الأحد، مارس 31، 2013


ساگر تیمی 
خدا کے بندوں کو زندگی کا شعور دے دو پیام دے دو 
خدا کا سارا کلام دے دو نبی کی سنت تمام دےدو 
رہ وفا میں قدم قدم پہ ضرورتیں ہیں عنایتوں کی 
تمہاری چاہت میں گامزن ہیں ہمیں بھی طرز خرام دے دو 
ابھی تلک حسن بے وفا ہے ابھی تلک عشق ہے پریشاں 
ہماری مانو تو عاشقو تم محبتوں کو لگام دے دو
ہماری شہرت ہمارے حق میں بتاؤں کیسے کہ کیا بلا ہے 
یہی سبھوں کا مطالبہ ہے ہمیں بھی اپنا کلام دے دو
مجھے پتہ ہے تمہارے ا ندر وفا نہیں ہے مگر خدارا
جولوگ تم پر نثار ہیں تم انہیں تو تھوڑا مقام دے دو
میں جانتا ہوں کہ عشق ساگر دوا نہیں ہے دعا نہیں ہے
مگر یہ چاہت کی آرزو ہے محبتوں کو دوام دے دو

ساگر تیمی 
غزل 
میں پھر سے اپنے خواب کی تعبیر نکالوں 
تو مسکرا ذرا تیری تصویر نکالو ں 
باہر بھی جتنے ہیں سبھی اندر سے بند ہیں 
اییسیے میں کیا میں پاؤں کی زنجیر نکالوں
نرمی، وفا، دعا کو سمجھتا ہے بزدلی
غیرت کو کیسے بیچ دوں شمشیر نکالوں
سارے امیر اور میں تنہا فقیر ہوں
کس کس کے دل کے روگ کی تدبیر نکالوں
میں کیا کروں کہ ظلم کا قصہ تمام ہو
رحمت کو جوش آئے وہ تحریر نکالوں
پھر تیرے سامنے سے گزرنے کا شوق ہے
پھر اک نئے رقیب کی تقدیر نکالوں
ساگر میں رات بھی اسی اک سوچ میں گم تھا
سچ کہ دوں یا پھر جھوٹ کی تبریر نکالوں

الجمعة، مارس 22، 2013



صدا کوئ نہیں چہرا نہیں ہے
جہاں میں ہوں وہاں دنیا نہیں ہے
نہ جانے کیا کمی ہے سادگی میں
کوئی میری طرف بڑھتا نہیں ہے
اگر جاؤں تو اب جاؤں کہاں میں
خدایا کیوں دعا سنتا نہیں ہے
بڑا شہرہ ہے اس کی شاعری کا
مگر وہ آدمی اچھا نہیں ہے
یہ غم ہے یا عذاب جاودانی
مسلسل بڑھ رہاہے گھٹتا نہیں ہے
کسی کی یاد ہی ہے سرگرانی
محبت عشق تو اچھا نہیں ہے
اگر ساگر اسے اپنا بھی لے تو
اسے ڈر ہے کہ وہ اس کا نہیں ہے


