الخميس، يوليو 29، 2010

شاہ فیصل : مواقع کو چیلنجیز میں بدلنے والے شاہین صفت نوجوان


تحرير: ظل الرحمن تیمی



مشکلات وچيلنجز کو مواقع ميں بدل کرنماياں کاميابی سے ہمکنار ہونے والے شاہ فيصل پچھلے دنوں سول سروسز امتحان ميں اول مقام حاصل کر کے سرخيوں ميں رہے ۔ ان کی کاميابی نے مصاٰئب وآلام میں جی رہے ہزاروں بے سہاروں کو سہارا دیا۔ ان کی دوررس پرواز نے حالات کے گرداب میں پھنسے سیکڑوں نوجوانوں کو کامیابی کی امید دلائی، انہوں نے اپنی کاميابی کے ذريعہ يہ پيغام ديا کہ اگر ہم مشکل حالات ميں بھی جہد مسلسل ، سعی پيہم اور لگاتار کوشش کرتے رہے توکاميابی ضرور ہمارا قدم چومے گی۔ ناسازگار حالات کو بھی ہم مواقع اور Opportunities ميں بدل سکتے ہيں اور اعلیٰ سے اعلیٰ تعليم حاصل کر کے تعمیروترقی کے منازل طے کر سکتے ہيں۔
شاہ فيصل بچپن سے ہی جن نامساعد حالات سے دوچار ہوئے انہيں پڑھ اور سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے اور دل پگھل سا جاتا ہے۔ ابھی شاہ فیصل اسکول کی تعلیم مکمل کر کے اپنے کیریرکی طرف قدم بڑھانے والے ہی ہوتے ہیں کہ دہشت گردوںنے ان کے والد محترم غلام محمد شاہ کو 2002 میں قتل کردیا ۔انسانیت دشمن عناصر کی سفاکانہ کارروائی سے پورے گھرانے پر خوف وہراس کا ماحول طاری ہو گيا۔ امیدوں کا شیش محل چکنا چور ہوگیا۔ شاہ فیصل کی والدہ محترمہ مبینہ اپنے محبوب شوہر کے وحشيانہ قتل پر تلملااٹھیں اور ان کا دل بیٹھ سا گیا ۔اس خونی حادثے کے چند ہی دنوںبعد شاہ فیصل میڈیکل کے مقابلہ جاتی امتحان میں شریک ہونے والے تھے۔ایسے نازک حالات اور ماتم کدہ ماحول میں کسی اہم مقابلہ جاتی امتحان کی تیاری کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھی ۔لیکن داددیجیے شاہین صفت فیصل کے حوصلے اور عزائم کو کہ انہوںنے ناامیدی کے بجائے اعتماد وحوصلے سے کام لیا اور پورے انہماک کے ساتھ اپنی تیاری میں مشغول ہوگئے ۔اللہ تعالی کے قضاءو قدر پر کامل یقین رکھنے والے فيصل کی یکسوئی ر نگ لائی اور وہ پہلے ہی کو شش میں میڈیکل امتحان میں کامیابی سے ہمکنار ہوئے ۔ان کی کامیابی سے والدہ کے پگھلے ہوئے بے قرار دل کو قرار نصیب ہوا ۔بھائی بہنوں کو حوصلہ ملا اور خود فیصل کے دل میں اس بات کا احساس جاگا کہ نامساعد حالات میں بھی کامیابی و کامرانی اور عروج و ارتقاءکی منازل طے کی جا سکتی ہیں ۔
شاہ فیصل نے اپنے والد محترم کی سفاکانہ موت کا غم بھلایا بھی نہیں تھا کہ دہشت گردوں نے ان کے ماموں محترم کو بھی اپنی درندگی و حیوانیت کا شکار بنا کر ہلاک کر دیا ۔والد اور ماموں کی تڑپتی ہوئی موت سے پورے گھر انے میں مسلسل سوگ کا ماحول رہتا تھا ۔لیکن فیصل نے اپنے مستقبل کو تابناک بنانے، دراندازوں کی گھس پیٹھ پر بند باندھنے اور دہشت گردانہ کاروائیوں پر روک لگانے کے لیے منظم منصوبہ بنا رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے دہشت گردی کا جواب دہشت گردی سے دینے اور ہاتھ میں بندوق اٹھانے کے بجائے اعلیٰ تعليم حاصل کرنے اور حکومت کے سسٹم ميں اہم مقام پر فائز ہونے کا عزم کيا۔ چنانچہ ميڈيکل گريجويٹ ہو جانے کے بعد وہ خاموش نہيں بيٹھے بلکہ سول سروسز کی تياری شروع کر دی۔ اس سلسلے میں وہ دہلی آئے اور ہمدرد اسٹڈی سرکل میں داخلہ لے کر پورے انہماک کے ساتھ اپنی تیاری میں مشغول ہوگئے۔ یہاں تیاری مکمل کرنے اور امتحان سے فارغ ہونے کے بعد فرصت کے اوقات میں کچھ مدت کے لیے آپ ہمدرد نگر کے اسپتال میں میڈیکل افسر بھی رہے ۔آپکی شبانہ روز کی محنت رنگ لائی اورآپ نے سال 2009-10 کے سول سروسزکے امتحان میں اول مقام لاکر کشمیر کی تاريخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔آزادی کے بعد آپ چوتھے مسلم نوجوان ہیں جنہوں نے سول سروسز میں ٹاپ کیا ہے۔ اس سے قبل اے ٹی رضوی ،جاوید عثمانی اور عامر سبحانی اس عظیم کامیابی سے ہمکنار ہوکر ملک وملت کا نام روشن کر چکے ہيں۔ شاہ فیصل کی کامیابی پرپورے ہندوستانی مسلمانوں میں خوشی کا ماحول دیکھنے کو ملا ۔کشمیر میں لوگوں نے جشن منایا ۔فیصل کی والدہ مبینہ اور ان کے بھائی بہنوں کا دل خوشیوں سے مچل گیا۔ کشمیر میں دراندازوں اور دہشت گردوں کی شبانہ روز کی وحشت ناک کارروائیوں سے تنگ آچکے کشمیریوں کو اس بات کا احساس ہوا کہ ہم ہندوستان کی سر زمین پر ترقی کی اعلیٰ منزل تک پہنچنے کے مواقع رکھتے ہيں۔ چنانچہ ہمیں سازشیوں کے جال میں پھنسنے کے بجائے مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
سول سروسز امتحان کےلئے سال 2009-10میں کل (409110 ) چار لاکھ نو ہزار ایک سو دس طلبا ءنے مقابلہ جاتی فارم پرکیا تھا ۔مذکورہ تعداد ميں سے 190091طلباءوطالبات Preliminary امتحان ميں بيٹھے۔ ان ميں 12026طلباءوطالبات Main امتحان کے ليے چنے گئے۔اور آخری مرحلے ميں 2432 اميدوار انٹرويو Personality Testکے ليے بلائے گئے۔ انٹرويومارچ اپريل 2010 ميں نئی دہلی ميں کرايا گيا تھا۔ آخری مرحلہ کے انٹرويو کے بعد کل 857 اميدوار کو سول سروسز کے ليے منتخب کيا گيا جن ميں 680طلباءاور 195 طالبات شامل تھيں۔ پورے امتحان ميں شاہ فيصل پہلے نمبر پر،IIT کے انجينئرنگ گريجويٹ پرکاش راجپوت دوسرے نمبر پر اور JNU کی ايوا ساہا تيسرے نمبر پر تھيں۔
سال 2009-10کے سول سروسز امتحان میں کل 23مسلم طلباءو طلبات نے اپنی کامیابی درج کرائی ۔مسلم طلباءکا تناسب 2010میں2.63فیصد ہے جبکہ گذشتہ سال یہ تناسب4.04 فیصد تھا۔کامیابی کے تناسب ميں گویااس سال گذشتہ سال کے مقابلہ میں 1.59% کی کمی آئی ہے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مسلمان اپنی آبادی کے تناسب سے اس اعلیٰ میعاری امتحان میں اپنی کامیابی کےلئے کوشش کرتے ۔دوسرے جو مسلم طلباءوطالبات کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں ان میں محمد یوسف قریشی 55،محمد شاہد عالم 74، یونس 80، احمد اقبال 118، رئیس محمد بھٹ 124، محمد صادق عالم135 اورعابد خان 144 رينک کے ساتھ قابل ذکر ہيں۔
