرا ت منداور طالع آزما،سب سے پہلے سوال کرنے والے کا رتبہ ایسے تھوڑے حاصل ہوتا ہے ؟
ارشد بھائی گم صم جیسے نہ بولنے کی قسم کھا چکے ہوں،لیکن جب بولیں تو قیامت!سلیم انصاری ان کے برعکس بولیں اور خوب بولیں لیکن زیادہ تر اچھی اور کار آمد باتیں ،کیسے کیسے لوگ ،یاد کرو تو کیا کیا لمحات یاد آتے ہیں!!
یہ شہاب بھائی ہیں ۔اصل کوآرڈینیٹر !نیک طبیعت ،کم گو،لیکن نفیس،علم کے جویااور سچ کی تلاش میں سرگرداں ورنہ ہم جیسے لوگوں سے پورے چار گھنٹے مولانا آزاد پر تقریر سننا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ محسن بھائی سیدھے سادھے اللہ والے آدمی،کیمروں میں قید کرتے جا رہے ہیں سارے لمحات،چہرے پر نور سا پھیلا ہوااور معصومیت کی ہویدا لکیریں۔یہ ہیں عدنان بھائی ،کم بولتے تو ضرور ہیں لیکن عقیدے کے بارے میں زیادہ فکر مند،لمحہ لمحہ سے یاد دلاتے ہیں کہ ہمار ا فوکس کہاں ہونا چاہیئے۔نوید بھائی کافی سیدھے اور سچے انسان ،آہستہ آہستہ مسکاتے ہیں البتہ ساجد بھائی ان سے قدرے مختلف ہیں اس لیے کہ وہ مسکراتے بھی ہیں اورمزے بھی لینا جانتے ہیں۔ بدر عالم بھائی انجینئر اور اردو شاعری سے وہ رغبت کے اچھے اچھے اردو کے اسکالرشرما جائیں،بڑی بڑی اور معیاری غزلیں اور نظمیں ان کی ذہن میں نہ صرف یہ کہ محفوظ بلکہ زبان پر جاری بھی ۔ نفیس صاحب !بڑے ہی سنجیدہ لیکن ساتھ ہی حوصلوں سے پر،موقع ملا تو انگلش میں تقریر سنانے میں کوئی جھجھک نہیں،علم کے جویا اور حق کے متلاشی،صرف اتنے لوگ نہیں ان کے علاوہ جناب اورنگ زیب صاحب شعور ومزاح کے سنگم،جناب وحید الدین خاں صاحب البیلے مگر اداے محبوبی سے مالامال،جناب صادق صاحب ہنس مکھ ،جناب ماجد الاسلام صاحب سنجیدگی کے پیکر ،جناب ادریس صاحب چپ چپ سے،جناب داﺅد صاحب نہ کھل پانے والے ،جناب مبشر صاحب ہمہ وقت ایسے جیسے خاموش سا تالاب،جناب فردوس نذیربٹ صاحب سلیم الفکر ، متوازن نقطہ نظر کے حامل  اور ضیاءالرحمن بھائی سیدھے پیارے اور سنجیدہ ۔کیا کیا لوگ تھے۔اللہ اللہ!!!
                بے چارے امیر صاحب !یوں تو پریشان ،لیکن اس دعوتی تجربے سے خوب شاد،اورنگ زیب صاحب اگر کشتی کے بالائی حصے پر اچھل رہے ہوں تو امیر صاحب کا پریشان ہونا فطری ہی کہا جائیگا،البتہ کشتی جب سمندر کے موجوں پر رینگ رہی ہو تو صدائے اللہ اکبر کی گونج اور” ائے آبرود گنگا وہ دن ہے یاد تجھکو“کی للکار کیا سماں باندھتی ہوگی اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور کالی کٹ کے اند ر سمندری موجوں میں بے اختیار کود پڑنے والے ان نوجوانوں نے زندگی کا جو لطف حاصل کیا ہوگا اسے بھلا نام بھی کیا دیا جائے۔
ہمارے دوست بے نام خاں نے ہمارے کانوں میں سر گوشیاں کیں کہ بیٹا اجتماعی زندگی کی اہمیت اسی لیے ہے کہ اس میں سب کچھ ٹھیک درست چلتا ہے،مختلف صلاحیتیں مل کر پورا منظر خلق کردیتی ہیں۔تنہائی کا سفر اتنا دلکش ، دلچسپ اور یاد گار ہو سکتا ہے؟
اپنا ہی شعر یاد کر لو                                              
 اسے بھی میری طرح ساتھ کی ضرورت ہے
                                             ادھورا  آدمی تنہا  سفر میں  رہتا ہے                           
تمام دوستوں نے جس طرح سے اس دعوتی ورکشاپ میں دلچسپی لی،استفادہ کیا اور جس جوش و خروش سے اپنے فیڈ بیک دیئے اور دوران سفر جس قسم کی ولولہ انگیزی مشاہدے میں آئی اس سے یہ امید کرنا غلط نہیں کہ انشاءاللہ امت کا یہ جوان طبقہ مثبت انقلاب برپا کرے گا۔حق کی پکار بلند ہوگی اور سچ ضرور سرخرو ہو گا
                                        اپنی صفوں میں علم ہے،جرات ہے وقت ہے
                                               ایسا نہیں کہ سچ کا مقدر شکست ہے  حسن نعیم
اور وہ بھی اس لیے کہ یہ جوان کچھ کر گزرنے کے جذبے سے سر شار ہیں ان کے اندر جوش وو لولہ بھی ہے اور متانت و سنجیدگی بھی اور ساتھ ہی خوف خدا بھی ،بے جا تشدد اور فتنہ انگیزی سے الحمد للہ یہ پاک بھی ہیں اور آزاد بھی۔

