الثلاثاء، مايو 15، 2012

أجمل التهاني إلى الأخوين الفاضلين معراج عالم وخالد انور

د. معراج عالم محمد انفاق التيمي
فقد سرني جدا هذا الخبر بأنه تمت مناقشة رسالة الدكتوراه للأخ الفاضل معراج عالم محمد انفاق التيمي  صباح الأمس الموافق يوم الاثنين 14/ 5 / 2012 في قاعة قسم الدراسات الإسلامية بالجامعة الملية الإسلامية بدلهي وكان عنوان الرسالة " العلامة محمد ين صالح العثيمين وجهوده الفقهية" التي أعدها بإشراف البروفيسور أختر الواسع رئيس القسم ونائب رئيس أكاديمية أردو لحكومة دلهي. وبالمناسبة أصالة عن نفسي ونيابة عن سائر التيميين أهنئ الأخ بأحر التهاني ونقول له " الف الف مبروك ، فهذه ثمرة جهدك الذي بذلته وأنت في وظيفتك ومتطلبات دوامك، ولكن الهمة العالية لن ترضى بالدون، فبارك الله في علمك وعملك ونفع بك الإسلام والمسلمين. 
د. خالد انور  تيمي
كما أتقدم بأجمل التهاني والتبريكات للدكتور خالد أنور التيمي رئيس تحرير صحيفة " همارا سماج " اليومية على حصوله على شهادة الدكتوراه وأسأله تعالى أن يوفقه لما يحب ويرضاه و يسخره لخدمة الإسلام والمسلمين  .