سول سروسز سميت دوسرے مقابلہ جاتی امتحانوں کی تياری کے ليے ہمدرد اسٹڈی سرکل اور کچھ دوسرے ادارے پچھلے کئی سالوں سے سرگرم ہيں۔ ہمدرد اسٹڈی سرکل کی کارکردگی بطور خاص کافی حوصلہ افزا ہے۔وزارت برائے اقليتی امور نے بھی سول سروسز سميت ميڈيکل وانجينئرنگ اور دوسرے مقابلہ جاتی امتحانوں کے ليےمفت کوچنگ کی سہولت دينی شروع کی ہے۔ البتہ اس سلسلہ ميں ايک قابل غور پہلو يہ ہے کہ کچھ ادارے کام کم اوراپنی سستی شہرت کے ليے کوشش زيادہ کرتے ہيں۔زکوة فاﺅنڈيشن آ ف انڈيا اس سلسلہ ميں سرفہرست ہے۔ زکوة فاﺅنڈيشن آ ف انڈيا نے شاہ فيصل کو سول سروسز کی تياری کے ليے اسکالرشپ دی تھی۔ليکن فيصل کی کاميابی کے بعد اس نے اس اسکالرشپ کی جس انداز سے تشہير کی، اس سلسلہ ميں فيصل کی تصويروں اور کچھ دستاويزات کا جس انداز سے استعمال کيا گيا، وہ افسوسناک ہے۔ يہ حرکتيں ايک سنجيدہ تنظيم کا شيوہ نہيں ہيں۔ ہمدرد اسٹڈی سرکل تقريباً دو دہائی سے اس سلسلے ميں نماياں خدمات انجام دے رہا ہے ليکن اس نے کبھی یہ انداز اختيار نہيں کيا۔
اللہ تعالی ہماری تنظيموں کو کہنے سے زيادہ کرنے کی توفیق عنايت کرے۔

الأربعاء، يوليو 28، 2010

الشيخ سعود الشريم يعتب الكلياني بقصيده

اليوم لما إستأنفت الدوام بعد الرجوع من السفر وقفت على رسالة من أحد الإخوة عن طريق آوت لوك تحمل فتوى للشيخ عادل سالم الكلباني حول حل الغناء الذي صدر في إحدى الجرائد اليومية الصادرة بالرياض بالمملكة العربية السعودية وهذا نص المقالة
ثم وقفت على رد الشيخ سعود الشريم على الكلياني بقصيدة فأردت نشرها على صوت التيمي تعميما للفائدة وهذا نصه

أرفق بنفسك عادل الكلباني *** فلقد أبحت معازف الألحاني
أرفق بنفسك فالحياة قصيرة *** مهما تعش فيها من الأزمان
أرفق بنفسك لا أخالك جاهلا *** إن إتباع الحق بالإذعان
أحقيقة ما قد تناقله الملأ *** فرأيته ضربا من الهذيان
إني أعيذك أن تكون مكابرا *** فارجع إلى ما كنت من إحسانب
الأمس كنت إمام اطهر بقعة *** شهرا أمام البيت ذي الأركان
واليوم أنت مع المعازف مفتيا *** بجوازها يا خيبة الإخوان
هل تاق سمعك للفتاة أصالة *** أم تقت سمعا للمخضرم هانئ
هل أنت مشتاق لنبرة عجرم *** أم صرت ترقب عاصي الحلاني
أم قد سئمت من التلاوة مدة *** فأردت تبديلا لها بأغاني
أم قد كرهت مقال كل محرم *** جعل المعازف رقية الشيطان
هل ضقت ذرعا من إمامة مالك *** وإمامة الفذ الفتى النعماني
والشافعي الألمعي محمد *** أو رأس أهل السنة الشيباني
أو من يسير على طريقة أحمد *** فانقاد وفق مراده بأمان
هل ضقت ذرعا بالأئمة كلهم *** ورحمت كل مزمر فنان
هذا حديث الناس إثر مقالكم *** مالي برد الشامتين بــدان
أولم يسعك اليوم ما وسع الأولى *** فلقد كفوك القول بالبرهان
إني سأذكر بيت صاحب حكمة *** فلقد أجاد موفقا ببيان
إحذر هديت فتحت رجلك حفرة *** كم قد هوى فيها من الانسان
ولسوف أذكر ما حكاه محمد *** أعني به ابن القيم الرياني
حب الكتاب وحب الحان الغنا *** في قلب عبد ليس يجتمعان
ياعادل هذي نصيحة مشفق *** برّ صدوق محسن معوان
ستظل تندب ما نطقت به غدا *** والقسط عند الله بالميزان
يتبرأ المتبوع من أتباعه *** ويفرّ إخوان من الإخوان
فالحكم للحق القوي بعدله *** والفصل يوم الدين للديان
سيقول مستمع المعازف حينها *** يارب أفتاني بها الكلباني

السبت، يوليو 17، 2010

إسعاف الأحبة والخلان بحكم إحياء ليلة النصف من شعبان

الحمد لله وحده والصلاة والسلام على من لا نبي بعده وبعد ...