الجمعة، مارس 15، 2013

نظرة عابرة على إعدام أفضل غرو


محمد سليم اختر التيمي 
جامعة اللغة الإنكليزية و اللغات الأجنبية

 اليوم التاسع من شهر فبراير 2013 م يوم حزين ويوم بؤس للمسلمين عامة وللمسلمين الهنود خاصة ، فيه قد نفذ الحكم بإعدام أفضل غرو بتخطيط دقيق حيك في ظلمة الليل الهالكة ، وأن هذا اليوم يوم أظهر فيه الرئيس الهندي و وزير الداخلة ، ليس في الهند التماس الرأفة للمسلمين ، و أثبت السيد برنب مكرجي أن منصب الرئيس الهندي ليس بعيدا عن السياسة ، بل إنما هو متصف بها و جزؤ منها ، و أن هذااليوم يوم قد أعلن فيه حكومة التحالف التقدمي المتحد أن الهند ليست حكومة ديمقراطية – كما يزعم العالم - ، بل إنما هي حكومة استبدادية ، و أما الدستور الهندي الذي وضع  تحت إشراف الدكتورأمبيدكر نظراً إلى مختلف الأجناس و الديانات و الطبقات ، فهو في الكتب و المحاكم ، ليس في العمل . فيا دستور الهند ! و يا إعدام أفضل غرو ! .
وأن الشهيد أفضل غرو الذي وجهت إليه عقارب الاتهام بالهجوم على البرلمان الهندي وقد نفذ الحكم بالإعدام بحقه في هذه الجناية ، أنه لم يقبل جرمه إلى آخر حياته قط ، ولم يُسمح له فرصة للدفاع عن نفسه بأي محامي ، و لم تخبر عائلته قبل الإعدام ، بل إنما حكومة التحالف التقدمي المتحد عقدت مجلسا مشتملا على رئيس الوزراء و الرئيس الهندي و وزير الداخلة في ظلمة الليل ، ورفضت عريضة الرأفة لأفضل غرو، و عينت تاريخ إعدامه الساعة الثامنة صباحا من اليوم التاسع من فبراير 2013 م في اليوم السادس من فبراير2013م، و أرسلت رسالة إلى عائلته للإخبار عن الإعدام في اليوم السابع من فبراير 2013 م بعلم أن هذه الرسالة لن تصل إلى أهله قبل الإعدام . فنظراً إلى هذا نسطيع أن نقول آنفا أن هذا الحكم حكم انتقامي و منتخب وسياسي نفذ بتخطيط دقيق لإغلاق أفواه المنظمات الهندوسية المتعصبة ، و الحصول على أصوات الهندوسيين في الانتخابات العامة القادمة ، و لإثبات أن حكومة كونغرس ليست حكومة للأقليات ، بل إنما هي للهندوسيين . فيا منظمة كونغرس ! ويا أهدافها الشنيعة !
    عقب يوم من إعدام أفضل غرو ودفنه في حرم سجن تيهار ، أعرب رئيس وزراء ولاية جامو وكشمير عمر عبد الله ، عن عدم رضاه وسخطه من عدم إبلاغ الرسالة إلى أسرته قبل الإعدام، وقال إن هذا الإعدام حكم  سياسي و انتقامي ، وعلى الحكومة أن تثبت هذا الإعدام ليس إعداما أخيراً . ورفض وزير الداخلة تصريح رئيس وزراء كشمير عمر عبد الله أن هذا الإعدام لم يكن سياسيا وانتقاميا ،بل إنما  تم طبقا للقواعد ، وقال أما قضايا قتلة رئيس الوزراء الهندي السابق رجيف غندي ورئيس وزراء البنجانب بينت سينج ، فهي كانت مختلفة.
وأن إعدام أفضل غرو يُقدِّم أسئلة أمام حكومة التحالف التقدمي المتحد ، هل أنها تنفذ الإعدام بحق الإرهابيين الذين قاموا بالتفجيرات الإرهابية في مكة المسجد و ماليغاون وسمجهوته اكسبريس ، والاضطرابات الطائفية في ولاية غجرات ، وسفكوا فيها دماء الآلاف بصورة وحشية لا توصف ، و جرح فيها آلاف رجل جرحا شديدا ؟ 

