الاثنين، يوليو 25، 2011

وفاة والد الأخ رفيق أحمد التيمي

ظل الرحمن لطف الرحمن

توفى والد الأخ رفيق أحمد التيمي / الباحث في مركز الدراسات العربية والإفريقية بجامعة جواهر لال نهرو ، إنا لله وإنا إليه راجعون – فاتصلت قبل قليل بالأخ رفيق أحمد التيمي فأخبرني عن الحادث مشيرا إلى أنه سوف يصل إلى بيته قريبا ، علما بأن والد الأخ رفيق التيمي رحمه الله رحمة واسعة وأدخله في فسيح جناته ، كان رجلا متوازنا ، هادئ الطبيعة ، خلوقا - نســـأل الله له العفو والرحمه وأن يلهم أهله وذويه الصبر والسلوان. وبالمناسبة أصالة عن نفسي ونيابة عن جميع الإخوة التيميين نعزى الأخ رفيق التيمي ونقول له : أعظم الله أجرك ، اصبر واحتسب فكل من عليها فان ، ويبقى وجه ربك ذوالجلال والإكرام .

الاثنين، يوليو 18، 2011

وفاة والد الشيخ الفاضل صلاح الدين مقبول احمد

ببالغ الحزن والأسى تليقينا نبأ وفاة والد الشيخ الفاضل صلاح الدين مقبول احمد إنا لله وإنا إليه راجعون ،نسأل الله أن يرحم الفقيد و يسكنه فسيح جناته، ويلهم أهله و ذويه الصبر والسلوان . وإذ نشارك في مصاب الشيخ نقول له : لله ما أخذ ولله ما أعطى وكل شيء عنده بأجل مسمى فلتصبر ولتحتسب.