فلقد بعث الله رسوله محمداً  على حين فترة من الرسل،وفي جاهلية لا تعرف من الحق رسماً،ولا تقيم به في مقاطع الحقوق حكماً، بل كانوا ينتحلون ما تهواه نفوسهم،ويدينون ما تزينه لهم شياطينهم، وما ألفوا عليها آباءهم،فجاهدهم به حق جهاده،وجادلهم باللين والحكمة،وقارعهم بالسنان والحجة،ردعاً إلى التوحيد وإخلاص العبادة ونبذ الشرك لتحقيق قوله تعالى  وما خلقت الجن والإنس إلا ليعبدون  [ الذاريات: 56].
ولم ينتقل إلى الرفيق الأعلى إلا بعد أن أكمل الله لهذه الأمة دينها وأتم عليها نعمته ورضي لها الإسلام ديناً، قال تعالى  اليوم أكملت عليكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام ديناً  [المائدة:3]،( ) فمادام أن الدين كامل غني عن الزيادة والنقص،صالح لكل زمان ومكان ولكل عصر ومصر،فلا حاجة إذن لإحداث البدع والمحدثات في الدين والتقرب بذلك إلى رب العالمين،ومن أحدث فقد أتى بشرع زائد واتهم الشريعة بالنقص،وكأنه استدرك على الله سبحانه وتعالى وعلى رسوله، وكفى بذلك قبحاً( ).
وقد حث النبي  أمته على التمسك بسنته  وحذرها من الإحداث في دينها،فقال"عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين تمسكوا بها وعضوا عليها بالنواجذ وإياكم ومحدثات الأمور فإن كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة "( ) وقال  " من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد " وفي رواية " من عمل عملاً ليس عليه أمرنا فهو رد " ( ).ولا شيء أفسد للدين وأشد تقويضاً لبنيانه من البدع والمحدثات فهي تسري في كيانه سريان النار في الهشيم،وهي بريد الشرك والموصلة إليه.
ومن المؤسف أن عامة الناس أصبحوا يعدونها أموراً مشروعة يجب المحافظة عليها مع إضاعتهم لكثير من السنن المشروعة.
وبم أن التمسك بالسنة ولزومها والتحذير من البدع ومحاربتها واجب باتفاق المسلمين ( )، فقد توخيت أن أبحث في هذه العجالة " حكم إحياء ليلة النصف من شعبان ".
ومما لاشك فيه أن إحياء هذه الليلة [ ليلة النصف من شعبان ] بأي نوع من العبادة من الصلاة والذكر والدعاء وتلاوة القرآن بدعة محدثة، وبه قال جماهير أهل العلم منهم عطاء بن أبي رباح وابن أبي مليكة،ونقله عبد الرحمن بن زيد بن أسلم عن فقهاء أهل المدينة،وهو قول أصحاب مالك وغيرهم ( ).
وبيان ذلك أن الاحتفاء بليلة النصف من شعبان لم يصح فيها دليل صريح صحيح على فضلها ولا على فضل الصلاة والذكر وتلاوة القرآن فيها، والأصل في العبادات التوقيف حتى يرد الدليل على مشروعيتها ، فلا يزاد فيها ولا ينقص.
و أما ما يفعله بعض الناس في هذا الزمان من الاحتفال بهذه الليلة والصلاة فيها والاهتمام بالأوراد والأذكار وتلاوة القرآن فيها فلا شك أن هذا عمل غير صحيح،بل هو منكر، يجب تحذير الناس من ذلك،ولاسيما وأن هناك كتباً ومنشورات توزَّع لنصرة الباطل وإشهاره.
و أما ما يحتجون به على عملهم فهي كما يلي:
أولاً: أنه قد رُوِي عن بعض التابعين من أهل الشام كخالد بن معدان ومكحول ولقمان بن عامر أنهم كانوا يعظمونها ويجتهدون فيها بالعبادة وعنهم أخذ الناس فضلها وتعظيمها. ( ).
