الثلاثاء، أبريل 27، 2010

ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال اور جامعہ امام ابن تیمیہ کی پیش رفت



تحرير: ظل الرحمن لطف الرحمن تيمي
ہمارا محبوب وطن تعلیمی میدان میں ہر دن گونا گوں ترقی حاصل کر رہا ہے۔ سائنس و ٹکنالوجی، تحقیق و ریسرچ، اختراعات و ایجادات، انفارمیشن ٹکنا لوجی، دفاع و قا نون اور مینجمنٹ کی دنیا میں ہماری قابل قدر کاميابيوں اور بیش قیمت پیش رفت کو یورپ و امریکہ سمیت عالم عرب اور دنیا کے سارے ممالک نے سراہا ہے۔ ہمارے ملک میں تربيت یافتہ ڈاکٹر، انجینیر اور سائنسداں پوری دنیا میں قدر کی گناہوں سے دیکھے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے علمی کا رناموں اور تحقیقی کاوشوں سے پیچیدہ مسائل کو حل کر نے میں حوصلہ افزا اقدام کيا ہے۔ پرخطر نئی نئی بیماریوں کا مؤثر علاج، دواؤں کا ايجاد، فضائی تحقیق میں حیرت انگیز کا ميابی اور اس طرح کے دوسرے کارناموں سے ان کا نام روشن ہے ۔

الاثنين، أبريل 19، 2010

مشاركة وفد جامعة الإمام ابن تيمية في الملتقى السنوي للدعاة الذي تعقده جمعية إحياء التراث الإسلامي - الكويت

قبل أيام اتصلت الأخ العزيز محمد هارون التيمي الطالب بالجامعة الإسلامية بالمدينة المنورة فأخبرني عن حضور وفد من جامعة الإمام ابن تيمية إلى الكويت للمشاركة في الملتقى السنوي للدعاة الذي تنظمه جمعية أحياء التراث الإسلامي تحت شعار "السبيل إلى النهوض بالأمة" وذلك خلال الفترة من 17- 21 / 4 / 2010م وبالفعل وصل ثلاثة أساتذة من الجامعة وهم كل من الشيخ سميع الله المدني والشيخ عبدالرحمن المدني والشيخ ذبيح الله التيمي مساء يوم الجمعة الموافق 16/ 4/ 2010م وأول الذكر منهم شيخي وأستاذي الذي درست عنده في الجامعة ويعمل حاليا في الجامعة على منصب عميد الكلية ورئيس تحرير مجلة الفرقان باللغة العربية الصادرة بالجامعة ،

الأربعاء، أبريل 14، 2010

آپ کے فتوے کس قدر خطرناک ہیں

ریڈیو کویت کی دینی محفل ”باتیں جن سے زندگی سنورتی ہے ‘’ ميں براہ راست سامعین کے سوالات کے جوابات دینے کا اللہ پاک نے ناچیز کو جو موقع دیا ہے، اس سے ذاتي طور پر بہت سارے تجربات حاصل ہوئے ہیں اورالحمد للہ لوگوں کو فائدہ بھی ہورہا ہے ۔ اللہ تعالی حاسدین کی نظر بد سے بچائے آمین ۔ آج ایک عجیب فاکس ملا ہے اسے ہو بہو نقل کردیتا ہوں اس کے بعد بتاؤں گا کہ آخرصوت التیمی پر اس کا تذکرہ  کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، تو لیجئے مکتوب پیش خدمت ہے

الأحد، أبريل 11، 2010

المؤتمر الثلاثين لجمعية أهل الحديث المركزية لعموم الهند تحت شعار الصحابة أوفياء للرب وقادة للإنسانية

الصحابة أسوة حسنة وقدوة عالية للإنسانية جمعاء إلى مطلع يوم القيامة ، مهما حصل الإنسان من الرقى والتقدم في النبوغ العلمي والفكري لايبلغ إلى مستوى المكانة والمنزلة التي تبوأ بها أصحاب رسول الله رضوان الله عليهم أجمعين و رفض هذه المكانة العالية رفض للقرآن الكريم
أكد ذلك الحافظ محمد يحيى الدهلوي أمير جمعية أهل الحديث المركزية في اليوم اللأول من المؤتمر الثلاثين الذي نظمتها جمعية أهل الحديث المركزية لعموم الهند تحت شعار " الصحابة أوفياء للرب وقادة للإنسانية" في ساحة رام ليلا التاريخية بدلهي بحضور عدد كبير من العلماء الأفاضل والأساتذة المحترمين من داخل الهند وخارجها -