کچھ اصولوں کا نشہ تھا ، کچھ مقدس خواب تھے
ہر زمانے میں شہادت کے یہی اسباب تھے
حسن نعیم  

ایسے میں امت کے دینی پیشواﺅں اور روحانی رہنماﺅں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس فورس کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے اور کام میں لانے کا سامان کریں۔اللہ انہیں بہتر توفیق دے،آمین

السبت، أبريل 13، 2013

ساگر وفا میں کتنے سلیقے سے کٹ گیا

اس بار پھر انا میرے سر پر چڑھی رہی
اس بار پھر امیر شہر سے ٹھنی رہی 
میں بھی تو اپنے وقت کا شاہ جہان تھا 
وہ بھی حسین نورجہاں تھی بنی رہی 
جتنے امیر تھے سبھی مٹی کے شیر تھے 
جنگ تو غریب لوگوں کے بل پر کھڑی رہی 
اس نے محبتوں کو خریدا کہ مال ہے 
اپنی ہنروری تھی ، دھری کی دھری رہی 
وقت صباح کہروں کا سایہ تھا ،خوف تھا 

نیند انتظار صبح میں شب بھر اڑی رہی
اک اشک کہ رخسار سے ڈھلکے نہ عشق میں
شبنم کسی گلاب کے اوپر پڑی رہی
مجھ کو تو اپنے عہد کے دانشوروں پہ حیف
ساری خطا بشکل خرد تھی وہی رہی
ساگر وفا میں کتنے سلیقے سے کٹ گیا
دنیا کہ اس کے پیچھے پڑی تھی پڑی رہی

آؤ چل کر نماز پڑھ آئیں

ساگر تیمی
وقت کا پھیر ہے یا اپنی خطا
کیوں نہیں ہوتی ہے قبول دعا
کیا خبر ہے کہ دنیا داری ہو 
ذکر واعظ کا، پنڈتوں کی کتھا
ٹھان لی ہے تو کر ہی گزرینگے 
حق کے جویا ہیں موت سے نہ ڈرا
میں بھی اقبال کا ہی شیدا ہوں 
میر ، غالب کی بات اپنی جگہ

آؤ چل کر نماز پڑھ آئیں
عیں ممکن ہے آخری ہو ادا
اک تمہارا خیال تھوڑی ہے
جانے کتنی ہے ہر قدم پہ صدا
زخم گرچہ بہت ہی کاری ہے
یوں نہ ساگر سبھی کو ایسے دکھا

الخميس، أبريل 04، 2013

غزل



ساقی مجھے میخانہ لے چل ،ہاتھ میں اپنا ہاتھ بھی دے دے
میں تو پینے کو آیا ہوں، پینے بھی دے ساتھ بھی دے دے
کیا مطلب کہ تم نہیں سمجھے اشکوں کی تحریر تو پڑھ لے
دل بیچارہ بے قابو ہے ، چھائی گھٹا برسات بھی دے دے
میں کیا دے سکتا ہوں اس کو، ہاتھ تو اپنا بھی خالی ہے
پیار کی دولت میرے ذمہ، لیکن تو خیرات بھی دے دے
دینے والا دیتا وہی ہے ،جو اس کےبس میں ہوتا ہے
نفرت کی چنگاری دے کر ، غم کی کچھ سوغات تو دے دے
چل پھر تجھ کو اپنا بنالوں ، چل پھر میں خود کو اپنا لوں
میں فرہاد تو شیریں ہو جا ، رسم جفا کومات بھی دے دے