والجواب:(1) أن من نقل فضل هذه الليلة، منهم من بيَّن كراهة إحياءها بالاجتماع فيها في المساجد للصلاة والقصص والدعاء والذكر وغير ذلك (8).
(2) أن الحافظ ابن رجب هو الذي نقل تفضيل بعض التابعين لهذه الليلة وإحياؤهم لها في المساجد، وذكر أن مستندهم في ذلك آثار إسرائيلية ( ) فمتى كانت الآثار الإسرائيلية مستنداً ( ) وعمل التابعي أيضاً ليس بحجة ( )
ثانياًً: الأحاديث الواردة في فضلها ، ومنها:
(1) عن عائشة ا مرفوعاً " إن الله تبارك وتعالى ينزل ليلة النصف من شعبان إلى سماء الدنيا فيغفر لأكثر من عدد شعر غنم كلب " ( ).
(2) عن أبي موسى  قال: قال رسول الله  "إن الله ليطلع في ليلة النصف من شعبان فيغفر لجميع خلقه إلا لمشرك أو مشاحن " ( ).
(3) عن علي بن أبي طالب  قال: قال رسول الله  " إذا كانت ليلة النصف من شعبان فقوموا ليلها وصوموا نهارها فإن الله ينزل فيها لغروب الشمس إلى سماء الدنيا فيقول ألا من مستغفر فأغفر له ألا من مسترزق فأرزقه ألا من مبتلى فأعافيه ألا كذا حتى يطلع الفجر" ( ).
والجواب: أن هذه الأحاديث وما ورد في فضل هذه الليلة كلها ضعيفة لا يجوز الاعتماد عليها، فضلاً عن أن الأحاديث الواردة في فضل الصلاة فيها موضوعة مختلقة.
قال الشيخ ابن باز رحمه الله " وقد ورد في فضلها – ليلة النصف من شعبان- أحاديث ضعيفة لا يجوز الاعتماد عليها ، وأما ما ورد في فضل الصلاة فيها فكله موضوع كما نبه على ذلك كثير من أهل العلم " ( ).
وروى ابن وضاح عن زيد بن أسلم قال:"ما أدركنا أحداً من مشيختنا ولا فقهائنا يلتفتون إلى النصف من شعبان ، ولا يلتفتون إلى حديث مكحول ، ولا يرون لها فضلاً على ما سواها " ( ).
وقال ابن العربي:" وليس في ليلة النصف من شعبان حديث يعول عليه لا في فضلها ولا في نسخ الآجال فيها فلا تلتفتوا إليها "( ).
وقال العقيلي:" في النزول في ليلة النصف من شعبان أحاديث فيها لين " ( ).
قال الحافظ أبو الخطاب ابن دحية : " وقد روى الناسُ الأغفال ُ في صلاة ليلة النصف من شعبان أحاديث موضوعة وواحداً مقطوعاً " وقال في كتاب آخر له :" قال أهل التعديل والتجريح : ليس في حديث ليلة النصف من شعبان حديث يصح "( ).
ثالثاً: ما رُوي عن عكرمة في تفسير قوله تعالى  إنا أنزلناه في ليلة مباركة إنا كنا منذرين * فيها يفرق كلُّ أمر حكيم  [ الدخان : 3-4]" أن الليلة المباركة هاهنا ليلة النصف من شعبان ، يبرم فيها أمر السنة وينسخ الأحياء من الأموات ويكتب الحاج فلا يزاد فيهم ولا ينقص منهم أحد " ( ).
والجواب: أن من قال إن المراد بـ " الليلة المباركة " "ليلة النصف من شعبان " وهي التي قال الله عنها  فيها يفرق كل أمر حيكم [ الدخان:4] فقد أخطأ وجانب الصواب (**)، فالليلة المباركة هي ليلة القدر، وبه قال جمهور العلماء ورجحه الطبري والواحدي وابن العربي و القرطبي والنسفي وابن كثير وابن القيم وابن رجب والشوكاني والقنوجي و السعدي وابن عاشور وغيرهم ( ) ثم إن ابن أبي حاتم الذي نقل عن عكرمة هذا القول، قد نقل من طريق عطاء الخراساني عن عكرمة  فيها يفرق كل أمر حكيم  قال" يقضي في ليلة القدر كل أمر محكم " ( ).