السبت، يوليو 16، 2011

نومسلموں کے ساتھ معاملہ كيسے كريں؟

صفات عالم محمد زبیر تیمی

نومسلموں کے ساتھ حسن معاملہ کیوں؟
ایک نومسلم اسلام قبول کرنے کے بعد گویا ایک نئی دنیا میںداخل ہوتا ہے جہاں اس کا سابقہ ایسے سماج سے پڑتا ہے جواس کے لیے غیرمانوس ہوتا ہے، جہاں پر ایک طرف تو اس کے لیے اسلام کی حفاظت اوراس پر کاربند ہونے کا مسئلہ ہوتا ہے تو دوسری طرف اکثرکوگھریلوجائیداد سے محرومی ،خاندان کی مخالفت اور قوم کی ایذارسانیوں کا سامنا کرناپڑتا ہے ۔ ایسے حالات میں ہرقدم پر اس کی اعانت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اسکے لیے مسلم معاشرہ بہترین متبادل بن سکے، اسے اپنائیت کا احسا س ہو اوروہ بآسانی نئے معاشرے میں ضم ہوسکے ۔ پیارے نبی ا کی سیرت سے ہمیںیہی سبق ملتا ہے کہ جن لوگوں نے آپ ا کی دعوت پرلبیک کہاپہلے ہی دن بھائی بھائی بن گئے ، وہ اپنے مسلم بھائی کو سب کچھ دینے کے لیے تیار ہوگئے ، کیونکہ اسلام ان کے دلوں میں وحدت الہ اور وحدت آدم کی ایسی روح پھونکتا تھا کہ وہ اسلام کو گلے لگاتے ہی مسلم معاشرے کا اٹوٹ حصہ بن جاتے تھے ۔ پھر تاریخ کے ہردور میں نومسلموں کے ساتھ مسلم معاشرہ نے ایسی ہی بے مثال اخوت وبھائی چارگی کا معاملہ کیا۔
آج بھی اسلام کی فطری تعلیمات سے متاثر ہوکر لوگ جوق درجوق اسلام میں داخل ہورہے ہیںاورہمارے مسلم معاشرے کا اٹوٹ حصہ بن رہے ہیںاب اگرہم ان بھائیوں اور بہنوں کا خیر وخوبی سے استقبال نہ کریں گے توکون کرے گا ؟ اگر ہم ان کے ساتھ صحیح معاملہ نہ کریں گے تو آخر کون کرے گا؟۔ لیکن افسوس کہ جہالت اور دعوتی ذوق کے فقدان کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں ان امور کی رعایت کرنے والے افراد خال خال ہی پائے جاتے ہیں ۔ ہماری اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ نومسلموں کو پہلے دن سے ہی اسلام کا نمونہ دیکھنا چاہتے ہیں، اگر کسی طرح کی ان سے کوتا ہی ہوگئی تو فوراً ان کا مواخذہ ہوتا ہے حالانکہ کتنے مسلمان خود طرح طرح کی برائی میں لت پت ہیں، ظاہر ہے کہ جس شخص کو چند دنوں قبل ہدایت ملی ہے اس کی تربیت کے لیے ایک مدت درکارہے بالخصوص جبکہ ایک شخص نے عمر کا اچھا خاصا وقت غیراسلامی ماحول میں گزارا ہو۔ اس لیے ذیل کے سطورمیں ہم نومسلم بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ معاملہ کرنے سے متعلق چند گذارشات پیش کررہے ہیں:
مبارکبادی کے کلمات کہیں
اگرآپ قبولِ اسلام کے ایمان افروز منظر کا مشاہدہ کر رہے ہوں تو کلمہ شہادت کا اقرارکرنے کے فوراً بعد بلندآواز سے تکبیر کہیں،پھر نومسلم بھائی کا گرم جوش استقبال کریں ، مصافحہ ومعانقہ کریں کہ حسن استقبال نومسلم کے لیے اسلام میںپہلا پیغام ہوتا ہے جواسے دین پرثابت قدم رکھنے میں معاون بنتا ہے جبکہ قبول اسلام کے وقت اس کی طرف سے بے التفاتی برتنا اسلام سے متنفر کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ قبول اسلام کی اس ایمان افروز ساعت میں نومسلم کو اس بات سے مطلع کیاجائے کہ انہوںنے آج ایسی بیش قیمت نعمت حاصل کی ہے جس کے مقابلہ میں دنیا کی ساری نعمتیں ہیچ ہیں ،انہیںیہ بھی بتایاجائے کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے ان سے جوبھی غلطیاں ہوئی تھیں قبولِ اسلام کے بعد وہ سارے گناہ معاف ہوچکے ہیں۔اب وہ گناہوں سے پاک وصاف اور دودھ کا دھلا بن چکاہے ۔
ایسی حسین گھڑی میں خود اپنے لیے بھی ان سے دعا کی درخواست کریں ۔ اِس سے ان کے دلوں میںاسلام کی عظمت بیٹھے گی اورانہیںاللہ کی نظرمیں اپنے مقام ومرتبہ اور اپنی اہمیت کا احساس ہوگا ۔
’معاشرے کوآپ کی ضرورت ہے‘ کا احساس دلائیں
جب ایک غیرمسلم کلمہ شہادت کے اقرا رکے بعد ہمارا دینی بھائی بن گیا تو اب اس کو خاص احترام دیں، اس کے اندریہ احساس پیدا کریں کہ مسلم معاشرے کو اس کے جیسے لوگوں کی سخت ضرورت ہے ۔ اسے اسلام سے پہلے جووقار حاصل تھا اسے قبولِ اسلام کے بعد بھی بحال رکھا جائے کہ اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم نے اس نکتے کی بھی پوری رعایت کی تھی چنانچہ اسلام سے پہلے جولوگ سپہ سالار تھے اسلام لانے کے بعد بھی سپہ سالار بنائے گئے جن میں خالد بن ولید رضى الله عنه ، عمروبن عاص رضى الله عنه اور عکرمہ رضى الله عنه کی مثال سرفہرست ہے ۔ یہ طریقہ نومسلم کے اسلام پر ثابت قدمی کا سبب بنے گا اور اسے احساس ہوگا کہ اس نے اسلام قبول کرکے اپنی شخصیت کو باوقار بنایا ہے ۔
