الاثنين، يناير 31، 2011

موبائل فون کے آداب


صفات عالم محمد زبیرتیمی (کویت)

موبائل فون عصرحاضر کی ایجادات واختراعات میں سے ایک گرانقدر اور بیش قیمت نعمت ہے جس کے دستیاب ہونے سے لوگوں کے اندر بہت ساری سہولتیں پيدا ہو گئی ہيں ، اِس سے وقت اور مال کی بچت ہوتی ہے ، انسان سفر کی مشقتوں سے بچ جاتاہے ، آج سارے آلات جدیدہ میں سب سے زیادہ اسی کا استعمال ہورہا ہے ، ہم جہاں کہیں بھی ہوں موبائل فون ہمارے ساتھ ہوتا ہے ، بلکہ حقیقت تویہ ہے کہ اس کے بغیر ہمارا اٹھنا بیٹھنا مشکل سا ہوگیا ہے۔
لیکن یہ بھی المیہ ہے کہ موبائل فون ہمارا اچھا خاصا وقت ضائع کر رہا ہے اور برائیوں کے فروغ کا بھی ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔ آج موبائل کمپنیوں نے اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لیے موبائل فون میں مختلف سہولتیں دے رکھی ہیں ، کیمرے کی سہولت ہے ، ویڈیوکی سہولت ہے، انٹرنیٹ کی سہولت ہے ، بلوتوتھ کی سہولت ہے ، جس سے ہماری نوجوان نسل کی خاص طور پربری حالت ہوتی جاری ہے ، فحش گانے ان کی میموری کا لازمی حصہ ہوتے ہیں ، ان کا اچھا خاصا وقت موبائل کی سہولتوں سے فائدہ اٹھانے میں ضائع ہوتا ہے ، والدین اپنی محنت سے کمائی ہوئی رقم ان کی تعلیم پرخرچ کرتے ہیں لیکن وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرپاتے ، موبائل کمپنیاں سستے ترین کال ریٹس اور کبھی ”فلاں وقت سے فلاں وقت تک مفت کال “کی سہولت کراہم کرتی ہیں ۔ جس کا نتیجہ ہے کہ لوگ راتوں رات جگتے ہیں ، وقت کی قیمت کا کوئی پاس ولحاظ نہیں کرتے ، اور گھنٹوں بات کرکے محنت کی کمائی ہوئی دولت کو داؤ پر لگاتے ہیں ۔ اسی طرح اس سے صحت کا بھی نقصان ہوتاہے کیونکہ جدید سائنس کا کہنا ہے کہ موبائل فون کا حد سے زیادہ استعمال دل اور دماغ کی بہت خطرناک بیماریوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
حالانکہ یہ اور اس جیسی دوسری نعمتوں کے استعمال کے وقت ایک مسلمان کو اللہ کا شکر بجا لانا چاہیے اور ایک حد میں رکھتے ہوے اسکا جائز استعمال کرنا چاہیے اور ناجائز استعمال سے بچنا چاہیے ۔کیونکہ کل قیامت کے دن ہم سے ايک ايک نعمت کے بارے ميں پوچھا جانے والا ہے ثُمَّ لَتسأَلُنَّ یَومَئِذٍ عَنِ النَّعِیم (سورة التکاثر 8) ” پھرتم سے قيامت کے دن نعمتوں کے بارے ميں ضرور سوال کيا جائے گا “۔ اس لیے ایک انسان کو چاہیے کہ وہ بحیثیت مسلمان اپنی زندگی کے سارے معاملات ميں اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم اور آپ کے اصحاب کو اپنا اسوہ اور نمونہ بنائے ۔ سفيان ثوری رضي الله عنه نے بہت پتے کی بات کہی ہے اِنِ استَطَعتَ ان لا تُحِکَّ رَاسَکَ اِلا بِاثَرِ فَافعَل ( الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع ص 142) ”اگر تمہارے ليے ممکن ہو سکے کہ کسی اثر کی بنياد پر ہی اپناسرکھجلاؤ تو ايسا کر گذرو “۔ مفہوم يہ ہے کہ ايک مسلمان کا ہر عمل چاہے اس کا تعلق دنياوی امور سے ہی کيوں نہ ہوسنت نبوی کا آئينہ دار ہونا چاہیے - تو موبائل فون کے تعلق سے بھی ضرورت پڑتی ہے کہ اُس کے استعمال کے آداب کو ہم جانيں ۔ تو لیجئے ذیل میں موبائل فون سے متعلقہ چند آداب پیش خدمت ہیں :