نجاح وسعادة وتقدم وازدهار 

السبت، مايو 12، 2012

آپ نے اپنے دین کے لیے کیا کیا؟

صفات عالم محمد زبير تيمي

آج باطل پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اُتر چکا ہے اور اپنے ژولیدہ افکار وخیالات کو فروغ دینے کے لیے ہرطرح کے وسائل بروئے کارلا رہا ہے، بالخصوص انٹرنیٹ کی دنیا میں فیس بک ، ٹویٹر، بلوگز، یوٹیوب اورمختلف ویب سائٹس کے ذریعہ شہوات اورشبہات کو ہوا دینے میں لگا ہوا ہے، ہم بحیثیت مسلمان جانتے ہیں کہ وہ باطل کے داعی ہیں، اور ہم حق پر ہیں ، ہم اس دین کے ماننے والے ہیں جس کی تابعداری دنیامیں کامیابی اورآخرت میں نجات کا ضامن ہے، ہم اس دین کے ماننے والے ہیں جس کی راہ میں بڑی بڑی قربانیاں پیش کی گئی ہیں.
اسی دین کے لیے آدم عليه السلام تھکے تھے، نوح عليه السلام  نے ساڑھے نو سو سال تک محنت کی تھی، ابراہیم عليه السلام  کو آتش نمرود میں ڈالا گیا تھا، اسماعیل عليه السلام  کی گردن پر چھری چلی تھی، یوسف عليه السلام  کو سستے داموں بیچا گیا تھا اور وہ چند سالوں تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہے تھے، زکریا عليه السلام  کو آری سے چیرا گیا تھا، یحیی عليه السلام کو ذبح کیا گیا تھا، ایوب عليه السلام نے سختیاں جھیلیں تھیں، موسی عليه السلام نے بنواسرائیل کے اکڑپن کو برداشت کیا تھا ، عیسی عليه السلام  کو سولی پر چڑھانے کی تدبیریں کی گئیں تھیں، اورآخری نبی حضرت محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے مسلسل 23 سال تک اذیتوں کا سامنا کیا تھا۔ اسی دین کے لیے آپ کو ساحر، کاہن اور دیوانہ کہا گیا تھا، آپ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے تھے، آپ کی گردن مبارک پر اونٹ کی اوجھڑیاں ڈالی گئی تھیں ، آپ نے پتھر کھایا تھا ،اسی دین کے لیے آپ کو گھرسے بے گھر کیا گیا تھا، آپ نے لڑائیاں لڑیں تھیں، آپ کے دندان مبارک شہید ہوئے تھے، اور بھوک کی شدت سے شکم مبارک پر پتھر باندھا تھا، پھر صحابہ کرام اور ہر دور میں اللہ والوں نے اس دین کے لیے جان ومال کی قربانیاں پیش کیں، تب جاکر یہ دین ہم تک محفوظ شکل میں پہنچا ہے۔
اس دین حق کی خدمت جن وانس تو کجا دنیا کی ساری مخلوق کررہی ہے ، اور اپنے وجود سے اسلام کی شہادت دے رہی ہے ۔ معمولی سا پرندہ ’ ہُدہُد‘ کے کردار پر غور کر کے دیکھ لیجئے : سلیمان عليه السلام  کو اللہ پاک نے جن وانس اورچرند وپرند سب پر اختیار دے رکھا تھا ،ایک دن ’ ہُدہُد‘ نام کا ایک پرندہ ان کی اجازت کے بغیر کہیں چلا گیا ، کچھ ہی دیر گزری تھی کہ آکر اس نے جذبات بھرے لہجے میں رپورٹ پیش کی کہ میں ملکِ سبا سے آرہا ہوں جہاں کی حکمراں ایک خاتون ہے، میں نے اسے اور اس کی قوم کو سورج کی پوجا کرتے ہوئے دیکھا ہے ، شیطان نے انہیں گمراہ کر رکھا ہے، اسی لیے اللہ کو چھوڑ کر شمس پرستی میں لگے ہوئے ہیں ....پھر سلیمان عليه السلام  کا دعوتی مکتوب لے کر ملکہ سبا کی خدمت میں پہنچا ، ملکہ سبا نے سلیمان عليه السلام سے ملاقات کی ، بالآخر پوری قوم کے ساتھ ملکہ سبا اسلام کے دامن میں پناہ لیتی ہے۔