الأربعاء، أبريل 03، 2013

دین کی تفہیم ، علماء اور دانشوران

ثناءاللہ  صادق تیمی
 جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی

           کچھ اقدامات ، ترقیاں اور پیش رفت بظاہر بہت اچھی ہوتی ہیں اور عام حالات میں ان سے ہم خوش ہی ہوتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھار یہ بظاہر خوش کن اقدامات بڑے مسایل پیدا کر دیتے ہیں اور تب ہماری خوشیاں نہ صرف یہ کہ کافور ہو جاتی ہیں بلکہ ہم کف افسوس بھی ملنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ یہ صورت حال بالعموم اس وقت پیدا ہوتی ہے جب یہ ترقیاں اور اقدامات اپنی حدوں سے باہر جھانکنے لگتے ہیں اور وہاں تک اپنا دائرہ بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں جہاں تک ان کی رسائی نہیں ۔ اقبال نے شاید نئی تعلیم اور اس کے اثرات و نتائج کو اسی تناظر میں دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔
ہم نے سمجھا تھا کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئیگا الحاد بھی ساتھ
          امت مسلمہ کا وہ طبقہ جس نے با ضابطہ علماء کے سامنے زانوئے تلمذ تہ نہیں کیا ہے ۔ عصری علوم سے واقف ہے ۔ دنیاوی طور پر مضبوط م ہے۔ بہت سے معاملات میں روایتی علماء سے آگے ہے ۔ سائنس و ٹکنالوجی کی اچھی معرفت سے بہرہ ور ہے ۔ سیاسی اور سماجی امور میں اپنا اثرو رسوخ رکھتا ہے جب یہ طبقہ دین کی طرف مائل ہوتا ہے ۔ قرآن وحدیث کے مطالعے کی طرف توجہ مبذول کرتا ہے ۔ صوم وصلوۃ کی پابندی کرتا ہے ۔ زندگی کے معاملات میں دینی ہدایات کو برتنے کی کوشش کرتا ہے تو  بلا شبہ خوشی کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے ۔ ذہن و دماغ کے بہت سارے زاویے روشن ہونے لگتے ہیں ۔ طبیعت پر انبساط کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور معاشرہ (مسلم معاشرہ) ایسے طبقے کو سر آنکھوں پر بٹھاتا ہے ۔ اس کا ذکر خیر چلتا ہے ۔ علماء کے مابین قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ عوام میں اہمیت بڑھ جاتی ہے  اور سچ یہ ہے کہ یہ معاملہ ہے ہی ایسا کہ یہ ساری کیفیات پائی جائیں ۔ الحاد و دہریت کے اس دور میں مادیت کے  سیلاب کے بیچ ایسے بلند نظر اورعالی  حوصلہ افراد کا پایا جانا معاشرے کے شاندار ہونے کی دلیل ہے ۔
       لیکن معاملہ بگڑتا تب ہے جب یہ طبقہ LIMITATION)) یعنی اپنی حد تجاوز کرنے لگتا ہے ۔ جب وہ یہ سمجھنے لگتا ہے  کہ دینی معاملات میں بھی وہ صاحب رای ہو سکتا ہے ۔ جب وہ بھی اس جراءت کا مظاہرہ کرنے لگتا ہے کہ قرآن وحدیث کی تفسیر و توضیح اور دین کی تفہیم و تعبیر وہ بھی کر سکتا ہے ۔ اور جگہوں کے بارے میں تو خیرر ہنے دیجیے لیکن افسوسناک حد تک بر صغیر ہندو پاک کے اندر اس طبقے کی فراوانی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں فکری مغالطے ، تعبیری انحرافات اور 'دانشورانہ پاگلپن ' کی بہتات بھی ہے ۔ کبھی کبھی اس طبقے کی صورت حال کو دیکھ کر معین احسن جذبی کا وہ شعر یاد آتا ہے کہ ۔
دھوکہ نہ تھا نظر کا تو پھر اے شب دراز
وہ ہلکے ہلکے صبح کے آثار کیا ہوئے
               اس پوری صورت حال پر کئی ایک پہلؤوں سے نظر ڈالنے کی ضرورت ہے  ، یہ ایک  خطرناک صورت حال ضرور ہے  لیکن اس کے اسباب بھی ہیں جن سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ۔
علماء اور تفہیم دین : علماء انبیاء کے وارث ہیں ۔ قرآن و حدیث کا علم رکھتے ہیں ۔ محدثین اور فقہاے امت کی کوششوں سے واقف ہیں ۔ دین کے مبادیات اور ان کے اسرار و رموز سے آگاہ ہیں ۔ اس لیے حق تو یہی بنتا ہے کہ تفہیم و تشریح دین کا منصب ان کے ہی پاس رہے اور ہے   بھی ایسا ہی ۔ لیکن مسئلہ تب کھڑا ہو تا ہے  جب بہت سارے مسایل میں علماء قرآن و حدیث کے صریح احکام کے خلاف فقہی گروہ بندیوں کی خاطر غیر عقلی رویہ اپناتے ہیں ۔ اس سے عصری علوم سے بہرہ ور افراد کے ذہن میں علماء کی شبیہ خراب ہوتی ہے اور  پھر وہ علماء سے حق تفہیم و تشریح کو سلب کرلیے جانے کو روا سمجھنے لگتے ہیں ۔