فون کرنے سے پہلے نمبر کی تحقیق کرلینی چاہیے:
فون کرنے سے پہلے نمبرجانچ کر ليناچاہیے کہ واقعی يہ فلاں شخص کا نمبر ہے ، تاکہ ايسا نہ ہو کہ کسی دوسرے کا نمبر ڈائل ہوجائے اور آپ اُس کے ليےناگواری کا باعث بن جائيں، اگر کبھی غير شعوری طور پر ايسا ہوجاتا ہے تو نرم لہجے ميں ان سے معذرت کرلی جائے کہ ”معاف کيجئے گا ، غلطی سے آپ کا نمبر ڈائل ہو گيا “۔
فون کرتے وقت شرعی الفاظ کا استعمال کيا جائے:
مثلاً جب بات کرنا شروع کريں تو کہيں السلام عليکم ، اسی طرح فون اٹھانے والا بھی السلام عليکم کے ذریعہ گفتگو کی ابتداء کرے کيونکہ سلام ميں پہل کرنا بہتر ہے ۔
بالعموم لوگ فون کرتے يا اٹھاتے ہوئے ”ہلو “ ”ہلو“کہتے ہيں‘يہ اسلامی آداب کے خلاف ہے ۔ اسلام نے ہميں يہ تعليم دی ہے کہ جب ہم کسی سے مليں تو السلام عليکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کہيں، اس کا اطلاق بالمشافہ ملاقات پر بھی ہوگا ، خط وکتابت پربھی ہوگا اور فون پر بھی ہوگا ۔
پھر” ہلو“ کہنے کی وجہ سے جہاں ايک طرف غيروں کی مشابہت لاز م آتی ہے وہيں ايک آدمی بے پناہ اجروثواب سے محروم بھی ہو جاتا ہے ،
امام بخاری نے الادب المفرد ميں حضرت ابوہريرہ رضي الله عنه سے بيان کيا ہے کہ اک آدمی اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کے پا س سے گذرا تو اس نے کہا السلا م عليکم آپ نے فرمايا : اِسے دس نيکياں مليں ، دوسرا آدمی گذرا تو کہا : السلام عليکم ورحمة اللہ آپ نے فرمايا : اِسے بيس نيکياں مليں، تيسرا آدمی گذرا تو اس نے کہا : السلام عليکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ، آپ نے فرمايا : اِسے تيس نيکياں مليں ۔( حسنہ الالبانی فی تخریج مشکاة المصابیح 4566)
اس حديث کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر ہم فون پر اسلامی طريقہ کو اپنائيں اور السلام علےيم ورحمة اللہ وبرکاتہ کہيں توہم صرف فون کرنے پرتيس نيکيوں کے حقدار ٹھہرتے ہيں ۔
سلام کرنے کے بعد اپنا تعارف کراياجائے
مثلاً یوں کہے کہ” ميں فلاں بول رہا ہوں“ الا يہ کہ جس سے اس قدر شناسائی ہو کہ آواز فوراً پہچان ميں آجاتی ہو ،ايسی جگہ تعارف کرانے کی ضرورت نہيں ۔ کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ بات کرتے وقت پوچھنے لگتے ہيں کہ” آپ نے مجھے پہچانا ؟“ اِس سے آدمی حرج ميں پڑجاتا ہے اگر کوئی صراحة کہہ ديا کہ ” نہيں“ تو ليجئے! اب خيريت نہيں رہی اُسے کوسنا شروع کرديں گے کہ” آپ تو بڑے آدمی ہيں مجھے کیوں کر پہچانيں گے“ حالانکہ وہ بندہ دل کا صاف ہوتا ہے اور ایسی بات سن کر اسے تکليف ہوجاتی ہے ۔
يہ کہنا بھی غلط ہے کہ انہوں نے ميرا نمبر محفوظ نہيں رکھا ۔ ميں کہتا ہوں حسن ظن سے کام ليں، ممکن ہے اسکے سيٹ ميں جگہ خالی نہ ہو، پھراِس انداز ميں پوچھنا بھی تو اسلامی اد ب کے خلاف ہے ، نام بتانے ميں آخر کيا جاتا ہے ۔
بخاری ومسلم کی روايت ہے حضرت جابربن عبداللہ رضي الله عنهما کہتے ہيں أتیتُ النبیَّ صلی اللہ علیہ وسلم فی دَینٍ کان علٰی أبی فدققتُ البابَ فقال: من ذا ؟ فقلتُ: أنا ، فقال : أنا أنا کأنہ کرھہا ”ميں اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کے پاس ایک قرض کے سلسلے میں مدد کے لیے آیا جسے میرے باپ نے لی تھی اور آپ کو آواز دی تو آپ نے فرمايا : کون؟ ميں نے کہا: ”انا “ يعنی ميں ہو ں ۔ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نکلے تو يہ کہہ رہے تھے [ أنا ، أنا ] ”ميں، ميں“ گويا کہ آپ نے اس طرح کے جواب پرنا پسندیدگی کا اظہار فرمايا “۔ کيونکہ ”ميں “ کہنے سے کوئی بات سمجھ ميں نہيں آتی ۔
آج بھی کتنے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب دروازے پر دستک ديں گے اور آپ اُن سے پوچھيں کہ”کون“ ؟ تو کہيں گے ”ميں“۔بھئی ! ”ميں“ کہنے سے کيا سمجھ ميں آئے گا ، نام بتاؤ....لہذا فون کرنے والے کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنا نام بتائے تاکہ جس سے بات کررہا ہے وہ حرج ميں نہ پڑے اور فوراً پہچان لے۔
جسے فون کر رہے ہوں اس کے احوال کی رعايت کريں:
ممکن ہے وہ آدمی اپنے ذاتی کام ميں مشغول ہويا ايسی جگہ پر ہو جہاں فون اٹھانا اُس کے ليے مناسب نہ ہو۔ ايسی صورت ميں اگر جواب نہ ملا ، يا جواب ميں جلد بازی پائی گئی يا گرم جوشی سے جواب نہ مل سکا توفون کرنے والے کو چاہیے کہ اس کے تئيں حسن ظن رکھے اور اس کے ليےعذر تلاش کرے۔ اُسی طرح جسے فون کيا گيا ہے اُس کے ليے بھی مناسب ہے کہ اگر وہ ايسی جگہ موجود ہے جہاں فون کا جواب نہيں دے سکتا تو وہ موبائل کو سائلنٹ کر دے پھر بعد ميں عذر پيش کرتے ہوئے ری کال کرے يا جلدی سے بتا دے کہ وہ ايسی جگہ پرہے جہاں فون کا جواب نہيں دے سکتا ،يہ دل کی صفائی کا اچھا طريقہ ہے ۔
پھرRing دينے ميںشرعی آداب کو ملحوظ رکھناچاہیے، تین بار فون کی گھنٹی بجنے کے باوجود اگر فون نہیں اٹھایا گیا تو سمجھ لینا چاہیے کہ اجازت نہیں ہے اور کال کو کسی دوسرے وقت کے لیے مؤخر کردینا چاہیے ، کتنے لوگ جواب نہ ملنے پر بار بارRing ديتے ہيں بلکہ کچھ لوگ توجواب نہ ملنے پر غصہ ہوجاتے ہيں اور جلدبازی ميں اوٹ پٹانگ بول ديتے ہيں-