 یہ ایک پرندے کا کردارہے ، جس کے اندر شرک کا منظر دیکھ کر دینی غیرت جاگ رہی ہے ، پھر شمس پرست قوم تک اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے پریشان ہوجاتا ہے۔ حالانکہ پرندے کی یہ ذمہ داری نہیں ہے، یہ ذمہ داری تو ہماری اورآپ کی ہے۔ ہمارے وجود کا مقصد ہی دوسروں کی رہنمائی ہے، ہم بہترین امت محض اس لیے قرار دئیے گئے ہیں کہ ہم خیر کے داعی اور دین کے سپاہی ہیں۔ اب ہم ذرا دل کو ٹٹولیں! اورمن سے پوچھیں! کہ آخرہم نے اپنے دین کے لیے کیا کیا ، ہم اپنے شب وروز کے معمول میں سے دین کے لیے کتنا وقت نکال پاتے ہیں، دنیا کے لیے جوہماری منصوبہ بندی اور پلاننگ ہوتی ہے اس کا کتنا حصہ ہم دین کے لیے دے رہے ہیں۔ کیا یہ واقعہ نہیں کہ آج ہماری اکثریت صبح سے لے کر شام تک دنیاوی زندگی کے تقاضوں میں لگی رہتی ہے ، ہم دین کی خدمت کے لیے سو بہانے بناتے ہیں، ہم کل قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے کیا جواب دیں گے جب وہ ہم سے ان لوگوں کی بابت پوچھے گا جن تک دین نہ پہنچ سکا تھا، یا وہی لوگ ہماری گردن پکڑ کر اللہ کے دربار میں پیش کریں گے کہ خدایا ! اس نے ہم تک حق نہیں پہنچایا .... اس وقت ہمارا کیا جواب ہوگا؟ کونسا چہرہ لے کر اپنے نبی سے روبرو ہو سکیں گے جن کی 23 سالہ زندگی اس دین کے لیے وقف تھی....؟
تو پھر سستی کب تک اورغفلت کیوں کر، کمرہمت باندھیں ، فروعی اختلافات میں الجھ کر علم کا استحصال نہ کریں، ترجیحات کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھیں ، کرنے کے کام بہت ہیں ، ہم نہیں جانتے کہ اللہ کس سے کون سا کام لے لے ،اس لیے خود کو حقیر نہ سمجھیں، آپ اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں ، قوم کو آپ کی سخت ضرورت ہے، آپ دین کے لیے جوبھی خدمت پیش کرسکتے ہیں پہلی فرصت میں اس کے لیے خود کو تیارکریں ، کیا آپ کو اس خبر پر تعجب نہیں ہے کہ جرمن کے میونخ شہر میں ایک نوجوان لڑکے نے کاروں کے پہیے کا بڑا اشتہاری بورڈ دیکھا جس پر لکھا گیاتھا: ”آپ یوکوہاما ٹائر کو نہیں جانتے....‘ ‘! اس مسلم نوجوان نے اسی اعلان کے بازوں میں قیمت دے کریہ اعلان شائع کرایا:
 ”آپ اسلام کو نہیں جانتے .... اگر جاننے کے خواہشمند ہیں تواس نمبر پر رابطہ کریں....“ پھر کیا تھا ہرطرف سے اُسے فون آنے لگا ،اور محض ایک سال میں ایک ہزارمردوخواتین نے اس کے ہاتھ پراسلام قبول کیا ۔ یہ دیکھ کر مخیرحضرات نے اس کی خدمت میں مالی تعاون پیش کیا جس سے اس نے ایک مسجد بنائی، دعوتی سینٹر قائم کیا اورتعلیم گاہ تعمیر کی ۔
آئیے! ہم بھی آپ کو ایک دعوتی ٹول دیتے ہیں، اگر ممکن ہوسکتا ہو تو اپنی ذاتی گاڑی پر یہ اعلان آویزاں کریں: ”آپ اسلام کو نہیں جانتے....جاننے کے خواہشمند ہیں تو ہمیں روکنے میں جھجھک محسوس نہ کریں“ پھر دیکھیں، اس کا کیا اثر ہوتا ہے، اگر آپ داعی کی حیثیت سے خود کو پیش نہیں کرسکتے تو کم ازکم دعوتی لٹریچرز تقسیم کرنے میں ہمارا ساتھ تو دے سکتے ہیں ، یہ رسالہ جو ابھی آپ کے ہاتھ میں ہے، کیا آپ کو پتہ ہے کہ اسے آپ تک پہنچا نے میں ہمیں کتنی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، کیا آپ نے کبھی اپنا محاسبہ کیا کہ اس رسالے نے ہمیں کیا دیا ہے ، کیا آپ نے اسے پڑھنے کے بعد دوسروں تک بھی پہنچانے کی سنجیدہ کوشش کی ہے ، پھرجنہوں نے آپ تک اسے پہنچایا ہے وہ بھی تو آپ ہی کے جیسے ایک ملازمت پیشہ آدمی ہیں، آخر آپ کے حصے میں یہ کام کیوں نہ آسکا، تصور کریں کہ اگر ایک رسالے کے ذریعہ اللہ پاک نے کسی کو ہدایت دے دی توآپ کے لیے یہ عمل دنیا ومافیہا سے بہتر ہوگا۔ لہذا ہرطرح کے تحفظات کو بالاتر رکھتے ہوئے دین کی خدمت کے لیے ہمارا ساتھ دیجئے ۔ ہمیں آپ کے فون کا شدت سے انتظار رہے گا ۔
           