قال ابن كثير :" ومن قال : إنها ليلة النصف من شعبان ، كما روي عن عكرمة فقد أبعد النجعة ، فإن نص القرآن أنها في رمضان "( ). وقال ابن العربي بعد أن بين أنها ليلة القدر وأنها في رمضان " فمن زعم أنها في غيره فقد أعظم الفرية على الله " ( ).
رابعاً: ويرى البعض أن من أسباب تعظيم هذه الليلة أنه تم فيها تحويل القبلة من بيت المقدس إلى الكعبة المشرفة( ).
والجواب: أن هذا القول لا يُعوَّل عليه ، لأن هذه روايةٌ من تسع رواياتٍ أخرى، ولم يجزم بأن التحويل حصل في هذه الليلة،بالإضافة إلى أن أسانيد الجميع ضعيفة ( ).ولو سلمنا جدلاً بأن التحويل كان في تلك الليلة فلم يكن من عادة النبي  اتخاذ أيام الحوادث أعياداً ومواسم ، و " المكلف ليس له منصب التخصيص بل ذلك إلى الشارع " ولم يرد في الشرع شيء من ذلك.
ثم إن من قال بفضلها فقد اختلفوا على كيفية إحيائها إلى قولين:
القول الأول : يستحب إحياؤها جماعةً في المساجد، قال به : خالد بن معدان ولقمان بن عامر وغيرهما،وكانوا يلبسون فيها أحسن ثيابهم ويتبخرون ويكتحلون ويقومون في المسجد ليلتهم تلك،ووافقهم على ذلك إسحاق بن راهويه – رحمهم الله -.
القول الثاني: أنه يكره الاجتماع فيها في المساجد للصلاة والقصص والدعاء،ولا يكره أن يصلي الرجل فيها لخاصة نفسه،قال به الأوزاعي وابن الصلاح واختاره ابن رجب والسيوطي وصاحب مجالس الأبرار وشيخ الحديث عبيد الله المباركفوري،وشيخ الإسلام ابن تيمية بل إنه قال" إذا صلى الإنسان ليلة النصف وحده أو في جماعة خاصة كما كان يفعل طوائف من السلف فهو أحسن "وبه قال المحدث شمس الحق العظيم آبادي ( ).
والراجح _ والله أعلم _ أن إحياء ليلة النصف من شعبان بأي نوع من العبادة والاحتفال بها بدعة مطلقاً سواء أحياها شخصٌ على وجه الانفراد أو في الجماعة ، في المسجد أو في البيت،وذلك لما يأتي:
1- أنه لم يثبت عن النبي  أنه أحياها و لا أحد من أصحابه رضي الله عنهم وإنما ذلك أمر محدَث، قال ابن رجب: قيام ليلة النصف من شعبان لم يثبت فيها شيء عن النبي  ولا عن أصحابه " ( ) .
2- أن الأحاديث الواردة في ليلة النصف من شعبان والتي جاء فيها " أن الله ليطلع في ليلة النصف من شعبان فيغفر لجميع خلقه إلا لمشرك أو مشاحن "( ) فهذا لا يدل على تخصيص هذه الليلة بفضل من بين الليالي الأخرى لأنه ثبت في الصحيحين أن رسول الله  قال : " ينزل ربنا تبارك وتعالى كل ليلة إلى سماء الدنيا حين يبقى ثلث الليل الآخر يقول: من يدعوني فأستجيب له ، من يسألني فأعطيه، من يستغفرني فأغفر له " ( ) فإطلاعه سبحانه وتعالى على خلقه وغفرانه لهم،ليس متوقفاً على ليلة معينة في السنة أو ليالي معدودة ( ).
3- ولو سلمنا جدلاً أن الحديث صحيح ، وأنه يدل على فضل هذه الليلة فمن أين لهؤلاء تخصيص هذه الليلة بصلاة دون الليالي الأخر، قال أبو شامة: " ليس في هذا بيان صلاة مخصوصة ، وإنما هو مشعر بفضيلة هذه الليلة ، والتهجد وقيام الليل مستحب في جميع ليالي السنة ، وكان على النبي  واجباً ، فهذه الليلة بعض من الليالي التي كان يصليها  أو يحييها ..." ( ).