اس مناسبت سے مجھے ايک واقعہ ياد آرہا ہے ، ميرے ايک قريب ترين ساتھی نے مجھے ايک مرتبہ انٹرنیشنل کال کيا ۔ ميں اُس وقت نماز ميں تھا اور ميرا موبائل سائلنٹ ميں تھا ، جب ميں نے نماز سے فارغ ہوکر موبائل ديکھا تو اُس ميں 10 مس کال تھے اور ايکsms تھا جس ميں لکھا تھا ” اگر آپ کو ميرا فون کرنا گراں گزرتا ہے تو اشارہ کرديں ۔ رب کعبہ کی قسم ! ميں آپ کو کبھی فون نہ کروں گا “ ۔
ديکھا ! يہ جلد بازی کا نتيجہ ہے ، انہوں نے فوراً نتیجہ اخذ کرلیا کہ ميں دانستہ جواب نہيں دے رہا ہوں حالانکہ حقيقت کچھ اور تھی، ميں نماز ميں تھا ۔ لہذا جلدبازی ميں کوئی بات نہ کہنی چاہیے جس سے بعد ميں سبکی ہو ....اُسی طرح جسے فون کر رہے ہوں اُس کی طرف سے جواب نہ ملنے پر ہميشہ حسن ظن رکھنا چاہیے۔
فون کرنے کے ليے مناسب وقت کا انتخاب کياجائے :
ہروقت ايک شخص فون کا جواب دينے کے ليے تيار نہيں رہتا ، کبھی گھريلو مشغوليات ہوتی ہيں ، کبھی کام کے تقاضے ہوتے ہیں۔ بالخصوص ايسے اشخاص سے بات کرتے وقت مناسب وقت کا خيال رکھنا بہت ضروری ہے جن کے اوقات بہت قيمتی ہوتے ہيں۔ کتنے لوگ دير رات ميں فون کرتے ہيں جس وقت ايک آدمی سويا ہو تا ہے، ظاہر ہے اِس سے نيند خراب ہوتی ہے اور کچھ لوگوں کو ايسا عمل سخت ناگوار گذرتا ہے لہذا فون کرنے کے ليے مناسب وقت کی رعايت بہت ضروری ہے ۔
فون کرنے کی مدت کا بھی تعين رکھنا چاہيے
کتنے ايسے لوگ ہيں جو فون کرنے بيٹھتے ہيں تو گھنٹوں باتيں کرتے رہتے ہيں ، ايک مسلمان زندگی کے کسی بھی شعبے ميں افراط وتفريط سے کام نہيں ليتا ۔ فون پر ہمارے جتنے پيسے برباد ہو رہے ہيں اگر اس ميں سے ہلکی سی کٹوتی کرليں تو ميں سمجھتا ہوں‘ کتنے غريبو ں کا بھلا ہو سکتا ہے۔
بہرکيف عرض مدعا يہ ہے کہ فون پر ہذيان گوئی، بيکار گفتگو اور ضياع وقت سے پرہيز کرنا چاہیے۔ فون ضرورت کے تحت استعمال کيا جائے اُسے طفلِ تسلی نہ بنايا جائے ۔
جب مسجد ميں داخل ہوں تو موبائل فون بند کرديں يا سائلنٹ ميں کرديں:
اگرآپ کوکسی وزیر یا بادشاہ سے ملنے کا موقع مل جاے توپہلی فرصت میں آپ اس کے پاس جانے سے پہلے اپنے موبائل فون کو بند کردیں گے یا سائلنٹ میں کردیں گے مبادا کہ دوران ملاقات اس کے بجنے سے ناگواری محسوس ہو ۔جب انسان سے ملنے سے پہلے اتنا اہتمام کیا جاسکتا ہے تو مسجد‘ جوکہ اللہ کا گھرہے اوراس کے نزدیک سب سے پیاری جگہ، جہاں لوگ اپنے رب سے سرگوشی کرنے آتے ہیں، ظاہر ہے مسجد میں داخل ہونے سے پہلے موبائل فون کو سب سے پہلے سائلنٹ میں کردینا چاہیے ، تاکہ خشوع وخصوع سے نماز ادا کی جاسکے ، اور فون کے رِنگ سے دوسرے نمازيوں کی نمازیں بھی متاثر نہ ہوں ۔ لیکن بھول چوک انسانی فطرت ہے ، اس لیے اگر لاعلمی ميں موبائل فون کھلا رہ گيا اور بحالت نماز کال آگئی تو فوراً موبائل فون بند کر دينا چاہیے بلکہ بند کرنا ضروری ہے کيونکہ اس سے لوگوں کی نمازيں متاثر ہوتی ہيں۔ کتنے لوگ فون آنے پر موبائل بند نہيں کرتے اور مسجد ميں دوسروں کی نمازيں خراب کرتے رہتے ہيں جوقطعاً مناسب نہیں۔
اسی طرح جو آدمی غیرشعوری طور پر موبائل فون بند کرنا بھول گيا اُسے معذور سمجھنا چاہیے اور خواہ مخواہ اس کے ساتھ سخت کلامی سے پيش نہيں آناچاہیے ۔ کيا ہم ديکھتے نہيں سرکارِ دوعالم صلى الله عليه وسلم کا اسوہ کيا تھا؟ ايک ديہاتی مسجد نبوی کے ايک کونہ ميں پيشاب کرنے بيٹھ جاتا ہے ۔ صحابہ کرام اُسے ڈانٹتے ہيں تو اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم انہيں منع کر ديتے ہيں، پھر جب وہ پيشاب سے فارغ ہوجاتا ہے تو آپ ايک بالٹی پانی منگواتے ہيں اورحکم ديتے ہيں کہ اُس گندگی کی جگہ پر بہا ديا جائے ۔ اُس کے بعد فر ماتے ہيں فانما بعثتم ميسرين ولم تبعثوا معسرين (رواہ البخاری) ” تم آسانی کرنے کے ليےبھيجے گئے ہو سختی کر نے کے ليے بھيجے نہيں گيے “۔
مجلس میں بیٹھ کر بات نہ کریں:
اگر آپ معززشخصيات کی مجلس ميں بيٹھے ہوں اور اُسی بيچ کال آجائے تو مناسب ہے کہ ايسی جگہ پر موبائل کو آہستہ سے سائلنٹ کر دیں اور اگرکوئی ضروری کال ہوتو اجازت لے کر باہر نکل جائيں۔ بڑوں کی مجلس ميں بيٹھے ہوئے فون کا جواب دينے لگنا مناسب نہيں ۔ ہاں! اگر دوست واحباب کی مجلس ہو‘ تو مجلس کے اندر ہی بات کرنے کی گنجائش ہے بشرطيکہ اجازت لے لی جائے ۔
موبائل فون عام جگہوں پر نہ رکھے جائيں :
کيونکہ ہوسکتا ہے کہ کوئی دوسرا اُسے اٹھاکر استعمال کرنے لگے يا بچے کسی ايسے شخص کو فون لگا ديں جنہيں فون نہيں کرنا چاہیے تھا ۔ يا ہوسکتا ہے کہ اُس ميں کوئی راز کی بات ہو جسے دوسروں کا جاننا پسند نہ کرتے ہوں، يا ايسے ايس ايم ايس يا فوٹوز ہو ں جو آپ کے اہل خانہ کے ہوں اور دوسرا غلط نظريہ سے اُسے ديکھنے اور سوچنے لگے ۔ اِن سارے شبہات سے بچنے کا واحد طريقہ يہی ہے کہ موبائل فون ہر جگہ نہ رکھا جائے ۔ اُسی طرح ايک شخص کو چاہیے کہ دوسرے کا موبائل فون اُس کی اجازت کے بغير استعمال نہ کرے اور اگر اجازت ملنے پر استعمال کرتا بھی ہے تو اُسی حد تک جس حد تک اُسے اجازت ملی ہے ۔