التفجيرات الإرهابية في حيدرآباد



محمد سليم اختر التيمي         
جامعة اللغة الإنكليزية واللغات الأجنبية
     إن الحوادث المتلاحقة السافكة دماء الأبرياء بصورة عنيفة ،والاضطرابات الطائفية والمؤامرات الحثيثة لم تزل تواجهها الهند منذ زمن قديم التي هي تعد أكبر دولة ديمقراطية في جميع العالم ، بفضل الدستور العادل الذي لا يفرق بين طبقة وطبقة، و ديانة وديانة .
    ولكن العجب كل العجب ! أن بعض الطائفة الإرهابية قد شنوا الغارة في الثاني و العشرين من شهر فبراير 2013 م على مدينة دلكهش نغر التي هي مدينة جميلة زهراء و قلب رئيسي لمدينة حيدرآباد الواقعة جنوب الهند ، والتي فيها مدارس ومعاهد و كليات كثيرة وسكان كثيفة يبلغ عددها أكثر من خمسمائة ألف ،وأن المصادر أفادت أن ثلاث قنابل انفجرت في وقت متزامن تقريبا في مناطق مزدهمة بحيدرآباد ، وأن إحداها انفجرت داخل مطعم صغير وأن عبوتين ناسفتين وضعتا على دراجتين ناريتين انفجرتا في السوق المزدحمة. وأن هذه الغارة الإرهابية  لقد سفكت دماء أكثر من العشرين رجلا بصورة وحشية لا توصف ، وجرح فيها أكثر من المائة رجل جرحا شديدا ،و شتت شمل الهنود و هددت وحدة البلاد كل تهديد . كلما نتذكرها ترتعد من ذكرها الجلود وتقشعر منها الجلود وتبكي السماء بكاء وتدمع الأرض دموعا وتقف الطيور من طيرانها وقفا . فيا هول ما رأيناه ! ويا عظم ما سمعناه!
     بعد هذه التفجيرات الإرهابية جاءت الردود من الأجانب المختلفة ، فقال رئيس الوزراء الهندي الدكتور منمون سنغ إن هذه التفجيرات الإرهابية "عمل جبان" ودعا إلى معاقبة منفذيها ، وقال وزير الداخلة الهندي سشيل كمار شندي للصحفيين في كولكاتا عاصمة بنغال الغربية إنها حملة دفاعية عن أجمل قصاب و أفضل غرو الذين نفذ الحكم بإعدامهما خلال ثلاثة أشهرماضية ، وأدان الرئيس الفرنسي فرانسوا أولاند الهجمات الإرهابية التي تعرضت لها مدينة حيدرآباد الواقعة جنوب الهند وأعرب عن تعازيه لأسر الضحايا وتضامنه مع الشعب و الحكومة الهندية في مكافحة الإرهاب ، وقال المسؤل في شرطة حيدرآباد شيف كمار لوكالة فرانس برس "لا شك في أنه هجوم إرهابي " .
     وأن هذه التفجيرات الإرهابية تقدم أمامنا أسئلة ، من هم الذين قاموا بها في تخطيط عميق ؟ وما هي الأهداف والغايات المشؤمة وراءها؟ وهل يمكن الوصول للحكومة الهندية إلى منفذيها ؟ ولكن إذا ألقينا نظرة عابرة على الهجمات الإرهابية الماضية الواقعة في أنحاء الهند يتجلى جلاء الشمس لدى العالم إذا لم يتعمد إغماض عينيه أن المنظمات الهندوسية المتعصبة لم تزل تقوم بها بتخطيط عميق في ظلمات الليل الهالكة كما أشار إليه السيد سشيل كمار شندي قبل أيام ، ولكن التعصب قد بلغ إلى حد أن تنظر إلى كل مسلم ينتمي إلى الإسلام بنظرة الشك والريبة ،وتوجه عقارب الاتهام إلى المسلمين لدى كل حادث عنف وإرهاب بدون تحقيق ودليل ،وتنكل في هذه الجناية بكثير من المسلمين الأبرياء بصورة وحشية ليست بالمستطاع أن توصف. فبعد لحظة لهذه الهجمات الإرهابية- بسوء الحظ - وجه سهام الاتهام إلى الشباب المسلمين بأنهم قاموا بشن هذه الغارة الإرهابية بالأسلحة التدميرية التي قد كانت استعملت في الانفجارات الإرهابية الماضية .فهذه تحديات كبرى لنا المسلمين للعيش في الهند . فعلينا أن نعمل على الكتاب و السنة ،ونعتصم بحبل الله ، ونختار للدفاع عن هذه التحديات الكبرى من الأعداء بالطريقة التي اختارها السلف الصالحون لدحض مزاعهم الشنيعة . والله المستعان و عليه التكلان .