جذبات کا احترام کریں
نو مسلم خواہ جس سماج سے تعلق رکھتا ہو اوراپنے سماج میں جیسا بھی مقام رکھتا ہو اس کے پاس بھی جذبات ہیں جن کا حترام نہایت ناگزیر ہے۔ کوئی انسان اپنے جذبات کو ٹھیس پہنچتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا ۔ بسا اوقات طنزوتعریض اور مذاق کے بعض کلمات ایسے سخت ہوتے ہیں کہ اسلام کی آفاقیت دل میں پیوست ہونے کے باوجود مسلمانوں سے اسے نفرت سی ہونے لگتی ہے بلکہ اس طرح کے نازیبا کلمات نومسلم کو اپنی سابقہ زندگی کی طرف لوٹ آنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ اس قبیل کے بیشمار واقعات سے راقم سطورکوسابقہ پڑا ہے اور نومسلم بھائیوں نے مسلم کمیونٹی کے افراد کے تئیں اپنی شکایتیں درج کرائی ہیں جنہیں یہاں ذکر کرنا طولانی کا باعث ہوگا۔
مسکراکر ملیں
سچی مسکراہٹ دل میں پاکیزہ جذبات کے وجود کا پتہ دیتی ہے، اوراپنے بھائی کے چہرے پر مسکرانا بھی باعث اجرو ثواب ہے ۔ اس لیے ان سے جب اور جہاں کہیں ملیں کشادہ پیشانی سے ملیں، چہرہ کھلا ہوا ہو ،کہ اس کے ذریعہ آپ ان کے دلوں میں جگہ بناسکیں گے۔
نرمی اور آسانی کا برتاؤ کریں
نومسلموںکے ساتھ نرمی وبردباری اورشفقت سے پیش آئیں، اورکسی بھی معاملے میں سختی نہ برتیں،کیونکہ دین آسان ہے (بخاری ) اوراللہ پاک نے دین میں کسی طرح کی تنگی نہیں رکھی ہے۔ (الحج 78)، اسلام کے بنیادی خصائص میں سے ایک اہم خصوصیت نرمی اورآسانی برتنا ہے۔اسلام کے اوامرونواہی میں آسانی اورسہولت ملحوظ رکھی گئی ہے۔اللہ کے رسول ا جب کسی کو دعوتی مہم پر ارسال کرتے تو فرماتے یسروا ولا تعسرو ا ”آسانی کرو،سختی مت برتو“۔ (بخاری ومسلم) اس لیے شروع میں ان کی معمولی کوتاہیوں کو نظر انداز کریں اورپیار اورمحبت کے ساتھ ان کے سامنے دین کے احکامات رکھیں۔ واجبات کا حکم دے رہے ہوں یا منہیات سے روک رہے ہوں ہرایک صورت میں نرمی کا پہلواختیار کریں ۔ کسی طرح کی کوتاہی یا غلطی ہونے کی صورت میں اصلاح کے وقت سخت رویہ ہرگز اختیارنہ کریں کہ ماضی کی عادتوں کو بیک وقت ذہن سے کھرچنا ممکن نہیں ۔
تدریج کوملحوظ رکھیں
یہ بات حکمت دعوت کے منافی ہے کہ احکامات کے معاملے میں نومسلموں پر سختی برتی جائے اور بیک وقت انہیں دین کے سارے احکام کا مکلف کردیاجائے ۔کیونکہ تدریح کی رعایت نہ کرنے کے سبب ممکن ہے کہ وہ اسلام سے پھر جائیں یا اسلامی احکامات کی بجاآوری میں سست پڑجائیں ۔ لہذا نومسلموں کے سامنے دین کے احکام بتدریج پیش کیے جائیں ، شرعی احکام کی تلقین میں جلدبازی نہ کی جائے ، اتنے ہی احکام کا مکلف کیا جائے جس کی وہ طاقت رکھتے ہوں، طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالنے سے طبیعت میں اکتاہٹ پیدا ہوگی اورممکن ہے کہ وہ دین کومشکل سمجھنے لگیں گے۔اسی لیے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”دین میں تکلف کرنے اورشدت برتنے والے ہلاک ہوگئے“ (مسلم)۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمه الله فرماتے ہیں:
”اسلام میں داخل ہونے والے کوشریعت کے سارے امورکی تلقین کردینا اور اسے بیک وقت سارے احکام کا مکلف بنادینا ممکن نہیں ، اسی طرح گناہوں سے توبہ کرنے والے ، علم دین سیکھنے والے اور رہنمائی حاصل کرنے والے کو پہلی فرصت میں دین کے سارے احکام کی تلقین کرنا اورجملہ علوم کا ذکر کردینا ممکن نہیں ، کیوں کہ وہ اس کی طاقت نہیں رکھتے ، جب وہ اس کی طاقت ہی نہیں رکھتے تو اس حالت میں ان پر واجب بھی نہیں ہے ، اورجب ان پر واجب نہیں تو عالم یا امیر کے لیے مناسب نہیں کہ شروع میں جملہ احکام کو ان پر واجب ٹھہرادے ۔بلکہ حق یہ ہے کہ اوامر ونواہی سے اس وقت تک ان کو معذور سمجھے جب تک کہ ان کے علم اور عمل کا مناسب وقت نہ آجائے ،جیساکہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے بیان کا وقت آنے سے پیشتر بیشمار احکامات سے لوگوں کو معذور سمجھا۔ اوریہ محرمات کے اقرار اور واجبات میں تساہل برتنے کے قبیل سے نہیں کیونکہ وجوب اور تحریم کاحکم جانکاری اور عمل کے امکان کے ساتھ مشروط ہے اور ہم نے ثابت کیا کہ یہاں یہ شرط ہی یکسرمفقود ہے۔ اس قاعدے پرخوب غورکرلوکہ یہ بہت اہمیت کا حامل ہے“۔ (فتاوی ابن تیمیہ ج 20ص60)