گھر ميں گارجين کے رہتے ہوئے نوجوان بچيوں کو فون اٹھانے نہ ديا جائے:
اِس سے بچيوں ميں بے راہ روی کے امکانات زيادہ ہوتے ہيں بلکہ آئے دن اس طرح کے واقعات پیش آرہے ہیں اورہماری عزت وآبرو کا خون ہو رہا ہے ۔ بلکہ مردوں کی موجودگی ميں عورتيں فون نہ اٹھائيں ۔ ہاں! ضرورت کے تحت فون اٹھايا جا سکتا ہے ليکن عورتيں فون اٹھاتے وقت نرم لہجہ ميں بات نہ کريں ايسا نہ ہو کہ بيمار دل انسان دل ميں کسی طرح کا غلط خيال بٹھالے ۔ ذرا غور کيجئے کہ اللہ تعالی نے نبی پاک صلى الله عليه وسلم کی بيويوں کو حکم ديا کہ جب وہ دوسروں سے بات کريںتو دبی زبان ميں بات نہ کريں:
يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا ( سورة أحزاب 32 )
” اے نبی کی بيويو! اگر تم پرہيزگاری اختيار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل ميں روگ ہو ‘ وہ کوئی خيال کرے اور ہاں! قاعدے کے مطابق کلام کرو“
ذرا غورکیجیے کہ وہ عہد نبوت ميں تھيں، لوگوں کی ماؤں کی حيثيت رکھتی تھيں ، اُنکے تئيں کسی کے دل ميں غلط خيال بيٹھ نہيں سکتا تھا اُس کے باوجود يہ حکم ديا جا رہا ہے،اِسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری بہنيں اور بيٹياں اِس حکم کی کس قدر مخاطب ہو ں گی ۔ ہميں يہ باور کرنا چاہیے کہ شريعت دراصل فطرت کی آواز ہے، فطری طور پر عورت کی آواز ميں دلکشی، نرمی اور نزاکت پائی جاتی ہے۔ اِسی ليے عورتوں کو يہ حکم ديا گيا کہ مردوں سے گفتگو کرتے وقت ايسا لب ولہجہ اختيار کيا جائے جس ميں نزاکت اور لطافت کی بجائے سختی اور روکھا پن ہو‘ تاکہ کسی بدباطن کے دل ميں بُرا خيال پيدا نہ ہو۔
سن شعور کو پہنچنے سے پہلے بچوں کوبھی فون اٹھانے نہ ديا جائے
اگر بچے ہوشيار ہوں تب بھی انہيں فون اٹھانے کا طريقہ سکھانے کے بعد ہی فون اٹھانے کی اجازت ديں ۔ بسا اوقات ايسا ہوتا ہے کہ آپ کسی اہم ضرورت سے کسی کے ہاں فون کريں فون اٹھانے والا گھر کا بچہ ہوگا جو اپنے انداز ميں بات کرتا ہوتا ہے ۔ منٹوں کے بعد بات سمجھ پاتا ہے اور کبھی وہ بھی نہيں سمجھ پاتا کچھ خبيث طبيعت کے لوگ تو بچوں سے راز کی باتيں بھی معلوم کرنے لگتے ہيں ۔ ظاہر ہے اِس کا واحد علاج يہ ہے کہ بالکل چھوٹے بچوں کو فون اٹھانے نہ ديا جائے ۔
فون کی آواز آن کرنا یا آواز رکارڈ کرنا منع ہے:
گفتگو کرنے والے کی بات کو ريکارڈ کرنا ياموبائل کی آواز سب کے سامنے آن کردينا تاکہ اسے دوسرے بھی سنيں‘ غلط ہے بلکہ ايک طرح کی خيانت ہے ۔ کتنے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب انہيں کوئی فون کرتاہے تو اس کی آواز کو ریکارڈ کرنے لگتے ہيں يا آواز کھول ديتے ہيں تاکہ حاضرين اس کی گفتگو سنيں ۔ايسا کرنا سراسر غلط ہے ۔ کوئی دانا ايسا نہيں کرسکتا ۔ ہاں اگر بات کرنے والے سے اجازت لے لی جائے ، اور گفتگو سب کے ليے مفيد ہو تو ايسی صورت ميں آواز کھولنے ميں کوئی حرج نہيں ۔
علامہ ڈاکٹر بکر ابوزيد رحمه الله تعالى اپنی کتا ب ”ادب الھاتف “ ميں لکھتے ہيں لايجوز لمسلم يرعی الأمانة ويبغض الخيانة أن يسجل کلام المتکلم دون اذنہ وعلمہ مھما يکن نوع الکلام دينيا أو دنيويا ”ايسا مسلمان جوامانت کی رعايت کرتا ہو اور خيانت کو ناپسند کرتا ہو‘ اس کے ليے قطعاً جائز نہيں کہ گفتگو کرنے والے کی بات کو اس کی اجازت اوراسکے علم کے بغير ريکارڈ کرلے چاہے گفتگو جس نوعيت کی ہو‘ دنيوی ہو يا دينی جيسے فتوی اور علمی مباحث وغيرہ “
رنگ ٹونز کے طور پر عادی گھنٹی کا استعمال کریں
موبائل فون میںعادی ٹونز کا استعمال ہوناچاہیے ،بالعموم لوگ موسیقی یا نغمے یاوالی ٹونز رکھنا پسند کرتے ہیںحالانکہ سب سے پہلے تو یہ حرام ہے ،پھردینی مزاج رکھنے والے اور سنجیدہ طبیعت کے لوگ اسے اچھا نہیں سمجھتے ،ایسے لوگوں کواس سے اذیت اور تکلیف ہوتی ہے ، بالخصوص جب مساجد یا لوگوں کے اجتماعات میں ایسے نغمے سنے جائیں تو اس کی قباحت مزید بڑھ جاتی ہے ۔
اس کے برعکس پچھلے چند سالوں سے دینی مزاج رکھنے والے افراد نے قرآنی آیات کو رنگ ٹون کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا ہے ، حالانکہ ایسا کرنا بھی صحیح نہیں ہے ،عصر حاضر کی متعدد فتوی کمیٹیوں نے اس کی حرمت کا فتوی دیا ہے جن میں مفتی مصر ،سعودی عرب کے کبار علماء، اور رابطہ عالم اسلامی کی اسلامی فقہ اکیڈمی قابل ذکر ہے ، کیونکہ اس میں قرآن کی بے حرمتی کا پہلو پایا جاتا ہے جیسے بیت الخلا ء میں فون آجائے یا لہوولعب کے اڈے پر رِنگ دینے لگے ،اسی طرح اگر رنگ دیتے وقت فون اٹھالیاجاے تو بسااوقات آیت منقطع ہوکر رہ جاتی ہے ، یا الفاظ ادھورے رہ جاتے ہیں جس سے معنی کچھ کا کچھ ہوجاتا یا مبہم رہ جاتا ہے ، اگر ایک آدمی سنجیدگی سے غور کرے تو اسے خود سمجھ میں آجاے گا کہ واقعی اس سے قرآنی آیات کی بے حرمتی ہوتی ہے ، کوئی عقل مند آدمی یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اس میں قرآنی آیات کی تعظیم وتکریم ہے جبکہ ہمیں حکم ہے کہ قرآنی آیا ت کی تعظیم وتکریم کریں، کیونکہ یہ ہمارے خالق ومالک کا کلام ہے جو ہماری ہدایت کے لیے اترا ہے ۔