        کبھی کبھار یہ بھی ہوتا ہے کہ علماء دوسرے دانشوران کے اچھے ، صائب اور صحیح آراء کو بھی در خور اعتناء نہیں سمجھتے اور ایسی صورت میں چوںکہ ان دانشوران کے اعتماد کو ٹھیس بھی پہنچتی ہے اور علماء کے تئيں  ان کے تقدس آمیز رویہ کو دھکا بھی لگتا ہے اس لیے وہ خود کو علماء سے الگ اتھاریٹی کے طور پر دیکھنے لگتے ہیں ۔ اور پھر بڑے بڑے مسایل جنم لیتے ہیں ۔ اس پر مستزاد یہ کہ کبھی کبھی ہر وہ شخص جس نے مدرسہ کی ڈگری لی ہوتی ہے خود کو  صاحب فتوی عالم کے منصب پر فائز سمجھنے لگتا ہے ۔
                ظا ہر ہیکہ جہاں اس پورے معاملے میں  علماء طبقہ کو احتساب کی دعوت دی جائیگی اور ان سے یہ گذارش کی جائیگي کہ وہ اپنا رویہ بہتر کریں ، ذہن کھلا رکھیں اور سچ کو قبول کرنے کا حوصلہ پیدا کریں وہیں دانشور طبقہ کو یہ بتلانا ہی ہوگا کہ اگر علماء کے یہاں کچھ خامی ہے تو اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ آپ علماء کا  منصب خود کو دے ڈالیں ۔ ایک انجینئر کی تعمیر یا پلان میں کوئی کمی نظرآئے تو ایک غیر انجینئر شخص اس غلطی کی طرف اشارہ کرسکتا ہے نہ یہ کہ وہ انجینئرنگ کا منصب لے لے اور انجینئر کو چلتا کر دے ۔
دانشوران اور تفہیم دین:  دانشور طبقے میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہیں جنہیں دین کے مبادیات ، اصول ، اور اس کی روح سے آگاہی حاصل ہے اوریہ وہ لوگ ہیں جو بلا شبہ قوم کے سرمایہ ہیں اور امت کے لیے عظیم رحمت ۔ لیکن زیادہ تر لوگ وہ ہیں  جو اپنے فیلڈ میں اچھے ہیں لیکن دین کی اساس اور استنباط احکام کے اصول سے پورے طور پر واقف نہیں ہیں ۔ ایک سچ یہ بھی ہے کہ ان کی اکثریت نے دین کو اس کے اصل ماخذ سے نہیں پڑھا ہے بلکہ اس کے  ترجمہ سے ہی استفادہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ان میں بھی د و طرح کے افراد پائے جاتے ہیں ۔ ایک تو وہ ہیں جن کی نیت اچھی ہے اور وہ واقعۃ دین کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں  ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے اور یہ کوشش ہونی چاہیے کہ وہ دین کی خدمت صحیح طریقے اور بہتر زاویے سے کرسکیں ۔ اس کے لیے نہایت ضروری ہے کہ انہیں اصل دین سے متعارف کرایا جائے اوردین کے جو اصل سورس ہیں ان سے نہ صرف یہ کو ان کو آگاہ کیا جائے بلکہ انہیں اس طرح سنوارا جائے کہ پوری امت ان سے استفادہ کر سکے ۔ دانشور طبقے کے اس گروپ کو اس بات کا بھی لحاظ کرنا ہوگا کہ اگر ان کی نیت واقعۃ  اچھی ہے تو پھر نہیں اس بات  کی زبردست کوشش کرنی ہوگی کہ وہ اصل حق سے متعارف بھی ہوں اور اس کو پھیلا بھی سکیں ۔ ان کو اللہ سے دعا کرنا چاہیے کہ وہ غلط فہمیوں کے شکار نہ ہوجائیں اور جوش میں آکر کچھ ایسا نہ کرگزریں جو اصل دین ہو ہی نہیں ۔ اس کے لیے انہیں بہر حال یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ علماء حق سے اپنا رابطہ استوار رکھیں  بصورت دگر راہ حق سے انحراف کے امکانات بڑھ جائین گے ۔
            دانشور طبقہ کا دوسرا گروہ وہ ہے جو بکا ہوا ہے ۔ کرایے کی عقل اور مانگی ہوئی روشنی سے اجالا پھیلانا چاہتا ہے ۔ ہر دینی حکم کو غیر معیاری عقل کی کسوٹی پر تولتا ہے اور دین کی عجیب و غریب تعبیر و تشریح کرکے دین کو اپنے موقف کے مطابق بنانے کی کوشش کرتا ہے ۔  یہ طبقہ عیار بھی ہے اور ہوشیار بھی ۔ بالعموم دنیاوی ترقیوں اور خوشحالیوں کا سہارا لے کر وہ نقب زنی کی کوشش کرتا ہے لیکن ایسے بد خواہوں کا جواب بھی جوش یا تشدد نہیں ہے ۔ اس کے لیے سب سے پہلی ضرورت تو یہ ہے کہ ہم اپنی دینی تربیت اتنی مضبوط رکھیں کہ ان کا کوئی حربہ کامیاب نہ ہو ۔ دوسری ضرورت یہ ہے کہ وہ دانشور طبقہ جو اچھی نیت کے ساتھ دین کی خدمت کرنا چاہتا ہے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ان کے ذریعے بد خواہوں کا توڑ کیا جائے ۔ ساتھ ہی علماء طبقہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آج کے حالات کو سمجھنے کی ہر ممکن کوشش کریں ۔ وہ تمام وسایل اختیار کیے جائیں جن سے آج کے چیلینجیز کا جواب دیا جاسکے ۔ یاد رہے کہ ہمارا کام سچ واضح کرنا ہے ، سچ قبول کروانا نہیں ۔ بقیہ اللہ تعالی اپنی ذمہ داری ادا کرے گا ۔