لہذا نومسلموں کی تربیت میں تدریج کوملحوظ رکھنا بہت ضروری ہے ۔ کتنے لوگ نومسلموں کے ختنہ اورنام تبدیل کرنے کے بعد قانونی دستاویز حاصل کرنے کے موضوع کواتنا اہم سمجھتے ہیں کہ پہلے ہی دن اس کا ذکر کرنے لگتے ہیں حالانکہ یہ چیزیں اسلام میں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں ، پہلے نومسلموں کی تربیت کی طرف دھیان دیاجائے اور ان کے عقیدے کو درست کرنے کی کوشش کی جائے ۔جب ان کے دلوںمیں اسلامی تعلیمات رچ بس جائیں گی تو خودبخود ختنہ کرانے اور پاسپورٹ پر نام تبدیل کرانے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔
راہ ورسم رکھیں
قبول اسلام کے دن سے ہی نومسلم بھائی کا ایک ایسا نیک دوست ہوناچاہیے جوہروقت اس کے ساتھ رہے اور اس کے عمل اورکردار سے یہ نووارد دین کی باتیں سیکھتا رہے البتہ دوست ایسا ہونا چاہیے جوصحیح عقیدہ کا حامل ہو، صوم وصلاة کا پابند ہواور بردبار ہوشدت پسند نہ ہو۔ اس لیے جب کسی نومسلم کے قبول اسلام کی خبر ملے یا آپ کےواسطے سے اسلام قبول کرے تو اسی دن اس کو اپنا دوست بنالیںاگرخود کو اس لائق نہیں سمجھتے تو اسے کسی نیک ساتھی کے حوالے کردیں جو اس کی دینی نگرانی کرتا رہے ، اس کا نمبر حاصل کرلیں اوراس سے روابط رکھیں اور جب کبھی فرصت ملے اس کی ملاقات کے لیے چلے جائیں یا خود اپنے پاس بلاکر لائیں بشرطیکہ آپ کے گھر یا رہائش گاہ کے افراد دینی مزاج کے حامل ہوں۔
طلب علم کی ترغیب دلائیں
کلمہ شہادت کے اقرار کے بعد اس کے تقاضے پرعمل کرنے کے لیے اسلام سیکھنے کی ضرورت ہے ، اس کے لیے کویت کی سرزمین پر IPC کی ہر شاخ میں نومسلم بھائیوں اوربہنوں کے لیے علیٰحدہ علیٰحدہ دروس کا انتظام کیاگیا ہے ۔ جہاں ترجیحات دین کا خیال رکھتے ہوئے نومسلموں کو بتدریج اسلام سکھایا جاتا ہے اوران کی نفسیات کا پورا پورا لحاظ رکھا جاتا ہے ۔ اس کے لیے IPC نے ہرزبان کے باصلاحیت داعیان دین کی خدمات حاصل کررکھی ہیں جو انہیں کی زبان میں انہیں تعلیم دیتے ہیں ۔ اس لیے جہاں کہیں ایسے نومسلم بھائی یا بہن کا پتہ چلے فوراً ان کو IPC کے کلاسیزمیں داخل کرانے کی کوشش کریں ، یہ آپ کی دینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے ۔
حسن ظن رکھیں
اگر کسی مردیاعورت نے اسلام قبول کیاہے تواس کے تئیں اپنے دل میں اچھا خیال رکھتے ہوئے اس کے اسلام کو پروان چڑھانے میں لگ جائیں اگرچہ بظاہر اس کے اسلام کا کوئی معقول سبب ظاہر نہ ہورہا ہو، تجربہ بتاتا ہے کہ کتنے غیرمسلموں نے کسی مادی یا معنوی فائدے کے لیے اسلام قبول کیا لیکن پھر ان کا اسلام اچھا ہوگیا ۔ ویسے بھی ہمیں ظاہر پر حکم لگانے کا مکلف کیا گیا ہے باطن پر نہیں ، کچھ لوگوں کا رجحان ہمیشہ منفی ہوتا ہے، ہرنومسلم کے تئیں وہ یہی سمجھتے ہیں کہ کسی مالی فائدے کی خاطر اسلام قبول کیا ہے، اوراسی بدظنی کی بنیاد پر نومسلموں کواسلام سے متنفر کرنے کا سبب بنتے ہیں، ویسے بھی IPC میں کسی شخص کواسلام قبول کرتے وقت مالی تعاون نہیںملتا، البتہ اگرقبول اسلام کے بعد کسی طرح کے مسائل سے دوچار ہوجائے تواسکے تدارک کی ہرممکنہ کوشش کی جاتی ہے ۔
صبرکی تلقین کریں
نومسلم بھائی یا بہن کو پہلے دن ہی صبر وشکیبائی کی تلقین کی جائے کہ راہ ِ استقامت میں صبرناگزیر ہے ، حق کو اپنانے کی وجہ سے اس کے لیے آزمائش کے دروازے کھل سکتے ہیں بلکہ کھلیں گے، گھر کے افراد تعلق کاٹ سکتے ہیں، ملازمت سے متعلقہ آزمائشیں آسکتی ہیں۔ دوست واحباب یہاں تک کہ روم پاٹنرزبھی مذاق اڑائیں گے ، جاہل مسلمانوں کی طرف سے بھی آزمائشیں آسکتی ہیں ان سب کو خندہ پیشانی سے برداشت کریں کہ آپ نے دین حق کو اپنایاہے اوراس راہ میں مصیبتیں بھی آسکتی ہیں ۔
دینی ماحول فراہم کریں
اپنے نومسلم بھائی کے لیے دینی ماحول فراہم کرنے کی کوشش کریں ،اپنے ہمراہ انہیں مسجد میں نماز پڑھانے کے لیے لے جائیں ،پیار اورمحبت سے ان کو نماز کے لیے بیدار کریں ،کبھی قبرستان کی زیارت کے لیے چلے جائیں ، کبھی معروف علمائے دین کی مجلس میں حاضر ہوں، مساجد میں منعقد ہونے والے ہفتہ واری اجتماعات اوراگرممکن ہو سکے تو روزانہ کے قرآنی حلقات میں ان کو ساتھ لے کر جائیں ۔ان کے دین پر ثبات قدمی کے لیے اللہ پاک سے دعا کرتے رہیں اورہرحال میں آپ کی کوشش ہو کہIPC میں منعقد ہونے والے تربیتی دروس میں ان کی شرکت ناغہ نہ ہونے پائے کہ ہفتہ میں کم ازکم ایک بارانہیں اپنے ہم زبان نومسلموں کے ساتھ بیٹھ کردین سیکھنے اور ایمان کو تازہ کرنے کا موقع ملتا ہے ۔
تحفہ تحائف کا لین دین کریں
بسااوقات ان کو موقع اورمناسبت سے تحفہ تحائف دینے کی کوشش کریں اگرچہ معمولی ہی کیوں نہ ہو ،مسواک ،خوشبو ، یادوسری کوئی بھی چیز تحفہ دینے کے لیے اختیار کرسکتے ہیں کہ اس سے تعلقات مضبوط ہوںگے اورمکارم اخلاق پر مبنی اسلام کا روشن پہلو نکھر کر ان کے سامنے آسکے گا ۔
مسلکی اختلافات سے گریز کریں
نومسلموں کے سامنے فقہی اختلافات اور متنازعہ مسائل کا تذکرہ نہ کریں،ان کو کتاب وسنت کی واضح تعلیمات کے مطابق عمل کرنے کاموقع فراہم کریں ۔ اگر کسی طرح کا شبہ ہوتو براہ راست ان کے ہم زبان داعی سے رابطہ کرلیں کہ نومسلموں کوفقہی اختلافات میں الجھانا حکمتِ دعوت کے منافی ہے ۔
نجی مسائل کے حل میں شریک ہوں
اگروہ ملازمت سے متعلق کسی طرح کی پریشانی سے دوچار ہوں تواس سلسلے میں جس طرح کا تعاون درکار ہو پیش کریں ۔ کمپنی میں اس کے منیجر اور ذمہ داران سے ملاقات کریں اور اس کے ساتھ نیک برتاؤ کی تاکید کریں ۔ مسلم معاشرے میں ضم کرنے کے لیے حکومتی سطح پر کاروائیوں میں پیش آنے والے مسائل کے حل کے لیے تعاون پیش کریں ۔ اور اگر وہ غیرشادی شدہ ہوں یا پہلی بیوی ساتھ دینے کے لیے تیار نہ ہو تومسلم معاشرے کی نیک اور صالح لڑکی سے اس کی شادی کرادیں کہ یہ ہماری بہت بڑی اخلاقی اوردینی ذمہ داری ہے افسوس کہ ہم اس تعلق سے ان کے تئیں اپنے دلوں میں مختلف طرح کے تحفظات رکھتے ہیں حالانکہ اسلام رنگ ونسل کے امتیازاور ذات پات کے فرق کو بالکل مٹا دیتا ہے ۔ آج نومسلم بھائیوں اور بہنوں کو شادی کے معاملے میں جو پریشانیاں اٹھانی پڑرہی ہیں وہ قابل افسوس ہیں جومسلم معاشرے کے لیے آئندہ بہت بڑا چیلنج ہے ، ضرورت ہے کہ ہم اپنے دلوں میں نومسلموں کے تئیں جگہ پیدا کریں ۔