الاثنين، يناير 24، 2011

أول دعاية تجارية في العالم انطلقت من المدينة المنورة!!!!

في العصر الأموي الأول، عاش (مسكين الدارمي ) وهو أحد الشعراء والمغنين الظرفاء في الحجاز ، وكان يتشبب ويتغزل بالنساء الجميلات، إلا أنه عندما تقدم به العمر ترك نظم الشعر والغناء وتنسك وأصبح متنقلاً بين مكة والمدينة للعبادة.
وفى إحدى زياراته للمدينة التقى بأحد أصدقائه وهو من أهل الكوفة بالعراق يعمل تاجراً ،
وكان قدومه إلى المدينة للتجارة ويحمل من ضمن تجارته (خُمُرٌ عراقيةٌ) ـ بضم الخاء والميم ومفردها خمار بكسر الخاء ـ وهو ما تغطي به المرأة رأسها، والمعروف الآن عند النساء ( بالمسفع أو الشيلة)، فباع التاجر العراقي جميع الألوان من تلك الخمر ما عدى اللون الأسود، فشكا التاجر لصديقه الشاعر ( الدارمي ) عن عدم بيعه اللون الأسود ولعله غير مرغوب فيه عند نساء أهل المدينة.
فقال له: ( الدارمي ) لا تهتم بذلك فإني سأنفقها لك حتى تبيعها أجمع، ثم نظم ( الدارمي ) بيتين من الشعر و تغنى بهما كما طلب من مغنيين بالمدينة وهما ( سريح وسنان ) أن يتغنوا بالبيتين الذي قال فيهما:
قل للمليحة في الخمار الأسود ** ماذا فعـلت بـناســك مـتعبـــد
قد كان شـمر للصلاة ثــيابــه ** حتى وقفـت له بباب المسجـد
و أضاف إليها أحدهم بيتين آخرين هما:
فسـلبت منه دينــه ويقـيـنــــه ** وتركتـه في حــيرة لا يهتــدي
ردي عليه صلاتـه وصيــامــه ** لا تقـتـليـه بحـق دين محمــــد
فشاع الخبر في المدينة بأن الشاعر ( الدارمي ) رجع عن تنسكه و زهده وعشق صاحبة الخمار الأسود، فلم تبق مليحة إلا اشترت من التاجر خمارا أسوداً لها.
فلما تيقن ( الدارمي ) أن جميع الخمر السوداء قد نفذت من عند صديقه، ترك الغناء و رجع إلى زهده وتنسكه ولزم المسجد، فمنذ ذلك التاريخ حتى وقتنا الحاضر والنساء يرتدين أغطية الرأس السوداء ولم يقتصر هذا على نساء المدينة وحدهن بل قلدهن جميع النساء في العالمين العربي والإسلامي.
وبهذا فيكون أول إعلان تجارى في العالم أجمع قد انطلق من المدينة المنورة.

بروفيسور معين الدين السلفي في ذمة الله!!!!

فقد تلقينا ببالغ الأسى والحزن نبأ وفاة بروفيسور معين الدين السلفي في قريته "كرهيا" صباح يوم الأحد الموافق23/1/2011م فإنا لله وإنا إليه راجعون،والجدير بالذكر أن الفقيد كان من أهم أعضاء المجلس التنفيذي بجامعة الإمام ابن تيمية بمدينة السلام بالهند ورئيس الهيئة التعليمية بها بالإضافة إلى عضويته في إدارة مجلة "طوبى" الشهرية الصادرة من جامعة الإمام ابن تيمية،كما أنه كان مستشارا خاصا لمؤسس ورئيس الجامعة.
وكان الفقيد رحمه الله قد نذر نفسه لخدمة الجامعة فهو منذ تأسيسها عضو مهم في المجلس التنفيذي للجامعة ولم يكن يغيب من اجتماعاته أبداً حسب معرفتي،وبهذه المناسبة أعزي نفسي ومنسوبي الجامعة وذوي الفقيد ونسأل الله تعالى أن يغفر له ويرفع درجته ويدخله مدخلاً كريماً بفضله وكرمه سبحانه وأن يفيض عليه شآبيب الرحمة والرضوان وأن يلهمنا وذوي الفقيد الصبر والسلوان،ولا نقول إلا كما قال صلى الله عليه وسلم :إن القلب ليحزن وإن العين لتدمع ولا نقول إلا ما يرضي ربنا جل وعلا فلله ما أخذ وله ما أعطى ولكل أجل كتاب.
كما نسأله سبحانه أن يسد الفراغ الذي حصل بموته للجامعة وأن يمن عليها برجل صالح مخلص وناصح ومؤتمن.وليس ذلك على الله بعزيز.