الاثنين، أبريل 01، 2013

بيان وهم من زعم أن ابن الجوزي أورد حديثا في موضوعاته، وهو في بعض روايات صحيح البخاري


بسم الله الرحمن الرحيم
بيان وهم من زعم أن ابن الجوزي أورد حديثا في موضوعاته، وهو في بعض روايات صحيح البخاري
إعداد: محمد يوسف حافظ أبو طلحة
هذا الموضوع قد تناوله الإخوان الأفاضل في ملتقى أهل الحديث، لكني توصلت إلى نتيجة معينة، فأحببت أن أعرضها على المتخصصين في الحديث النبوي وعلومه رجاء أن يتحفوا بملاحظاتهم البناءة بأسلوب علمي متين. فأقول مستعينا بالله:
قال ابن الجوزي في الموضوعات (2/88):
"باب كراهية ادخار الرزق
روى ابن عمر أن النبي r قال: «كيف بك يا ابن عمر إذا عمرت في قوم يخبؤون رزق سنتهم؟».
قال النسائي: هذا حديث موضوع". انتهى كلام ابن الجوزي.
قال السيوطي في اللآلئ المصنوعة بعد نقل كلام ابن الجوزي المذكور بنصه: "قلت: هذا أخرجه البخاري في صحيحه في رواية حماد بن شاكر، (فقال: حدثنا حامد بن عمر، حدثنا بشر بن المفضل، حدثنا عاصم بن محمد، حدثنا واقد –يعني أخاه-، عن أبيه –يعني محمد بن زيد بن عبد الله بن عمر-، عن ابن عمر أو ابن عمرو قال: شبك النبي r أصابعه.
قال البخاري: وقال عاصم بن علي: حدثنا عاصم بن محمد: سمعت هذا الحديث من أبي، فلم أحفظه، فقومه لي واقد، سمعت أبي يقول: قال عبد الله: قال رسول الله r: «يا عبد الله بن عمرو، كيف بك إذا بقيت في حثالة من الناس» الحديث.
قال الحافظ ابن حجر في شرح البخاري: وقع هذا الحديث في رواية حماد بن شاكر، وليس هو في أكثر الروايات، ولا استخرجه الإسماعيلي، ولا أبو نعيم، بل ذكره أبو مسعود في الأطراف، وقد ساقه الحميدي في الجمع بين الصحيحين نقلا عن أبي مسعود)". انتهى كلام السيوطي.
قلت: قول السيوطي بهذا التمام لا يوجد في مطبوعة اللآلئ المصنوعة وأكثر نسخه الخطية، وإنما يوجد في نسخة سوهاج المقروءة على المؤلف بخط جرامرد الناصري تلميذ المصنف، وتاريخ نسخها 910ﻫ، والمؤلف توفي سنة 911ﻫ.
وهذا الحديث الذي عزاه السيوطي للبخاري هو في كتاب الصلاة، باب تشبيك الأصابع في المسجد وغيره (1/731-732 رقم 478، و479، و480).
ولم يسق البخاري لفظه كاملا، وقد ساقه الحميدي في الجمع بين الصحيحين (2/278 ح 1435) تحت أفراد البخاري، وزاد في ألفاظه، فإنه قال: "الخامس والعشرون عن واقد بن محمد، عن أبيه، عن ابن عمر -أو ابن عمرو- قال: شبك النبي r أصابعه، وقال: كيف أنت يا عبد الله بن عمرو إذا بقيت في حثالة من الناس قد مرجت عهودهم وأماناتهم، واختلفوا، فصاروا هكذا» قال: فكيف يا رسول الله؟ قال: «تأخذ ما تعرف، وتدع ما تنكر، وتقبل على خاصتك، وتدعهم وعوامهم. هكذا في حديث بشر بن المفضل عن واقد.