الخميس، مايو 03، 2012

بے محل عقل کا مسئلہ

ثناءاللہ صادق تیمی
sagartaimi@gmail.com
144, kaveri hostel JNU, New-Delhi-67
9013588985


کبھی کبھار میں یوں ہی سوچتا رہتا ہوں۔اس سوچنے کی وجہ سے کچھ بڑے اچھے اچھےباشعور لوگ بھی مجھے بے عقل سمجھتے ہیں۔ایک صاحب کا تو اصرار ہے کہ میں جس طرح سوچتے سوچتے دن و رات گزارتا رہتا ہوں وہ کسی عقلمند آدمی کا کام ہو ہی نہیں سکتا۔وہ تو کوئ پاگل ہوتا ہے جو سوچتا رہتا ہے ،اپنے اپنے میں ہنستا رہتا ہے ، روتا رہتا ہے، منہ بسورتا رہتا ہے اور عجیب غریب حرکتیں کرتا رہتا ہے۔بھلا کوئ عقلمند یہ کیوں کرے۔حالانکہ فلاسفہ کا معاملہ تھوڑا مختلف ہے۔وہ کہتے ہیں کہ وہ سوچتے ہیں اس لئے وہ ہیں۔گویا ان کے نزدیک انسان کا سوچنا ہی اس کے ہونے کی دلیل ہے۔اگر انسان سوچنا چھوڑدے تو انسان نہیں رہیگا۔لیکن اردو کا شاعر کچھ اور ہی کہتا ہے۔
سوچنا بہت ضروری ہے
سوچتے رہے تو کیا ہوگا
بہر حال سوچنے کے اپنے فوائد ہیں۔ہم ہمیشہ غیر عملی رہے اس لئے کہ ہم ہمیشہ فکری رہے۔بھائ صاحب!ایک وقت میں تو کوئ ایک ہی کام ہوگا نا!ہم نے سوچنے کی ذمہ داری قبول کی ہوئ ہے آپ کم سے کم عمل کرنے کی ذمہ داری تو قبول کیجیے۔ایسے جو لوگ سوچتے تھوڑا ہیں، وہ عملا بھی تھوڑا برت سکتے ہیں۔اصل مسئلہ ان لوگوں کا ہے جو انتہائ طور پر سوچتے یا انتہائ طورپرعمل کرتے ہیں۔صاف بتلا‌‍‍ؤں تو خاکسار کا تعلق بھی در اصل پہلے گروہ ہی سے ہے۔آج آپ کے سامنے اپنی فکری جولانیوں کا ایک نقشہ کھینچنا چاہتا ہوں۔اور وہ بھی ایک اہم ایشو کی طرف توجہ دلاکر۔
جناب عالی!در اصل ہماری ایک خرابی یہ بھی ہے کہ ہم صرف پڑھتے نہیں بلکہ اس پر غور بھی کرتے ہیں۔تاریخ سے،اسلامی تاریخ سے ،اور اس میں بھی اسلامی علوم و معارف کی تاریخ سے ہمیں خاص لگاؤرہا ہے۔علماء ،مفکرین اور دانشوران کے کارناموں سے ہم روشنی بھی لیتے ہیں لیکن ساتھ ہی ہم اس کےقایل ہیں کہ ان کی اندھی تقلید نہیں کی جانی چاہیے۔ہمارا ماننا ہے کہ بزرگوں کا احترام ضروری ہے ،ان کی عزت ضروری ہے لیکن ان کے ہر صحیح غلط خیال کی تائید کرنا ایک زندہ قوم کا شعار نہیں۔اور خاص طور سے امت محمدیہ کو کسی طرح بھی یہ زیب نہیں دیتا۔آپ کی زندگی بتلاتی ہے کہ اچھائ اپنانا ضروری ہے اور غلط کو پیار سے ،محبت سے،حکمت سےاور حسب ضرورت شدت سے ٹھکرانا ضروری ہے۔
اسی کالم کے تحت کبھی آپ نے محسن قوم وملت سرسید احمد خان رحمۃاللہ علیہ کے کارناموں کا سنہرا تذکرہ پڑھا ہوگا۔ہم سمجھتے ہیں کہ سر سید احمد خان بلا شبہ بہت عظیم انسان تھے۔بڑے کارنامے انجام دئے آپ نے۔ملت کو نئی تعلیم کا تحفہ دیا،اردو زبان وادب کی انگوٹھی کو علم وحکمت کے نگینے سے جڑ دیا اور ذہن و شعور کی سطح بلند کرنے کا کام کیا۔لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ دینی مسائل میں اگر ان سے فروگذاشتیں ہوئیں تو انہیں بھی درست مان لیا جائے۔