الاثنين، مارس 04، 2013


غزل
ساگر تیمی
عشق محبت کرنے والے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
یعنی اندھیروں میں اجالے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
میری بات در عالی تک پہنچے بھی تو کیسے پہنچے
حضرت جی کے پیارے سالے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
بات اگر ٹھکرائی جائے روح تڑپ کر رہ جائیگی
اس میں کلام اللہ کے حوالے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
کیسے دعائیں سن لی جائیں بات فقط اتنی تو نہیں ہے
ان سے جڑے ناپاک نوالے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
تیری زمیں دولت جائے گی اتنا تو اب طے ہی جانو
صاحب جی کے پاس قوالے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
مجھکو دریا سے کیا مطلب اور سمندر سے کیا لینا
میری راہ میں ٹھوکر نالے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
رنگ، وفا ، تسکین ، محبت،    عشق،  دعا ، معصوم ادائیں
اس کی رفاقت ، اس کے حوالے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
کیسی راہ پہ چلتا رہا ہے  تونے بھی کیا عشق کیا ہے
ساگر تیرے پاؤں میں چھالے آگے بھی ہیں پیچھے بھی 

ترس گئے ہیں کسی مرد راہ داں کے لیے

   ثناءاللہ صادق تیمی
 جواہر لال نہرو یونیورسٹی

پچھلے دنوں علماء صادقپور کی سرزمین پٹنہ میں دوچار دن گزارنے کی توفیق ارزانی ہو‏ئی۔ در اصل السلام ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام مختلف قسم کے رفاہی اور دعوتی پروگرامز منعقد کیے گئے ۔ سعودی عرب سے بڑے بھائی جناب ڈاکٹر مولانا معراج عالم تیمی کا حکم ہوا کہ اگر بہار میں ان دنوں رہنا تو پروگرام میں شرکت کرنا اور نظامت کا فریضہ انجام دینا۔  حقیقت  تو یہ ہے کہ یہ شوشہ در اصل میرے دوست اور ساتھی مولانا آصف تنویر تیمی کاچھوڑا ہوا تھا ورنہ

کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل
نسیم     صبح   تیری   مہربانی
23 دسمبر سے یہ سفر شروع ہو کر 26 دسمبر تک چلا ۔ اس بیچ الحمد للہ کئی ایک کامیاب اور نہایت مفید پروگرام آرگنائز کیے گئے اور اہالیان پٹنہ نے بھر پور استفادہ کیا ۔  مختلف مساجد میں درس قرآن اور درس حدیث کے علاوہ اس پروگرام کی ایک خاصیت نے بطور خاص مجھے متاثر کیا کہ بڑا  پروگرام بھی  کافی زیادہ لمبا نہیں تھا۔ عصر سے شروع ہوکر عشاء تک ختم ہو گیا ۔ یعنی دعوتی کا م بھی ہو گیا اور معاملات زندگی متاثر بھی نہیں ہوے ۔ ایک دوسری بڑی اچھی بات یہ دیکھنے میں آئی کہ غریبوں کا نہ صرف خیال رکھا گیا کہ ان کہ درمیان کمبل تقسیم کیے گئے بلکہ دانشمندانہ قدم یہ اٹھایا گیا کہ جھگی جھوپڑی کے اندر ایک دینی مکتب بھی کھولا گیا کہ ان کی تعلیم کا بند و بست بھی ہو اور غریبی کے دیو سے مستقل پیچھا بھی چھوٹے۔ اس پروگرام کی ایک قابل ذکر بات یہ تھی کہ اس کے اندر ایک عرب شیخ  حمد بن محمد المھیزعی بھی شریک تھے ۔ آدمی متواضع اور دعوتی جذبے سے شرشار ۔ کئی ایک مواقع سے ان کے خطابات کو اردو زبان میں پیش کرنے کا خاکسار کو موقع نصیب ہوا۔ ہم پٹنہ سے مظفرپور موٹر کار سے شیخ کے ہمراہ جارہے تھے اور ہمارا ڈرائیور ہندو تھا ۔ مجھے جہاں یہ لکھتے ہوے انتہائی درجے میں خوشی ہو رہی ہے کہ شیخ نے اس آدمی کے سامنے توحید کی دعوت پیش کی اور الحمد للہ اس شخص کا ریسپانس کافی پازیٹیو (جواب مثبت ) رہا وہیں اس بات کا انتہائی درجے میں افسوس ہے کہ ہم ہندوستانی مسلمانوں اور بطور خاص  علماء نے اس طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی ۔ ورنہ صورت حال کچھ اور ہی ہوتی۔ آج بھی یہ میدان وسیع ہے ۔ دنیا حق جاننے کو آمادہ ہے لیکن افسوس کہ جن کے پاس حق کی نعمت ہے وہ خود اس سے نابلد ہیں ۔ اللہ خیر کرے ۔ خاص طور سے برادران وطن کے اندر جو مختلف معبودوں کا تصور ہے اور انسانوں کی طبقاتی تقسیم ہے اس کی قلعی کھول کر اور اسلام کا صاف و شفاف چہرہ پیش کرکے ان کو تو اسلام سے قریب کیا ہی جا سکتا ہے ۔
اس تین چار دن کے اندر جس بات کا احساس سب سے زیادہ ہوا وہ یہ تھا کہ مسلم عوام کے اندر حق جاننے کا جذبہ کافی زیادہ ہے خاص طور سے جوانوں کے اندر یہ جوش و جذبہ فراواں بھی ہے اور توانا بھی ۔ ان میں سے بعض کے اندر تو داعیانہ اسپرٹ اور احساس ذمہ داری کی بھی جھلک نظر آئی ۔
ان کے سوالات کرنے کے رنگ ڈھنگ سے ان کے  شوق و رغبت کا اندازہ لگانا کوئی اتنا مشکل بھی نہیں تھا۔ بلا شبہ یہ جوان مضبوط سرمایہ ہیں ، البتہ ان کی تربیت کی ضرورت ہے ۔ افسوس کہ اب ہمارے علماء کا رابطہ عوام سے کمزور پڑتا جارہا ہے اور مجھے ذاتی طور پر یہ ڈر ستا تا ہے کہ کہیں یہ جوش و جذبہ سے بھر پور جوان گمراہ کن عناصر کے شکار نہ ہو جائیں ۔ سلیم الفکر علماء کی غفلت کو نظروں میں رکھا جاے اور دوسرے لوگوں کے تگ و تاز کو بھی دیکھا جاے تو اسے اندیشہ ہاے دور دراز بھی نہیں  کہا جا سکتا ۔ تجربات بتلاتے ہیں کہ اپنی کاوش و لگن اور بغیر علماء کی تربیت کے بالعموم لوگ تشدد کی راہ اپنا لیتے ہیں اور تکفیری نقطہ نظر کے اسیر ہو جاتے ہیں ۔ انہیں ہر جگہ سب کچھ غلط ہی نظر آتا ہے اور اس طرح وہ کسی کو مسلمان تک ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔
اس پورے معاملے پر السلام ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر فاؤنڈیشن کے جوائنٹ سکریٹری اور بڑے بھائی مولانا صفات عالم زبیر عالم تیمی سے گفت و شنید ہوئی ۔ ان کے تجربات بھی کچھ ایسے ہی تھے ۔ واضح رہے کہ مولانا صفات عالم تیمی کویت میں دعوتی کاز سے جڑے ہوے ہیں ۔ اس کے علاوہ  آپ کی ادارت میں مقبول عام اردو ماہنامہ' المصباح ' پورے تزک و احتشام کے ساتھ شائع ہوتا ہے اور عوام و خواص میں یکساں دلچسپی سے پڑھا جاتا ہے ۔
آج کل بالعموم میگزین نکالنے کو دعوتی کام سمجھا جاتا ہے ۔ کچھ لوگ مدارس کو دعوت کا اصل مرکز سمجھتے ہیں اور کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ انٹرنیٹ اور ٹیلی ویزن کے سہارے ہی یہ کام کیا جا سکتا ہے ۔ سچی بات یہ ہے کہ ان تمام باتوں میں جزوی سچائی ہے جسے ہم نے غلطی سے کلی سمجھ لیا ہے ۔ مدارس علماء پیدا کرتے ہیں جو دعوتی فریضہ انجام دیتے ہیں ۔ یہ ایک بالواسطہ طریقہ ہے اور ظاہر ہے کہ مدارس کے سارے فارغین دعوتی میدان میں تو رہتے بھی نہیں ۔ رسائل جرائد دعوتی کاز میں ممد و معاون ہوتے ہیں اور ہم اپنے مضامین کے ذریعے بلاشبہ یہ کام انجام دے سکتے ہیں لیکن نہ بھولیں کہ ہمارا ٹارگیٹ کم ہوجا تا ہے اور ساتھ ہی یہ نقطہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ دعوت و تبلیغ کا کام داعی کی سیرت اور اس کی عملی زندگی سے کافی جڑا ہوا ہوتا ہے ۔ مضامین دیرپا ہو سکتے ہیں لیکن وہ سب تک نہیں پہنچ سکتے اور داعی کا عملی رویہ یہاں پر ظاہر نہیں ہو سکتا۔ انٹرنیٹ اور ٹیلی ویزن سے استفادہ وقت کی ضرورت ہے اور اس سے انکار نہیں لیکن لوگوں کی دینی تربیت ساتھ ساتھ انجام دینا اس سے کسی درجہ کم اہم نہیں ۔ ہماری تاریخ بتلاتی ہے کہ کس طرح ہمارے اسلاف نے گاؤں گاؤں اور بستی بستی گھوم گھوم کر اس فریضے کو انجام دیا ہے اور الحمد للہ کہ ان کی کوششیں کافی بارآور ہوئی ہیں ۔ ہمیں مولانا ثناءاللہ امرتسری ، مولانا عبد العزیز رحیم آبادی اور مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی کی کوششوں اور ان کی جانفشانیوں سے سبق لینے کی ضرورت ہے ۔
آج یہ بات اعتماد کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ تبلیغی جماعت سب سے فعال اور دعوتی سطح پر کامیاب جماعت ہے ، اس لیے نہیں کہ ان کے یہاں سب کچھ ٹھیک درست ہے بلکہ اس لیے کہ ان کے جیالے لوگوں کے بیچ جاکر کام کرتے ہیں ۔ ان کا اور عوام کا بلاواسطہ رشتہ استوار ہوتا ہے اور پھر جو نتائج رونما ہوتے ہیں وہ دنیا کے سامنے ہے ۔ نہ معلوم کیوں بڑی بڑی تنظیموں کے ذمہ داران بھی اخبار نکالنے اور میگزین شائع کر لینے کو دعوت کا مکمل کام سمجھ بیٹھے ہیں ۔ جس کمیونیٹی کی آدھی سے زیادہ آبادی ان پڑھ ہو ان کے دانشوران کی یہ سوچ کس قدر مضحکہ خیز ہے ۔ یہ سب ہو اور ساتھ ہی لوگوں کے بیچ جاکر دعوتی اور تبلیغی مساعی بھی تو کیا کہنے ۔ اقبال نے کتنا درست کہا ہے ۔
نشان راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مرد راہ داں  کے لیے