وقال أيضاً"ولا ينبغي تخصيص العبادات بأوقات لم يخصصها بها الشرع،بل يكون جميع أفعال البر مرسلة في جميع الأزمان،ليس لبعضها على بعض فضل إلا ما فضله الشرع وخصه بنوع من العبادة،فإن كان ذلك اختص بتلك الفضيلة تلك العبادة دون غيرها كصوم يوم عرفة وعاشوراء، والصلاة في جوف الليل، والعمرة في رمضان، ومن الأزمان ما جعله الشرع مفضلاً فيه جميع أعمال البر كعشر ذي الحجة وليلة القدر التي هي خير من ألف شهر،أي العمل فيها أفضل من العمل في ألف شهر ليس فيها ليلة القدر،فمثل ذلك يكون أي عمل من أعمال البر حصل فيه كان له الفضل على نظيره في زمن آخر،فالحاصل أن المكلف ليس له منصب التخصيص بل ذلك إلى الشارع، وهذه كانت صفة عبادة رسول الله  ( ).
4- ثم إذا كانت المغفرة عامة لجميع خلقه في هذه الليلة – كما هو ظاهر الحديث السابق- فما الذي حدا بهم إلى إحياء هذه الليلة وإحداث العبادة فيها من الصلاة والذكر وغير ذلك ؟.
5- أن من قال بجواز صلاة المرء فيها لخاصة نفسه أو في جماعة خاصة دون الإتيان إلى المساجد والازدحام فـيـها، لم يدعم موقفه بالدليل،ولا دليل على ذلك التخصيص،وكما سبق قول أبي شامة – رحمه الله - " أن المكلف ليس له منصب التخصيص بل ذلك إلى الشارع ".
و قال الشيخ ابن باز – رحمه الله - : " وأما ما اختاره الأوزاعي – رحمه الله – من استحباب قيامها للأفراد،واختيار الحافظ ابن رجب ( ) لهذا القول فهو غريب وضعيف،لأن كل شيء لم يثبت بالأدلة الشرعية كونه مشروعاً لم يجز للمسلم أن يحدثه في دين الله،سواء فعله مفرداً أو في جماعة، وسواء أسرّه أو أعلنه لعموم قوله  "من عمل عملاً ليس عليه أمرنا فهو رد".وغيره من الأدلة الدالة على إنكار البدع والتحذير منها "( ).
وقال بعد أن ذكر الحديث" لا تختصوا ليلة الجمعة بقيام من بين الليالي...الحديث"( ) فلو كان تخصيص شيء من الليالي بشيء من العبادة جائزاً ، لكانت ليلة الجمعة أولى من غيرها، لأن يومها هو خير يوم طلعت عليه الشمس بنص الأحاديث الصحيحة عن رسول الله  ، فلما حذر النبي  من تخصيصها بقيام من بين الليالي ، دل ذلك على أن غيرها من الليالي من باب أولى، لا يجوز تخصيص شيء منها بشيء من العبادة إلا بدليل صحيح يدل على التخصيص ، ولما كانت ليلة القدر وليالي رمضان يشرع قيامها والاجتهاد فيها،نبه على ذلك وحث الأمة على قيامها،وفعل ذلك بنفسه،كما في الصحيحين عن النبي  أنه قال "من قام رمضان إيماناً واحتساباً غفر الله له ما تقدم من ذنبه ومن قام ليلة القدر إيماناً واحتساباً غفر الله له ما تقدم من ذنبه"( ) فلو كانت ليلة النصف من شعبان،أو ليلة جمعة من رجب،أو ليلة الإسراء والمعراج،يشرع تخصيصها باحتفال أو شيء من العبادة لأرشد النبي  الأمة إليه،أو فعله بنفسه،ولو وقع شيء من ذلك لنقله الصحابة  إلى الأمة ولم يكتموه عنهم، وهم خير الناس وأنصحهم بعد الأنبياء – عليهم الصلاة والسلام- وما دام لم يثبت عن رسول الله  ولا عن أصحابه  شيء في فضل ليلة النصف من شعبان فعُلم أن الاحتفال بها بدعة محدثة في الإسلام وهكذا تخصيصها بشيء من العبادة بدعة منكرة "( ).
وبهذا يترشح أن القول بإحياء هذه الليلة بنوع من العبادة أو الاحتفال بها بدعة منكرة، لم يُعهد ذلك في عهد النبي  ولا في عهد خلفائه الراشدين ولا في عهد الصحابة  أجمعين، والله تعالى أعلم.وصل اللهم وسلم على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم تسليماً كثيراً.