اگر ان سے جنت ، جہنم ،فرشتے اور اسی طرح دوسرے غیبی امور سے متعلق نادانیاں سر زد ہوئیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سر سید احمد خاں کی عقیدت میں ہم ان نادانیوں کو بھی ان کی عظمت اور اکسٹرا اورڈینری وژڈم سے جوڑ کر دیکھنے لگیں۔در اصل یہ بے محل عقل کا ہی معاملہ ہے۔سر سید احمد اچھے مصلح،تعلیمی ماہر اور سماجی کارکن تھے اور ان راہوں میں انہونے بڑے زندہ اور قابل رشک کارنامے نمونہ چھوڑے،لیکن غلطی سے وہ دینیات کی باریکیوں میں پڑ گئے اور فاش فاس غلطیاں کر بیٹھے۔اس سے ان کے تعلیمی مشن کا بھی نقصان ہوا اور شخصیت بھی مجروح ہو گئی۔شیخ اکرام موج کوثر میں لکھتے ہیں کہ اگر سید احمد خان نے خود کو دینی مسائل میں نہ پھنسایا ہوتا تو وہ اور بھی کامیاب ہوتے۔
یہ صرف سید احمد خان کے ساتھ نہیں ہوا۔مولانا شبلی نعمانی،اسلم جیراجپوری اور ایک حد تک ابوالاعلی مودودی کے ساتھ بھی ہوا۔یہ سارے بزرگ اپنے اپنے فیلڈ کے بڑے کامیاب اور زبردست لوگ رہے ہیں۔ان میں سے ہر ایک نے بڑے کارنامے انجام دیئے۔شبلی نعمانی رحمہ اللہ کی "الفاروق" "سیرۃ النبی" "موازنہ انیس ودبیر"اور "شعر العجم" تو شاہکار ہے۔ اسلم جیراجپوری کی "تاريخ امت" بڑی عمدہ کتاب ہے۔ان کا ایکاڈمک ریکارڈ بھی اچھا رہا ہے۔ ابوالاعلی مودودی رحمہ اللہ کی "تنقیحات" ،" الجہاد فی الاسلام" "پردہ" اور "شہادت حق" اردو اسلامی لیٹریچر میں بڑے اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں۔لیکن یہ تمام بزرگان دین حدیث اور اصول حدیث کے آدمی نہیں تھے اور غیر ضروری طور پر اس کی جزئیات میں پڑ گئے اور بعض نادانیاں سر زد ہو گئیں ۔درایت حدیث کا ایسا مفہوم نکالا کہ بہت سی صحیح احادیث پر تلوار لٹکنے لگی اور محدثین کی کاوشیں بے مطلب سی نظر آنے لگیں اور بعض بڑی خرابیوں کو پنپنے کا موقع مل گیا۔ یہ بھی در اصل بے محل عقل کا ہی مسئلہ تھا۔
سچی بات تو یہ ہے کہ جو فیلڈ ہمارا نہیں اس میں ہمیں پڑنا نہیں چاہیے۔ اس سے بڑی بڑی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ہمارا یقین ہے کہ ہمارے یہ سارے کے سارے بزرگ اچھی نیت کے حامل تھے اور ان کا مقصد بھی اسلام کی خدمت ہی کرنا تھا لیکن چونکہ یہ ان کا فیلڈ نہیں تھا اس لیے غلطی کر بیٹھے۔