الأحد، يناير 23، 2011

الدوام البقاء لله!!!!!

ببالغ الأسى والحزن تلقينا نبأ وفاة والدالأخ العزيز/محمد عزير التيمي نيبالي الجنسية الطالب بكلية الشريعة بالجامعة الإسلامية بالمدينة المنورة،وذلك ليلة السبت الموافق:21/1/2011م،فأحسن الله عزاءنا جميعاً في هذا المصاب وغفر للفقيدوأفاض عليه شآبيب الرحمة والرضوان وألهم الأخ وذوي الفقيد جميعاً الصبر والسلوان،ولا نقول إلا ما أرشدنا إليه نبينا الكريم صلى الله عليه وسلم: إن القلب ليحزن والعين لتدمع ولا نقول إلا ما يرضي ربنا جل وعلا ،لله ما أعطى وله ما أخذ ولكل أجل كتاب فاصبر واحتسب.
ونقول للأخ العزيز أن الله تعالى قد شرفك فاختارك أن تكون من سكان بلاد الحرمين وقد رزقك الفرص القيمة أن تبر بأبيك بعد موته بالحج والعمرة عنه.فاستغل الفرصة وبر بأبيك بقيام العمرة والحج عنه وادع له وأنت في الحرمين الشريفين فأنت كسب أبيك وقد قال صلى الله عليه وسلم:إذا مات الإنسان انقطع عمله إلا من ثلاث صدقة جارية أو علم ينتفع به أو ولد صالح يدعو له.
وبهذا فلأبيك صدقة جارية وهو أنت ما تقوم به من الأمور الخيرية في الحال والمستقبل،وعلم ينتفع به وهو العلم الذي تعلمت فهو رباك وعلمك فله أجر ما تقوم به من نشر العلم وولد صالح يدعو له فها هو أنت -نحسبك كذلك ولا نزكي على الله أحداً- فأكثر من الدعاء له وأنت في الحرمين الشريفين .ونحن شركاء معك في هذا المصاب والخطب ونسأل الله تعالى أن يغفر له ولموتانا ولموتى المسلمين أجمعين.

عقوبة تارك صلاة الفجـــــــــــــــــر!!!!!!!

قال الشيخ ابن باز رحمه الله: " من يتعمد ضبط الساعة إلى ما بعد طلوع الشمس حتى لا يصلي فريضة الفجر في وقتها، فهذا قد تعمد تركها في وقتها، وهو كافر بهذا عند جمع كثير من أهل العلم كفراً أكبر - نسأل الله العافية - لتعمده ترك الصلاة في الوقت، وهكذا إذا تعمد تأخير الصلاة إلى قرب الظهر ثم صلاها عند الظهر - أي صلاة الفجر -، أما من غلبه النوم حتى فاته الوقت، فهذا لا يضره ذلك، وعليه أن يصلي إذا استيقظ، ولا حرج عليه إذا كان قد غلبه النوم، أو ¬تركها نسياناً مع فعل الأسباب التي تعينه على الصلاة في الوقت، وعلى أدائها في الجماعة، مثل تركيب الساعة على الوقت، والنوم مبكراً.
أما الإنسان الذي يتعمد تأخيرها إلى ما بعد الوقت، أو يضبط الساعة إلى ما بعد الوقت حتى لا يقوم في الوقت، فهذا عمل متعمد للترك، وقد أتى منكراً عظيماً عند جميع العلماء،..."اهـ(نشرت في المجلة العربية في العدد (195) لشهر ربيع الآخر من عام 1414هـ - مجموع فتاوى ومقالات متنوعة المجلد العاشر)
واليك بعض عقوبات تارك صلاة الفجر:
العقوبة الأولى : استهزاء الشيطان بهم وبوله في أذنهم
ذكر عند رسول الله صلى الله عليه وسلم رجل نام ليلة حتى أصبح قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " ذاك رجل بال الشيطان في أذنيه أو قال في أذنه "( رواه البخاري 1076 ومسلم 1293) قيل أن معناه أفسده أو قاده الشيطان وتحكم فيه أو احتقره واستخف به وخص الأذن لأنها حاسة الانتباه.
العقوبة الثانية : الكسل وخبث النفس
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يعقد الشيطان على قافية أحدكم إذ هو نام ثلاث عقد يضرب كل عقدة عليك ليل طويل فارقد فإن استيقظ فذكر الله أنحلت عقدة , فإن توضأ انحلت عقدة , فإن صلى انحلت عقدة فأصبح نشيطاً طيب النفس وإلا أصبح خبيث النفس كسلان. (رواه البخاري 1124 ومسلم 1816.(
العقوبة الثالثة : دخوله في المنافقين
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " ليس أثقل على المنافقين من صلاة الفجر والعشاء ولو يعلمون ما فيهما لأتوهما ولو حبواً ولقد هممت أن آمر بالصلاة فتقام ثم آمر رجلاً فيصلي بالناس ثم أنطلق معي برجال معهم حزم من حطب إلى قوم لا يشهدون الصلاة فأحرق عليهم بيوتهم بالنار. (رواه مسلم 10400.(
العقوبة الرابعة: الحرمان من معية الله
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " من صلى صلاة الصبح فهو في ذمة الله"( رواه مسلم 1050) قيل الذمة هي الأمان أو الضمان فمن صلى الفجر فهو في ضمان الله وأمنه ومن لم يصل الفجر لا أمان له ولا ضمان .
العقوبة الخامسة : لا تشهد له الملائكة
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يتعاقبون فيكم ملائكة بالليل والنهار ويجتمعون في صلاة الفجر وصلاة العصر ثم يعرج الذين باتوا فيكم فيسألهم ربهم وهو أعلم : كيف تركتم عبادي فيقولون : تركناهم وهم يصلون وأتيناهم وهم يصلون"( رواه البخاري 522 ومسلم 1001) : قال الثوري هذا من كرم الله ولطفه أن جعل الملائكة تشهد معهم الصلاة ومفارقتهم أوقات العبادة ليشهدوا بالخير قلت فكيف تشهد الملائكة لمن لم يشهد الصلاة ".
العقوبة السادسة : تهشيم رأسه في القبر
ورد في الحديث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى في الرؤيا أنه قد جاءه آتيان فانطلقا معه حتى أتيا على مضطجع وآخر قائم عليه بصخرة يهوى القائم بتلك الصخرة على المضطجع فيثلغ رأسه بها فيتهدهده الحجر فيعود إليه القائم فيأخذه ويعود رأس المضطجع صحيحاً ثم يضربه القائم بذلك الحجر فيحدث له كما حدث في المرة الأولى وهكذا وقد أخبر النبي صلى الله عليه وسلم أن ذلك الرجل المضطجع يأخذ القرآن فرفضه وينام عن الصلاة المكتوبة "( البخاري 1092) يثلغ رأسه : أي يكسره وقال ابن العربي جعلت العقوبة في رأس هذه النومة عن الصلاة والنوم موضوعه الرأس ".
العقوبة السابعة : لا يتم له نور على الصراط
وعن بريدة الأسلمي عن النبي صلى الله عليه و سلم قال: "بشر المشائين في الظلم إلى المساجد بالنور التام يوم القيامة " (رواه ابوداود و الترمذي وصححه الألباني)وهذا فضل لمن يمشي إلى المساجد في الظلم وهو وقت صلاة الفجر ة والعشاء حيث يضاء له نور تام على الصراط يوم القيامة وغيره لا يتم له نور على الصراط ."
العقوبة الثامنة : الحجب عن رؤية الله
عن جرير بن عبد الله البجلي رضي الله عنه قال كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم فنظر إلى القمر ليلة البدر فقال " إنكم سترون ربكم كما ترون هذا القمر لا تضامون في رؤيته فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وقبل غروبها فافعلوا فالمحافظة على هاتين الصلاتين سبب في أعظم مغنم أهل الجنة وهي رؤية الله عز وجل ومن لا يحافظ عليها لا يرجى رؤية الله عز وجل " (البخاري 573 ومسلم 632).
العقوبة التاسعة : الوعيد بالويل
قال تعالى " فويل للمصلين الذين هم عن صلاتهم ساهون " وقد قال بن عباس ( ساهون ) أي مضيعون لها بالكلية أو مفرطون في أدائها في الوقت المحدد شرعاً وقيل الويل واد في جهنم أو الصديد.
العقوبة العاشرة : الوعيد بالغي
قال تعالى " فخلف من بعدهم خلف أضاعوا الصلاة واتبعوا الشهوات فسوف يلقون غيا " قال ابن كثير " غياً " أي خسرانا وعزا إلى ابن مسعود رضي الله عنه أنه قال: واد في جهنم بعيد القعر خبيث الطعم.
فتلك عشرة كاملة نسأل الله تعالى أن يرزقناالإخلاص في القول والعمل وأن يجنبنا من الزلل والكسل وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم تسليماً كثيراً؛؛؛؛؛