غیرمسلموں میں اسلام کی دعوت کیوں؟

الحمد للہ کہ ہم مسلمان ہیں اور اسلام کی گرانقدر نعمت میں پل رہے ہیں ، اس نعمت کا صحیح اندازہ وہی کرسکتا ہے جس نے کبھی گمراہی کی تاریکی میں کچھ وقت بتایاہو، آج دنیا کی اکثریت اس نعمت سے محروم ہوکر خسارے کا سودا کررہی ہے ۔ ڈاکٹرز ہیں، انجینیرز ہیں ، فلاسفہ اوراعلی افسران ہیں، ستاروں پر کمندیں ڈالنے والے اور شمس وقمر کے فاصلوں کو سمیٹنے والے سائنسداں ہیں، لیکن صدحیف انہیں خالقِ کائنات کا عرفان حاصل نہ ہوسکا ہے ۔ کیوں کہ انہوں نے ایسے گھرانے میں آنکھیں کھولی ہیں جہاں اسلام کی روشنی نہ پہنچ سکی ہے ۔
ایسے گم کردہ راہوں کے تئیں بحیثیت مسلمان ہماری کیا ذمہ داری ہونی چاہیے اسے ایک مثال سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے فرض کیجئے کہ ایک نابینا راستے سے گزررہا ہے، بیچ راستے میں ایک گڑھا ہے جس میں اس کے گرجانے کا قوی اندیشہ ہے، یا ایک شیرخوار بچہ سامنے میں رکھے ہوئے شعلے کی طرف ہاتھ بڑھا رہا ہے اور اتفاق سے آپ وہاں موجود ہیں، ذرا دل کوٹٹولیں اورمن سے پوچھیں کہ ان دونوں حالات میں آپ کی دلی کیفیت کیسی ہوگی ؟ یہی نا کہ آپ فوراً اندھے کی طرف بڑھیں گے اور ہاتھ پکڑ کر اسے راستہ پار کرائیں گے اورشیرخوار بچے کو گود میں اٹھالیں گے کہ مبادا شعلے کو ہاتھ میں پکڑ لے ۔ بالکل یہی مثال دوسری قوموں کے مقابلہ میں ایک مسلمان کی ہے، ان کی گمراہی کے سامنے ہمارے دل میں دردمندی اور محبت کے وہی جذبات پیدا ہونے چاہئیں جوکنویں میں گررہے اندھے اورشعلے کی طرف لپکنے والے شیرخواربچے کودیکھ کر ہمارے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔
کیا آپ دیکھتے نہیں کہ اسی فکر اور لگن میں ہمارے حبیب نے اپنی 23 سالہ زندگی گزاری، انسانیت کے غم میں راتوں کی نیند اور دن کے آرام کو خیربادکیا ، ہروقت ، ہرلمحہ اورہرجگہ یہی فکر ستاتی رہی کہ انسانیت اس پیغام حق کو قبول کرلے، آخر اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے کوہ صفا پر چڑھ کر کس کو پیغام حق سنایاتھا؟ منڈیوں، میلوں اورحج کے ایام میں گھوم گھوم کر کس کو دعوت دیا کرتے تھے؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے کسے دعوت دینے کے لیے طائف کا سفر کیا تھا ؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے مصعب بن عمیررضى الله عنه کو یثرب کیوں بھیجا تھا ؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے مختلف مذاہب اورمختلف ممالک کے بادشاہوں کے پاس اپنے سفراء وفرامین کیوں بھیجے تھے ؟ ان سارے سوالات کا جواب ایک ہے کہ آپ نے اپنی دعوت کا ہدف ان گم کردہ راہوں کو بنایا تھا جودین فطرت سے منحرف ہوگئے تھے۔ آج بھی مسلمانوں کی اصلاح کے مقابل اسلام کی دعوت غیروں تک پہنچانے کی اتنی ہی ضرورت ہے جس قدراس وقت تھی ۔ فرض کیجئے کہ آپ ڈاکٹر ہیں، آپ کے پاس دو مریض لائے جاتے ہیں ، ایک کو سردی اور کھانسی کی شکایت ہے جبکہ دوسرے کا گلہ کٹ چکا ہے ایسے نازک مرحلہ میں بحیثیت ڈاکٹر آپ سب سے پہلے کس مریض کو ہاتھ لگائیں گے ؟ ظاہر ہے ایسے ہی مریض کوجس کا گلہ کٹ چکا ہے کہ اسے فوری سنبھالنے کی ضرورت ہے ۔ (يہ فقره ڈاکٹرذاكر نايك سے مستفاد ہے)
اگرآپ یہ سوچیں کہ پہلے مسلمانوں کو پورے طورپر دیندار بنادیں گے تب غیرمسلموں کو اسلام کی دعوت دیں گے توایسا کبھی ہوگا ہی نہیں ، اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کے زمانے میں بھی مسلمان اصلاح کے محتاج تھے لیکن آپ نے پوری توجہ مسلمانوں کی اصلاح کی طرف مبذول نہ کی بلکہ اصلاح اور دعوت دونوں کوساتھ ساتھ لے کر چلتے رہے جوہمارے لیے کھلا پیغام ہے کہ ہردورمیں اصلاح کے ساتھ تعارف اسلام کا کام جاری رہنا چاہیے۔
دعوتی شعورکے فقدان کی وجہ سے بعض مسلمان بھائی جب غیرمسلموں کوتعارف اسلام پر مشتمل کتاب دیتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کے ذہن میں فوراً یہ سوال کھٹکتا ہے کہ آخرغیرمسلموں کو اسلام کی کتاب کیوں دی جائے ، دعوتی میدان میں کام کرتے وقت راقم سطورکو بارہا اس طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہیں ،کچھ لوگوں نے غیرمسلموں کے ہاتھوں سے اسلامی لٹریچرچھین لیا،کچھ لوگ غیرمسلموں کو دعوتی مواد دینے پرراقم سطورکے ساتھ بدتمیزی سے پیش آئے ،کچھ لوگ غیرمسلموںکی زبان میں اسلامی کتابیں دیکھ کرچراغ پا ہوگئے - یہ غلط فہمی محض اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ ہم نے اسلام کومسلمانوں تک محدود سمجھا اورغیرمسلموں کو’ غیر‘سمجھا حالانکہ اسلام سارے انس وجن کا مذہب ہے اورغیرمسلم کوئی’ غیر‘نہیںبلکہ انسانیت ہی کا ایک حصہ ہیں:
(1) اسلام کی نظر میں پوری انسانیت ایک ہی کنبہ اور خاندان ہے کیونکہ انسانیت کی شروعات ایک ہی انسان ’آدم ‘سے ہوئی ہے (سورہ النسائ1) اس سے ہمیں انسانی اخوت کاسبق ملتاہے کہ جس طرح ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اسی طرح ہرانسان انسانی رشتہ سے ہمارا بھائی اورہمارے وسیع ترخاندان کا ایک حصہ ہے ۔یہ اخوت اوربھائی چارگی ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہم اپنے بچھڑے ہوئے بھائیوںتک یک طرفہ ہمدردی اورپیار سے ان کے رب کا پیغام پہنچائیں ۔
(2) اسی طرح اسلام نے ہمیں احترام انسانیت اور انسانی شرافت کا تصوردیا کہ انسان بحیثیت انسان اللہ تعالی کی نظر میں قابل احترام ہے ،اللہ تعالی نے فرمایا: ”ہم نے انسان کو معززبنایاہے “(سورہ بنی اسرائیل 70) یہ تکریم اوراحترام تمام بنی نوع انسان سے متعلق ہے ، مسلم اورغیرمسلم کی کوئی تفریق نہیں۔