الثلاثاء، أبريل 06، 2010

عزیز طلبہ جامعہ الامام ابن تیمیہ کے نام

عزیز بھائیو!
آج ہماری چھٹی کا دن ہے، ہمارے لیے چھٹی تو برائے نام ہوتی ہے کیوں کہ اس دن مشغولیت کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتی ہے، اپنے ہفتہ واری پروگرام کی تیاری کے لیے بیٹھا تو اچانک آپ کی یاد آئی، گو کہ ہم آپ سے بہت دور ہیں، ہم آپ کو دیکھ بھی نہیں رہے ہیں لیکن ہماری اور آپ کی نسبت چونکہ مادر علمی سے ہے، اس لیے دور رہ کر بھی خود کو آپ سے بہت قریب پا رہے ہیں، دل نے کہا کہ آج میں آپ بھائیوں سے کچھ باتیں کروں، دل سے دل تک اپنا پیغام پہنچاؤں شاید کہ اتر جائے کسی دل میں میری بات۔ میں نے بھی اسی چمن میں اپنی زندگی کا اچھا خاصا وقت گنوایا ہے، جی ہاں! گزارا نہیں گنوایا ہے۔ زندگی کا اچھا خاصا وقت لایعنی اور بیکار کاموں میں برباد کرلیا۔ مجھے اس کا احساس ہے، اسی لیے آج میں اپنے دلی جذبات آپ تک پہنچانے بیٹھا ہوں .... اپنی کوتاہیوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں تاکہ آپ ان سے بچ سکیں ....سلف کے قصے سنانا چاہتا ہوں تاکہ آپ کی ہمت کو مہمیز لگے۔ آپکی خیرخواہی کا حق اداکرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ اسے حرزجاں بنالیں۔

پیارے بھائیو! آپ طلب علم میں مشغول ہیں، آپ کا مقام نہایت اعلی ہے، آپ انبیاء کی وراثت حاصل کررہے ہیں، زندگی گزارنے کا سلیقہ سیکھ رہے ہیں، دین ودنیا دونوں کی کامیابی کا سامان جمع کررہے ہیں، آپ کے لیے ساری مخلوق حتی کہ سمندر کی مچھلیاں بھی دعاگو ہیں اور فرشتے آپ کے راستے میں پر بچھاتے ہیں۔ 

عزیز بھائیو! یوں توپڑھتے بہت سارے بچے ہیں لیکن کامیاب چند ہی ہوتے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ کامیابی محنت کے اندازے سے حاصل ہوتی ہے، جس قدر محنت ہوگی اسی کے تناسب سے کامیابیاں بھی ملیں گی۔ صحت اور فرصت دونوں بہت قیمتی سرمایہ ہے۔ اکثر لوگ اس نکتے کو نظرانداز کرجاتے ہیں جس کا خمیازہ انہیں بعد میں بھگتنا پڑتا ہے۔ جامعہ ایک تربیت گاہ ہے، یہ ایک سنہری فرصت ہے، آج میں ترستا ہوں کہ کاش وہ زمانہ پھر لوٹ آتا تو میری وہ حالت نہ ہوتی جو پہلے تھی لیکن یہ قانون فطرت ہے کہ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔

عزیز بھائیو! اپنی ہمت بلند رکھیں، احساس کمتری کے شکار نہ ہوں، محنت کبھی ضائع نہیں ہوتی، ایک نہ ایک دن رنگ لاتی ہے۔ آج جس قدر جسم کو ذلیل کریں گے کل اسی قدر عزت واحترام پائیں گے۔ آرزوؤں اور تمناؤں سے کچھ ہوتا جاتا نہیں .... بلند ہمت انسان کی پہچان ہے کہ وہ پُرعزم ہوتا ہے۔ سستی اسے چھوکر بھی نہیں جاتی۔ وہ دنیا کے بکھیروں میں نہیں پڑتا، اس کے ذہن میں ہمیشہ یہ بات گردش کرتی ہوتی ہے کہ
مجھ کو جانا ہے بہت اونچا حد پرواز سے۔
آسان پسندی، بے مقصدیت اور عیش کوشی ایک مسلمان کا شیوہ نہیں چہ جائیکہ طالب علم کا شیوہ ہواور وہ بھی ایسا طالب علم جو اپنی نسبت ابن تیمیہ کی طرف کرتا ہو۔
خالد بن صفوان رحمہ اللہ سے کسی نے عرض کیا کہ کیا بات ہے کہ جب میں آپ لوگوں کے ساتھ احادیث کا مذاکرہ کرنے بیٹھتا ہوں تو مجھ پر نیند کا غلبہ طاری ہوجاتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: "اس لیے کہ تم انسان کی شکل میں شیطان ہو"۔
مطلب یہ کہ ایک حریص اور علم کا جویا کبھی بھی علمی مجالس سے تھکتا نہیں بلکہ اس کے اندر مزید کی تڑپ پیدا ہوتی ہے۔