الجمعة، يناير 14، 2011

فضيلة الشیخ صلاح الدین مقبول احمد حفظه الله کا کلام


كويت ميں ایک طويل عرصہ سے مقيم برصغیر کے عظیم اسکالر اورجیدعالم دین فضيلة الشیخ صلاح الدین مقبول احمد صاحب حفظہ اللہ (باحث كبير جمعيت إحياء التراث الإسلامي ، فرع جهراء ) کو ہم عربی زبان میں محقق ، مؤلف ، داعي اور اسکالرکی حیثیت سے توجانتے تھے تاہم یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ اردو زبان کے قادرالکلام شاعر بھی ہیں چند دنوں قبل راقم سطور برصغیرکے معروف مؤرخ مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب کی کتاب ”دبستانِ حدیث“ کا مطالعہ کر رہا تھا جس میں بھٹی صاحب نے موصوف کی زندگی کے بھی بعض گوشوں کو تقریبا12 صفحات میں اجاگر کیا ہے ۔ اس ضمن میں ایک جگہ انہیں کا قول نقل کرتے ہيں کہ وہ حصول تعلیم کے ابتدائی دور میں شعروشاعری کا اچھا ذوق رکھتے تھے بلکہ تحصیل علم کے ابتدائی ایام میں ایک مشاعرے میں اپنا کلام پیش کیا تھا تو ناظم مشاعرہ اور ان کے استاذ نے کہاتھا کہ” اگر یہ بچہ شعروشاعری سے دلچسپی رکھا تو اپنے زمانے کا اقبال ہوگا “ تاہم بعد میں اللہ سے دعا کی کہ یہ عادت چھوٹ جائے چنانچہ اللہ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور شوق شعرگوئی کا خاتمہ ہوگیا ۔ بھٹی صاحب نے موصوف کے اس قول پرتبصرہ کرتے ہوئے انہیں چند مشورے دیے ہیں اورعربی کے ساتھ ساتھ اردو نثر ونظم میں بھی خدمات انجام دینے کی گذارش کی ہے ۔ چنانچہ موصوف نے ان کے مشورے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ان دنوں اردو نثر ونظم کی طرف بھی دھیان دیا ہے ، پچھلے دنوں دوماہی تعطیل گزارکر ہندوستان سے کویت تشریف لائے تو برادرم علاءالدین عین الحق مکی صاحب ان سے ملنے گیے تھے ، جب لوٹے تو اپنے ساتھ ان کا کلام بھی مصباح میں اشاعت کے لیے لائے ، ذیل کے سطور میں ان کے کلام کا ایک نمونہ پیش خدمت ہے جو ان کی تازہ تخلیق ہے، اورماہنامہ مصباح جنوری 2011 کے شمارہ میں شائع ہوا ہے ۔ موصوف آئندہ اسلامیات پر اپنا دیوان تیار کرنے کا عزم رکھتے ہیں اور اس کے لیے ہمہ تن مشغول ہیں ، ہماری دعا ہے کہ اللہ پاک ان کی اس خوابیدہ صلاحیت سے قوم کو فائدہ پہنچائے ، تولیجیے اب موصوف کا کلام پڑھئے اور ہمیں مزید کا انتظار رہے گا ۔ واضح ہوکہ شعروشاعری کی دنیا میں شیخ صاحب اپنا تخلص مصلح رکھتے ہیں