شعوردعوت کافقدان اوراس کے نتائج
برصغیرپاک وہند کی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو پتہ چلے گا کہ بعد کے ادوارمیں مسلم بادشاہوں اورامراء نے اپنی سلطنت کومستحکم کرنے کی طرف پورازور دیا اور دین سے بے توجہی برتی جس کی بنیاد پر مسلم معاشرے میں ہندوانہ رسم ورواج اوربدعملی کے بیشمار مظاہر سامنے آنے لگے، اس وقت دینی غیرت رکھنے والے علماء اور داعیان دین نے مسلمانوں کی اصلاح کی طرف پوری توجہ مبذول کیں جن کی کوششیں واقعی قابلِ ستائش تھیں تاہم اس کا منفی پہلو یہ سامنے آیا کہ مسلمانوں کی اکثریت کے ذہن ودماغ سے اسلام کی ہمہ گیریت کا احساس نکلتا گیا، وہ اس نکتے کوبھول گئے کہ برادران وطن بھی اسلام کے مخاطب ہیں، یہ بہت بڑی غلط فہمی تھی جومعاشرے میں عام ہوئی حالانکہ اصلاح کے ساتھ ساتھ دعوت بھی ہونی چاہیے تھی ،تاہم ایسا نہ ہوسکا پھراس کا حتمی نتیجہ یہ ہوا کہ ہم داعی بننے کی بجائے رفتہ رفتہ مدعو بننے لگے ۔غیرقوموں نے مسلم معاشرے میں اپنے باطل عقائد کا پرچار شروع کردیا ،اگربرصغیرمیں دینی مدارس کی قابل قدرخدمات نہ ہوتیں تو اس مذہبی یلغار نے ہماری شناخت بھی مٹا دی ہوتی ۔
آج دورجدید کاچیلنج ہم سے اس بات کا تقاضا کرتاہے کہ ہم اپنے مخاطب کو پہچانیں ، اپنے منصب کاعرفان حاصل کریں کہ ہمیں انسانیت کی خاطر وجودمیں لایا گیا ہے۔ ہم انسانیت کے لیے رہبر اورقائد کی حیثیت رکھتے ہیں ، ہم داعی ہیں اوردوسری قومیں مدعواورمخاطب ۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم اسلام کی جس عظیم اوربیش بہا نعمت میں پل رہے ہیں اس سے دوسروں کو بھی آگاہ کریں ، یہ ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔اسے انجام دے کر ہی ہم کل قیامت کے دن کی پرشش سے بچ سکتے ہیں ۔ توآئیے ہم عہد کرتے ہیں کہ اسلام کا پیغام گھر گھرپہنچائیں گے اوراسلام کی آفاقیت سے انسانوں کومتعارف کرائیں گے۔