وفي حديث عاصم بن محمد بن زيد قال: سمعت هذا من أبي، فلم أحفظه، فقومه لي واقدٌ عن أبيه قال: سمعت أبي وهو يقول: قال عبد الله: قال رسول الله r: «يا عبد الله بن عمرو، كيف أنت إذا بقيت وذكره.
وليس هذا الحديث في أكثر النسخ، وإنما حكى أبو مسعود أنه رآه في كتاب أبي رميح عن الفربري وحماد بن شاكر عن البخاري". اﻫ من الجمع بين الصحيحين.
وحديث عاسم بن علي الذي علقه البخاري وصله إبراهيم الحربي، قال ابن حجر في تغليق التعليق (2/245): "وقد رواه إبراهيم الحربي في غريب الحديث له قال: حدثنا عاصم بن علي، حدثنا عاصم ابن محمد، عن واقد، سمعت أبي يقول: قال عبد الله: قال رسول الله r: «كيف بك يا عبد الله بن عمرو إذا بقيت في حثالة من الناس قد مرجت عهودهم وأماناتهم».
ثم أسند ابن حجر من طريق الخطيب قال: أخبرنا أبو الحسين بن رزق، أخبرنا أبو عمرو بن الساك، أخبرنا حنبل بن إسحاق، حدثنا عاصم بن علي فذكره مثل ما ساقه البخاري، وقال بعد قوله: «في حثالة من الناس»: «قد مرجت عهودهم وأماناتهم، واختلفوا، فصاروا هكذا، وشبك بين أصابعه. قال: كيف تأمرني يا رسول الله؟ قال: «تأخذ بما تعرف، وتدع ما تنكر، وتقبل على خاصتك، وتدعهم وغوغائهم». اﻫ من تغليق التعليق.
وهذا الحديث الذي سقت لفظه نبه أهل العلم على أنه لا يوجد في أكثر نسخ صحيح البخاري، إنما يوجد في رواية حماد بن شاكر. منهم أبو مسعود الدمشقي، والحميدي، وابن الأثير، والمزي، وابن حجر، والعيني، والقسطلاني. (انظر: الجمع بين الصحيحين 2/278 ح 1435، وجامع الأصول 10/5-6، وتحفة الأشراف 6/41 ح 7428، وبهامشه النكت الظراف، وفتح الباري 1/732، وعمدة القاري 4/382، وإرشاد الساري 1/460).
وهذا اللفظ الذي ساقوه ليس في شيء منه ما يتعلق بتخبئة الرزق، وإنما يتعلق باختلاط العهود والأمانات وضياعها، وابن الجوزي كان على علم بأن هذا الحديث يوجد في صحيح البخاري، فقد شرحه في كشف المشكل من حديث الصحيحين (2/581)،
ولكن ما يتعلق بتخبئة الرزق –الذي ساقه ابن الجوزي- جاء في رواية أحد المتروكين المتهمين في أثناء قصة طويلة.
فقد أخرج عبد بن حميد (2/44 ح 814) –ومن طريقه ابن عساكر في تاريخه (4/127)- قال: أخبرنا يزيد بن هارون، أخبرنا أبو العطوف الجراح بن منهال الجزري، عن الزهري، عن رجل، عن ابن عمر قال: خرجت مع النبي r حتى دخل بعض حيطان الأنصار، فجعل يلتقط من التمر ويأكل، فقال لي: «يا ابن عمر، ما لك لا تأكل؟» قال: قلت: يا رسول الله، لا أشتهيه. قال: «لكني أشتهيه، وهذه صبح رابعة لم أذق طعاما ولم أجده، ولو شئت لدعوت ربي فأعطاني مثل ملك كسرى وقيصر، فكيف بك يا ابن عمر إذا بقيت في قوم يخبؤون رزق سنتهم، وبضعف اليقين». فوالله ما برحنا ولا أرمنا حتى نزلت ﴿ﮟ  ﮠ  ﮡ  ﮢ     ﮣ   ﮤ  ﮥ  ﮦ  ﮧﮨ  ﮩ  ﮪ  ﮫ  ﮬ [سورة العنكبوت 60] فقال رسول الله r: «إن الله عز وجل لم يأمرني بكنْز الدنيا ولا اتباع الشهوات، فمن كنَز دنيا يريد بها حياة باقية فإن الحياة بيد الله، ألا وإني لا أكنِز دينارا ولا درهما، ولا أخبأ رزقا لغد».
