الجمعة، مارس 23، 2012

اظہارِ خیال کی آزادی یا مسلمانوں کی دلآزاری

صفات عالم محمد زبیرتیمی
پچھلے دنوں عالمی سطح پر کئی ایسے افسوسناک واقعات سامنے آئے ہیں جو اسلام ، قرآن  یا نبی اسلام کی اہانت اورہتک آمیزی سے متعلق ہیں ۔ پہلا واقعہ افغانستان کا ہے جہاں نیٹوافواج نے قرآن پاک کاایک نسخہ نذر آتش کیا،مسلمان جب سیخ پا ہوئے اور احتجاج کیا تومگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے وائٹ ہاؤس نے روایتی معافی مانگی اوراقوام متحدہ نے افسوس کا اظہار کیا ۔ دوسرا واقعہ سعودی عرب کا ہے، مغربی تہذیب پرفریفتہ 23سالہ سعودی کالم نگارحمزہ کاشغری نے سوشل ویب سائٹ ٹویٹر پر نبی پاک صلى الله عليه وسلم کے خلاف اپنی منافقانہ ذہنیت کا برملا اظہار کرتے ہوئے آپ صلى الله عليه وسلم کی شان میں گستاخانہ جملے استعمال کئے، جس کی پاداش میں سعودی حکومت نے کاشغری کوگرفت کرکے اس کے خلاف محاکمہ کا اعلان عام کیا تواس نے سعودی عرب سے راہ فرار اختیارکرکے ملیشیا میں پناہ لینا چاہی، لیکن ملیشیا حکومت نے اسے حراست میں لے کر سعودی حکومت کے حوالے کردیا ہے۔ تیسراواقعہ ہندوستان کا ہے،گزشتہ ماہ متنازعہ ناول نگار ملعون سلمان رشدی کو راجستھان کے جے پورسالانہ ادبی میلے میں دعوت دینے کا پلان بنایا گیا، مسلمانوں کے احتجاج پرملعون رشدی کا دورہ بھارت تو منسوخ کردیا گیا، لیکن میلے کے منتظمین نے مسلمانوں کے جذبات کوبھڑکانے کے لیے سلمان رشدی کی ثناخوانی کی اور اس کی خباثت پر مبنی شرانگیزکتاب ”شیطانی آیات “کے بعض اجزاء پڑھ کر سامعین کو سنایا۔
 ان تینوں واقعات کا موضوع تقریباً ایک ہے اور وہ ہے اظہار خیال کی آزادی کا ڈھونگ رچاکر مخصوص طبقے کی دل آزاری، افسوس کہ اس طرح کے واقعات انٹرنیٹ کی سہولت یابی اور سوشل ویب سائٹوں فیس بک اورٹوئٹر وغیرہ کی دستیابی کی وجہ سے زیادہ عام ہونے لگے ہیں ۔ چنانچہ آج انٹرنیٹ پر اس قبیل کی بیشمار ایسی تحریریں ، تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں جن سے مخصوص طبقے کی دل آزاری ہوتی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ آزادی کا صحیح مفہوم کیا ہے ؟ اور اظہار خیال کی آزادی کے حدود کیا ہیں ؟ عام معاملات میں اللہ تعالی نے انسان کوپوری آزادی دی ہے،جو چاہے کھائے، جو چاہے پہنے،جہاں چاہے جائے،جو کام چاہے اختیارکرے، جو چاہے خریدے اور جو چاہے بیچے ، جس چیز کی چاہے تحقیق اورکھوج کرے۔اور زبان وقلم کے ذریعہ آزادانہ طریقے سے اپنے مافی الضمیرکی ادائیگی کرے۔ لیکن ان ساری آزادیوں کے باوجود دنیا کے تمام دانشوروں کا ماننا ہے کہ انسان کو پورے طورپر آزادی نہیں دی جا سکتی ،کیونکہ اگرزندگی کے تمام معاملات میں پورے طورپر آزادی دے دی جائے تو نظام دنیا درہم برہم ہوجائے گا ۔ اسی لیے دنیاوی قوانین میں آزادی کو بے مہار نہیں رکھا گیا بلکہ اسے محدود دائرے میں استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ۔ کیا کسی ملک کا حکمراں یہ برداشت کرے گا کہ اس کی رعایا میں سے کوئی ایک آدمی اس کی حکومت کو چیلنج کرے ؟کیا کوئی حکومت یہ معاف کرے گی کہ اس کا کوئی شہری وہاں کے قانون کامذاق اڑائے ؟ یا اپنے قول وعمل سے عدالت کے وقار کو مجروح کرے یا اس کے کسی فیصلے کو خاطرمیں نہ لائے ۔؟ جواب ظاہر ہے کہ قطعاًاس کی اجازت نہیں مل سکتی،اورجوکوئی اس قبیل کے کسی جرم کاارتکاب کرے گا وہ ملک کا باغی