اسلام ایک آفاقی مذہب

اسلام ایک عالمگیر اور آفاقی مذہب ہے جس کے مخاطب سارے انس وجن ہیں ، اورپیارے نبی صلى الله عليه وسلم کی بعثت سارے عالم کے لیے ہوئی، آپ کے بعد گذشتہ تمام شریعتوں کو منسوخ کردیا گیا، اب شریعت محمدیہ کے علاوہ اورکوئی شریعت مقبول نہیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا: انَّ الدِّینَ عِندَ اللّہِ الاسلاَمُ ”اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے “۔ (آل عمران 19) دوسری جگہ ارشاد فرمایا: وَمَن یَبتَغِ غَیرَ الاسلاَمِ دِیناً فَلَن یُقبَلَ مِنہُ وَہُوَ فِی الآخِرَةِ مِنَ الخَاسِرِین ”جو اسلام کے سوا کسی اور دین کا متلاشی ہوگا وہ ہرگز مقبول نہیں ہوگا اوروہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا“۔ (سورہ آل عمران85 )“۔ اوررحمت عالم صلى الله عليه وسلم کی بابت فرمایا:والذی نفسی بیدہ لایسمع بی أحدمن ھذہ الامة یہودی ولانصرانی فمات ولم یؤمن بالذی أرسلت بہ الا کان من أصحاب النار ”آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میںتم سب کی طرف اللہ کا رسول بناکر بھیجا گیا ہوں“۔ (سورہ اعراف 158) خود پیارے نبی ا نے بیان فرمایا : ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری امت میں جو شخص بھی میری بات سن لے ،وہ یہودی ہو یا عیسائی، پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے تو وہ جہنم میں جائے گا “۔ (صحیح مسلم )
اسلام کی آفاقیت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس کے ماننے والوں کی تعداد میں ہمیشہ اضافہ ہورہا ہے، اسلام کی اشاعت کا راز کسی دورمیں مسلمانوں کی شان وشوکت اور عظمت وسیادت نہیں رہا بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ جب امت شدید ضعف واضمحلال سے دوچار تھی تب بھی اسلام کا قافلہ بڑھتا ہی رہا ۔ایک برطانوی مورخ آرنلڈٹوئنبی لکھتا ہے:
”اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جس وقت اسلامی حکومت کا شیرازہ منتشرہو رہا تھا اس وقت اسلام میں جوق درجوق داخل ہونے والوںکی تعداد اس وقت سے کہیں زیادہ تھی جبکہ اسلامی حکومت متحد اورشان وشوکت میں تھی “۔ (تاریخ البشریة آرنلد تونبی ط۔ الأھلیہ للنشر والتوزیع بیروت ج 2ص 110)
چنانچہ ساتویں صدی ہجری میں تاتارجیسی خون خواروخون آشام اورجنگجوقوم نے جب مسلمانوں کی عظیم الشان سلطنت بغدادپرحملہ کیااوراس کی اینٹ سے اینٹ بجادی تومفتوح مسلمان ایسے بے دست وپا اورہراساں ہوگئے کہ ایک تاتاری عورت بھی جب کسی مسلمان کوسڑک سے گذرتے دیکھتی تو کہتی : ابھی انتظارکرو میں تلوار لے کرآتی ہوں، وہ تلوار لے کر آتی اوراس کا سرقلم کردیتی تب تک یہ بے بس مسلمان سہماہوا کھڑا رہتا ۔ لیکن دنیاکایہ عجیب معمہ ہے کہ جب انہیں تاتاریوں نے مفتوح اقوام کی صحبت اختیارکی تومفلس اوربے بس مسلمانوں کے اخلاق وکردار سے متاثر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوگئے چنانچہ علامہ اقبال نے کہا تھا
ہے عیاں یورش تاتا رکے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے
تعارفِ اسلام کی راہ میںہماری کوششوںکادخل ہویانہ ہو اسلام اپنی فطری تعلیمات کی بنیاد پر ہردورمیں پھیلا ہے اورتاقیام قیامت پھیلتارہے گا، آج مسلمانوں کی اکثریت کی بدعملی اوراسلامی تعلیمات سے دوری کے باوجود پوری دنیامیں سب سے زیادہ پھیلنے والامذہب اسلام ہی ہے جوہمارے لیے کھلا پیغام ہے کہ مستقبل اسلام ہی کا ہے ۔

الاثنين، يوليو 11، 2011

کيا بڑی بات تھی ہوتے جو...