وأخرجه ابن أبي الدنيا في الجوع (ص 183-184ح 307)، وابن أبي حاتم في تفسيره –كما في تفسير ابن كثير (3/552-553)-، وأبو الشيخ في أخلاق النبي r (4/233 ح 879) –ومن طريقه الواحدي في التفسير الوسيط (3/425)، وأسباب النّزول (ص 358)-، وابن عساكر في تاريخ دمشق (4/127) كلهم من طريق يزيد بن هارون به. لكن عند الواحدي وأبي الشيخ: "عن عطاء" بدل: "عن رجل".
وأخرجه البغوي في تفسيره (6/253)، والثعلبي (7/288-289) من طريق إسماعيل بن زرارة الرقي-، وابن عساكر في تاريخه (4/128) من طريق عمار بن عبد الجبار-، كلاهما عن الجراح بن منهال، عن الزهري، عن عطاء بن أبي رباح، عن ابن عمر نحوه.
وآفة هذا الإسناد أبو العطوف الجراح بن منهال الجزري؛ فإنه متروك متهم، قال ابن معين: ليس حديثه بشيء. وقال أيضا: ليس بثقة. وقال ابن المديني: ضعيف لا يكتب حديثه. وقال البخاري ومسلم: منكر الحديث. وقال أبو حاتم: متروك الحديث، ذاهب الحديث، لا يكتب حديثه. وقال النسائي: متروك الحديث. وقال ابن حبان: رجل سوء يشرب الخمر، ويكذب في الحديث. وقال الدارقطني: فيه خلاعة، متروك. (انظر: تاريخ الدوري 4/467، ومن كلام أبي زكريا في الرجال رواية الدقاق ص 37، والتاريخ الكبير 2/228، وكنى مسلم 1/660، والجرح والتعديل 2/523، وضعفاء النسائي ص 73، والمجروحين 1/259، والكامل 2/160-161، وضعفاء الدارقطني ص 174، ولسان الميزان 2/426-427).
وشيخه الزهري في هذا الإسناد هو عبد الرحمن بن عطاف، كما قال أبو الشيخ. والواحدي، ولم أر من تكلم فيه بجرح أو تعديل إلا أن ابن حبان ذكره في ثقاته (7/70)، ولذا قال ابن حجر في التقريب (ص 591): "مقبول" أي عند المتابعة. ولم يتابع هنا.
تنبيه: قول أبي ألشيخ أن الزهري هذا هو عبد الرحمن بن عطاف، ذكره المحقق في الحاشية.
وأعله بعض أهل العلم بمخالفته للحديث الصحيح، قال القرطبي في تفسيره (16/384): "وهذا ضعيف يضعفه أنه عليه الصلاة والسلام كان يدخر لأهله قوت سنتهم، اتفق عليه البخاري ومسلم. وكانت الصحابة يفعلون ذلك وهم القدوة، وأهل اليقين والأئمة لمن بعدهم من المتقين المتوكلين".اﻫ.
وقال الشوكاني في فتح القدير (4/280): "وهذا الحديث فيه نكارة شديدة لمخالفته لما كان عليه النبي r، فقد كان يعطي نساءه قوت العام، كما ثبت ذلك في كتب الحديث المعتبرة". اﻫ.
قلت: يشيرون إلى ما أخرجه البخاري (5357، و4885)، ومسلم (4550) من حديث عمر بن الخطاب أن النبي r كان يبيع نخل بني النضير، ويحبس لأهله قوت سنتهم. واللفظ للبخاري.