سمجھاجائے گا اورباغی کی سزاتمام مہذب ملکوں اور مہذب قوانین میں موت ہے۔
اب ذرا دل کوٹٹولیں اورمن سے پوچھیں کہ وہ خالق کائنات....جس نے اس دنیا کو سجایا ، سنوارا اورہرطرح کی مخلوق سے آباد کیا، پھر انسان کوقطرہ آب سے پیدا کیا، گود سے لے کر گورتک اس پراپنی نعمتیں نچھاورکیں،انبیاءورسل کے ذریعہ اپنے پیغام کو کھول کھول کر بیان کیا ، اسے زندگی گذارنے کے لیے قرآن پاک کی شکل میںایک نظام حیات دیا،اورنمونہ کے طورپر اپنے آخری نبی ا کو رول ماڈل بنایا۔ اب اگرکوئی طالع آزما اٹھے اور اپنے خالق ومالک اورمنعم حقیقی کی زمین پر رہتے ہوئے،اسی کی پیدا کردہ روزی کو کھاتے ہوئے ،اسی کی ہوامیں سانس لیتے ہوئے اس کے آئین و قوانین سے بغاوت شروع کردے،اس کی اُتاری ہوئی آخری کتاب یااس کے بھیجے ہوئے آخری رسول کے تئیں نازیبا کلمات استعمال کرنے لگے یا ان کی بے حرمتی پراُترآئے تو کیا یہ بغاوت نہیں....؟
اسی لیے اسلام نے انسان کوہرطرح کی آزادی دی ہے ،لیکن اس آزادی کو اللہ اور اس کے احکامات کے تابع کر دیا ہے بالکلیہ آزاد نہیں چھوڑا،اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے: وماکان لمؤمن ولامؤمنة اذا قضی اللہ ورسولہ أمرا أن یکون لھم الخیرة من أمرھم ۔(الاحزاب 36)”اور (دیکھو) کسی مومن مرد اور مومن عورت کے لیے اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد اپنے کسی معاملے کا کوئی حق باقی نہیں رہتا، (یاد رکھو) اللہ تعالی اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے وہ کھلی گمراہی میں پڑے گا ۔
 اللہ اور اس کے رسول نے جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا انہیں کرنا اور جن کاموں سے روک دیا ان سے رک جانا ہی آزادی کا صحیح استعمال ہے. لہذا ایک شخص کو یہ آزادی نہیں دی جا سکتی کہ اللہ کے اوامرسے لاپرواہی برتے یا اس کے منہیات کو پامال کرنے لگے۔ آزادی کے نام پر دین کا مذاق اڑانا، اللہ اور اس کے رسول کے بارے میں نازیباکلمات استعمال کرنا،یا قرآن کی بے حرمتی کرناایسا جرم ہے کہ جس کی اجازت دنیاوی قوانین نہیں دیتے،چہ جائیکہ مذہبی قوانین دیں۔اظہار خیال کی آزادی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم دوسروں کی دل آزاری کریں،ان کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائیں،ان کے مذاہب کو برا بھلا کہیں، آزادی کی بھی کچھ حدود ہیں، اس پر بھی کچھ پابندیاں ہیں۔ اگر اس آزادی سے کسی کو نقصان پہنچ رہا ہے یا اس کی توہین ہو رہی ہے تو اس کی اجازت نہیں ہے۔
 لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی کہ ایسا بیان دینے والوں کا نوٹس لیاجائے،ان کی مذمت کی جائے اور وضاحتی بیان دیئے جائیں اور بس بلکہ ایسے نازک حالات میں ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ حسب استطاعت اسلام کی آفاقی تعلیمات سے خود کو سنوارے،اپنے بچوں میں اسلامی اسپرٹ پیدا کرے، معاشرے کے اندر دینی رجحان کو پروان چڑھائے،اورغیرمسلموں کے سامنے اسلام کا عمدہ نمونہ پیش کرے۔ پھر مسلم حکومتوں،اسلامی تنظیموں اورملت کے دردمندوں کی ذمہ داری ہے کہ پہلی فرصت میں عالمی سطح پر ایسے آئین منظورکرائیں جن کی روشنی میں کسی سرپھرے اور خودسر کو مذہبی رہنماؤں کے خلاف زبان وقلم کا استعمال کرنے کی جرأت نہ ہوسکے ۔