ڈاکٹر محمد اقبال کی شاعرانہ عظمت اور امت کو بیدار کرنے کیلئے ان کی کاوشوں کا کون کافر منکر ہو سکتا ہے۔ان کی شاعری در اصل فنی کمال اور فکری بلندی کا اعلا نمونہ ہے۔ اسلامی تعلیمات کو شاعری میں پیش کرنے کی اتنی کامیاب کوشش شاید کہیں اور ملے۔ لیکن وہی اقبال جب افکار اسلامی کی نشئاۃ ثانیہ پر خطبہ پیش کرنے لگے تو پھسل گئے۔ مسئلہ یہاں بھی وہی تھا بے محل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
مثالیں تو اتنی زیادہ ہیں کہ صفحات کے صفحات سیاہ ہوجائیں اور بات پوری نہ ہو۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنا جائزہ لیتے رہیں کہ یہ غلطیاں ہم سے بھی سر زد نہ ہو جائیں۔ ان دنوں یہ مسئلہ کچھ زیادہ ہی گمبھیر روپ اختیار کرتا جارہاہے۔کچھ لوگ ہر ایشو پر اپنی رائے ضرور سامنے لانا چاہتے ہیں۔ انجینیئر ڈاکٹری نہیں کرسکتا۔ ادیب ٹیکنولوجسٹ نہیں ہو سکتا۔اسی طرح یہ ضروری نہیں کہ زندگی کے مختلف میدانوں میں اپنی مضبوط پہچان رکھنے والے لوگ دینی معاملات میں بھی اتنا درک رکھتے ہوں کہ وہ بھی فتوے بازیاں کرنے لگیں۔ فلمی ایکٹر،کرکٹر،ٹینس اسٹار،سماجی کارکن اورزبان وادب کا ماہر اپنے آپ کو اگر دینی معاملات میں گھیسیٹیگا تو ظاہر کہ وہ ایسی ایسی غلطیاں کرجائیگا کہ خود اسے اس کی خبر تک نہ ہوگی۔
اسی کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ بے محل لوگوں کا بھی ہے اوریہ مسئلہ تھوڑا زیادہ گمبھیر ہے۔ بہت سے بڑے بڑے دماغ ، بڑی بڑی صلاحیت کے مالک افراد برباد ہوتے جارہے ہیں اور ان کی صلاحیتیں ایسی جگہوں پر کھپ رہی ہیں جہاں کے اصلا وہ ہیں نہیں۔ مدارس کے بہت بڑے بڑے فارغین اگر پرائیوٹ سیکٹرس میں کھپ رہے ہوں تو یقینی طور سے وہ پیسے تو ضرور کما رہے ہوتے ہیں لیکن اسی وقت امت بڑی اچھی صلاحیتوں سے محروم بھی ہو جاتی ہے۔ سیاسی شعور کے حامل بہت سے لوگ اگر زبردستی خود کو اکیڈمک سے جوڑنے کی بھول کر بیٹھیں تو جہاں وہ خود کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں ،وہیں وہ بہت سے دوسرے متعلقین پر بھی ظلم کا ارتکاب کر رہے ہوں۔آدمی اگر مس پلیسڈ ہو تو وہ یقینی طور سے ایک بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔
ہمارے بہت سے دوست اپنے اس درد کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ در اصل یہ پورے سیٹ اپ کی خامی کا خمیازہ ہوتا ہے۔ امت کے بااثر افراد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس طرف فوری توجہ مبذول کریں ، اس لئیے کہ بے محل لوگوں کا دائرہ جوں جوں وسیع ہوتا جائیگا توں توں امت کا زوال یقینی ہوتا جائیگا۔ یہ اشارے ہیں ، ان اشاروں کو آپ وسیع پیمانوں پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔اور آپ پر تب کھلیگا کہ یہ معاملہ کتنا سنگین ہے اور کس قدر جلد توجہ کا طالب ہے۔