عزیز ساتھیو! ابھی آپ کو رہنمائی کی بیحد ضرورت ہے، علم کے میدان میں شرم زہرہلاہل ہے، بلا جھجھک ہرکسی سے اپنے کیرئر کے تئیں مشورہ لیں، کیا پڑھیں کیا نہ پڑھیں اس سلسلے میں اساتذہ کی رہنمائی حاصل کریں۔ ساری باتیں کتابوں میں نہیں ہوتیں۔ اور اگر ہیں بھی تو انہیں سمجھنے کے لیے اساتذہ کی رہنمائی درکار ہے۔ اساتذہ کی عزت کرنی چاہیے۔ ان کی صحبت کو غنیمت سمجھنا چاہیے۔ ہمارے ہاں ایک عجیب تصور عام ہوگیا ہے کہ استاد ہے تو صرف کلاس کے وقت .... ادھرکلاس ختم ہوا اورادھر استاد سے رابطہ بھی ختم.... اس سے طالب علم بہت ساری رہنمائیوں سے محروم رہ جاتا ہے۔

عزیز بھائیو! اپنی نیتوں میں اخلاص پیدا کریں، دین الہی کی خدمت کے جذبہ سے تعلیم حاصل کریں، روایتی تصور کو ذہن سے بالکل نکال دیں کہ اس میدان میں غربت کا سامنا کرنا پڑے گا، مالی حالت خراب رہے گی، ایسا تصور ذہن میں بٹھانے والے بچے کامیاب نہیں ہوتے۔ استاذ محترم شیخ کفایت اللہ سلفی رحمه الله سے جب میں نے ایک بار ایسی ہی کچھ شکایت کی تھی تو بہت پیار سے انہوں نے کہا تھا کہ عزیزم! تمہارا جو کام ہے اسے لگن سے کرتے رہو.... راستہ خود بخود ہموار ہوتا جائے گا۔ آج میں ان کی باتوں کی سچی تعبیر خود اپنی زندگی میں دیکھتا ہوں کہ راستے خود بخود ہموار ہوتے جاتے ہیں محنت اور لگن کی بنیاد پر، اللہ استاذ محترم کوغریق رحمت کرے۔
آپ نے یہ حدیث تو پڑھی ہی ہوگی کہ ”جس شخص کی تگ ودو آخرت کے لیے ہوتی ہے اللہ تعالی اس کی شیرازہ بندی کرتا ہے، اس کے دل میں بے نیازی پیدا کردیتا ہے اور دنیا اس کے سامنے جھک کر آتی ہے اور جس شخص کی ساری تگ ودو حصول دنیا کے لیے ہوتی ہے اللہ تعالی اس کے معاملے کو منتشر کردیتا ہے، اسکی آنکھوں کے سامنے اس کے فقروفاقہ کو ظاہر کردیتا ہے اور اسے دنیا اسی قدر حاصل ہوتی ہے جس قدر اللہ نے اس کی قسمت میں لکھ دیا ہوتا ہے“۔ (ابن ماجہ)
مجھے یاد آتا ہے جس وقت میں نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ لیا تھا شاید پہلی بارتھا کہ میں نے بانی جامعہ محترم علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی حفظہ اللہ کوفون کیا، اپنے داخلہ کی اطلاع دی، تو بہت خوش ہوئے، مبارکباد دی اور دعاؤں سے نوازا، جب میں نے ان سے مختصر نصیحت کی گزارش کی توآپ نے صرف ایک جملہ کہا تھا:
أخلص نیتک واتق اللہ۔
"اپنی نیت میں اخلاص پیدا کرو اور اللہ کا تقوی اختیار کرو"
یہ نصیحت کیا تھی گویا دریا کوکوزے میں بند کردیا گیا تھا۔ اللہ تعالی ہم سب کو اخلاص وللہیت اور تقوی کی دولت سے مالامال فرمائے۔ آمین

انہیں چند کلمات پر اکتفا کرتے ہوئے ہم امید کرتے ہیں کہ یہ گذارشات دل سے دل تک پہنچیں گی، ہمتوں میں تحریک پیدا کریں گی اور عملی جامہ پہن کر بہترین نتیجہ اور پھل لائیں گی، عزم سے بولیں: ان شاء اللہ، اگلی نشست میں مزید کچھ باتیں ہوں گی ۔ تب تک کے لیے اجازت دیجئے ۔ اللہ حافظ