پچھلے دنوں ہندوستان کی ايک فرقہ پرست تنظيم نے فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دينے کے ليے يہ شوشہ چھوڑا تھا کہ ”مسلمان ہندوستان کو پچھلے دنوں ہندوستان کی ايک فرقہ پرست تنظيم نے فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دينے کے ليے يہ شوشہ چھوڑا تھا کہ ”مسلمان ہندوستان کو دارالحرب کہنا چھوڑ ديں اور ہندووں کو کافر نہ کہا جائے“۔ ميں نے اِسے دعوت کا سنہرا موقع سمجھا اور اپنے ہندی بلوگ پر اس کا مثبت جواب ديا ‘جس ميں ڈاکٹر ذاکر نائک کا حوالہ بھی موجود تھا ۔ متعدد لوگوں نے مثبت تبصرے کيے ، ليکن ان ميں ايک صاحب نے اس پر اپنا ريويو يو ں ڈالا ” آپ اسی ذاکر نائک کی بات کر رہے ہيں ....نا ....جن کا فلاں جگہ پر پروگرام تھا ‘ تو مسلمانوں نے اُسے رکوا ديا ‘ فلاں جگہ پر آنا طے تھا تو مسلمانوں نے ان کے خلاف احتجاج کيا
عزيزقاری ! اس ريويو پرذرا ہم سنجيدگی سے غور کريں اور سوچيں کہ امت مسلمہ کے آپسی اختلافات کس قدر سنگين صورتحال اختيار کرچکے ہيں کہ غيرقوميں بھی اس پر تبصرہ کرنے لگی ہيں ....آخر ہم اسلام کی آفاقيت کو لوگوں کے سامنے کيسے پيش کر سکيں گے ؟ ....کيسے ہم خير امت کی ذمہ داری نبھا سکيں گے .... ؟ ہم فکرونظر ميں کسی سے اختلاف کرسکتے ہيں ليکن اِس کا مطلب يہ نہيں کہ اس اختلاف کو اس قدر ہوا ديں کہ برادران وطن کو اسلام کی صداقت پر شک ہونے لگے اور اسلام کی اشاعت متاثر ہوجائے۔
واقعہ يہ ہے آج ايک طرف توعالمی سطح پر اسلام کے خلاف سازشيں ہورہی ہيں اور پوری دنيا اسلام اوراہل اسلام کونابود کرنے کے ليے ميدان عمل ميں اتر چکی ہے تو دوسری جانب ہم مسلمان خود آپسی خانہ جنگی کے شکار ہيں ، جماعتوں ، گروہوں ، اورٹوليوںميں بٹے ہوئے ہيں ، ہم ميں کا ہرايک دوسرے کی مخالفت پر کمر بستہ ہے ، معمولی معمولی باتوں کو ايشو بناکر ہم ايک دوسرے سے بدظن ہو جاتے ہيں، اور بدظنی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ايک دوسرے کی بات تک سننے کے ليے تيار نہيں ہوتے حالانکہ ہمارا دين ايک ہے، ہمارا معبودايک ہے،ہمارا رسول ايک ہے، ہمارا قرآن ايک ہے، ہمارا قبلہ ايک ہے اور ہماری منزل بھی ايک ہے ۔ ہم اس آفاقی دين کے علمبردار ہيں کہ عرب کے بدو اور جنگجو قوموں نے جب اِسے اپنايا تھا توانکے بيچ سے صديوں کے اختلافات کافور ہوگئے تھے ۔ سيکڑوں سالوں کی پل رہی عداوتيں ختم ہوگئی تھيں اور ايسے شير وشکر ہوگئے تھے کہ پوری انسانی تاريخ ميں ان کی مثال نہيں ملتی ۔آج بھی اگر ہم متحد ہوسکتے ہيں تو انہيں اصول کو اپناکر جن کی بدولت وہ متحد ہوئے تھے ۔ وہ اصول کيا ہے ؟ اللہ تعالی نے سورہ انفال ميں فرمايا ” اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اورآپس ميں مت جھگڑو ورنہ کمزور پڑ جاوگے اور تمہاری ہوا اکھڑجائے گی“۔ پتہ يہ چلا کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت نہ کرنے کی وجہ سے اختلاف پيدا ہوتا ہے ، جب تک لوگ کتاب وسنت کو اپنا حرزجان بنائے رہے انکے بيچ اتفاق واتحاد قائم رہا ليکن جب سے کتاب وسنت کا دامن ہاتھ سے چھوٹا تو اس کی جگہ ذاتی مفادات ، تعصب وتنگ نظری اور آپسی چپقلش نے لے لی ۔ آج ہم مسلک کے نام پر بھی باہم دست بگريباں نظر آتے ہيں ، حالانکہ اگر ہم حق کے متلاشی بن جائيں تواس طرح کے اختلافات خود بخود زمين بوس ہوجائيں گے ، صحابہ کرام کے بيچ فروعی مسائل ميں اختلافات پائے جاتے تھے ليکن يہ اختلافات کبھی انکے انتشار کا سبب نہ بنے ، وجہ صرف يہ تھی کہ سب حق کے متلاشی تھے ، قرآن وحديث ان کا مطمح نظر تھا۔ يہی صفات ائمہ عظام کے اندر بھی پائے جاتے تھے۔ ائمہ اربعہ کے بيچ اختلافات پائے جاتے تهے ليکن ان کادل ايک دوسرے کے تئيں بالکل صاف تھا، انکے دلوں ميں ايک دوسرے کے خلاف کبھی رنجش پيدا نہ ہوئی امام ذہبی نے سير اعلام النبلاء(10/16) ميں لکھا ہے ”يونس الصدفی کہتے ہيں ميں نے امام شافعی سے زيادہ دانا کسی کو نہيں ديکھا ، ايک دن ميں نے کسی مسئلہ ميں ان سے مناظرہ کيا پھر جب ہم لوگ جدا ہونے لگے تو وہ ہم سے ملے ، ميرا ہاتھ تھاما اور فرمايا: يا أبا موسى ألا يستقيم أن نکون اخوانا وان لم نتفق فی مسئلة ”کيا يہ بہتر نہيں کہ ہم سب بھائی بھائی بن کررہيں گوکہ کسی مسئلے ميں متفق نہ ہو سکيں “۔ آج بھی امت مسلمہ کو اِسی آپسی محبت کی ضرورت ہے ليکن اس کے ليے سب سے پہلے اپنے دلوں ميں وسعت پيدا کرنی ہوگی اور انپی نظر کو کشادہ کرنا ہوگا تنگ دلی اور تنگ نظری سے ہميشہ نقصان ہوا ہے اور ہو رہا ہے ۔

ارتباط