داعی اسلام
(بے نقط شاعری کا نمونہ )

کارہائے احمد مرسل کا ہے محمودحال
کس طرح عمدہ مرصّع داعیِ اسلام ہے
مالکِ ملکِ ہر عالم، وہ الٰہ وحدہ
اُس کا مرسل، اُس کا اسوہ، اُس کا کرم عام ہے
سرورِ اولادِ آدم سرورِ رسلِ امم
حامیِ مسلم ہے، ملحد کو وہی صمصام ہے
اس کی آمد سے ہے ٹوٹا مصر و روما کا طلسم
در دلِ کسری اُدھر درد والم کہرام ہے
عمدہ وہ کہ اسوہ احمد کا دلدادہ رہے
ہر ادا اُس کی ہمارے واسطے اکرام ہے
ہو رہا ہے مردِمسلم رہروِ راہِ ارم
کس طرح محمود راہِ ھادی اسلام ہے
ھادی اسلام کا اُسوہ ہے، اس مصلح كا کام
اہل عالم کہہ دو کوئی اِس سے عمدہ کام ہے؟

فلسفہ نکاح
بتا دیا کسی دانا نے حکمتِ شادی
بقائے رنگِ جہاں نسل و خانہ آبادی
وہ خوش کہ پا گئے آدابِ شوہری سے نجات
ہوئے ہیں نفس کے بندے بنام آزادی

سمجھ سکے نہیں حکمت یہ خانماں بربادلکھی ہے ان کے مقدر میں کتنی بربادی٭٭٭
دلآور فگار:پنجہ مروڑ سکتا ہوںاگرچہ پورا مسلمان نہ سہی لیکنمیں اپنے دین سے رشتہ تو جوڑ سکتا ہوںنماز، روزہ، و حج و زکاة کچھ نہ سہیشبِ برات پٹاخہ تو پھوڑ سکتا ہوںمصلح:بس اس قدر ہی سہی ہے تو زورِایمانیاسی سے کفر کا پنجہ مروڑ سکتا ہوں

اسی لیے تو بلندی پہ ہے مقام اتنا
کہ آسمان سے تاروں کو توڑسکتا ہوں


عالم اسلام ،امریکہ اور صہیونیت


انہیں یہ نظر کرم ہم سے خوشنما وعدے


سمجھ سکے نہ یہ اندازِ دلبری کیا ہے


ہے ایک مسئلہ لیکن دوچند پیمانے


یہی ہے عدل تو آخر ستم گری کیا ہے


٭٭٭


آزاد شاعری

انہوں نے شعر و سخن پہ کرم یہ فرمایا

حساب دفتر شعراءسے کر لیا بیباق


سمجھ میں آگیا آزاد شاعری کیا ہے


کہ شاعروں نے اڑایا ہے شاعری کا مذاق


نام شعراءمیں گنائے فخر سے ہر دم جسے


شاعری آتی نہ ہو شعر و ادب کا شوق ہو



الخميس، يناير 06، 2011

الأستاذ شفيع الوري في رحمة الله

تلقينا ببالغ الحزن والأسى نبأ وفاة الاستاذ شفيع الوري المترجم بدار الداعي بالرياض اليوم عن طريق الأخ الكريم مطيع الله طاهر حسين التيمي عبر البريد الإلكتروني إنا لله وإنا إليه وراجعون - الأستاذ شفيع الورى تم تعيينه أولا في جامعة الإمام ابن تيمية كـ مدرس وخلال فترة التدريس فيها رأيته رجلا خليقا يحبه الطلبة والأساتذة، ولما أن الأستاذ كان يتقن اللغة الهندية والإنجليزية إختاره الدكتور كـ مترجم إلى اللغة الهندية في دار الداعي بالرياض فقام بترجمة تفسير تيسير الرحمن لبيان القرآن للدكتور محمد لقمان السلفي إلى اللغة الهندية ولما أن الأخ مطيع الله من تلامذة الأستاذ ومن منطقته أترككم معه حتى يبين لكم بعض مناقب الأستاذ والأعمال التي قام بها- اللهم اغفر له وارحمه واعفه واعف عنه وأكرم نزله واغسله بالماء والثلج والبرد ويلهم أهله و ذويه الصبر والسلوان آمين يا رب العالمين.
وإذا كان عند أحد إضافة عن الأستاذ فليتفضل مشكورا ومأجورا مصداقا لقوله صلى الله عليه وسلم " أذكروا محاسن موتاكم "
والآن مع الأخ الفاضل مطيع الله طاهر حسين التيمي:
يقول الأخ " إنه كان شابا خليقا، مبتسما، ومحترما لكل من أصدقائه صغارا وكبارا " ويضيف قائلا " إنه كان مشغولا في ترجمة تفسير الدكتور محمد لقمان السلفي إلى اللغة الإنجليزية - ومن خصائل الاستاذ الكريم شفيع الوي بيكل أنه ترجم أول مرة الصحيح البخاري إلى اللغة الهندية وكتب أخرى للأخ رضوان الله الرياضي مثل فقدان الغيرة وعلاحها، ضحك النبي صلى الله عليه وسلم وتبسمه ومزاحه وغيرها من الكتب-
وعلمت بأن الفقيد يتألم بطنه فسافر من الرياض الي الهند لأفضل العلاج لكن زاد الألم حتى وصل إلى ظهره وخلال التشخيص بـ بتنة لقي إلى الرفيق الاعلي- وقد شارك في جنازته وفد من الجامعة الامام ابن تيمة كما أفادنا الاخ زاهد انور التيمي، خلف وراءه بالإضافة إلى شريكة حياته بنتين و إبنا في قريته "جهمكا " من جمبارن الغربية من أقدم القرى للسلفيين في المنطقة.
الله يرحمه ويدخله فسيح جناته آمين