الحاصل أن ابن الجوزي أورد في باب كراهية ادخار الرزق من الموضوعات (3/88) حديث ابن عمر أن النبي r قال له: «كيف بك يا ابن عمر إذا غبرت في قوم يخبؤون رزق سنتهم». وهذا اللفظ ليس في صحيح البخاري لا في رواية حماد بن شاكر ولا غيره، وإنما ورد عند غبد بن حميد وغيره في رواية الجراح بن منهال، عن الزهري، عن رجل، عن ابن عمر. والجراح متروك متهم، كما تقدم تقريره، وعدم ذكر ابن الجوزي سنده وعلته زاد الأمر إشكالا.
والسيوطي اعتمد على الديلمي في دعواه أن الحديث الذي أورده ابن الجوزي في الموضوعات هو في صحيح البخاري؛ فإنه صرح في النكت البديعات (ص 212) بالنقل منه، فأنقل هنا كلام الديلمي بنصه.
قال في مسند الفردوس (2/22/ب): "كيف بك يا ابن عمر إذا عُمِّرت في حثالة من الناس يخبؤون رزق سنة ويضعف اليقين». الحثالة الرذالة. قال البخاري –رحمه الله- في كتاب الصلاة-: حدثنا حامد بن عمر، عن بشر بن المفضل، عن واقد بن محمد، عن أبيه، عن ابن عمر –رضي الله عنهما- قال: قال رسول الله r الحديث. قال ابن عمر: شبك النبي عليه السلام أصابعه، وقال: «كيف بك؟» قال: ونزل هذه الآية ﴿ﮟ  ﮠ  ﮡ  ﮢ     ﮣ   ﮤ  ﮥ  ﮦ  ﮧﮨ  ﮩ  ﮪ  ﮫ  ﮬ انتهى كلام الديلمي بنصه.
والديلمي هو شهردار بن شيرويه بن شهردار بن شيرويه الهمذاني، ألف والده شيرويه فردوس الأخبار، ذكر فيه الأحاديث دون سند، فأسند ابنه شهردار كتاب والده، فاللفظ المذكور أولا كان دون سند في كتاب الفردوس، فذكر الابن سنده من صحيح البخاري، ولم يسق لفظه بنصه، وذكر فيه نزول الآية، وذكرُ نزول الآية لا يوجد إلا في رواية الجراح بن المنهال المتقدم ذكرها، فالظاهر أنه لفق بين رواية صحيح البخاري وبين رواية أخرى؛ فإن هذا السياق الذي ذكره شهردار الديلمي لا يوجد في نسخ البخاري، ولم يذكره شراحه كابن حجر والعيني والقسطلاني، ولا ذكره من ألف في الجمع بين الكتب كالحميدي وابن الأثير.
وبهذا يتبين أنه لا يوجد في كتاب الموضوعات لابن الجوزي حديث حكَم عليه بالوضع، وهو في صحيح البخاري.
ثم وقفت على كلام لابن حجر فازددت اطمئنانا وانشراحا؛ فإنه قال في القول المسدد (ص 37) في أثناء كلامه على حديث أبي هريرة الذي في صحيح مسلم: «إن طالت بك مدة أوشك أن ترى قوما يغدون في سخط الله...» قال: "ولم أقف في كتاب الموضوعات لابن الجوزي على شيء حكم عليه بالوضع وهو في أحد الصحيحين غير هذا الحديث".اﻫ.
وهذا البحث أصله تعليقات علقتها على كتاب اللآلئ المصنوعة الذي تقدمت به لنيل درجة الدكتوراه في 05/03/1433ﻫ بكلية الحديث الشريف بالجامعة الإسلامية بالمدينة المنورة، ونوقشت الرسالة في 16/03/1434ﻫ، وأجيزت بتقدير ممتاز مع مرتبة الشرف الأولى. يسر الله طبعها.
ولشيخنا الفاضل الدكتور عبد الباري ابن المحدث حماد الأنصاري –حفظه الله- بحث مفرد حول هذا الحديث تحت الطبع، لم أره، لكن لما ذكرت للشيخ النتيجة النهائية التي توصلت إليها وافقني عليها. وبالله التوفيق.